Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2022

استحصالی قوتوں کی بقا//احمد محسود

 استحصالی قوتوں کی بقا

احمد محسود



استحصالی قوتوں کی بقا لوگوں کو منظر اور محور سے دور ، اپنے حقوق سے ناواقف رکھنے اور پتھر کے زمانے میں دھکیلنے میں ہے۔اور وہ یہی کر رہے ہیں۔جنہوں نے نو بہ نو بستیاں بسانی تھیں ، وہ معمار کو دیوار میں چن رہے ہیں۔جنہوں نے بےچراغ دریچوں کو منور کرنا تھا وہ جگنووں کے بھی دشمن ہو گئے ہیں۔اس ساری صورت ِ حال کو ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے یوں نظم کیا ہے۔ 

وہ کہ جن کو حکم تھا آباد کاری کا یہاں

بستیوں کی بستیاں مسمار کرنے لگ گئے


ان استحصال پسند اور مفاد پرست قوتوں کا راستہ  کیسے روکا جا سکتا ہے۔اس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔پہلے انکو گہرائی میں سمجھنے کی ضروت ہے۔ان کے طریقہ واردات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔صحافی ، اینکر ، کالم نگار ( چند ایک کے علاوہ ، یاد رکھیں ہر شعبے میں کچھ اچھے لوگ ضرور ہوتے ہیں۔) اور مذہبی اسکالر انکے آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔بنیادی نوعیت کے مسائل پر بات ہی نہیں ہوتی۔تعلیم ، سائنس ، صنعت و حرفت ، ٹیکنالوجی ، تحقیق ،  اس طرف توجہ ہی نہیں۔جان بوجھ کر ایسی بحث چھیڑی جاتی ہے جس کا فسانے میں کہیں ذکر نہیں ہوتا۔خود ساختہ مہنگائی کی جاتی ہے۔شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ڈرامے رچائے جاتے ہیں۔اپنی غفلت، بےحسی  اور بد انتظامی کو قدرتی آفات کا نام دیا جاتا ہے۔بےیقینی کی فضا تشکیل دی جاتی ہے۔خوف پھیلایا جاتا ہے۔اور اس سب کے آڑ میں مفادات پورے کیے جاتے ہیں۔جس کے حوالے سے شاعر کہتے ہیں۔

زلزلے کا خوف پھیلا کر جزیرے پر ضمیر

روز بیچوں گا بنا کر کشتیاں دس بیس میں

(ضمیر حسن قیس)

کوئی سازش محلاتی ہے درپردہ

کہ مصنوعی ہے یہ بحران پانی کا

احمد محسود

 اور یہ استحصالی گروہ اسمیں یوری طرح کامیاب بھی ہو گئے ہو گئے ہیں۔فضولیات کو ہمارے مزاج کا حصہ بنانے میں ، ہمیں منظر اور محور سے دور کرنے میں۔پوری قوم کو سیاست کے پیچھے لگا دیا ہے۔ہر دوسرے چینل پہ قوم کو یہی سنایا جا رہا ہے کہ فلاں سیاست دان نے فلاں کو گالی دی۔فلاں نے فلاں کو منہ توڑ جواب دیا۔ہمارا سارا وقت یہی فضولیاات سن سن کر ضائع ہوتا ہے۔دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کہاں نئی تحقیق ہو رہی ہے۔ہمیں اس سے کیا لینا دینا ۔ہمیں تو زندہ باد مردہ باد کے نعروں سے فرصت نہیں۔ہمیں محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ ہماری زندگیاں بے ثمر ہو رہی ہیں۔اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی وزیرستان میں نیٹ سروس معطل ہے۔اور اس تعطل کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔اور نیٹ سروس اس لیے معطل ہے کہ ہم منظر اور محور سے دور رہے۔کیونکہ ان قوتوں کی بقا اسی میں ہے۔بلکہ نیٹ سروس تو کیا اب تو موبائل سروس بھی بند ہے۔ملک کے دوسرے شہروں کے حالات بھی کچھ حوصلہ افزاء نہیں۔کہیں لوگ ڈینگی سے مر رہے ہیں افلاس سے تنگ آ کر لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ان استحصالی قوتوں نے ہمیں اتنا الجھا دیا ہے مسائل میں کہ اب ہم انکے گریبان پکڑنے اور سوال کرنے کے پوزیشن میں ہی نہیں۔اور مزید کائی میں گرتے جا رہے ہیں۔ہمیں خیال ہی نہیں آتا کہ ہم آئندگاں کو کیا دان کر رہے ہیں۔پانی کی شرح خطر ناک حد تک نیچے جا رہی ہے۔ہر شعبہ رو بہ زوال ہے۔

گرد آلود فضا ملنی ہے

ہم سے ورثے میں گھٹا ملنی ہے

( احمد محسود)

سب سے زیادہ تکلیف دہ اور قابلِ افسوس  بلکہ تشویش ناک بات یہی ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چل رہا کہ ہماری سمت کیا ہے۔؟؟ ہم کہاں جا رہے ہیں۔؟؟ کون ہمیں استعمال کر رہا ہے۔؟؟ ہم سوچنا اور سوال کرنا بھول گئے ہیں کہ کارخانوں کی جگہ لنگر خانے کیوں بن رہے ہیں؟ ڈیم کیوں نہیں بنائے جاتے؟ خواندگی کی شرح اتنی کم کیوں۔اور ہمارے تعلیمی ادارے ہمیں صرف ڈگریاں ہی کیوں تھماتی ہیں  ، ہنر مند کیوں نہیں بناتیں۔؟؟ لیکن ہم نے ان سوالات پہ کبھی غور نہیں کرنا۔کیونکہ ہم  استحصالی قوتیں اور انکے آلہ کار کے جھانسے میں آگئے ہیں۔اور اس بری طرح پھنسے ہیں کہ کچھ سجھائی ہی نہیں دے رہا۔بصیرتوں پہ جیسے جالے پڑ گئے ہیں۔یہ مکار اور کذاب سیاست دان جن کی سیاسی جماعتوں کو میں استحصالی گروہ سے تعبر کر رہا ہوں ، انہوں نے ہمیں نفسیاتی بنا دیا ہے۔لیکن مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ کچھ لوگ ہیں ابھی جو مثلِ چراغ ہیں۔جو ان استحصالی قوتوں کے خلاف میدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ہمیں بھی اس قلمی جہاد میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ۔زندہ باد مردہ باد کے نعروں سے جوانوں کو نکال کر انکے اصل کی طرف لوٹانا ہوگا۔سوئے ہوئے کو جگانا ہوگا۔اگرچہ یہاں سوئے ہووں کو جگانا بد تہذیبی سمجھی جاتی ہے۔لیکن ہم نے ان استحصالی قوتوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ بےنقاب شور مچا کر نہیں شعور بانٹ کر کرنا ہے۔روشنی پھیلا  کر  شب پرستوں پہ قیامت ڈھانی ہے نعرے لگا کر نہیں۔

اپنے خون سے جو ہم ایک شمع جلائے ہوئے ہیں

شب پرستوں پہ قیامت بھی تو ڈھائے ہوئے ہیں

(پروفیسر سحر انصاری)

شخصیت پرستی اور ذاتی پسند نا پسند سے نکل کر سوچنا ہوگا۔تب  کہیں ہم بحثیت قوم ابھر سکیں گے۔ورنہ ہر استحصالی گروہ اپنے ان اندھے عقیدت مندوں کو کو استعمال کر رہا ہے۔اپنے حقوق سے واقفیت حاصل کرنی ہوگی اور ان حقوق کے حصول کیلیے آئینی راستے پر چلنا ہوگا۔منظر اور محور سے دوری کے ہر جھانسے سے خود کو بچانا ہوگا۔ تب ان استحصالی قوتوں کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹے گی۔انصاف ، خوشحالی امن سکون کا دور دورہ ہوگا۔بےیقینی کی فضا پر امن ماحول میں بدلے گی۔تب ہمارے اطراف ستاروں پر کمند ڈالنے کی باتیں ہوں گی زندہ باد مردہ باد کا شور نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں: