Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

بدھ، 29 اپریل، 2020

رانگ نمبر / قرآن مجید کتاب ہدایت۔ /ملک نذر حسین عاصم

رانگ نمبر۔۔۔
قرآن مجید کتاب ہدایت۔
ملک نذر حسین عاصم
0333 5253836
ایک وقت تھا جب یورپ پر کلیسا کے قانون کی حکمرانی تھی بادشاہت بھی اسکے تابع تھی قانون چرچ کا چلتا تھا سزا کے سب قانون پادریوں کے اختیار میں تھے زندہ جلانے یا گلوئین پر سر قلم کرنے کا حکم چرچ سے جاری ہقتا تھا یہ افراتفری کا دور تھا یورپ کا یی تاریک دور بدکاری اور جرائم سے بھرپور تھا پادری اور رہبائیں بھی اس عہدے سے پاک نہ تھے آخرکار اس کا ردعمل ہوا ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے یورپ میں تحریکیں چلیں اور آخر کار پورا یورپ ایک انقلاب کی زد میں آگیا لوگوں نے چرچ کی بالادستی کا جوا اتار پھینکا انہوں نے سماجی اور صنعتی انقلاب کو قبول کیا اور یورپ عہد جدید میں داخل ہوگیا ۔
ہر دور کا یہ ہی دستور ہوتا ہے جب مظالم حد سے گذر جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے چونکہ مظالم زیادہ ہی تھے لہذا ردعمل بھی زیادہ ہی ہوا اور یورپ کے لوگوں نے اس ردعمل کے نتیجے میں زیادہ ہی آزادی حاصل کرلی پاکستان بھی کچھ ایسے ہی حالات سے گذر رہا ہے فرق صرف یہ ہے کہ یہاں مذہب کی بالادستی کا قانون رائج کرنے کیلئے کوشاں ہیں لیکن افسوس کہ ہم نے مذہب کی بالادستی کو خدا،رسول اور اسلام کی بالادستی کی بجائے چند لوگوں کی بالادستی کو اور لکیر کے فقیر ہونے کے اصول کو سمجھ لیا ہے اور یہ بات انتہائی مضرت رساں ہے ہم اسوقت صرف ملک میں آئین کی ضرورت پر بحث کرتے ہیں یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ قرآن کریم کتاب اللہ ہے اسلام کے تمام قوانین قرآن مجید سے ماخوذ ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے کتاب قانون نہیں، خود اللہ تعالی نے فرمادیا ہے کہ یہ کتاب ہدایت ہے اور اس میں متقیوں کیلئے راہ ہدایت ہے تو معلوم ہوا کہ وہ ہی لوگ اس کتاب سے اللہ کے قوانین کی روح کو سمجھ سکتے ہیں جن کو خدائے پاک نے ایک خاص قسم کا شعور بخشا ہے اور جو نرے لکیر کے فقیر نہیں ہیں اب قانون کی ایک خاص بات کو سمجھ لیجئے کہ قانون انسان کیلئے بنا ہے اندان قانون کیلئے نہیں بنا ہے ورنہ اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔یہ عملی طورپر نافذ ہی نہیں ہوسکتا۔اگر آئین قرآن کریم کی رو سے بننے کی شرط ہوتی تو قائداعظم کے جیتے جی اس کام کی تکمیل ایک آن ہی میں ممکن تھی یعنی قرآن کریم جو کتاب ہدایت ہے اور جسے اللہ پاک نے باربار کتاب ہدایت کہاہے یہ ہی کتاب قانون بنادی جاتی اور ہمیں کسی آئین کی ضرورت نہ ہوتی اس معاشرے کو ایک ایسا لکھا ہوا مجموعہ قوانین چاہیئے جسے ایک متفقہ معاشرے کی مروجہ صورتحال کو سامنے رکھ کر بنائے اور عدالتیں اسکی تشریح جب ضرورت ہو کرتی رہیں۔ عدالت جب مقننہ کے بنائے ہوئے قانون کی تشریح کرتی ہے تو وہ بنانے والے کے نقطۂ نظر کو دیکھتی ہے اور ان مقاصد کو مدنظر رکھ کر وہ اسکو جاری کرتی ہیں اور مقصد کے مطابق ہی اس کا نفاذ ہوتا ہے اب اگر ہم یہ کہہ دیں کہ قانون میں قرآن مجید مکمل ہے تو ان قوانین کی تشریح عدالتیں کریں گی اور قانون بنانے والے نے یہ قانون کیوں بنایا اسکی وضاحت اسلئے مشکل ہو جائے گی کہ بنانے والا خود خدا ہے جو دانائے راز اور مالک کائنات ہے اور اسکے کوئ قواعد بغیر معنی کے نہیں خدا نے چونکہ اپنے قوانین تمام زمانوں کیلئے بنائے ہیں لہذا اس نے صرف اساسی قوانین بیان کردیئے ہیں اور انکی تشریح نہیں کی ہے تاکہ سماجیات کے بدلنے کے ساتھ اور مختلف قوموں میں اسلام پھیلنے کے ساتھ جغرافیائی و زمانی تبدیلیوں کے ساتھ انسان ان کو بنیاد بنا کر تبدیلیاں کرتا جائے اب ہر معاشرے کے حالات اور مطالبات مختلف ہیں برطانیی کا آئین لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ جو دستور انکے ہاں صدیوں سے رائج ہے وہی اب ان کا آئین ہے چونکہ آئین انسان کیلئے ہے انسان آئین کیلئے نہیں ہے اسلئے آئین میں ترمیم رکھی گئ ہے کیونکہ معاشرے اور اس کی ضروریات بدلتی رہتی ہیں آئین میں ترمیم کی گنجائش رکھنے سے آئین میں معنی پیدا ہوجاتے ہیں اور حالات کے مطابق یہ پر اثر ہوجاتا ہے اسلئے کہتے ہیں کہ آئین کو قابل شکست نہ بناؤ تاکہ اس میں حسب ضرورت ترمیم کی گنجائش رہے اور وہ لوگوں کے مطالبے پورا کرتا رہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا قانون قرآن کے قانون کے مطابق ہو تو ایسا کرنے کے بعد ظاہر ہے کہ اس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوگی اور جب بدلتے ہوئے سماجی تقاضوں پر پورا نہیں اترے گا تو لوگ اس آئین سے انحراف کریں گے اسطرح لوگوں کا ایمان جاتا رہے گا اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے آپ قوانین بنائیے اور پھر قرآن کریم میں اسکی روح کو ڈھونڈیئے قرآن مجید چونکہ کتاب ہدایت ہے اسلئے اسکی روح معاشرے کو فلاح کیطرف لے جائے گی ۔

کوئی تبصرے نہیں: