Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

پیر، 15 جنوری، 2018

صحافت

صحافی کی بیوی
ہائے رے قسمت۔ میرا ہی رشتہ صحافی کے ساتھ جڑنا تھا، معقول شکل کے ایم ایس سی ابلاغیات پاس صحافی کا رشتہ آیا تو ہم کافی خوش ہوئے تھے کہ چلو سہلیوں میں شو ماریں گے ہمارا شوہر ٹی وی پر آتا ہےاور ویسے بھی آجکل ان ٹی وی یا فلم کے ہیروز کو کون دیکھتا ہے آج کل تو سکرین پر صرف صحافی حضرات اور اینکرز صاحبان کا راج ہے۔خواب انکھوں میں سجائے جب ہم ان کے گھر پہنچے تو منہ دیکھائی میں انہوں نے چند کتابیں ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ صحافی کی بیگم کو بھی حالات حاضرہ سے واقف ہونا چاہیے۔

ہم جو سونے کےسیٹ کی آس لگائے بیٹھے تھے، خون کا گھونٹ پی کر رہ گے اور دل کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں دل کے ارمان ہنی مون پر نکالیں گےلیکن صبح کے چار بجے اچانک ایک بھیانک رنگ ٹون نے ہماری چیخ ہی نکال دی اور ہمارے شوہر نامدار خفیہ انداز میں باتیں کرنے لگے۔

ہماری حیرانگی کو دیکھتے ہوئے اس موئے فون والے کو ہولڈ کروا کے کہنے لگے۔بیگم آپ سو جائیں میں سورس سے بات کر رہا ہوں۔خیر ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ اب کی بار ان کی چیخ نے تو ہمارے اوسان ہی خطا کر دئیے، بیگم اٹھیں بریکنگ نیوز!!

ہم نے کہا اللہ خیر۔کہیں زلزلہ آگیا ہے؟ وہ کہنے لگے سورس نے ایسی سٹوری دی ہے کہ حکومت ہل کر رہ جائےگی۔ہمیں فورا حکم دیا کہ ناشتہ بنائیں اور خود تیار ہونے میں مصروف ہوگئے ہم اپنے حنائی ہاتھوں کے ساتھ ان کے لیے ناشتہ بنا کر لائے تو میاں جی کسی کراچی اسٹاک ایکسچینج کے اسٹاک بروکر کی طرح تین فون کانوں کو لگائے بیٹھے تھے اور اسی حال میں ناشتہ زہر مار کرکے یہ جا وہ جا!!

ہم ششدر ہی رہ گے کہ ہماری تعریف تو درکنار ناشتے کی بھی تعریف نہ کی۔ ہمیں اسی وقت یہ پتا چل گیا کہ اس گھر میں آج سے ہی ڈیوٹی شروع۔میاں تو آفس جاکر ہمیں ایسا بھولےجیسے واپڈا لوڈشیڈنگ کے بعد عوام کو،جب ہم نے ان سے بات کرنا چاہی تو فون مصروف۔۔۔۔۔ جب خدا خدا کر کے ہماری باری آئی تو یہ کہ کر فون پٹخ دیا کہ بیگم سورس کے ساتھ میٹنگ میں ہوں۔سورس نہ ہوا بخت ماری میری سوکن ہوگئی!!۔

صبح چھ بجے کے گئے ہوئے، ان کا دیدار رات کے نو بجے خبرنامے میں ہوا تو دل کو تسلی ہوئی کہ چلو اب تو کچھ دیر کی بات ہے، شوہر نامدار گھر تشریف لے آئیں گے۔اسی خیال سے ہم نے فوراً میز پر کھانا لگا دیا کہ بس ابھی آتے ہی ہوں گے اور کھانے کے بعد کہیں باہر چلیں گے کیونکہ صبح سے اکیلے بیٹھے بیٹھے اب گھر سر پہ گرتا محسوس ہو رہا تھا۔ہم سجے سنورے انتظار کرتے رہے اور موصوف دوستوں کی محفل سے رات ایک بجے گھر آئے۔

ہم جو نیم وا آنکھوں کے ساتھ کھانے پر ان کے منتظر تھے۔ ہمارے دل پہ یہ کچوکہ لگا کر سونے چل دیے کہ میں تو کھانا کھاکر آیا ہوں۔یوں شادی کا پہلے ہی دن ہماری آئندہ زندگی کو ہمارے سامنے عیاں کر گیا۔ہمیں شادی پہ جانا ہو تو موصوف کی شام کی ڈیوٹی،ہمیں شاپنگ کرنی ہو تو ان کا آفیشل ڈنر،ہم نے باہر کھانے کی فرمائش کی تو جناب کی کوریج پہ ڈیوٹی،مووی دیکھنے کا پلان ہوتو جناب کا نوبجے کے بلیٹن میں وڈیو بیپر، رات کو نیند پوری کرنی ہو توتمام پاکستان کےبیوروز سےفونز﴿ خود تو یہ رات کو کالزکرنے والے زیادہ ترطلاق یافتہ ہیں ہماری بھی کروانا چاہتے ہیں منحوس﴾اور فونوں کالاتعداد سلسلہ اس وقت تھمتا ہےجب یہ موصوف (میرے میاں اور کون) اگلی صبح دفتر کے لیئے نکل جاتے ہیں۔بیڈ روم میں فون،کھانے کے کمرے میں فون اورتواورباتھ روم میں بھی فون۔اف

لیکن پھر بھی دل کو تسلی تھی کہ گدھوں کی طرح کام کرتے ہیں تو اگلے مہینے کی پہلی کو موٹی رقم میرے ہاتھ پر رکھیں گے لیکن حواسوں پر بم اس وقت گرا جب یہ بولےکہ بیگم ہمارے چینل کی تنخواہیں تین ماہ کی تاخیر سے آتی ہیں تو بار بار پیسے مانگ کرشرمندہ نہ کرنا بس یہ بات تو ہم دل پر لےگئے اور ایک سو دو بخار چڑھا بیٹھے۔

ہماری یہ حالت دیکھ کر صحافی میاں کے اندر کا انسان پہلی بار جاگا اور موصوف پورے ایک دن کی چھٹی لے آئے صرف ہماری تیماداری کے لیئے۔خیرتیماداری کیاکرنی تھی وہاں بھی موبائل کی گھنٹیاں،چائے ،سگریٹ ،اخباریں اونچی آواز میں ملکی حالات پر تبصرے۔ہم سے تو ہوگئی غلطی آپ خدارا کسی صحافی سے شادی مت کیجیئے گا۔

ایک عورت کی کہانی
چاند سونا کی زبانی

کوئی تبصرے نہیں: