Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

منگل، 24 اکتوبر، 2023

نام محسن امین خان نورزئی، قلمی نام محسن دوست ، تخلص دوست کرتے ہیں۔ آپ کا تعلق نوابوں کے شہر بہاولپور سے

 تحریر /آمنہ ورد 

اصل نام محسن امین خان نورزئی، قلمی نام محسن دوست ،  تخلص دوست کرتے ہیں۔ آپ کا تعلق نوابوں کے شہر بہاولپور سے ہے۔  حال ہی میں نجی یونیورسٹی سے ایم فل اردو کی ڈگری حاصل کی ہے اور محسن دوست درس و تدریس سے وابستہ ہیں ۔

بہاولپور ادبی لحاظ سے بہت زرخیز خطہ ہے جہاں بہت سے نامور شعراء جن میں ظہور نذر،آل احمد ، سید تابش الوری ، سید قاسم جلال ، ڈاکٹر جاوید اقبال ،ذیشان اطہر اور اظہر فراغ کے نام نمایاں ہیں ۔ محسن دوست بھی ان شعراء میں سے ایک ہیں ۔ محسن دوست کا شعری مجموعہ ”مجھے پانی پہ لکھنا آگیاہے“ یہ  ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو کہ جنوری 2022 کو شائع ہوا ہے۔ محسن دوست نے اپنے اس شعری مجموعے میں غزل کے موضوعات میں وسعت پیدا کی ہے ۔ محسن دوست ماضی پر پچھتاوے اور مستقبل کی فکر کو پس پشت ڈالتے ہوۓ حال کو مدنظر رکھتے ہیں، ان کی شاعری اس بات کی عکاسی کرتی ہے۔ آپ نے معاشرتی براٸیوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ محسن دوست حسن سے متاثر ہوتے ہیں جوکہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ احساس محبت ، شدت اور حلاوت سے لبریز ان کی شاعری کہیں کہیں مزاحمت بھی اختیار کرتی ہے۔ ولی کی طرح کہیں حسن پرستی اور کہیں غالب کی طرح محبوب سے مجادلہ بھی کرتے نظرآتے ہیں۔      انھوں نے اشعار میں سادہ تشبیہات و استعارات کا استعمال کر کے اپنے کلام کو فن و فکر کے اعتبار سے بلند کیا ہے ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیۓ ۔


لوگ تکتے ہیں اس کو حیرت سے

پھول  اس کا طواف کرتے    ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔

آنکھ سے چلتی ہے ایسی چال وہ 

کون بازی  جیتے اس چالاک سے


آ پ کی شاعری سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے جس میں آپ نے سادہ اشعار کا مرقع پیش کیا ہے۔ مشکل تراکیب سے اجتناب اور خوبصورت خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔ ایک عام قاری بھی ان خیالات کو سمجھ کر لطف اندوز ہوسکتا ہے ۔ سادگی کی مثال جیسے میر تقی میر کی شاعری میں ملتی ہے  ،میسن دوست کی شاعری میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں ۔شعر دیکھیے ۔


چھوڑ دو اب غرور مان بھی لو

عقل  کا  ہے فتور  مان  بھی  لو


اتنی  ضد بھی بھلی نہیں ہوتی

یار  اپنا  قصور  مان  بھی   لو 


 اس کے علاوہ محاورات کا برمحل استعمال اور مختلف اصناف اپنے کلام میں برتنے کا سلیقہ بھی محسن دوست بخوبی جانتے ہیں۔ صنعت تضاد کا استعمال ان کی شاعری میں بڑے عمدہ اور نہایت منفرد انداز میں کیا گیا ہے۔


یہ پہلے طے ہواہے کون جیتے ، کون ہارے گا 

دکھاوے کے لٸے سکے سے کرنا ٹاس ہے باقی  


 فکری اور فنی حوالے سے ان کی شاعری ان کی شاعرانہ مہارت کا واضح ثبوت ہے۔ جذبات اور خیالات کا اظہار عوامی زبان کے ذریعے کیا ہے۔زیادہ مشکل الفاظ کے استعمال سے اجتناب کرتے ہیں ۔ محبت اور عشق جوکہ غزل کا نمایاں موضوع ہےاس میں انھوں نے کٸی نٸے موضوعات کا اضافہ کیا ہے اور معاشرے کے مساٸل کو بھی سامنے رکھا ہے ان کا ایک شعر دیکھیے۔                                                    بدن میں بھوک ہےباقی ،لبوں پر پیاس ہے ، باقی                          

کٸی عشروں سے میرے ملک میں  افلاس ہے باقی     

                                    

 مقصدیت، رومانیت اور سادگی کی بدولت وہ اپنے دور کے دیگر شعرا میں منفرد مقام رکھتے ہیں ”مجھے پانی پہ لکھنا آگیا ہے“ میں فکر اور فن کی تمام خوبیاں موجود ہیں ۔


مجموعی طور پر جاٸزہ لیا جاۓ تو محسن دوست کی غزلیں مختلف موضوعات سے سجے ہوۓ اس مینار کی طرح ہیں جسے دور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ فن وفکر سے مزین کلام اردو ادب میں اپنی منفرد خوشبو رکھتا ہے ، اور اہل ذوق اس سے تازگی محسوس کرتے ہیں۔

انھوں نے حمد و نعت کے اشعار بڑی خوبصورتی سے اپنی غزلوں میں جوڑے ہیں۔ زندگی کی تلخیوں اور مشکلات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا ہے ۔ لیکن رومانیت جو غزل کا خاصہ ہے وہ بھی جابجا نظر آتی ہے۔ 


شعر میرے وہ گنگنا رہی تھی 

سر مری گود میں رکھا ہوا تھا


قوی امکان ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب محسن دوست  کا شمار اردو ادب کے معتبر شعراء میں شمار ہو گا۔


سادگی اور اختصار شاعری میں بہت مشکل سے آتا ہے۔ لیکن محسن دوست نے یہ کام آسانی سے کر دکھایا۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہنا بےجا نہ ہو گا کہ محسن دوست شاعری کے اسرار و رموز سے واقف ایک پختہ کار اور منجھے ہوئے شاعر ہیں۔ کیونکہ ان کی کتاب میں سے جو غزل ، شعر اٹھا کر دیکھیں وہ مکمل شعری رموز اور شاعری کے معیار کی عین عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔


اتنی اردو تو جانتے ہیں ہم 

شعر کے پیچ و خم سمجھتے ہیں۔


دعا گو ہوں کہ محسن دوست شاعری کی بلندیوں کو چھونے کے ساتھ ساتھ عہد حاضر کے شعراء میں اپنا ایک خاص مقام قائم و دائم رکھیں۔


تحریر ۔ آمنہ ورد

کوئی تبصرے نہیں: