Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

جمعہ، 21 اکتوبر، 2022

بھکر(آصف نیازی+ظفر اعوان ) سٹی آواز نیوز اور نواۓ بھکر



 بھکر(آصف نیازی+ظفر اعوان ) سٹی آواز نیوز اور نواۓ بھکر کی ٹیم کا دی نیووژن گروپ آف سکولز نذیر ٹاؤن بھکر کا وزٹ۔

طارق محمود صدیقی ڈائریکٹر دی نیووژن گروپ آف سکولز سے خصوصی ملاقات۔ملاقات میں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔

تفصیلات کیمطابق گزشتہ روز آصف خان نیازی چیف رپورٹر اور ظفر اعوان سب ایڈیٹر نے دی نیووژن گروپ آف سکولز بھکر کا وزٹ کیا اور مستقبل میں والدین اور اہل محلہ کو تعلیمی حوالے سے دی جانے والی سہولیات بارے گفتگو کی اور طارق صدیقی نے دوران گفتگو بتایا کہ ان کے ادارہ میں اس وقت 600 سے زائد طلبا مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں جوکہ اس دور میں ایسے بڑے تعلیمی ادارے کا ہونا اہل محلہ کیلیے کسی نعمت سے کم نہی۔ادارہ میں بہترین سکیورٹی کا انتظام اور کمیروں کی مدد سے بہترین سکیورٹی کی جاتی ہے بچوں کو بہترین تعلیمی ماحول مہیا کیاگیا ہے۔دوران گفتگو طارق صدیقی نے بتایا کہ دی نیووژن سکول کی گرلز ھائی سکول کی رجسٹریشن محکمہ تعلیم سے کروالی گئی ہے انشااللہ بہت جلد گرلز کیلیے نہم،دھم کلاسز کا آغاز کردیا جاۓ گا اور اہل محلہ کو رکشوں کے کرایے ادا کرکے شہرمیں تعلیم کے حصول کیلیے نہی جانا پڑے گا ھائی کلاسز کی سہولت بھی مہیا کردی جاۓ گی نذیر ٹاؤن جیسے محلہ میں 600 سے زیادہ تعداد ہونا  اچھے رزلٹ کی وجہ سے والدین کے اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔طارق صدیقی نے بتایا کہ یہ ادارہ پیف حکومت پنجاب سے الحاق شدہ ہے لیکن پیف حکومت پنجاب اپنے الحاق سکولوں کو فی بچہ 550 روپے ماہانہ فیس کی مد میں ادا کرتا ہے جس میں پچھلے سات سال سے اضافہ نہی کیا گیا یہ فیس اس مہنگائی کے دور میں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔پیف حکومت پنجاب کو مہنگائی کے تناسب سے فی بچہ کم از کم 500 روپے فی بچہ فیس میں اضافہ کرنا چاہیے۔تاکہ کوالٹی ایجوکیشن کا سلسلہ جاری رہے اور تعلیم کی روشنی گھر گھر  پھیلتی رہے۔اور حکومت پنجاب کو چاہیے کہ پیف کے بجٹ میں فوری اضافہ کرے اور تعلیم دوست ہونے کا ثبوت دے پیف کے ادارہ سے لاکھوں بچوں کا مستقبل جڑا ہے اور لاکھوں اساتذہ کا روزگار بھی اسی ادارہ سے جڑا ہوا ہے۔کم فنڈز ہونے کی وجہ سے پیف سے الحاق سکولز اس وقت مسائل کا شکار ہیں جس سے سکول بند ہورہے ہیں اور بچوں کی تعلیم کے حرج کا خطرہ ہے۔آخر میں طارق محمود صدیقی نے نواۓ بھکر+ سٹی آواز نیوز ٹیم بھکر جناب سید سفیر حسین شاہ صاحب، محترم آصف خان نیازی،محترم ظفراعوان کا اپنے ادارہ آکر ملاقات کرنے اور مسائل کو میڈیا کے ذریعے اعلی حکام تک پہنچانے کیلیے  آواز بننے پر شکریہ ادا کیا ۔

تحریر۔محمدلقمان زاہد//اعتبار پیدا کریں

 موضوع : اعتبار پیدا کیجیے 


تحریر نگار : محمدلقمان زاھد 


ایک آدمی نے کاروبار شروع کیا اس کے پاس مشکل سے چند سو روپے تھے۔وہ کپڑے کے کچھ ٹکڑے خرید کر لاتا اور پھیری کر کے اس کو فروخت کرتا۔کچھ کام بڑھا تو اس نے ایک دکان والے سے اجازت لے کر اس کی دکان کے سامنے بیٹھنا شروع کردیا۔وہ جس تھوک فروش سے کپڑے خریدتا تھا۔اس سے اس نے نہایت اصول کا معاملہ کیا۔آہستہ آہستہ اس تھوک فروش کو اس آدمی کے اوپر اعتبار ہوگیا۔وہ اس کو ادھار کپڑا دینے لگا۔جب آدمی ادھار پر کپڑا لاتا تو اس کی کوشش ہوتی کہ وعدہ سے کچھ پہلے ہی اس کی ادائیگی کر دے۔اسی طرح کرتا رہا یہاں تک کہ تھوک فروش کی نظر میں اور اعتبار بڑھ گیا۔اب وہ اس کو اور زیادہ کپڑے ادھار دینے لگا۔چند سال میں یہ نوبت آ گئی کے تھوک فروش اس کو پچاس ہزار اور ایک لاکھ روپے کا کپڑا بے تکلف دے دیتا۔وہ اس کو اس طرح مال دینے لگا۔جیسے کہ وہ اس کے ہاتھ نقد فروخت کر رہا ہوں۔اب آدمی کا کام اتنا بڑھ چکا تھا کہ اس نے ایک دکان لے لی۔دکان بھی اس نے نہایت اصول کے ساتھ چلائی۔اور اپنے شہر میں کپڑے کے بڑے دکانداروں میں شمار ہونے لگا۔


میرے گھر سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مدرسہ  تھا۔ جس میں میں قرآن پاک حفظ کرتا تھا۔میرے ابو جان نے مجھے نیا سائیکل لے کر دیا. میں سائیکل پر مدرسہ جانے لگا۔ایک دن میں نے دوپہر کو مدرسہ سے سائیکل باہر نکالا  اور دیکھا کہ اس کا ٹائر پنچر تھا۔ اوپر سے سخت گرمی اور میرا روزہ بھی تھا۔ اتفاق سے اس دن میرے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔میں کافی پریشان تھا۔میں نے سوچا چلو سائیکل والی دکان پر جاتا ہوں۔میں دکان پر پہنچا۔دکاندار باہر ہی کھڑا تھا۔ جیسے میرا انتظار کر رہا ہوں۔اس نے جلدی سے میرے سائیکل کو پنچر لگایا۔اس نے پیسے نہیں مانگے۔میں نے اسے کہا کہ میں نے مدرسہ آنا ہے دو بجے تب دے دو گا۔دکاندار نے کہا کوئی بات نہیں جب مرضی دے دینا۔۔جو اللہ کہ راستے مین جاتا ہے اللہ اس کی اسے مدد فرماتے ہے۔ میں گھر پہنچا میں نے امی جان سے پیسے لیے اور فورا دکان پر آیا۔اور اس دکاندار کو دیے ۔میں نے تین چار دفعہ ایسے ہی کیا۔اس کے ذہن میں میرا اعتبار آہستہ آہستہ بیٹھنے لگا۔میں نے تین سال مدرسہ پڑھا۔کوئی بھی مسئلہ ہوتا میں دکان پر جاتا سائیکل ٹھیک کروانے۔اگر پیسے ہوتے تو فورا دے دیتا نہیں تو وقت سے پہلے دے دیتا۔ اسی طرح اس کو مجھ پر اعتبار ہو گیا۔اتنا اعتبار ہو گیا۔ایک دفعہ سائیکل کی خرابی کی وجہ سے پھر جانا ہوا میں پہنچا کہنے لگا۔حافظ صاحب اب دس منٹ دکان پر بیٹھے میں نے کچھ چیزیں لینی تھی وہ لے آؤں۔ اعتماد کی وجہ سے پوری دکان میرے حوالے کر گیا۔


اعتبار چھوٹا سا ایک لفظ ہے لیکن جب ٹوٹتا ہے تو بہت لمبی دوریاں پیدا کر دیتا ہے۔ اعتبار اسٹیکر جیسا ہوتا ہے وہ دوبارہ پہلے جیسا نہیں لگتا۔ اعتبار بولنے میں دو سیکنڈ لگتے ہیں، سوچنے میں دو منٹ لگتے ہیں، سمجھنے میں دن لگتے ہیں، اور ثابت کرنے میں پوری زندگی لگ جاتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہر اس دوست پر اعتبار کرو جو تمہارے مشکل وقت میں کام آۓ۔ جب کسی پر اعتبار کرو تو اتنا حد تک کرو. یا تو ایک سچا ساتھی مل جاۓ گا۔یا پھر سچا سبق مل جاۓ گا۔

کہتے ہیں کہ اعتبار انتہائی بے اعتباری چیز ہے جسے حاصل کرنے میں سالہا سال بیت جاتے ہیں لیکن گنوانے میں چند سیکنڈ بھی نہیں لگتے۔ اسی لیے تو مثال مشہور ہے کہ پہاڑ سے گرا پھر بھی دوبارہ اس پر چڑھ سکتا ہے لیکن نظروں سے گرا ہوا شخص کبھی بھی دوبارہ نہیں چڑھ پاتا۔


اس دنیا میں سب سے بڑی ضرورت روپیہ نہیں۔ اس دنیا میں سب سے بڑی دولت اعتبار ہے۔اعتبار کی بنیاد پر آپ کچھ بھی لے سکتے ہیں۔جس طرح نوٹ کے بنیاد پر آدمی بازار سے سامان خرید سکتا ہے۔اعتبار ہر چیز کا بدل ہے۔مگر اعتبار زبانی دعؤاں سے حاصل نہیں ہوتا۔اعتبار قائم ہونے میں صرف ایک ہی بنیاد ہے۔وہ حقیقی عمل ہے۔خارجی دنیا اس معاملے میں انتہائی حد تک بے رحم ہے۔لمبی مدت تک بےداغ عمل پیش کرنے کے بعد ہی وہ وقت آتا ہے۔کہ لوگ آپ کے اوپر اعتبار قائم کرے۔

گنگ (ظفر اعوان)تلہ گنگ کی غیور عوام کی ضلع تلہ گنگ مبا رک ہو نومی انصاری نائب صدر پنجاب انصاری متحدہ موومنٹ پاکستان


تلہ گنگ (ظفر اعوان)تلہ گنگ کی غیور عوام کی ضلع تلہ گنگ مبا رک ہو نومی انصاری نائب صدر پنجاب انصاری متحدہ موومنٹ پاکستان۔ ضلع تلہ گنگ ہم سب کا دیرینہ مطالبہ اور ہماری نسلوں کی بہتری کا ضامن ہے. ہم حافظ عمار یاسر اور چودھری پرویز الہٰی وزیر اعلی پنجاب کے انتہائی مشکور ہیں جن کی وجہ سے ناممکن بھی ممکن ہوا۔ میری اہلیان لاوہ اور اہلیان تلہ گنگ کے ہر زی شعور شہری سے اپیل ہے بے شک اپنی مزہبی سیاسی سماجی وابستگی اپنی جماعت یا تنظیم سے رکھیں مگر آج حصول ضلع تلہ گنگ جشن تلہ گنگ تشکر ضلع تلہ گنگ کیلئے ڈگری کالج تلہ گنگ کے گراونڈ میں پہنچ کر پورے پاکستان کی عوام کو یہ پیغام دیا کہ تلہ گنگ ضلع کی عوام پر اگر کوئی احسان کرے تو اس دھرتی کے عظیم بیٹے اظہار تشکر میں کوئی کسر نہی چھوڑتے.اور اس کے ساتھ ساتھ آج وہ سیاسی و سماجی شخصیات بھی خراج تحسین مستحق ہیں جنہوں نے تلہ گنگ ضلع بنانے کیلئے مثبت اپنا کردار ادا کی ا۔

تحریر۔نمرہ ملک "ناول شاہ سائیں سے ۔کبھی کبھی لفظ حرمت بن جاتے ہیں اور کبھی ذلت ۔کامیاب انسان وہ ہے جو لفظوں کی حرمت سے واقف ہو ۔

"بالکل درست کہا۔کبھی کبھی لفظ حرمت بن جاتے ہیں اور کبھی زلت۔۔۔۔کامیاب انسان وہ ہے جو لفظوں کی حرمت سے واقف ہو۔ یاد رہے لفظ اپنی حرمت سے بولنے والے کی تربیت،خاندان اور ماحول کا پتہ دیتے ہیں۔گو تمہارے لفظ میرے لیے زلتوں کا انداز بیان ہے مگر تم کبھی جان نہیں پاؤ گے یا شاید جان پاؤ کہ سائرہ شاہ نے اپنی حرمت میں ان لفظوں کی زلت پی لی ہے۔تم نے اپنے ظرف کا پیمانہ بھر کے گرا دیا ہے جبکہ میں نے اپنے ظرف پہ خاموشی کی لکیر کھینچ کے بتا دیا ہے کہ سید ،سید ہوتا ہے، وہ کسی کو کیچڑ اچھالنے کی اجازت تو نہیں دیتا مگر کوئی گھٹیا پن پہ اتر جائے تو جوابی کیچڑ نہیں اچھالتا۔کیچڑ سے دامن بچا کے گزر جاتا ہے " یہ ہریرہ خلیل کو جھنجھوڑ دینے والی لڑکی ،اسی سائرہ شاہ کی آواز تھی جس نے گھٹنوں کے بل گر کر مرنا قبول کر لیا تھا مگر زلت کی زندگی گزارنے سے انکار کر دیا تھا۔ شاہ سائیں ناول نمرہ ملک۔

جمعرات، 20 اکتوبر، 2022

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔ عادات، اخلاق اور طرز عمل اور یہی سچ ہے کوئی اپنے آپکو چاہے جو بھی بتائے مگر عادت بتا دیتی

انتخاب بلال ساغر ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا، قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔ (عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں) بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی، اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا. چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا، اس نے کہا "نسلی نہیں ھے" بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،، اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے. مسئول کو بلایا گیا، تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟ اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے. بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا، مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا. اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا، چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی، اس نے کہا. طور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،" بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بیجھا، معاملہ اس کے گوش گذار کیا. اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئ تھی، چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا. بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،" اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک" جاہلوں سے بدتر ھے، بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں" بطور انعام دیں. ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا. کچھ وقت گزرا، "مصاحب کو بلایا،" "اپنے بارے دریافت کیا،" مصاحب نے کہا، جان کی امان، بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا: "نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے" بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا، سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے" تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ۔ بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا، "تجھے کیسے علم ھوا" ؟؟؟ اس نے کہا، "بادشاہ" جب کسی کو "انعام و اکرام" دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات" کی شکل میں دیتے ھیں،،،، لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں" عنایت کرتے ھیں "یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں " کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے. عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔ عادات، اخلاق اور طرز عمل اور یہی سچ ہے کوئی اپنے آپکو چاہے جو بھی بتائے مگر عادت بتا دیتی ہے

بدھ، 19 اکتوبر، 2022

بھکّر!ظفر اعوان!صدر تحریم فاونڈیشن بھکر میڈم مسرت یاسمین چودھری صاحبہ کی طرف سے دارالامان میں مقیم خواتین اور بچوں میں موسم کی مطابقت کے مطابق سوٹ تحائف اور بچوں میں کھلونے تقسیم

تحریم فاؤنڈیشن بھکر کی طرف سے دارالامان میں مقیم خواتین کے لیے موسم کے مطابق سوٹ تحائف اور بچوں کے لئے کھلونے بارش میں پہلا قطرہ ثابت ہوگا۔ ملک مشتاق حسین ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال بھکر۔ محکمہ سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال پنجاب کی ہدایات پر عمل پیرا ھوتے ہوئے تحریم فاونڈیشن بھکر اور سوشل ویلفیئر آفس تحصیل بھکر کی کاوش سے صدر تحریم فاونڈیشن بھکر میڈم مسرت یاسمین چودھری صاحبہ کی طرف سے دارالامان میں مقیم خواتین اور بچوں میں موسم کی مطابقت کے مطابق سوٹ تحائف اور بچوں میں کھلونے تقسیم کئے گئے۔ اس موقع پر ملک مشتاق حسین ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال بھکر کا کہنا تھا کہ تحریم فاؤنڈیشن بھکر کی دارالامان بھکر کی خواتین کے لیے مخلصانہ کاوش بارش کا پہلا قطرہ ثابت ھوگا۔ شہزاد ولی سوشل ویلفیر آفیسر بھکر کی سماجی تنظیموں سے روابط مثالی ھیں۔مستقبل میں بھی سوشل ویلفیر آفیسر بھکر سے امید کرتا ھوں کہ دارلامان میں مقیم خواتین کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ملک مشتاق حسین ڈپٹی ڈآئریکٹر سوشل ویلفیر بھکر کے ساتھ شہزاد ولی سوشل ویلفیر آفیسر بھکر,سپراٹیننڈنٹ دارالامان,میڈم فہمیدہ ناز اسسٹنٹ ڈآیرئکٹر صنعت زار,میڈم یاسمین چوہدری,ملک توصیف سیال موجود تھے۔

جمعہ، 14 اکتوبر، 2022

بھکر( )ضلع میں مصنوعی مہنگائی کے خاتمہ کیلئے عوامی تعاون ناگزیر ہے،عوام الناس اشیائے ضروریہ کی خریداری کے دوران سرکاری نرخ ناموں کا ضرور معائنہ کریں اووچارجنگ کرنیوالے دکانداروں کے خلاف قیمت پنجاب ایپ پر شکایت درج کریں 24 گھنٹے میں متعلقہ دکاندار کے خلاف ایکشن لیا جائے گا شکایت کرنیوالے شخص کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ان خیالات کا اظہار ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد نے ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل عباس رضا ناصر،ایس پی انویسٹی گیشن اللہ نواز خان،صدر انجمن تاجران رانا محمد اشرف خاں ودیگر تاجران کے عہدیدران،آڑھتیان، میڈیا نمائندگا ن اور دیگر متعلقہ افسران بھی موجود تھے۔ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سبزیوں،پھلوں،دالوں اور دیگرعام روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کو عام آدمی کی قوت خرید میں رکھنے کیلئے ضلع کی مرکزی منڈیوں سے عام مارکیٹ تک چیک اینڈ بیلنس برقرار رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پیاز اور ٹماٹر کی بیرونی ممالک سے درآمد کی بدولت قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے آنیوالے چند دنوں میں پاکستانی پیداوارکی بدولت مارکیٹ میں ترسیل کا عمل شروع ہوجائے گا جس سے قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ اشیائے ضررویہ کی ارزاں نرخوں میں دستیابی یقینی بنانے کیلئے تاجران اور میڈیا نمائندگان کا تعاون بھی کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہاکہ زیادہ سے زیادہ شہریوں کو قیمت پنجاب ایپ کے استعمال کو ترجیح دینا ہوگی تاکہ مصنوعی مہنگائی اور اوورچارجنگ کرنیوالے عناصر کی بروقت نشاندہی کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر انجمن تاجران رانا محمد اشرف خاں نے کہاکہ دکاندار اپنے کاروبار میں مناسب نفع رکھیں جبکہ مصنوعی مہنگائی اوراوور چارجنگ کرنے والے عناصر کیساتھ ہرگز رو رعایت نہ برتی جائے اس ضمن میں ضلعی انتظامیہ کو بھر پور معاونت فراہم کی جائیگی۔اجلاس میں ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد نے شہرمیں سستے آٹا کے سیل پوائنٹس پر ترسیل کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو خصوصی طور پر احکامات جاری کئے۔بعد ازاں ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد نے پولٹری ایسوسی ایشن کے وفد سے بھی ملاقات کی اور ضلع میں چکن کے سرکاری نرخوں میں فروخت یقینی بنانے کے احکامات جاری کئے اس ضمن میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو مارکیٹ میں موثر مانیٹرنگ کیلئے بھی ڈپٹی کمشنر نے خصوصی طور پر گائیڈ لائن جاری کی#

پیر، 10 اکتوبر، 2022

بھکر!ظفر اعوان سے /ضلعی دفتر محکمہ بہبودآبادی کے زیر اہتمام کاٹھ موڑ یونین کونسل برکت والا میں کمیونٹی کے ساتھ آگاہی سیشن کاانعقاد کیاگیا۔ڈپٹی ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفیسر(سی اینڈٹی)محمدرمضان اعوان نے سیشن کے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ بہبودآبادی پروگرام کے فروغ میں کمیونٹی کے افراد کا کلیدی تعاون حاصل کرنے کیلئے آگاہی سیشنز کا انعقاد کیاجارہاہے ۔ماں بچے کی صحت بارے آگاہی بہبودآبادی پروگرام کی اولین ترجیح ہے۔ماں بچے کو حکم الہی کے مطابق دو سال دودھ پلائے تاکہ اولاد میں 3سال کا قدرتی وقفہ ہو اور ماں بچے کی صحت بھی بہتر رہے۔ بچیوں کی تعلیم پرخصوصی توجہ والدین کی اولین ذمہ داری ہے تاکہ وہ معاشرے اورملک کی ترقی میں فعال کردار اداکرسکیں۔ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر نے محکمہ میں موجود مانع حمل ادویات اور مانع حمل ادویات بارے منفی رحجانات اور انکے مضر اثرات بارے تفصیلی گفتگو کی۔ شرکاء نے اس بات کی تائید کی کہ بچوں کو 2 سال دودھ پلانا اور ذمہ دار والدین کاکردار اسلامی نقطہ نظرسے بہت اہم ہے۔آبادی اور وسائل میں توازن ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی کاضامن ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل بارے آگاہی اورخصوصاًخواتین کی تعلیم پر توجہ دے کرمعاشرے میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جاسکتاہے۔سیشن کے شرکاء نے محکمہ بہبود آبادی کے ساتھ بھرپورتعاون کی یقین دہانی کرائی #

بھکر( )ضلعی دفتر محکمہ بہبودآبادی کے زیر اہتمام کاٹھ موڑ یونین کونسل برکت والا میں کمیونٹی کے ساتھ آگاہی سیشن کاانعقاد کیاگیا۔ڈپٹی ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفیسر(سی اینڈٹی)محمدرمضان اعوان نے سیشن کے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ بہبودآبادی پروگرام کے فروغ میں کمیونٹی کے افراد کا کلیدی تعاون حاصل کرنے کیلئے آگاہی سیشنز کا انعقاد کیاجارہاہے ۔ماں بچے کی صحت بارے آگاہی بہبودآبادی پروگرام کی اولین ترجیح ہے۔ماں بچے کو حکم الہی کے مطابق دو سال دودھ پلائے تاکہ اولاد میں 3سال کا قدرتی وقفہ ہو اور ماں بچے کی صحت بھی بہتر رہے۔ بچیوں کی تعلیم پرخصوصی توجہ والدین کی اولین ذمہ داری ہے تاکہ وہ معاشرے اورملک کی ترقی میں فعال کردار اداکرسکیں۔ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر نے محکمہ میں موجود مانع حمل ادویات اور مانع حمل ادویات بارے منفی رحجانات اور انکے مضر اثرات بارے تفصیلی گفتگو کی۔ شرکاء نے اس بات کی تائید کی کہ بچوں کو 2 سال دودھ پلانا اور ذمہ دار والدین کاکردار اسلامی نقطہ نظرسے بہت اہم ہے۔آبادی اور وسائل میں توازن ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی کاضامن ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل بارے آگاہی اورخصوصاًخواتین کی تعلیم پر توجہ دے کرمعاشرے میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جاسکتاہے۔سیشن کے شرکاء نے محکمہ بہبود آبادی کے ساتھ بھرپورتعاون کی یقین دہانی کرائی #

اتوار، 2 اکتوبر، 2022

۔ تحریر ظفر اعوان "اپنی جد کے دشمن" صحافت ایک مقدس پیشہ ہے شعبہ صحافت سے منسلک ہمارےصحافی بھائیوں کے ساتھ جو عوام الناس اورانتظامیہ کی جانب سےناروا سلوک اور انہیں جوتنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ہر بندےکا اک خاندان ہے۔اوررشتہ سے جڑا ہوا ہے۔رشتہ چاہے خون کا ہو۔ چاہے دوستی کا یاکسی محکمہ کا۔ اگر ہم ان تینوں رشتوں کے ساتھ مخلص ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ایک مثال توجہ فرمائیں۔ کسی وقتوں میں بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ ایک بادشاہ اور وزیر ایک روز شکار کیلئے جنگل میں نکلے۔اور آگے سے آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے پاس جو کھانے پینے کا سامان تھاختم هو گیا۔بادشاہ اور وزیر پیاس سے نڈھال هو گئے۔اور جنگل میں پانی تلاش کرنے لگے۔آخر کار انھیں ایک کھڈا دکھائی دیا جس میں بارش کا گندہ پانی کھڑا تھا۔ جس سے جانور وغیرہ بھی پانی پیتے تھے۔بادشاہ اور وزیر سوچنے لگ گئے۔اور پھر انہوں نے یہی پانی پینے کا فیصلہ کر لیا۔ابھی ان کے پاس کوئی برتن بھی نہیں تھا جس سے پانی پیتے۔خیر پھر ان کو جانوروں کی طرح پانی پینا پڑا ۔پہلے وزیر نے پانی پی کر دکھایا پھر بادشاہ نے پانی پیا ۔بادشاہ کو چونکہ پیاس بہت زیادہ لگی ہوئی تھی ۔ایک ہی سانس میں اس نے بہت بڑا گھونٹ بھرا۔جیسے ہی اس نے گھونٹ بھرا سانپ کا چھوٹا سا بچہ پانی کے ساتھ بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔مگر بادشاہ کو پتہ نا چل سکا بادشاہ نے واپس گھر جانے کا فیصلہ کیا ۔اور واپس چل دیئے۔کوئی بیس دن کے بعد بادشاہ کا پیٹ سوجنے لگا۔اور طبیت خراب ہونے لگ گئی ۔دن بدن بادشاہ لاغر ہونے لگا اور پیٹ سوج گیا۔دنیا کا کوئی حکیم اور کوئی طبیب نا چھوڑا مگر بیماری کا کسی کو پتہ ناچل سکا۔آخر کار بادشاہ نےوزیر سے کہا مجھے جنگل میں لے چلو ۔وزیر حکم کے مطابق بادشاہ کو جنگل میں لے گیا ۔جنگل کے اندر ایک گھنے درخت کے نیچے آرام کیا ۔بادشاہ کو کھلی فضا میں سکون ملا اور نیند آ گئی۔وزیر ساتھ میں لیٹاہوا تھا ۔اچانک وزیر کیا دیکھتا ہے ۔کہ جس گھنے درخت کے نیچے سویا ہوا ہے اس کی چوٹی پر ایک خوف ناک شیش ناگ بیٹھا جھوم رہا ہے ۔وزیر ایک دم گھبرا سا گیا مگر سہم گیا کہ بادشاہ کو بڑی مدت کے بعد سکون کی نیند آئی ہے اسے جگانا اچھا نہیں ۔ابھی یہی سوچ کر وزیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو ڈر گیا۔کیا دیکھتا ہے کہ بادشاہ کا منہ کھلا ہوا ہے اور بادشاہ خراٹے بھر رہا ہے ۔اور اس کے منہ سے ایک خوفناک سانپ نکل کر ہوا کی مستی میں جھوم رہا ہے ۔ یہ منظر دیکھ کر وزیر کے تو بس آخری سانس چل رہے تھے جیسے ۔ابھی موت جیسے دونوں کے سروں پر منڈلا رہی تھی۔وزیر ابھی سارا منظر دیکھ رہا ہے بادشاہ کے منہ سے جو سانپ نکلا ہوا تھا ۔اس نے جیسے اوپر دیکھا تو چوٹی پر شیش ناگ سانپ کو دیکھ کر کہا تم ااوپر کیوں کر بیٹھے هو ۔شیش ناگ نے سانپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم بادشاہ کے پیٹ میں کیسے بیٹھے هو ۔باہر نکلو باہر کی آب و ہوا لو ۔ایک چھوٹی سی دنیا میں کیا کر رہے هو ۔اور پھر بادشاھ کی ساری خوراک تم کھا رہے هو ۔بادشاہ کو بھی تم نے عذاب دے رکھا ہے ۔ادھر آؤ کھلے آسمان تلے ۔کھلی فضا میں۔ کھلی بادشاہت میں ۔مجھے دیکھو میں اس درخت کی چوٹی پر اس لیے بیٹھا هوں کہ اس درخت کے نیچے سات بادشاہوں کی دولت دبی ہوئی ہے ۔اور میں اس مستی میں بیٹھا ھوں ۔جو کوئی خزانے کو نکالنےکی کوشش کرتا ہے میں اسے مار دیتا ہوں ۔ تم ایک چھوٹے سے پیٹ میں بادشاہت بنا کر بیٹھے هو ۔ ۔جو بادشاہ کے اندر سانپ تھا اس جواب دیا۔تم رہو کھلی فضا میں مجھے چھوٹی سی دنیا میں بڑی بڑی خوراکیں ملتی ہیں ۔دنیا کی ہر چیز مجھے نصیب ہے ۔اور آج تک میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ شیش ناگ جواب دیتا ہے۔بیٹاتیرا علاج تو بہت آسان ہے اگر کوئی کرنے والا هو تو ۔پنسار کی دکان سے فلاں ۔فلاں دوائی دودھ میں ملا کر بادشاہ کو پلائی جاۓ تو ٹھیک 2 گھنٹے بعد تیرے ٹوٹے ٹوٹے هو جائیں گے ۔اور الٹی کے ساتھ تم باہر هو جاؤ گے ۔اور بادشاہ بھی بیماری سے آزاد هو جاۓ گا ۔۔ شیش ناگ کی یہ بات سن کر بادشاہ کے اندر جو سانپ تھا وہ آگ بھگولا هو گیا ۔اس نے شیش ناگ کو بولا پتر تیرا بھی اگر علاج کرنے والا ہو تو آدھے گھنٹے کے اندر تیرا کام تمام کر سکتا ہے ۔اور جس سات بادشاہوں کی دولت پر قبضہ کر کے بیٹھا ہےنا یہ بھی جاتی رہے گی۔ شیش ناگ بولا وہ کیسے ؟؟؟ سانپ نے جواب دیا اگر کوئی بندہ اس درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا کر آگ لگا دے تو یہ آگ آدھے گھنٹے کے اندر تجھے اپنی لپیٹ میں لے کر تجھے خاک کردے گی ۔اور وہ بندہ سات بادشاہوں کی دولت کا مالک بن جاۓ گا ۔۔ یہ کہ کر سانپ غصے سے بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔ وزیر نے اب دونوں سانپوں کی گفتگو سنی ۔اور اتنے تک بادشاہ بھی جاگ گیا ۔وزیر نے بادشاہ کو اٹھایا اور واپس چل پڑا اور محل میں پہنچ گیا ۔۔ وزیرنے فوری طور پر پنسار سے وہ دوائی منگوائی جو شیش ناگ نے کہی تھی۔ ۔ اور دودھ بھی اکٹھا کر لیا گیا ۔دوائی دودھ میں ملا کر جب بادشاہ کو پلائی گئی تو دو گھنٹے بعد بادشاہ کو الٹی شروع ہو گئی۔اورالٹی کے ساتھ ساتھ سانپ کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے نكلنا شروع ہو گئے ۔۔ اور بل آخر سانپ ٹکرے ٹکرے ہو کر نکل آیا ۔اور بادشاہ بھی سکون میں آ گیا ۔چند روز میں بادشاہ بالکل ٹھیک ہو گیا ۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا تم نے میری جان بچائی ہے اب آدھی بادشاہی تیری ۔ یہ سن کر وزیر نے کہا بادشاہ سلامت مجھے آدھی بادشاہی نہیں چاہئے ۔اللّه پاک آپ کو نصیب کرے۔مجھے آپ اجازت دیں ۔ اور اپنے نوکروں سے کہو۔جنگل میں فلاں درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا دیں ۔ بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہ کر باڑ لگوا دی ۔ وزیر نے بادشاہ سے اجازت لی اور جنگل کی طرف چل پڑا ۔ وزیر نے جا کر باڑ کو آگ لگا دی۔ آگ نے چاروں طرف سے اس درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ۔۔ آگ شیش ناگ تک جا پہنچی۔ شیش ناگ بے بس ہو گیا ۔اور آگ کے اندر گر گیا ۔ اور آخر میں مرتے ہووے شیش ناگ نے ایک جملہ کہا کہ ۔(کاش میں نے اپنی جد کی خیر مانگی ہوتی۔آج تم بھی زندہ ہوتے اور میں بھی )جو لوگ اپنی جد کے دشمن بنتے ہیں ان کو خود نقصان ہوتا ہے ۔اس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔جیسے وزیر نے مزدور لگا کر ساری دولت نکال لی ۔اور بہت بڑا بادشاہ بن گیا۔دونوں سانپ بھی ختم ہو گئے ۔ یہ ہر گھر کی کہانی ہے ۔ہرطرف دوستوں کی کہانی ہے۔جو اکٹھے کھاتے پیتے ہیں ۔اور ھمراز بن جاتے ہیں ۔کچھ دنوں بعددشمن ۔۔۔ اور معزرت کے ساتھ آج کل ہماری صحافی برادری میں یہ بہت پائی جاتی ہے ۔گزشتہ روز سے میں نے آفیشل میڈیا پر ان چیزوں کو زیادہ دیکھا ہے۔پہلے تو چھپ چھپا کر آفیسروں کے ٹاوٹ بن کر اپنے ہی صحافی بھائی کی مخالفت کرنا۔ اب خیر سے فیس بک پر صحافی حضرات ایک دوسرے کے خلاف پوسٹ لگا کر عوام سے کمنٹ حاصل کرنے کے لیے گند گھول رہے ہیں ۔اس بارے کیا خیال ہے ۔ صحافی کو تو عوام نے تو پہلے ہی بلیک میلر کا خطاب دیا ہوا ہے۔کوئی محکمہ اس طرح اپنے ساتھی کے خلاف باتیں نہیں کرتا جتنا صحافی کرتا ہے ۔ ایک صحافی دوسرے کو ڈی گریٹ کرنے کے چکر میں لگا ہوا ہے ۔جس کا رزلٹ یہ ہے کہ کسی محکمہ میں صحافی کو وہ مقام حاصل نہیں جو ہونا چاہئے ۔ اگر آج سے ہی ہم اپنے صحافی بھائیوں کی عزت کرنا شروع کر دیں اور منافقت چھوڑدیں۔اور چینل اور اخبار مالکان ان پڑھ افراد کو نمائندہ بنانا چھوڑ دیں تو بہتری آسکتی ہے۔ہمیں مثبت صحافت کو فروغ دینا ہو گااور اس عظیم پیشہ کی عزت کرنا ہو گی۔۔ تحریر ظفر اعوان "اپنی جد کے دشمن" صحافت ایک مقدس پیشہ ہے شعبہ صحافت سے منسلک ہمارےصحافی بھائیوں کے ساتھ جو عوام الناس اورانتظامیہ کی جانب سےناروا سلوک اور انہیں جوتنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ہر بندےکا اک خاندان ہے۔اوررشتہ سے جڑا ہوا ہے۔رشتہ چاہے خون کا ہو۔ چاہے دوستی کا یاکسی محکمہ کا۔ اگر ہم ان تینوں رشتوں کے ساتھ مخلص ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ایک مثال توجہ فرمائیں۔ کسی وقتوں میں بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ ایک بادشاہ اور وزیر ایک روز شکار کیلئے جنگل میں نکلے۔اور آگے سے آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے پاس جو کھانے پینے کا سامان تھاختم هو گیا۔بادشاہ اور وزیر پیاس سے نڈھال هو گئے۔اور جنگل میں پانی تلاش کرنے لگے۔آخر کار انھیں ایک کھڈا دکھائی دیا جس میں بارش کا گندہ پانی کھڑا تھا۔ جس سے جانور وغیرہ بھی پانی پیتے تھے۔بادشاہ اور وزیر سوچنے لگ گئے۔اور پھر انہوں نے یہی پانی پینے کا فیصلہ کر لیا۔ابھی ان کے پاس کوئی برتن بھی نہیں تھا جس سے پانی پیتے۔خیر پھر ان کو جانوروں کی طرح پانی پینا پڑا ۔پہلے وزیر نے پانی پی کر دکھایا پھر بادشاہ نے پانی پیا ۔بادشاہ کو چونکہ پیاس بہت زیادہ لگی ہوئی تھی ۔ایک ہی سانس میں اس نے بہت بڑا گھونٹ بھرا۔جیسے ہی اس نے گھونٹ بھرا سانپ کا چھوٹا سا بچہ پانی کے ساتھ بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔مگر بادشاہ کو پتہ نا چل سکا بادشاہ نے واپس گھر جانے کا فیصلہ کیا ۔اور واپس چل دیئے۔کوئی بیس دن کے بعد بادشاہ کا پیٹ سوجنے لگا۔اور طبیت خراب ہونے لگ گئی ۔دن بدن بادشاہ لاغر ہونے لگا اور پیٹ سوج گیا۔دنیا کا کوئی حکیم اور کوئی طبیب نا چھوڑا مگر بیماری کا کسی کو پتہ ناچل سکا۔آخر کار بادشاہ نےوزیر سے کہا مجھے جنگل میں لے چلو ۔وزیر حکم کے مطابق بادشاہ کو جنگل میں لے گیا ۔جنگل کے اندر ایک گھنے درخت کے نیچے آرام کیا ۔بادشاہ کو کھلی فضا میں سکون ملا اور نیند آ گئی۔وزیر ساتھ میں لیٹاہوا تھا ۔اچانک وزیر کیا دیکھتا ہے ۔کہ جس گھنے درخت کے نیچے سویا ہوا ہے اس کی چوٹی پر ایک خوف ناک شیش ناگ بیٹھا جھوم رہا ہے ۔وزیر ایک دم گھبرا سا گیا مگر سہم گیا کہ بادشاہ کو بڑی مدت کے بعد سکون کی نیند آئی ہے اسے جگانا اچھا نہیں ۔ابھی یہی سوچ کر وزیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو ڈر گیا۔کیا دیکھتا ہے کہ بادشاہ کا منہ کھلا ہوا ہے اور بادشاہ خراٹے بھر رہا ہے ۔اور اس کے منہ سے ایک خوفناک سانپ نکل کر ہوا کی مستی میں جھوم رہا ہے ۔ یہ منظر دیکھ کر وزیر کے تو بس آخری سانس چل رہے تھے جیسے ۔ابھی موت جیسے دونوں کے سروں پر منڈلا رہی تھی۔وزیر ابھی سارا منظر دیکھ رہا ہے بادشاہ کے منہ سے جو سانپ نکلا ہوا تھا ۔اس نے جیسے اوپر دیکھا تو چوٹی پر شیش ناگ سانپ کو دیکھ کر کہا تم ااوپر کیوں کر بیٹھے هو ۔شیش ناگ نے سانپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم بادشاہ کے پیٹ میں کیسے بیٹھے هو ۔باہر نکلو باہر کی آب و ہوا لو ۔ایک چھوٹی سی دنیا میں کیا کر رہے هو ۔اور پھر بادشاھ کی ساری خوراک تم کھا رہے هو ۔بادشاہ کو بھی تم نے عذاب دے رکھا ہے ۔ادھر آؤ کھلے آسمان تلے ۔کھلی فضا میں۔ کھلی بادشاہت میں ۔مجھے دیکھو میں اس درخت کی چوٹی پر اس لیے بیٹھا هوں کہ اس درخت کے نیچے سات بادشاہوں کی دولت دبی ہوئی ہے ۔اور میں اس مستی میں بیٹھا ھوں ۔جو کوئی خزانے کو نکالنےکی کوشش کرتا ہے میں اسے مار دیتا ہوں ۔ تم ایک چھوٹے سے پیٹ میں بادشاہت بنا کر بیٹھے هو ۔ ۔جو بادشاہ کے اندر سانپ تھا اس جواب دیا۔تم رہو کھلی فضا میں مجھے چھوٹی سی دنیا میں بڑی بڑی خوراکیں ملتی ہیں ۔دنیا کی ہر چیز مجھے نصیب ہے ۔اور آج تک میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ شیش ناگ جواب دیتا ہے۔بیٹاتیرا علاج تو بہت آسان ہے اگر کوئی کرنے والا هو تو ۔پنسار کی دکان سے فلاں ۔فلاں دوائی دودھ میں ملا کر بادشاہ کو پلائی جاۓ تو ٹھیک 2 گھنٹے بعد تیرے ٹوٹے ٹوٹے هو جائیں گے ۔اور الٹی کے ساتھ تم باہر هو جاؤ گے ۔اور بادشاہ بھی بیماری سے آزاد هو جاۓ گا ۔۔ شیش ناگ کی یہ بات سن کر بادشاہ کے اندر جو سانپ تھا وہ آگ بھگولا هو گیا ۔اس نے شیش ناگ کو بولا پتر تیرا بھی اگر علاج کرنے والا ہو تو آدھے گھنٹے کے اندر تیرا کام تمام کر سکتا ہے ۔اور جس سات بادشاہوں کی دولت پر قبضہ کر کے بیٹھا ہےنا یہ بھی جاتی رہے گی۔ شیش ناگ بولا وہ کیسے ؟؟؟ سانپ نے جواب دیا اگر کوئی بندہ اس درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا کر آگ لگا دے تو یہ آگ آدھے گھنٹے کے اندر تجھے اپنی لپیٹ میں لے کر تجھے خاک کردے گی ۔اور وہ بندہ سات بادشاہوں کی دولت کا مالک بن جاۓ گا ۔۔ یہ کہ کر سانپ غصے سے بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔ وزیر نے اب دونوں سانپوں کی گفتگو سنی ۔اور اتنے تک بادشاہ بھی جاگ گیا ۔وزیر نے بادشاہ کو اٹھایا اور واپس چل پڑا اور محل میں پہنچ گیا ۔۔ وزیرنے فوری طور پر پنسار سے وہ دوائی منگوائی جو شیش ناگ نے کہی تھی۔ ۔ اور دودھ بھی اکٹھا کر لیا گیا ۔دوائی دودھ میں ملا کر جب بادشاہ کو پلائی گئی تو دو گھنٹے بعد بادشاہ کو الٹی شروع ہو گئی۔اورالٹی کے ساتھ ساتھ سانپ کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے نكلنا شروع ہو گئے ۔۔ اور بل آخر سانپ ٹکرے ٹکرے ہو کر نکل آیا ۔اور بادشاہ بھی سکون میں آ گیا ۔چند روز میں بادشاہ بالکل ٹھیک ہو گیا ۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا تم نے میری جان بچائی ہے اب آدھی بادشاہی تیری ۔ یہ سن کر وزیر نے کہا بادشاہ سلامت مجھے آدھی بادشاہی نہیں چاہئے ۔اللّه پاک آپ کو نصیب کرے۔مجھے آپ اجازت دیں ۔ اور اپنے نوکروں سے کہو۔جنگل میں فلاں درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا دیں ۔ بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہ کر باڑ لگوا دی ۔ وزیر نے بادشاہ سے اجازت لی اور جنگل کی طرف چل پڑا ۔ وزیر نے جا کر باڑ کو آگ لگا دی۔ آگ نے چاروں طرف سے اس درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ۔۔ آگ شیش ناگ تک جا پہنچی۔ شیش ناگ بے بس ہو گیا ۔اور آگ کے اندر گر گیا ۔ اور آخر میں مرتے ہووے شیش ناگ نے ایک جملہ کہا کہ ۔(کاش میں نے اپنی جد کی خیر مانگی ہوتی۔آج تم بھی زندہ ہوتے اور میں بھی )جو لوگ اپنی جد کے دشمن بنتے ہیں ان کو خود نقصان ہوتا ہے ۔اس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔جیسے وزیر نے مزدور لگا کر ساری دولت نکال لی ۔اور بہت بڑا بادشاہ بن گیا۔دونوں سانپ بھی ختم ہو گئے ۔ یہ ہر گھر کی کہانی ہے ۔ہرطرف دوستوں کی کہانی ہے۔جو اکٹھے کھاتے پیتے ہیں ۔اور ھمراز بن جاتے ہیں ۔کچھ دنوں بعددشمن ۔۔۔ اور معزرت کے ساتھ آج کل ہماری صحافی برادری میں یہ بہت پائی جاتی ہے ۔گزشتہ روز سے میں نے آفیشل میڈیا پر ان چیزوں کو زیادہ دیکھا ہے۔پہلے تو چھپ چھپا کر آفیسروں کے ٹاوٹ بن کر اپنے ہی صحافی بھائی کی مخالفت کرنا۔ اب خیر سے فیس بک پر صحافی حضرات ایک دوسرے کے خلاف پوسٹ لگا کر عوام سے کمنٹ حاصل کرنے کے لیے گند گھول رہے ہیں ۔اس بارے کیا خیال ہے ۔ صحافی کو تو عوام نے تو پہلے ہی بلیک میلر کا خطاب دیا ہوا ہے۔کوئی محکمہ اس طرح اپنے ساتھی کے خلاف باتیں نہیں کرتا جتنا صحافی کرتا ہے ۔ ایک صحافی دوسرے کو ڈی گریٹ کرنے کے چکر میں لگا ہوا ہے ۔جس کا رزلٹ یہ ہے کہ کسی محکمہ میں صحافی کو وہ مقام حاصل نہیں جو ہونا چاہئے ۔ اگر آج سے ہی ہم اپنے صحافی بھائیوں کی عزت کرنا شروع کر دیں اور منافقت چھوڑدیں۔اور چینل اور اخبار مالکان ان پڑھ افراد کو نمائندہ بنانا چھوڑ دیں تو بہتری آسکتی ہے۔ہمیں مثبت صحافت کو فروغ دینا ہو گااور اس عظیم پیشہ کی عزت کرنا ہو گی۔