Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

اتوار، 2 اکتوبر، 2022

۔ تحریر ظفر اعوان "اپنی جد کے دشمن" صحافت ایک مقدس پیشہ ہے شعبہ صحافت سے منسلک ہمارےصحافی بھائیوں کے ساتھ جو عوام الناس اورانتظامیہ کی جانب سےناروا سلوک اور انہیں جوتنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ہر بندےکا اک خاندان ہے۔اوررشتہ سے جڑا ہوا ہے۔رشتہ چاہے خون کا ہو۔ چاہے دوستی کا یاکسی محکمہ کا۔ اگر ہم ان تینوں رشتوں کے ساتھ مخلص ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ایک مثال توجہ فرمائیں۔ کسی وقتوں میں بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ ایک بادشاہ اور وزیر ایک روز شکار کیلئے جنگل میں نکلے۔اور آگے سے آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے پاس جو کھانے پینے کا سامان تھاختم هو گیا۔بادشاہ اور وزیر پیاس سے نڈھال هو گئے۔اور جنگل میں پانی تلاش کرنے لگے۔آخر کار انھیں ایک کھڈا دکھائی دیا جس میں بارش کا گندہ پانی کھڑا تھا۔ جس سے جانور وغیرہ بھی پانی پیتے تھے۔بادشاہ اور وزیر سوچنے لگ گئے۔اور پھر انہوں نے یہی پانی پینے کا فیصلہ کر لیا۔ابھی ان کے پاس کوئی برتن بھی نہیں تھا جس سے پانی پیتے۔خیر پھر ان کو جانوروں کی طرح پانی پینا پڑا ۔پہلے وزیر نے پانی پی کر دکھایا پھر بادشاہ نے پانی پیا ۔بادشاہ کو چونکہ پیاس بہت زیادہ لگی ہوئی تھی ۔ایک ہی سانس میں اس نے بہت بڑا گھونٹ بھرا۔جیسے ہی اس نے گھونٹ بھرا سانپ کا چھوٹا سا بچہ پانی کے ساتھ بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔مگر بادشاہ کو پتہ نا چل سکا بادشاہ نے واپس گھر جانے کا فیصلہ کیا ۔اور واپس چل دیئے۔کوئی بیس دن کے بعد بادشاہ کا پیٹ سوجنے لگا۔اور طبیت خراب ہونے لگ گئی ۔دن بدن بادشاہ لاغر ہونے لگا اور پیٹ سوج گیا۔دنیا کا کوئی حکیم اور کوئی طبیب نا چھوڑا مگر بیماری کا کسی کو پتہ ناچل سکا۔آخر کار بادشاہ نےوزیر سے کہا مجھے جنگل میں لے چلو ۔وزیر حکم کے مطابق بادشاہ کو جنگل میں لے گیا ۔جنگل کے اندر ایک گھنے درخت کے نیچے آرام کیا ۔بادشاہ کو کھلی فضا میں سکون ملا اور نیند آ گئی۔وزیر ساتھ میں لیٹاہوا تھا ۔اچانک وزیر کیا دیکھتا ہے ۔کہ جس گھنے درخت کے نیچے سویا ہوا ہے اس کی چوٹی پر ایک خوف ناک شیش ناگ بیٹھا جھوم رہا ہے ۔وزیر ایک دم گھبرا سا گیا مگر سہم گیا کہ بادشاہ کو بڑی مدت کے بعد سکون کی نیند آئی ہے اسے جگانا اچھا نہیں ۔ابھی یہی سوچ کر وزیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو ڈر گیا۔کیا دیکھتا ہے کہ بادشاہ کا منہ کھلا ہوا ہے اور بادشاہ خراٹے بھر رہا ہے ۔اور اس کے منہ سے ایک خوفناک سانپ نکل کر ہوا کی مستی میں جھوم رہا ہے ۔ یہ منظر دیکھ کر وزیر کے تو بس آخری سانس چل رہے تھے جیسے ۔ابھی موت جیسے دونوں کے سروں پر منڈلا رہی تھی۔وزیر ابھی سارا منظر دیکھ رہا ہے بادشاہ کے منہ سے جو سانپ نکلا ہوا تھا ۔اس نے جیسے اوپر دیکھا تو چوٹی پر شیش ناگ سانپ کو دیکھ کر کہا تم ااوپر کیوں کر بیٹھے هو ۔شیش ناگ نے سانپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم بادشاہ کے پیٹ میں کیسے بیٹھے هو ۔باہر نکلو باہر کی آب و ہوا لو ۔ایک چھوٹی سی دنیا میں کیا کر رہے هو ۔اور پھر بادشاھ کی ساری خوراک تم کھا رہے هو ۔بادشاہ کو بھی تم نے عذاب دے رکھا ہے ۔ادھر آؤ کھلے آسمان تلے ۔کھلی فضا میں۔ کھلی بادشاہت میں ۔مجھے دیکھو میں اس درخت کی چوٹی پر اس لیے بیٹھا هوں کہ اس درخت کے نیچے سات بادشاہوں کی دولت دبی ہوئی ہے ۔اور میں اس مستی میں بیٹھا ھوں ۔جو کوئی خزانے کو نکالنےکی کوشش کرتا ہے میں اسے مار دیتا ہوں ۔ تم ایک چھوٹے سے پیٹ میں بادشاہت بنا کر بیٹھے هو ۔ ۔جو بادشاہ کے اندر سانپ تھا اس جواب دیا۔تم رہو کھلی فضا میں مجھے چھوٹی سی دنیا میں بڑی بڑی خوراکیں ملتی ہیں ۔دنیا کی ہر چیز مجھے نصیب ہے ۔اور آج تک میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ شیش ناگ جواب دیتا ہے۔بیٹاتیرا علاج تو بہت آسان ہے اگر کوئی کرنے والا هو تو ۔پنسار کی دکان سے فلاں ۔فلاں دوائی دودھ میں ملا کر بادشاہ کو پلائی جاۓ تو ٹھیک 2 گھنٹے بعد تیرے ٹوٹے ٹوٹے هو جائیں گے ۔اور الٹی کے ساتھ تم باہر هو جاؤ گے ۔اور بادشاہ بھی بیماری سے آزاد هو جاۓ گا ۔۔ شیش ناگ کی یہ بات سن کر بادشاہ کے اندر جو سانپ تھا وہ آگ بھگولا هو گیا ۔اس نے شیش ناگ کو بولا پتر تیرا بھی اگر علاج کرنے والا ہو تو آدھے گھنٹے کے اندر تیرا کام تمام کر سکتا ہے ۔اور جس سات بادشاہوں کی دولت پر قبضہ کر کے بیٹھا ہےنا یہ بھی جاتی رہے گی۔ شیش ناگ بولا وہ کیسے ؟؟؟ سانپ نے جواب دیا اگر کوئی بندہ اس درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا کر آگ لگا دے تو یہ آگ آدھے گھنٹے کے اندر تجھے اپنی لپیٹ میں لے کر تجھے خاک کردے گی ۔اور وہ بندہ سات بادشاہوں کی دولت کا مالک بن جاۓ گا ۔۔ یہ کہ کر سانپ غصے سے بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔ وزیر نے اب دونوں سانپوں کی گفتگو سنی ۔اور اتنے تک بادشاہ بھی جاگ گیا ۔وزیر نے بادشاہ کو اٹھایا اور واپس چل پڑا اور محل میں پہنچ گیا ۔۔ وزیرنے فوری طور پر پنسار سے وہ دوائی منگوائی جو شیش ناگ نے کہی تھی۔ ۔ اور دودھ بھی اکٹھا کر لیا گیا ۔دوائی دودھ میں ملا کر جب بادشاہ کو پلائی گئی تو دو گھنٹے بعد بادشاہ کو الٹی شروع ہو گئی۔اورالٹی کے ساتھ ساتھ سانپ کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے نكلنا شروع ہو گئے ۔۔ اور بل آخر سانپ ٹکرے ٹکرے ہو کر نکل آیا ۔اور بادشاہ بھی سکون میں آ گیا ۔چند روز میں بادشاہ بالکل ٹھیک ہو گیا ۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا تم نے میری جان بچائی ہے اب آدھی بادشاہی تیری ۔ یہ سن کر وزیر نے کہا بادشاہ سلامت مجھے آدھی بادشاہی نہیں چاہئے ۔اللّه پاک آپ کو نصیب کرے۔مجھے آپ اجازت دیں ۔ اور اپنے نوکروں سے کہو۔جنگل میں فلاں درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا دیں ۔ بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہ کر باڑ لگوا دی ۔ وزیر نے بادشاہ سے اجازت لی اور جنگل کی طرف چل پڑا ۔ وزیر نے جا کر باڑ کو آگ لگا دی۔ آگ نے چاروں طرف سے اس درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ۔۔ آگ شیش ناگ تک جا پہنچی۔ شیش ناگ بے بس ہو گیا ۔اور آگ کے اندر گر گیا ۔ اور آخر میں مرتے ہووے شیش ناگ نے ایک جملہ کہا کہ ۔(کاش میں نے اپنی جد کی خیر مانگی ہوتی۔آج تم بھی زندہ ہوتے اور میں بھی )جو لوگ اپنی جد کے دشمن بنتے ہیں ان کو خود نقصان ہوتا ہے ۔اس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔جیسے وزیر نے مزدور لگا کر ساری دولت نکال لی ۔اور بہت بڑا بادشاہ بن گیا۔دونوں سانپ بھی ختم ہو گئے ۔ یہ ہر گھر کی کہانی ہے ۔ہرطرف دوستوں کی کہانی ہے۔جو اکٹھے کھاتے پیتے ہیں ۔اور ھمراز بن جاتے ہیں ۔کچھ دنوں بعددشمن ۔۔۔ اور معزرت کے ساتھ آج کل ہماری صحافی برادری میں یہ بہت پائی جاتی ہے ۔گزشتہ روز سے میں نے آفیشل میڈیا پر ان چیزوں کو زیادہ دیکھا ہے۔پہلے تو چھپ چھپا کر آفیسروں کے ٹاوٹ بن کر اپنے ہی صحافی بھائی کی مخالفت کرنا۔ اب خیر سے فیس بک پر صحافی حضرات ایک دوسرے کے خلاف پوسٹ لگا کر عوام سے کمنٹ حاصل کرنے کے لیے گند گھول رہے ہیں ۔اس بارے کیا خیال ہے ۔ صحافی کو تو عوام نے تو پہلے ہی بلیک میلر کا خطاب دیا ہوا ہے۔کوئی محکمہ اس طرح اپنے ساتھی کے خلاف باتیں نہیں کرتا جتنا صحافی کرتا ہے ۔ ایک صحافی دوسرے کو ڈی گریٹ کرنے کے چکر میں لگا ہوا ہے ۔جس کا رزلٹ یہ ہے کہ کسی محکمہ میں صحافی کو وہ مقام حاصل نہیں جو ہونا چاہئے ۔ اگر آج سے ہی ہم اپنے صحافی بھائیوں کی عزت کرنا شروع کر دیں اور منافقت چھوڑدیں۔اور چینل اور اخبار مالکان ان پڑھ افراد کو نمائندہ بنانا چھوڑ دیں تو بہتری آسکتی ہے۔ہمیں مثبت صحافت کو فروغ دینا ہو گااور اس عظیم پیشہ کی عزت کرنا ہو گی۔۔ تحریر ظفر اعوان "اپنی جد کے دشمن" صحافت ایک مقدس پیشہ ہے شعبہ صحافت سے منسلک ہمارےصحافی بھائیوں کے ساتھ جو عوام الناس اورانتظامیہ کی جانب سےناروا سلوک اور انہیں جوتنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ہر بندےکا اک خاندان ہے۔اوررشتہ سے جڑا ہوا ہے۔رشتہ چاہے خون کا ہو۔ چاہے دوستی کا یاکسی محکمہ کا۔ اگر ہم ان تینوں رشتوں کے ساتھ مخلص ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ایک مثال توجہ فرمائیں۔ کسی وقتوں میں بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ ایک بادشاہ اور وزیر ایک روز شکار کیلئے جنگل میں نکلے۔اور آگے سے آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے پاس جو کھانے پینے کا سامان تھاختم هو گیا۔بادشاہ اور وزیر پیاس سے نڈھال هو گئے۔اور جنگل میں پانی تلاش کرنے لگے۔آخر کار انھیں ایک کھڈا دکھائی دیا جس میں بارش کا گندہ پانی کھڑا تھا۔ جس سے جانور وغیرہ بھی پانی پیتے تھے۔بادشاہ اور وزیر سوچنے لگ گئے۔اور پھر انہوں نے یہی پانی پینے کا فیصلہ کر لیا۔ابھی ان کے پاس کوئی برتن بھی نہیں تھا جس سے پانی پیتے۔خیر پھر ان کو جانوروں کی طرح پانی پینا پڑا ۔پہلے وزیر نے پانی پی کر دکھایا پھر بادشاہ نے پانی پیا ۔بادشاہ کو چونکہ پیاس بہت زیادہ لگی ہوئی تھی ۔ایک ہی سانس میں اس نے بہت بڑا گھونٹ بھرا۔جیسے ہی اس نے گھونٹ بھرا سانپ کا چھوٹا سا بچہ پانی کے ساتھ بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔مگر بادشاہ کو پتہ نا چل سکا بادشاہ نے واپس گھر جانے کا فیصلہ کیا ۔اور واپس چل دیئے۔کوئی بیس دن کے بعد بادشاہ کا پیٹ سوجنے لگا۔اور طبیت خراب ہونے لگ گئی ۔دن بدن بادشاہ لاغر ہونے لگا اور پیٹ سوج گیا۔دنیا کا کوئی حکیم اور کوئی طبیب نا چھوڑا مگر بیماری کا کسی کو پتہ ناچل سکا۔آخر کار بادشاہ نےوزیر سے کہا مجھے جنگل میں لے چلو ۔وزیر حکم کے مطابق بادشاہ کو جنگل میں لے گیا ۔جنگل کے اندر ایک گھنے درخت کے نیچے آرام کیا ۔بادشاہ کو کھلی فضا میں سکون ملا اور نیند آ گئی۔وزیر ساتھ میں لیٹاہوا تھا ۔اچانک وزیر کیا دیکھتا ہے ۔کہ جس گھنے درخت کے نیچے سویا ہوا ہے اس کی چوٹی پر ایک خوف ناک شیش ناگ بیٹھا جھوم رہا ہے ۔وزیر ایک دم گھبرا سا گیا مگر سہم گیا کہ بادشاہ کو بڑی مدت کے بعد سکون کی نیند آئی ہے اسے جگانا اچھا نہیں ۔ابھی یہی سوچ کر وزیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو ڈر گیا۔کیا دیکھتا ہے کہ بادشاہ کا منہ کھلا ہوا ہے اور بادشاہ خراٹے بھر رہا ہے ۔اور اس کے منہ سے ایک خوفناک سانپ نکل کر ہوا کی مستی میں جھوم رہا ہے ۔ یہ منظر دیکھ کر وزیر کے تو بس آخری سانس چل رہے تھے جیسے ۔ابھی موت جیسے دونوں کے سروں پر منڈلا رہی تھی۔وزیر ابھی سارا منظر دیکھ رہا ہے بادشاہ کے منہ سے جو سانپ نکلا ہوا تھا ۔اس نے جیسے اوپر دیکھا تو چوٹی پر شیش ناگ سانپ کو دیکھ کر کہا تم ااوپر کیوں کر بیٹھے هو ۔شیش ناگ نے سانپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم بادشاہ کے پیٹ میں کیسے بیٹھے هو ۔باہر نکلو باہر کی آب و ہوا لو ۔ایک چھوٹی سی دنیا میں کیا کر رہے هو ۔اور پھر بادشاھ کی ساری خوراک تم کھا رہے هو ۔بادشاہ کو بھی تم نے عذاب دے رکھا ہے ۔ادھر آؤ کھلے آسمان تلے ۔کھلی فضا میں۔ کھلی بادشاہت میں ۔مجھے دیکھو میں اس درخت کی چوٹی پر اس لیے بیٹھا هوں کہ اس درخت کے نیچے سات بادشاہوں کی دولت دبی ہوئی ہے ۔اور میں اس مستی میں بیٹھا ھوں ۔جو کوئی خزانے کو نکالنےکی کوشش کرتا ہے میں اسے مار دیتا ہوں ۔ تم ایک چھوٹے سے پیٹ میں بادشاہت بنا کر بیٹھے هو ۔ ۔جو بادشاہ کے اندر سانپ تھا اس جواب دیا۔تم رہو کھلی فضا میں مجھے چھوٹی سی دنیا میں بڑی بڑی خوراکیں ملتی ہیں ۔دنیا کی ہر چیز مجھے نصیب ہے ۔اور آج تک میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ شیش ناگ جواب دیتا ہے۔بیٹاتیرا علاج تو بہت آسان ہے اگر کوئی کرنے والا هو تو ۔پنسار کی دکان سے فلاں ۔فلاں دوائی دودھ میں ملا کر بادشاہ کو پلائی جاۓ تو ٹھیک 2 گھنٹے بعد تیرے ٹوٹے ٹوٹے هو جائیں گے ۔اور الٹی کے ساتھ تم باہر هو جاؤ گے ۔اور بادشاہ بھی بیماری سے آزاد هو جاۓ گا ۔۔ شیش ناگ کی یہ بات سن کر بادشاہ کے اندر جو سانپ تھا وہ آگ بھگولا هو گیا ۔اس نے شیش ناگ کو بولا پتر تیرا بھی اگر علاج کرنے والا ہو تو آدھے گھنٹے کے اندر تیرا کام تمام کر سکتا ہے ۔اور جس سات بادشاہوں کی دولت پر قبضہ کر کے بیٹھا ہےنا یہ بھی جاتی رہے گی۔ شیش ناگ بولا وہ کیسے ؟؟؟ سانپ نے جواب دیا اگر کوئی بندہ اس درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا کر آگ لگا دے تو یہ آگ آدھے گھنٹے کے اندر تجھے اپنی لپیٹ میں لے کر تجھے خاک کردے گی ۔اور وہ بندہ سات بادشاہوں کی دولت کا مالک بن جاۓ گا ۔۔ یہ کہ کر سانپ غصے سے بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔ وزیر نے اب دونوں سانپوں کی گفتگو سنی ۔اور اتنے تک بادشاہ بھی جاگ گیا ۔وزیر نے بادشاہ کو اٹھایا اور واپس چل پڑا اور محل میں پہنچ گیا ۔۔ وزیرنے فوری طور پر پنسار سے وہ دوائی منگوائی جو شیش ناگ نے کہی تھی۔ ۔ اور دودھ بھی اکٹھا کر لیا گیا ۔دوائی دودھ میں ملا کر جب بادشاہ کو پلائی گئی تو دو گھنٹے بعد بادشاہ کو الٹی شروع ہو گئی۔اورالٹی کے ساتھ ساتھ سانپ کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے نكلنا شروع ہو گئے ۔۔ اور بل آخر سانپ ٹکرے ٹکرے ہو کر نکل آیا ۔اور بادشاہ بھی سکون میں آ گیا ۔چند روز میں بادشاہ بالکل ٹھیک ہو گیا ۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا تم نے میری جان بچائی ہے اب آدھی بادشاہی تیری ۔ یہ سن کر وزیر نے کہا بادشاہ سلامت مجھے آدھی بادشاہی نہیں چاہئے ۔اللّه پاک آپ کو نصیب کرے۔مجھے آپ اجازت دیں ۔ اور اپنے نوکروں سے کہو۔جنگل میں فلاں درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا دیں ۔ بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہ کر باڑ لگوا دی ۔ وزیر نے بادشاہ سے اجازت لی اور جنگل کی طرف چل پڑا ۔ وزیر نے جا کر باڑ کو آگ لگا دی۔ آگ نے چاروں طرف سے اس درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ۔۔ آگ شیش ناگ تک جا پہنچی۔ شیش ناگ بے بس ہو گیا ۔اور آگ کے اندر گر گیا ۔ اور آخر میں مرتے ہووے شیش ناگ نے ایک جملہ کہا کہ ۔(کاش میں نے اپنی جد کی خیر مانگی ہوتی۔آج تم بھی زندہ ہوتے اور میں بھی )جو لوگ اپنی جد کے دشمن بنتے ہیں ان کو خود نقصان ہوتا ہے ۔اس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔جیسے وزیر نے مزدور لگا کر ساری دولت نکال لی ۔اور بہت بڑا بادشاہ بن گیا۔دونوں سانپ بھی ختم ہو گئے ۔ یہ ہر گھر کی کہانی ہے ۔ہرطرف دوستوں کی کہانی ہے۔جو اکٹھے کھاتے پیتے ہیں ۔اور ھمراز بن جاتے ہیں ۔کچھ دنوں بعددشمن ۔۔۔ اور معزرت کے ساتھ آج کل ہماری صحافی برادری میں یہ بہت پائی جاتی ہے ۔گزشتہ روز سے میں نے آفیشل میڈیا پر ان چیزوں کو زیادہ دیکھا ہے۔پہلے تو چھپ چھپا کر آفیسروں کے ٹاوٹ بن کر اپنے ہی صحافی بھائی کی مخالفت کرنا۔ اب خیر سے فیس بک پر صحافی حضرات ایک دوسرے کے خلاف پوسٹ لگا کر عوام سے کمنٹ حاصل کرنے کے لیے گند گھول رہے ہیں ۔اس بارے کیا خیال ہے ۔ صحافی کو تو عوام نے تو پہلے ہی بلیک میلر کا خطاب دیا ہوا ہے۔کوئی محکمہ اس طرح اپنے ساتھی کے خلاف باتیں نہیں کرتا جتنا صحافی کرتا ہے ۔ ایک صحافی دوسرے کو ڈی گریٹ کرنے کے چکر میں لگا ہوا ہے ۔جس کا رزلٹ یہ ہے کہ کسی محکمہ میں صحافی کو وہ مقام حاصل نہیں جو ہونا چاہئے ۔ اگر آج سے ہی ہم اپنے صحافی بھائیوں کی عزت کرنا شروع کر دیں اور منافقت چھوڑدیں۔اور چینل اور اخبار مالکان ان پڑھ افراد کو نمائندہ بنانا چھوڑ دیں تو بہتری آسکتی ہے۔ہمیں مثبت صحافت کو فروغ دینا ہو گااور اس عظیم پیشہ کی عزت کرنا ہو گی۔


 

کوئی تبصرے نہیں: