Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

ہفتہ، 16 مئی، 2020

علمائے حق تلہ گنگ کی محنتوں کا ثمر۔ ۔عمران سرورجبی

علمائے حق تلہ گنگ کی محنتوں کا ثمر
عمران سرور جبی ّ
تلہ گنگ وہ زرخیز دھرتی ہے جس نے ملک وقوم کے ساتھ ساتھ دین اسلام کے لیے بھی گوہر نایاب پیدا کیے ہیں۔یہ دھرتی صرف غازیوں اور شہیدوں کی ہی نہیں،بلکہ اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے تحفظ ناموس صحابہؓو اہل بیت عظامؓ کے لیے اپنا فرزند پیدا کیا جس کی للکار آج ایوانوں میں گونج رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اللہ جسے چاہے اپنے دین،اپنے نبیﷺ،ان کے صحابہؓو اہل بیت عظامؓ کے لیے چن لیتا ہے۔یہ بات قابل زکر ہے کہ تلہ گنگ سیاست کے میدان میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے،وڈیرے،جاگیرداراورموروثی سیاست کم از کم تین دہائی تک ہم پہ مسلط رہے۔پھر تلہ گنگ سیاست نے کروٹ لی اور اک ایسا نام سامنے آگیا جو نہ سیاسی پس منظر رکھتا تھا نہ ہی اس کے پاس آکسفورڈ کی ڈگری تھی۔عام سا مدرسے میں حفظ کر کے عام سے سکولوں میں پڑھنے والا،جس کی ڈگریوں کا سن کر بے وقوف لوگ ہنستے بھی تھے،یہ ہی علمائے دین کی محنتوں کا ثمر حافط عمار یاسر صوبائی وزیر معدنیات اور اپنے علاقے کے مظلوموں کی آواز بن کر اقتدار کے ایوانوں میں جا پہنچا۔طنز کیے جاتے کہ مدرسے کا طالب کیا نمائیندہ بنے گا!کہنے والے شاید پاکستان کی تاریخ میں مفتی محمود جیسے عالم اور مدرسے والے کو بھول گئے تھے اور یہ بھی کہ ان کی قومی اور خانگی تاریخ مدرسے کے بنا نامکمل ہے۔کہنے والے اک نقطہ اور بھی بھول رہے تھے کہ مدرسے کے اس طالب علم کی زندگی میں نکھار لانے میں فاضل علماء کا ہاتھ ہے اور اللہ اسے اپنے دین کی سربلندیوں کے لیے چن چکا ہے۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ فرزند تلہ گنگ،فرزند اسلام بن کر پنجاب اسمبلی کے فلور پہ تحفظ ناموس صحابہ کرام ؓ و اہل بیت ؓ کے لیے بولتا ہے تو کفریہ عقائد پہ لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔اس مرد مجاہد کی پہلی انٹری ہی ایوان میں قرار دار کے ساتھ ہوئی جو یقینا سانحہ دوالمیال کے قادیانی طبقے کے کرتوتوں کے نتیجے پہ ان کے منہ پہ زوردار تھپڑ کی صورت پڑی اور ابلیسی ٹولے نے جان لیا کہ اب ہمارے سامنے واقعی ”محمدی ﷺ“آگئے ہیں.اس سے پہلے بھی جب کبھی تلہ گنگ میں کوئی مسئلہ ہوا،کہیں انسانیت کو ضرورت پڑی،اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی حافظ عمار یاسر نے ہی اپنے علاقے کے لوگوں کی بانہہ پکڑی،وہ حادثات ہوں،وبائی صورتحال ہو یا پھر دینی مشکلات۔۔حال ہی میں کرونا وائرس کی صورت میں آزمائش آگئی تو اس مشکل وقت میں بھی طاغوتی قوتوں نے مذموم مقاصد کے لیے پہلا وار ہی تبلیغی جماعت پہ کیا۔راہ حق کے  معصوم،پیغمبروں کے جانشین مبلغ اور دین حق کے علمبردار وں کو بری طرح زلیل کرنے کے لیے ان کی تشکیل کردہ جگہ سے انہیں اک جگہ پہ پابند کردیا جاتا ہے،جیسے قید کردیا گیا ہو۔اس وقت تمام بڑے بڑے ڈگری ہولڈرز،کاپی پیسٹ سیاسی چپ رہے لیکن اس وقت مدرسے کا اصل وارث حافظ عمار یاسر اٹھتا ہے،اپنے دینی بزرگوں کی ڈھال بنتا اور انہیں باعزت طریقے سے بہ حفاظت گھر پہنچاتا ہے۔اسی دوران وفاقی وزیر فواد چوہدری علمائے حق کے خلاف توہین امیز گفتگو کرتاہے تو تلہ گنگ کی غیرت حافظ عمار یاسر کی صورت جوش میں آکر للکارتی ہے کہ خبردار علمائے حق کی تذلیل کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔یہ للکار عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔
مملکت خداداد پاکستان کے نام سے واضع ہے کہ یہ ملک،اسلام کا قلعہ ہے جہاں مسلمان آزادی سے اپنے رب کے آگے سر بسجود ہوتے ہیں۔ہم اسی ملک کو مضبوط اور عوامی فلاح کے لیے اپنے نمائیندے چنتے ہیں لیکن ہماری بنیاد ہمارا مذہب ہے اور اسلام کی سربلندی و تحفظ ہی ہمارااولین مقصد حیات ہونا چاہیے،ہمارے منتخب نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے لیے آگے بڑھیں۔الحمدللہ!تلہ گنگ سے نمائندگی کا حق حافظ عمار یاسر بخوبی نبھا رہے ہیں۔مجھے یہ لکھنے میں عار نہیں بلکہ فخر ہے کہ یہ سب محنت اساتذہ و علمائے تلہ گنگ کی ہے کہ ان کی تربیت کا ثمر آج ہم سب کے سامنے ہے۔مدرسے کی تعلیم کا اثر حافظ عمار یاسر کی زندگی میں ان کے عجز و انکسار سے جھلکتا ہے۔علمائے حق تلہ گنگ کو فخر ہونا چاہیے کہ آج جب باطل قوتیں پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے خلاف نبرد آزما ہیں،ان کا ہونہار شاگرد اپنے اساتذہ کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے دین اسلام کی سربلندی کے لیے کوشاں ہے،اپنے علماء کو تحفظ دے رہا ہے،انکی شان میں گستاخی کرنے والے حکومتی حصہ بنے سیاستدانوں کو للکار رہا ہے۔تلہ گنگ کے اساتذہ دین کے لیے باعث فخر ہے۔شاگرد ہمیشہ شاگرد ہوتا ہے،استاد جب اپنے کسی شاگرد کو پروان چڑھتا دیکھتا ہے تو  فخر سے اس کی چھاتی چوڑی ہو جاتی ہے۔ دنیا لاکھ کہے،اس میں شک نہیں کہ آج جو کچھ بھی حافظ عمار یاسر کی صورت میں ملک و قوم کو ثمر مل رہا ہے،یہ سب علماء،اساتذہ اور بالخصوص تلہ گنگ کے علماء کا ہی کرشمہ ہے۔یہاں ایک بات اور بھی کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ علماء کو حافظ عمار یاسر پہ اپنا دست شفقت رکھے رکھنا چاہیے،یہ ایک ہیرا ہے جس کی تراش خراش علماء نے کی ہے اور اس ہیرے کی روشنی کے پہلے حقدار بھی علمائے حق ہیں تا کہ ان کے اسلامی پوائنٹس قتدار تک پہنچتے رہیں۔دیکھا جائے تو یہ تبلیغ اقتدار تک جا پہنچی ہے۔تلہ گنگ دھرتی کا یہ فرزند علماء ے حق کی محنت کا شاخسانہ ہے۔قابل زکر بات یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں ہر قسم کی سیاسی شخصیات موجود ہیں،جن میں سرفہرست موروثی سیاست ہے لیکن آج تک کسی سیاسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ علماء کے لیے بولے،مسلکی بحث ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کرے،دنیا کی معصوم لیکن سب سے مضبوط تبلیغی جماعت کے لیے آواز بلند کرے۔شہیدوں اور غازیوں کے لیے کوئی للکارے،کسی سیاسی نے آج تک سوائے فاتحہ،جنازے،گلی محلے اور تھانے کی سیاست سے ہٹ کر کوئی بامقصد کام کیا ہے تو سامنے لایا جائے۔کسی سیاسی شخصیت نے کسی حادثاتی یا وبائی صورتحال میں اپنی نیند قربان نہیں کی۔فوٹو سیشن کے بعد تم کون ہم کون کی سیاسی جنگ کے پیرو کار لوگ بھلا عام آدمی کی زہنی و مسلکی جنگ کیا جا ن سکتے!اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ سارے اعزازات اک مدرسے کے طالب علم نے سمیٹ لیے۔اس وقت پورے حلقے کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے دل حافظ عمار یاسر کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔علماء کو چاہیے کہ اپنے اختلافات بھلا کر اس شخص کے ساتھ کھڑے ہوں جسے اللہ نے امت مسلمہ کی وکالت کے لیے چن لیا ہے،یہ شخص اپنی زات میں اک ایسا گوہر ہے جسے صرف علماء ہی سمجھ سکتے،پہچان سکتے اور ساتھ کھڑے ہوکر تراش خراش کر سکتے ہیں۔ یقین کیجیے یہ وقت اللہ نے علماء کی جیت بنا دینا ہے۔حافظ عمار یاسر کچھ بھی نہیں لیکن اس کا امت مسلمہ کی خاطر،اسلاف امت کی خاطر ناموس رسالتﷺ کی خاطر اٹھی للکار اسے ہم تمام مسلمانوں کا ہیرو بناتی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اے مالک کل کائنات! فرزند تلہ گنگ کی عمر،صحت میں برکت دے،ان کی حفاظت فرمائیں،یااللہ!اک عرصے بعد ہمیں اک عالم لیڈر ملا ہے،اس کے سنگ ہمیں بھی آقائے دو جہاں ﷺ کے خدمتگاروں میں شامل کردے۔ہمارے قلم،ہمارے ہاتھ ہر اس شخص کے لیے ہوں جو ناموس رسالت ﷺو ناموس اصحاب رسول ؓ کی خاطر اٹھے۔یا اللہ!ہمارے علاقے میں آئے اس مدرسے والے اور تمام علماء کی حفاظت فرما۔آمین۔علماء حضرات سے دلی درخواست ہے کہ وہ بھی حافظ عمار یاسر کے اس مشن میں ان کے ساتھ کندھا ملا کے کھڑے ہوں،شاید یہ ہی ہمارے لیے نجات کا زریعہ بن جائے۔سچی بات ہے کندھا وہی ملائے گا جو ناموس رسالت ﷺ کا پروانہ ہو گا ورنہ جنہیں ناموس کی پرواہ نہیں،انہیں جنت و دوزخ سے کیا لینا دینا!

Show quoted text

کوئی تبصرے نہیں: