Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

جمعرات، 29 دسمبر، 2022

فہیم احمد خان کے بہنوئی مشہور و معروف سینئر صحافی اظہار احمد خان کی اچانک وفات پر زندگی کے ہر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے احباب و اہم سیاسی ، سماجی و کاروباری شخصیات نے فہیم احمد خان سے ملاقات کرکے اظہار تعزیت کیا


بھکر ( ظفر اعوان ) بھکر کے معروف سیاسی ، سماجی و کاروباری شخصیت آرگنائزر جنوبی پنجاب پاکستان مسلم لیگ ن ینگ ورکرز پاکستان ، نائب صدر جنوبی پنجاب پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن پاکستان و ضلعی صدر کیمسٹ ایسوسی ایشن ضلع بھکر فہیم احمد خان کے بہنوئی مشہور و معروف سینئر صحافی اظہار احمد خان کی اچانک وفات پر زندگی کے ہر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے احباب و اہم سیاسی ، سماجی و کاروباری شخصیات نے فہیم احمد خان سے ملاقات کرکے اظہار تعزیت کیا اور مرحوم کیلئے مغفرت اور پسماندگان کیلئے صبر جمیل کی دعا کی۔
یاد رہے سینئر اور تجربہ کار صحافی اظہار احمد خان دو ماہ پہلے بھکر سے اپنے آبائی ضلع ملتان شفٹ ہوئے تھے جہاں وہ اپنی بیٹی کی تعلیم اور بیوی کے علاج کے لئے ٹھہرے ہوئے تھے، اظہار احمد خان ایک خالص پیشہ ور صحافی تھے جنہوں نے اُردو جرنلزم سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور پھر اس سلسلے میں انہوں نے ملک کے بیشتر اخبارات و مقامی اخبارات میں خدمات انجام دیں اور خطاط کے طور پر بھی مختلف پرائیویٹ سکولز میں خدمات سرانجام دیں ، ان کی تحریر پختہ، رائے بہت صائب ہوتی تھی، مرحوم نے صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے بھی خدمات سرانجام دیں اور فعال کردار ادا کیا، وہ مقامی اخبارات میں مختلف عہدوں پر بھی کام کرتے رہے ۔ انہوں نے مستقل تقریبا 25 سال بھکر میں قیام کیا۔ جہاں صحافتی برادری میں مقبول تھے شوگر کے عارضہ میں مبتلا تھے اور اچانک معدہ کے السر کی وجہ سے خون کی الٹی کے سبب قضائے الہی سے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب وفات پائی، ان کی وفات پر ضلع بھکر کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے فہیم احمد خان سے ملاقات کرکے گہرے رنج اور افسوس کا اظہار کیا ، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

بدھ، 28 دسمبر، 2022

مولاناعبدالستار خان انیازی


 مولانا عبدالستار خاں نیازی یکم اکتوبر 1915ء کو عیسیٰ خیل کی تحصیل کے ایک گاؤں 

"اٹک پٹالہ "میں پیدا ہوئے ۔ 

ان کا شجرہ، شیرشاہ سوری کی افواج کے کمانڈر انچیف عیسیٰ خاں نیازی سے جا ملتا ہے ۔

ان کے والدین بچپن ہی میں فوت ہوگئے ۔ 

مولانا نیازی کی تربیت و پرورش ان کے نانا صوفی محمد خاں اور تایا محمد ابراہیم خان نے کی ۔ میٹرک تک تعلیم عیسیٰ خیل سے حاصل کی اور وظیفہ لیا ۔ 

میٹرک کے بعد آپ نے لاہور کا رخ کیا اور یہا ں اشاعت اسلام کالج میں داخلہ لے لیا ۔ 

یہ کالج علامہ اقبال کا "برین چائلڈ" تھا جس کا مقصد ایسے مبلغین اسلام کی تیاری تھا جو جدید تقاضوں سے آگاہ ہوں اور نئی نسل سے جدید علم الکلام میں بات کرسکیں۔ 

قرآن،حدیث، سیرت النبیؐ، فقہ، تاریخ اسلام اور مختلف  مذاہب کے تقابلی مطالعے پر مبنی اس کا نصاب بھی علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال کا مرتب کردہ تھا۔ 

سیاسیا ت ، عربی اور فارسی میں  تین ماسٹر ڈگریاں حاصل کرنے والے مولانا نیازی  اشاعت اسلام کالج سے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے دستخطوں کی حامل "ماہر تبلیغ " کی اس سند پر زیادہ فخر کیا کرتے تھے ۔ 

جو 1935ء میں انہیں امتحان میں کامیابی حاصل کرنے پر حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنے ہاتھوں سے عطا کی تھی ۔ 

بعد ازاں  1936ء میں مولانا نیازی نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا ، 

خوش قسمتی سے وہاں ان کی ملاقات حمید نظامی ، میاں محمد شفیع (م ش) اور ابراہیم علی چشتی جیسے ذہین طلبہ سے ہوئی۔ 

یہ تینوں طلبہ ملی سوچ کے حامل انسان تھے۔ انہی طلبہ نے مسلم سٹوڈ نٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی ۔ 

1938ء میں مولانا نیازی مسلم سٹوڈنٹس کے تیسرے صدر منتخب ہوئے ۔

اسی سال مولانا نیازی نے ایم اے عربی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ 

1939ء میں قائداعظم محمد علی جناح سے دہلی میں ملاقات کرکے" خلافت پاکستان " کی تجویز پیش کی، جس پر قائداعظم  نے فرمایا 

"تمہاری سکیم بہت گرما گرم اور پرجوش ہے۔" 

تو مولانا نیازی نے برجستہ جواب دیا 

"کیونکہ یہ سکیم ایک پرجوش دل سے نکلی ہے۔" 

ایک موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے مولانا نیازی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا 

"نیازی  جیسے نوجوان میرے ساتھ ہیں تو پاکستان کے قیام کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔" 1946ء کے عام انتخابات میں قائداعظم نے مولانا نیازی  کو مسلم لیگ کا ٹکٹ دیا ۔ 

مولانا نیازی بھاری اکثریت سے جیتے ۔

1953ء میں تحریک ختم نبوت ﷺچلی تو مولانا نیازی کو گرفتار کرلیا گیا۔ 

فوجی حکومت نے بغاوت اور قتل کیس میں سزائے موت سنا دی ۔ 

مولانا نیازی کو موت کی سزا کے فیصلے پر دستخط کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے کرنل کو للکار کر کہا جب میں پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے میں ڈالوں گا تو یہ میرے دستخط ہی تصور ہونگے۔ 

اس مقدمے کی سماعت کے دوران جب فائل فوجی عدالت کے سامنے پیش کی گئی تو فو جی افسر نے کہا 

"آپ 1947ء سے پہلے بھی خطرناک ایجی ٹیٹر تھے ۔ 

مولانا نیازی نے جواب دیا اگر ہم ایجی ٹیٹر کا جرم انگریزوں کے خلاف نہ کرتے تو آج تم اس کرسی پر نہ بیٹھے ہوتے۔ 

اس کے بعد مولانا نیازی  کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔

"بعدا زاں مزید تخفیف کے بعد سزا صرف تین سال رہ گئی ۔

ایوب خان کے مارشل لاء  دور میں بھی مولانا نیازی  کا جیل میں آنا جانا لگا رہا۔ 

پھر جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، ایوب خاں کے خلاف صدارتی الیکشن کے میدان میں اتریں تو مولانا نیازی ان کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔ میانوالی میں مادر ملت کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نیازی نے کہا ہم اس شخص (گورنر کالا باغ ) کو جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے ۔ نوازشریف کے دور اقتدار میں بھی حلیف ہونے کے باوجود آپ نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیاتھا کہ اگر ملک سے سودی نظام معیشت کا خاتمہ نہ کیا تو میرا ڈنڈا تم پر لہرائے گا۔

آپ  نے اتحاد بین المسلمین کے لیے اپنے دور وزارت میں جو سفارشات مرتب کیں وہ آج تک تمام مکاتب فکر میں مقبولیت کا درجہ رکھتی ہیں ۔

آپ دو مرتبہ قومی اسمبلی اور ایک مرتبہ سینٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے ۔ 

عمر کا بڑا کا حصہ جیل میں گزارا۔ 

تحریک ختم نبوتﷺ کے دوران آٹھ دن اور سات راتیں پھانسی کی کوٹھڑی میں گزاریں ۔ 

مولانا نیازی  نے 86 سال عمر پائی ۔ 

نصف صدی سے زائد عرصہ تک سیاست میں سرگرم رہے ۔  

2 مئی 2001ء بروز بدھ نماز فجر ادا کرنے کے فوراً بعد حرکت قلب بند ہونے سے انتقال فرما گئے۔ 

اللّٰه تعالیٰ ان کی مرقد پر رحمتیں نازل فرمائے ۔آمین یا ارحم الراحمین


نوشین رانا کی آوازمنشیات کے خلاف

 *قدم قدم پر میرا مددگار ہے خدا...♥*

*وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ..*

 *نوشین رانا کی آوازمنشیات کے خلاف*

Respected DC pakpattan hareef

Respected DPO Pakpattan shareef

اک نظر پاکپتن کے گلی کوچوں میں بھی ڈالیں منشیات فروشوں نے پاکپتن شریف میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں۔۔انکے مضبوط پنجوں کو اکھاڑنا جناب ڈسٹرکٹ آفیسرکی ذمہ داری ہے بچے دن کو بھیک مانگتے ہیں رات نشہ کرنےمنشیات فروشوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔گھروں کے گھر تباہ ہوگئےاس زہر سے۔نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے اور پاکپتن میں جس نے بھی منشیات فروشوں کےخلاف آواز اٹھائی اسکی زبان بندکردی جاتی ہے جو بھی آیا اپنی نوکری بچا کرنکل گیا جناب ڈی پی او صاحب بابا فرید دربار کے اردگرد نشئی کمیونٹی کا خاتمہ کیا جائے بیکاریوں میں زیادہ تعداد نشئ اور نشہ بیچنے والوں کی ہے اسمیں کوئی شک نہیں کہ دربار میں سکیورٹی پہت اچھے فرائض انجام دے رہی ہے۔۔مگر افسوس کہSHO تھانہ سٹی پاکپتن مبینہ طور پہ صرف لوکیشن کی حد تک تھانہ سے باہر نکلا لوکیشن دی واپس ہیٹڈروم میں جا گھسا تھانہ سٹی پاکپتن کو ضرورت ہے عمران ٹیپو اختر خان عابد عاشق مہار رائے خضرحیات رانا ارشادالرحمن ظفرخان رانا تنویر سرور جیسے افسران کی یہاں ایکٹو افسران کا کام ہے نہ کہ مونچھیں بڑی رکھ کرصرف انہیں کا رعب دکھانے سے کام نہیں چلے گا مقبول صاحب کے آنے سے منشیات فروش بےلگام جرائم پیشہ لوگ شتر بےمہار ہوگئے سی سی ٹی وی کیمروں کی اشد ضرورت ہے مگر پاکپتن میں گورنمنٹ کی طرف سے کوئی کیمرہ نہیں لگایا گیا جرائم پیشہ لوگوں کو شاید نہیں بلکہ یقیناً سپورٹ کرنے کے لیۓ کیمرے نہیں لگائے گئے جرائم کی روک تھام کے لیۓ کیمرے انتہائی ضروری ہیں ڈی سی پاکپتن اور ڈی پی او پاکپتن اپنے روم سے باہر نکلیں اور شہرفرید کے عوام کی جو ذمہ داری آپ کو سونپی گئی ہے اسے نبھائیں اور صرف مونچھوں کو دیکھ کر نہیں بلکہ بہادر اور کام کرنے والے افسران کو تھانہ جات کے انچارج بنائیں یہ ہے شہر فرید کے عوام کی آواز۔۔۔۔

نوشین راناانچارج کرائم بیٹ آل پاکستان تم نیوز پاکستان 03474059183

جمعرات، 15 دسمبر، 2022

بھکّر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دو روزہ رنگا رنگ فیملی ایکسپو آج سے شروع ہوگیا ہے جس کا باقاعدہ طور پر افتتاح ڈپٹی کمشنر عمران حسین رانجھا،ایم پی اے عامر عنایت خان شہانی اور ڈی پی او کیپٹن (ر)محمد اجمل نے کیا::رپورٹ ظفر اعوان

    1. بھکّر 

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دو روزہ رنگا رنگ فیملی ایکسپو آج سے شروع ہوگیا ہے جس کا باقاعدہ طور پر افتتاح ڈپٹی کمشنر عمران حسین رانجھا،ایم پی اے عامر عنایت خان شہانی اور ڈی پی او کیپٹن (ر)محمد اجمل نے کیا اس موقع پر شہر کی نمایاں سماجی شخصیات سمیت صدر انجمن تاجران رانا محمد اشرف خاں،چئیر مین سی پی ایل سی شیخ محمد ایوب،میڈیا نمائندگان،سرکاری افسران اور شہریوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔بھکر فیملی ایکسپو کے ایونٹ میں سرکاری محکمہ جات،ایجوکیشن،ریونیو ڈپارٹمنٹ،سول ڈیفنس،سوشل ویلفیئر،صنعت زار،پاپولیشن،زراعت،لائیوسٹاک،ریسکیو 1122 اور فوڈ اتھارٹی کی جانب سے مختلف پکوان کے سٹالز لگائے گئے تھے جبکہ تھیلی سیمیا کے بچوں کیلئے خون کے عطیات جمع کرنے کے حوالہ سے بھی خصوصی کیمپ کا انعقاد کیا گیا جس میں شہریوں اور مختلف سٹوڈنٹس کی جانب سے خون کے عطیات پیش کئے گئے۔بھکر فیملی ایکسپو کے باقاعدہ افتتاح کے بعد ایم پی اے عامر عنایت خان شہانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھکر شہر میں فیملی ایکسپو کا انعقاد تازہ ہواکا جھونکا ہے جس سے شہریوں کو بہترین تفریحی مواقع میسر آئے ہیں انہوں نے کہاکہ تفریح سے بھرپور بھکر فیملی ایکسپو کے شاندار انعقاد پر ڈپٹی کمشنر عمران حسین رانجھا کو خصوصی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر عمران حسین رانجھا نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھکر فیملی ایکسپو کی کامیابی بہترین ٹیم ورک کا نتیجہ ہے بالخصوص فیملی ایکسپو کے فوکل پرسن عدنان جمیل کی کاوشیں بھی لائق تحسین ہیں علاوہ ازیں مختلف محکمہ جات کی جانب سے خوبصورت سٹالز بھی قابل دیدنی ہیں جس سے شہری بھرپور لطف اندوز ہورہے ہیں اور اس ایونٹ کا بنیادی مقصد  شہریوں کیلئے سستی تفریح کے مواقع پیدا کرنا ہے جس میں ہمیں بڑی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ڈپٹی کمشنر عمران حسین رانجھا نے مزید کہاکہ بھکر فیملی ایکسپو کا دوسرا روز صرف فیملیز کیلئے مختص کیا گیا ہے تاکہ فیملیز صاف ستھرے ماحول میں ایونٹ کو انجوائے کرسکیں ان کا کہنا تھا کہ فیملی ایکسپو میں فیملیز کے بغیر ہر قسم کا داخلہ ممنوع ہوگا۔ڈپٹی کمشنر عمران حسین رانجھانے نمائشی سٹالوں کا معائنہ کیا اور سٹالوں کی تزئین و آرائش کے معیار کو سراہا۔انہوں نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ شو کے انعقاد کا بنیادی مقصد صاف ستھرے اور سرسبز و شاداب ماحول کی ترویج کیلئے سرکاری اداروں خصوصا میونسپل اداروں اور سول سوسائٹی کا اشتراک بڑھانے کیساتھ ساتھ عوام کو خوشگوار تفریح مہیا کرنا بھی ہے۔بھکر فیملی ایکسپوکودیکھنے کیلئے موجود عوام نے ضلعی انتظامیہ کی اس کاوش کو سراہا اور کہاکہ اس سے ہر شہری کو کلین ایند گرین بھکر کے سلسلہ میں قابل ذکر ترغیب ملے گی #







12 دسمبر سانحہ آرمی پبلك اسکول پشاور ۔از قلم !آمنہ روشنی رشا

 *16 دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور*


   از قلم : آمنہ روشنی رشا (لیہ)


دہشت گردی کی اس بدترین تاریخ کا ہر ہر ورق معصوم طلباء کے لہو سے رنگین ہے جو ہمیں ان کی قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ 


ہائے! 16 دسمبر 2014 کی وہ صبح جب پھول و کلیوں سے نازک بچے دہشت گردوں کے ظلم کا شکار ہوئے اور یوں بے شمار ماؤں کا آنگن بے رونق ہو گیا۔ ان پر اچانک سے قیامت ٹوٹ پڑی۔ 16 دسمبر کو اس اندوہناک واقعے پر لاکھوں کروڑوں آنکھیں اشکبار اور دل خون کے آنسو بہاتے نظر آئے۔ یہ وہ غم ہے جو ہماری آنکھوں اور سماعتوں سے ہوتا ہوا ہماری روحوں کو کانٹوں پر گھسیٹ گیا اور یوں لگا کہ جیسے کسی ظالم نے کسی نوکیلے تیز دھار خنجر سے ہمارے جسم کے ہر حصے کو کاٹ دیا ہو اور پھر ہمارے جسم کے ہر اک حصے سے خون پانی کی طرح بہہ رہا ہو مگر یہ سب کچھ دیکھنے اور کرنے کے بعد ظالم کو اس پر رتی برابر بھی افسوس یا ملال نہ ہو۔

 وہ ظالم دہشت گرد چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے ان کے دوستوں اور ان کے اساتذہ کو اذیت دے کر شہید کررہا تھا۔

صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر نام نہاد ظالم دہشت گردوں نے حملہ کردیا اور سکول میں موجود کئی طلبہ اور اساتذہ کو شہید کردیا اور متعدد طلباء شدید زخمی ہوئے۔ 


مگر یاد رہے کہ ایسے ظالموں کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہی ہوا کرتا ہے جہاں ان درندوں کو دہکتی آگ میں دھکیل دیا جائے گا۔ جن کو معصوم بچوں پر بھی رحم نہ آیا۔


کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

"جو شخص بچوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں"


یہ دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جو بے گناہ بچوں کی یاد دلاتا رہے گا، قوم کے ان معصوم شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور اک روز یہ بدنما دہشت گرد کیفر کردار کو پہنچ کر ہی رہیں گے۔ 


کسی کو اچانک ہی کسی حادثے میں کھونے کا درد کیا ہوتا ہے؟ اذیت کیا ہوتی ہے؟ 


ان تمام سوالوں کے جواب ان والدین سے پوچھیے جنہوں نے اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے اپنی آنکھوں میں نہ جانے کتنے خواب سجائے ہوئے تھے۔

یہ سوال ان والدین سے پوچھیے جو اپنے بچوں کی ہر قدم کامیابی میں ، اپنے خوابوں کی تعبیر پوری کرنے کے لیے انھیں سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس یقین کے ساتھ بھیجا کرتے تھے کہ اک روز یہی ہونہار ہماری کمر کا ٹیک بنیں گے ، ہمارے بڑھاپے میں کام آئیں گے۔ ڈاکٹر ، انجینئر ، پائلٹ یا کسی بڑے عہدے پر فائز ہو کر اپنے ملک کا نام روشن کریں گے۔

لیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ ظالم بربریت کا وہ بازار گرم کریں گے کہ ان کی کمر ہی ٹوٹ جائے گی ان کے خواب ، خواب ہی بن کر رہ جائیں گے۔ 


میرا تو جسم کانپ اٹھتا ہے، ہونٹ کپکپانے لگتے ہیں ہاتھ لرز جاتے ہیں روح میں ایک طوفان اٹھ جاتا ہے جب میں یہ سوچتی ہوں کہ؛

جن کتابوں سے وہ پھول سے بچے علم حاصل کرنے گئے تھے ان ظالم دہشت گردوں کے ہاتھوں وہی کتابیں ان کے خون سے رنگ دی گئیں ، ان کا جسم لہو لہان کر دیا گیا ، ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے دوستوں کو ان کے اساتذہ کو شہید کردیا گیا ، ان کو نہیں معلوم تھا کہ ان کو کس قدر اذیت برداشت کرنی پڑے گی۔

ان کو نہیں معلوم تھا جن خوابوں کی تعبیروں کو وہ پورا کرنے آئے تھے وہ خواب ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔

یہ پاکسان کی تاریخ کا ایک ایسا سانحہ تھا جس نے دنیا بھر کے تمام والدین کے سینے کو چیر کر رکھ دیا۔ جس نے ہر انسان کی آنکھ کو اشکبار کردیا ، نہ جانے اس حادثے میں کتنی ماؤں کی گود اجڑ گئی کتنے ماں باپ بے سہارا ہوگئے۔ اس سانحہ نے نہ جانے کتنے گھر اجاڑ دیئے۔

 کچھ والدین تو ابھی تک سانحے کے نفسیاتی اثرات سے نہیں نکل سکے۔  سات سال گزر جانے پر بھی اس واقعہ کو یاد کر کے دل خون کے آنسو روتا ہے، کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے اور بے ساختہ ان ظالموں کے لئے حرفِ بددعا نکلتی ہے کہ


 "اے رب ذوالجلال انھیں برباد کر دے جنھوں نے ہمارے آباد گلستاں کو اجاڑ کر ویران کر دیا"

 

ان تمام شہیدوں کی یاد کے زخم تازہ ہیں ابھی تازہ ہیں اور تازہ ہی رہیں گے۔ شاید اس زخم کا گھاؤ جو ان ظالموں نے ہمیں دیا ہے کبھی نہیں بھر پائے گا۔ 

ان شہیداؤں کی یاد میں کئی لوگوں نے اپنے دکھوں کو سپردِ قرطاس کرکے اپنے دل پر پڑنے والے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے اسی طرح کسی شاعر نے شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی تکلیفوں اور غم کو قلمبند کرنے کی مکمل کوشش کی ہے:


مائیں دروازے تکتے رہ گئیں۔۔۔

شہیدوں کی زمین ہے یہ جسے پاکستان کہتے ہیں

یہ بنجر ہو کر بھی کبھی بزدل پیدا نہیں کرتی!!

آج تک جنازوں پر پھول دیکھے تھے۔۔

16 دسمبر کو پتا لگا۔۔۔ 

پھولوں کے بھی جنازے ہوا کرتے ہیں

تیری یادوں میں رہ جاؤں گا!!

ماں اب میں کبھی واپس نہیں آؤں گا!!

ماں یونیفارم پر تھوڑی سیاہی گر گئی۔۔۔

ڈانٹنا مت۔۔۔۔۔

ماں یونیفارم لال ہوگیا ہے خون بہہ کر رونا مت۔۔

سنت فرعون ادا ہوئی ہے اسلام کے نام پر!!

جنت بٹ رہی ہے یہاں بچوں کے قتل عام پر!!



پاکستان میں ہر سال اس دن کی مناسبت ہر ادارے میں خصوصی دعائیہ تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ جس میں شہداء کی روح کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔


لیکن ہمیں ان ظالموں کے مقابل سیسہ پلائی دیوار بننا ہو گا تاکہ وہ آئندہ ہمارے گلشن اور اس میں دوڑتے کھیلتے گلوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکیں اور وہ ایسی غلیظ حرکت کرنے سے پہلے لاکھوں بار سوچے۔۔۔

وہ ہمارے ملک کے مستقبل کے ستاروں کو روشن ہونے سے نہ روک سکیں اور پھر کبھی نہ کسی ماں کی گود اجڑے ، نہ کوئی باپ بے سہارا ہو۔

 یا رب العالمین سبھی بچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں تاکہ وہ سدا ہنستے مسکراتے ہوئے اپنے والدین کی آنکھوں کے سامنے ان کی خوابوں کی تعبیروں کو مکمل کریں اور کامیابیوں کی منزلوں کو چھو کر ان کا نام روشن کرسکیں۔


بدھ، 14 دسمبر، 2022

تحریر/نمرہ ملک// نامور شاعر ملک عرفان خانی کو اقوام متحدہ جنیوا کے ادارہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مومنٹ پاکستان کا وائس چئیرمین پاکستان منتخب کر لیا گیا

 نامور شاعر  ملک عرفان خانی کو اقوام متحدہ  جنیوا کے ادارہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مومنٹ پاکستان کا وائس چئیرمین پاکستان منتخب کر لیا گیا  عرفان خانی بحثیت شاعر ادیبوں شاعروں  کی ویلفئیر کے حوالہ سے  عالمی سطح پر اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں ا نکا  انسانی حقوق کے ادارہ میں بحثیت وائس چئیرمین پاکستان انتخاب انسانی حقوق کے لۓ مظبوط  آواز اور خدمت خلق کا بے لوث جذبہ پاکستان میں مظلوم کے لۓ بہترین انتخاب ہے  ملک عرفان خانی نے کہا کہ دور حاضر میں انسان اخلاقی,  و معاشرتی,  حوالہ سے بہت ہی کمزور ہے اور یہ کمزوری پاکستان میں عام ہو چکی ہے جس کے سبب مظلوم کی داد رسی کے لۓ کوئی ادارہ بھی اپنے فرائض انسانیئت کے کما حقہ نہیں ادا کر رہا جسکی وجہ سے ادارہ ہیومن رائٹس مومنٹ نے پاکستان میں مظلوم کی اواز بننے کے  بے لوث خدمات کی  زمہ داری مجھے دی میں ان شاء اللہ ہر ممکن کوشش کروں گا  کہ انسانی خدمت رنگ نسل,  مزہب,  ملک,  سے ہٹ کر صرف انسانی خدمت کرونگا 

 ان شاء اللہ


اتوار، 11 دسمبر، 2022

خوش آمدید 2023 مشاعرہ و تقریب رونمائی ۔سمیرا ساجد ناز

 رپورٹ /ظفر اعوان 

الحمد اللہ ۔۔۔

خوش آمدید 2023  مشاعرہ  و تقریب رونمائی ۔۔۔


مشاعرہ خوش آمدید 2023  اور جناب ارشاد نیازی صاحب کی کتب  قوسین کی حدیں و خواب کا خمیازہ کی تقریب رونمائی میں شریک بزم بننے والے  تمام  معزز احباب کی شکر گزار ہوں جنہوں نے پروگرام کو رونق بخشی ۔۔


یہاں پہ جناب  اسلم شاہد صاحب کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ جنہوں نے اس نفسا نفسی کے دور میں محبت کے دیئے جلائے اور سیالکوٹ میں ادبی فضا کو خوشبوؤں سے بھر دیا ۔۔تمام تنظیموں شاعروں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے یہ ثابت کر دیا کہ نیت نیک ہو تو کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے  ۔

جناب اسلم صاحب کا کتب کی اشاعت کے اعلان سے لیکر کتب شائع ہونے تک مجھ ناچیز اور حسین مجروح صاحب پہ آنکھیں بند کر کے اعتبار کرنا ہمارے تعلق کو مزید مضبوط کرتا رہا اور الحمدللہ اللہ پاک نے ہمیں سرخرو کیا ۔۔۔  جناب حسین مجروح صاحب کے کردار کے متلعق یہ کہنا کجا نہی کہ آپ  اپنا کردار ادا نہ کرتے تو آج ہم رونمائی جیسی خوبصورت محفل سے شاید محروم رہ جاتے ۔۔۔۔سیالکوٹ آپکا شکر گزار ہے حسین مجروح صاحب ۔۔۔

جناب خواجہ آصف صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے ایثار فاؤنڈیشن کے صدر و بانی جناب صدیق حیدر بھائی کا پیغام باہم پہنچا کر انسانی خدمات اور ادب کی خدمت کے لیے ان کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام پہنچایا اور تحریک اور کتب کی اشاعت پہ ارشاد نیازی صاحب کو مبارک باد پیش کی ۔۔۔

جناب صدر تنویر احمد تنویر احمد تنویر صاحب کی شکر گزار ہوں جنہوں نے ہماری دعوت کو قبول فرما کر بزم کو عزت بخشی ۔یہاں یہ ذکر ضروری سمجھتی ہوں کہ استاد صاحب نے مجھے سب کو پھول پیش کرتے دیکھا اور اخر میں مجھے مبارک باد کے ساتھ پھول پیش کئے کہ تم نے بہت محنت کی اور سب کو پھول پیش کر رہی ہوں اب ہم تمہیں پھول پیش کریں گے جو کہ تصویری شکل میں گواہ بن گئی کہ حوصلے ایسے بھی دیئے جاتے ہیں شکریہ استاد محترم۔۔۔

صاحب کتب ارشاد نیازی صاحب کی شکر گزار ہوں جنہوں نے بزم میں تشریف آوری کی۔۔

 مہمان خصوصی جناب ڈاکٹر دانش عزیز محترمی بھائی آپ کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنے کلام کے جلوے تو دکھائے لیکن جن کو ہمسفر کیا۔۔ انہوں نے بھی بزم کو کمال رنگ بخشا ۔۔۔

سوچاں دی مہکار کی ٹیم کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔کہ ان کی شمولیت صرف شمولیت نہی بلکہ اپنا پروگرام سمجھ کر اس کو ہر ممکن کامیاب کرنے میں مدد فراہم کی ۔۔جس میں سر فہرست نام ایوب صابر صاحب کا آتا ہے جنہوں نے پروگرام کی نظامت کو اپنے تجربے سے ایسا سنبھالا کہ محفل کا رنگ دوبالا ہو گیا ۔۔۔

بزم میں شرکت کرنے والے محترم مہمانان گرامی 

جناب صدر تنویر احمد تنویر صاحب 

صاحب کتب ارشاد نیازی صاحب

مہمان خصوصی ڈاکٹر دانش عزیز (لاہور)

اسلم شاہد صاحب(ضلعی صدر سائبان تحرک سیالکوٹ)

خواجہ آصف(ضلعی نائب صدر سائبان تحریک سیالکوٹ)

اظہر خان صاحب (لاہور)

محبوب صابر  صاحب 

مظفر ممتاز  صاحب 

فیصل طفیل صاحب (گوجرانولہ)

عاطف جاوید عاطف صاحب

سید سجاد بخاری صاحب

محبوب صابر صاحب

ساحل سلہری صاحب

آصف علی علوی صاحب 

حیدر پیرزادہ صاحب 

رضا المصطفیٰ صاحب 

منیر جعفری صاحب 

سرکار علی حیدر صاحب 

بلال اسعد صاحب

ڈاکٹر سید کاظم صاحب 

قاسم حیات صاحب 

رانا عثمان صاحب 

صدیق سرمد صاحب 

ڈاکٹر الیاس عاجز صاحب 

عائشہ قمر صاحبہ۔۔ کی شکر گزار ہوں ۔۔

بزم میں بزنس کمیونٹی سے اسلم شاہد صاحب کے درینہ دوست  جناب آفتاب ناگرہ صاحب نے صاحب  ذوق ہونے کا مظاہرہ ایسا کیا کہ پروگرام کے آغاز سے لیکر احتتام  تک شریک بزم رہے ان کے ذوق کے لیے الگ سے داد و تحسین و شکریہ ۔

جن کا نام شکریہ کی فہرست میں شامل نہ کر سکی ان سے معذرت خواہ ہوں ۔۔

بزم کے آخر میں بہترین اعشائیہ کا انتظام کیا گیا ۔۔کل ملا کر اسلم صاحب ساجد صاحب اور تھوڑی تھوڑی سی میں نے بھی پروگرام کو کامیاب کرنے کی بھرپور کوشش کی باقی 

معزز مہمانان گرامی کے تجزیے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری محنت کتنا رنگ لائی ۔۔۔

اللہ پاک سائبان تحریک کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے ۔۔۔۔اور سائبان تحریک سیالکوٹ نے ثابت کردیا کہ سیالکوٹ والے جب کسی چیز کا ذمہ اٹھاتے ہیں تو اسے کامیاب کرنے میں اپنی جان لگا دیتے ہیں ۔۔

مجھے اللہ پاک کے حضور امید ہے کہ سائبان تحریک سیالکوٹ ۔۔حسین مجروح صاحب کے خواب کو جلا بخشے گی ان شاءاللہ ۔۔۔

اول و آخر میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھ کند کو اسلم شاہد صاحب اور خواجہ آصف صاحب جیسے انسانوں سے نواز کر مجھے ہیرا بنا دیا ہے پروگرام کی ساری تیاریاں ہمیشہ کیطرح ساجد صاحب نے ایسی کیں کہ آج اسلم شاہد صاحب اور حاضرین محفل  تعریف کر اٹھے ۔۔۔۔شکریہ ساجد صاحب اللہ پاک آپ کا ساتھ ہمیشہ عطا فرمائی رکھے آمین الٰہی آمین 

سمیرا ساجد ناز



ہفتہ، 10 دسمبر، 2022

علمی ، ادبی ، فنی اور ثقافتی کہکشاں میں "خالد دانش" جیسی عظیم شخصیت بہت کم دکھنے کو ملتی//آمنہ روشنی

 خالد دانش (بابا جان) کے نام


اب تک کے مطالعہ اور مسلسل غور و فکر سے یہی جاننے کو ملا ہے کہ خالص ادبی کاوشوں میں تہذیبی اور معاشرتی رنگ ہی لوگوں کو متاثر کرنے کی اہم وجہ ہے۔ 

اور 

اسی وجہ سے حلقۂ اربابِ ذوق سے منسلک ادبی شخصیات اپنے فن پاروں ( مضامین ، شاعری، نثر اور افسانوں) کی مدد سے اپنی پہچان بنانے میں ہمہ وقت لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ 


ان کی فکرِ استدلالی ہی اردو ادب کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

اس علمی ، ادبی ، فنی اور ثقافتی کہکشاں میں "خالد دانش" جیسی عظیم شخصیت بہت کم دکھنے کو ملتی ہے۔ اردو ادب کی تشہیر و فروغ کے لیے آپ دن رات محنت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


اور میں ناچیز دل کی عمیق گہرائیوں سے ان کی قدر و منزلت کرتی ہوں اور ان کی خوش اخلاقی اور پیار کی وجہ سے حقیقی معنوں میں انہیں اپنے والدین کی طرح عزت و توقیر کے لائق اور عزیز ترین سمجھتی ہوں۔

رب العالمین کی بے حد شکر گزار ہوں کہ اس کریم ذات نے مجھے خالد دانش جیسے عظیم شخص کی بیٹی بننے کا شرف بخشا۔۔۔


مجھ میں نثر نگاری کا شوق پیدا کرنے اور ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرنے پر یہ بیٹی اپنے پیارے بابا جان کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہے کہ اگر یہ میری رہنمائی نہ کرتے اور مجھے نثر لکھنے کی طرف راغب نہ کرتے تو شاید میں کبھی نثر نگاری نہ کر پاتی اور شاید اپنے اس فن سے بھی نا آشنا رہتی۔

دعا گو ہوں کہ اللہ پاک ان کو سدا پھولوں کی طرح ہنستا مسکراتا خوش رکھے ، ان کے رزقِ سخن میں اضافہ کرتا جائے اور ان کا سایہ ہم بچوں کے سروں پر تا دیر رکھے آمین یا رب العالمین۔




✍️آمنہ روشن


#amna_roshni

ہے سعدیہ تو فخر سب کا زمانہ ناز کرتا ہے ۔

 نذرانہ عقیدت 

محترمہ سعدیہ ہما شیخ صاحبہ ۔ایڈوکیٹ ۔امید وار برائے نائب صدر سرگودھا بار ایسوسی ایشن ۔۔۔

سپاس گزار ۔ظفر اعوان ۔

سب ایڈیٹر ۔روزنامہ نوائے بھکّر ۔

وائس چیئرمین مجلس عاملہ # نیشنل پریس کلب بھکّر ®

 ۔۔۔۔۔۔

تو اعلی ظرف کی مالک 

خدا تم کو جتائے گا ۔

ہماری تو دعائیں ہیں 

ہے مالک وہ بنائے گا ۔


ہے سعدیہ تو فخر سب کا 

زمانہ ناز کرتا ہے ۔                          

مقدر جیت ہے تیری 

الیکشن ہی بتائے گا ۔


غریبوں کا فکر و غم 

سدا ہے آپ کے دل میں۔۔

الیکشن میں فکر سارا 

اثر اپنا دکھاۓ گا ۔۔


تمہاری ذات مخلص ہے 

یہ کہتا ہے جہاں سارا ۔

محبت کا یہی نعرہ 

تمہیں سب کچھ بنائے گا ۔


تیرا چہرہ ہمیشہ سے 

یہ سچ کا ساتھ دیتا ہے۔

تمہیں سچ کا یہی سہرہ 

گلے خود آ لگائے گا ۔۔۔۔


ظفر کے ساتھ میں مل کر 

مبارک دینے آؤں گا ۔

تیرا مطلوب یہ نغمہ 

تجھے گا کر سنائے گا ۔۔

۔۔۔۔۔

جمعرات، 8 دسمبر، 2022

رپورٹ۔عارف اعوان //سنگرعاصمہ مجاہد کی أواز اورشاعرمخدوم اختر ہاشمی کانیا گیت"توں بندہ منافق ہائیں۔ریلیز ہونے جا رہا ہے۔ظفر اعوان ۔

 __  Coming soon a new song... 2022

                   سپر ہٹ سونگ  ،  توں بندہ منافق ہائیں ، 

         سنگر عاصمہ مجاہد  ، 

 شاعر مخدوم محمد اختر ھاشمی __

 کمپوزنگ وترتیب محبوب اختر میوزک ڈائریکٹر رضوان اختر ، کیٹو علی طافو،    سلیکشن بائے  ، ایم مجاہد علی، امیر وٹو  ،  ویڈیو ڈاریکٹر، نوید چوہدری ، کیمرہ ،سلمان خان،  فخرنواز، سپیشل تھنکس، ، مہک ملک،  عاصم تنہا،  استاد لعل خاں ،  پروڈیوسر ممتاز مغل، سی او ، عبدالستار خان، ایم ڈی، شہباز خان ، 


ریلیز بائے  شاھین سٹوڈیو پاکستان ،

رپورٹ ظفر اعوان /اچھی شاعرہ اور ادیبہ بننا چاہتی ہوں۔صحافی معاشرے کی آنکھ ہوتا ہےآمنہ روشنی رشا





 آج ظفر اعوان کے ساتھ خصوصی نشست ۔

آج کی شاعرہ محترمہ آمنہ روشنی رِشا نے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ میں ایک اچھی شاعرہ و ادیبہ بننا چاہتی ہوں۔

ان کے والد صاحب کا نام شیخ محمد یاسین ہے۔ 

آمنہ روشنی رشا نے بتایا کہ انہوں نے

میٹرک کی تعلیم آکسفورڈ پبلک ہائی سکول چوک اعظم سے کی ، ایف-ایس-سی (نان میڈیکل) کی تعلیم گورنمنٹ کالج لیہ برائے خواتین سے مکمل کی اور اب وہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چوک اعظم سے بی ایس اردو کررہی ہیں ۔

انہوں نے 2020 میں شاعری کا آغاز کیا۔ اردو  ادب میں قدم رکھنے کا جذبہ ان میں ایک نوجوان شاعر ادیب اور نعت خواں حذیفہ اشرف عاصمی کی طرف دیکھ کر ہوا۔

ادبی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد انہوں نے بہت سے مقابلہ جات میں حصہ لیا اور وہاں سے اعزازی اسناد وصول کیں۔

پنجاب ٹیلنٹ ہنٹ 2022 میں ہونے والے افسانہ نگاری کے مقابلے میں انہوں نے ڈسٹرکٹ لیول پر دوسری پوزیشن حاصل کی۔

2022 میں ہی انہوں نے اپنے شہر لیہ کے نیوز چینل وائس ٹو ڈے پر خصوصی انٹرویو دیا۔ اور اس کے علاؤہ 2022 میں ہی انہوں نے اپنے شہر کے ایف ایم ریڈیو پر بھی انٹرویو دیا۔


مزید انہوں نے کہا کہ میں اچھی شاعرہ و ادیبہ بننا چاہتی ہوں کیونکہ ایک لکھاری معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے اور وہ لوگوں کو بھلائی ہے راستے پر چلنا سکھاتا ہے۔

اپنی کتاب کے بارے میں انہوں نے ابھی کتاب لکھنے کا ارادہ نہیں کیا لیکن کتاب کا نام اشک گلستان سوچ رکھا ہے۔

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ میرے مشغلے دو ہیں ایک فرائی چیزیں بنانے کا اور دوسرا انٹرنیٹ کے بارے میں نئی نئی انفارمیشن جاننے کا

اپنی فیملی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کے

 تین بھائی ہیں بہن کوئی نہیں۔ انہوں نے شاعری تین زبانوں میں کی ہے اردو ، پنجابی اور انگریزی

لیکن ان کا کہنا ہے کہ پنجابی اور انگریزی میں زیادہ طبع آزمائی نہ ہونے کی وجہ سے ان اردو شاعری کی طرف زیادہ رجحان ہے.

آخر پر آمنہ روشنی رشا نے ظفر اعوان سب ایڈیٹر روزنامہ نوائے بھکّر ۔آر اے نیوز اور ادارے کا شکریہ ادا کیا





۔۔

بدھ، 7 دسمبر، 2022

بھکر۔رپورٹ/ظفر اعوان/ معروف شاعرہ نمرہ ملک کی کتاب کہیں تھل میں سسی روتی ہے کی ایوارڈ سرمنی

 بھکّر (ظفر اعوان)معروف شاعرہ نمرہ ملک کی کتاب کہیں تھل میں سسی روتی ہے کی ایوارڈ سرمنی گزشتہ شب گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج 48 ٹی ڈی اے جہان خان بھکرمنعقد ہوئی اور اسی اعزاز میں آل پاکستان محفل مشاعرہ و تقسیم ایوارڈز کی تقریب منعقد کی گئی جس میں ملک بھر سے شعراء نے شرکت کی۔پروگرام کا آغاز 

تلاوت قرآن پاک حافظ کلیم اللّٰہ انجم جبکہ نعت مبارکہ ظفر رضا عارفی نے کیا۔بانی بزمِ رفیقِ پاکستان بھکر عابد علیم سہو کا مشہور زمانہ کلام ۔ نہ مکھ میتھوں موڑ نی مائیں ۔ ترنم کے ساتھ سنا کر ظفر رضا عارفی نے خوب داد سمیٹی اس کے بعد سرپرست بزمِ رفیقِ پاکستان بھکر محترم ڈاکٹر خالد جاوید اسراں صاحب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنے کلام سے نوازا نظامت کے فرائض پروفیسر ناصر رانا صاحب اور عابد علیم سہو نے بخوبی نبھائے اس پروگرام کی صدارت طاہر محمود طاہر مرید والہ نے کی جبکہ مہمانان خاص میں ڈاکٹر عتیق الرحمن قریشی صاحب اور طارق حمید نیازی ۔عارف اعوان ۔ظفر اعوان ۔عثمان اعوان تھے۔ انٹرنیشنل شاعر ندیم ناجد نے بطور خاص اس پروگرام میں شرکت فرمائی

2022 کی پبلش شدہ کتب پر بزمِ رفیقِ پاکستان بھکر ایوارڈ سے نوازا گیا جن شعرا نے اپنا کلام سنایا ان میں ۔ نمرہ ملک تلہ گنگ ، پرویز منیر کروڑ ، بوٹا شاکر چوک اعظم ، عارش گیلانی جمن شاہ ، ڈاکٹر عمر قیاز قائل بنوں، ڈاکٹر مشرف حسین انجم سرگودھا،  صادق حسنی ، خادم کھوکھر لیہ ، پروفیسر قلب عباس عابس ، عابد علیم سہو ، رمضان عاطف و دیگر کئی شعراء نے کلام سنایا

آخر پر استاد الشعراء محترم نذیر ڈھالہ خیلوی صاحب اور ندیم ناجد کی دستار بندی کی گئی۔ مختلف علمی، ادبی و صحافتی شخصیات میں اعزازی سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے

بانی بزمِ رفیقِ پاکستان بھکر عابد علیم سہو اور سرپرست بزمِ رفیقِ پاکستان بھکر ڈاکٹر خالد جاوید اسراں صاحب نے مہمانوں کی خدمت مدارت میں کوئی کمی نہ چھوڑی اور آخر پر تمام شعراء کا شکریہ ادا کیا



اعلان تقرری!عظمت علی کوR.A.Newsکا بھکرسےبیوروچیف مقرر کردیا گیاہے۔۔سرکاری ونیم سرکاری ادارے نوٹ فرما لیں۔(ادارہ)



 

پیر، 5 دسمبر، 2022

تلہ گنگ (ظفر اعوان سے )ضلع تلہ گنگ کی معروف شاعرہ،ادبی و سماجی شخصیت اور صحافی نمرہ ملک

تلہ گنگ (ظفر اعوان سے )ضلع تلہ گنگ کی معروف شاعرہ،ادبی و سماجی شخصیت اور صحافی نمرہ ملک کو آل رائٹرز پاکستان ویلفئیر ایسوسی ایشن کی جانب سے  ادبی و سماجی خدمات پہ حسن کارکردگی ایوارڈ دیا گیا۔گزشتہ دنوں ہیری ٹیج ہوٹل لاہور میں اپوا (آل رائٹرز پاکستان ویلفئیر ایسوسی ایشن)کی جانب سے سالانہ ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں ملک اور بیرون ملک سے صحافتی،سماجی،ادبی شخصیات نے شرکت کی۔نمرہ ملک کو معروف صحافی مجیب الرحمٰن شامی اوراینکر پرسن مبشر لقمان نے ا ایوارڈز ،سرٹیفیکیٹ اور میڈل سے نوازا۔اس موقع پہ سرپرست اعلیٰ اپوا زبیر انصاری، صدر اپوا ایم ایم علی ،اپوا ممبران ،معروف شعراء اتباف ابرک افتخار عفی،شعیب مرزا ،تہذین طاہر،غلام زادہ نعمان صابری ،عاطف صدیق کاہلوں ،عائشہ صدیقہ،شاہین اشرف علی،لبنی غزل،ریحانہ اعجاز،روزینہ فیصل اور ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے قلمکاروں کی کثیر تعداد موجود تھی۔واضع رہے کہ اپوا ایک معروف ادبی تنظیم ہے جو لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بہترین اقدامات کرتی ہے۔سماجی و ادبی حلقوں نے نمرہ ملک کو ایوارڈ پہ مبارکباد دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔اس موقع پہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے نمرہ ملک نے کہا کہ یہ کامیابیاں اور عزت میرے والدین کی دعاؤں اور اللہ رب العزت کی بدولت نصیب ہوئی ہے۔انہوں نے کامیاب ورکشاپ پہ ایم ایم علی ،زبیر انصاری اور اپوا انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کیا ۔

جمعہ، 21 اکتوبر، 2022

بھکر(آصف نیازی+ظفر اعوان ) سٹی آواز نیوز اور نواۓ بھکر



 بھکر(آصف نیازی+ظفر اعوان ) سٹی آواز نیوز اور نواۓ بھکر کی ٹیم کا دی نیووژن گروپ آف سکولز نذیر ٹاؤن بھکر کا وزٹ۔

طارق محمود صدیقی ڈائریکٹر دی نیووژن گروپ آف سکولز سے خصوصی ملاقات۔ملاقات میں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔

تفصیلات کیمطابق گزشتہ روز آصف خان نیازی چیف رپورٹر اور ظفر اعوان سب ایڈیٹر نے دی نیووژن گروپ آف سکولز بھکر کا وزٹ کیا اور مستقبل میں والدین اور اہل محلہ کو تعلیمی حوالے سے دی جانے والی سہولیات بارے گفتگو کی اور طارق صدیقی نے دوران گفتگو بتایا کہ ان کے ادارہ میں اس وقت 600 سے زائد طلبا مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں جوکہ اس دور میں ایسے بڑے تعلیمی ادارے کا ہونا اہل محلہ کیلیے کسی نعمت سے کم نہی۔ادارہ میں بہترین سکیورٹی کا انتظام اور کمیروں کی مدد سے بہترین سکیورٹی کی جاتی ہے بچوں کو بہترین تعلیمی ماحول مہیا کیاگیا ہے۔دوران گفتگو طارق صدیقی نے بتایا کہ دی نیووژن سکول کی گرلز ھائی سکول کی رجسٹریشن محکمہ تعلیم سے کروالی گئی ہے انشااللہ بہت جلد گرلز کیلیے نہم،دھم کلاسز کا آغاز کردیا جاۓ گا اور اہل محلہ کو رکشوں کے کرایے ادا کرکے شہرمیں تعلیم کے حصول کیلیے نہی جانا پڑے گا ھائی کلاسز کی سہولت بھی مہیا کردی جاۓ گی نذیر ٹاؤن جیسے محلہ میں 600 سے زیادہ تعداد ہونا  اچھے رزلٹ کی وجہ سے والدین کے اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔طارق صدیقی نے بتایا کہ یہ ادارہ پیف حکومت پنجاب سے الحاق شدہ ہے لیکن پیف حکومت پنجاب اپنے الحاق سکولوں کو فی بچہ 550 روپے ماہانہ فیس کی مد میں ادا کرتا ہے جس میں پچھلے سات سال سے اضافہ نہی کیا گیا یہ فیس اس مہنگائی کے دور میں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔پیف حکومت پنجاب کو مہنگائی کے تناسب سے فی بچہ کم از کم 500 روپے فی بچہ فیس میں اضافہ کرنا چاہیے۔تاکہ کوالٹی ایجوکیشن کا سلسلہ جاری رہے اور تعلیم کی روشنی گھر گھر  پھیلتی رہے۔اور حکومت پنجاب کو چاہیے کہ پیف کے بجٹ میں فوری اضافہ کرے اور تعلیم دوست ہونے کا ثبوت دے پیف کے ادارہ سے لاکھوں بچوں کا مستقبل جڑا ہے اور لاکھوں اساتذہ کا روزگار بھی اسی ادارہ سے جڑا ہوا ہے۔کم فنڈز ہونے کی وجہ سے پیف سے الحاق سکولز اس وقت مسائل کا شکار ہیں جس سے سکول بند ہورہے ہیں اور بچوں کی تعلیم کے حرج کا خطرہ ہے۔آخر میں طارق محمود صدیقی نے نواۓ بھکر+ سٹی آواز نیوز ٹیم بھکر جناب سید سفیر حسین شاہ صاحب، محترم آصف خان نیازی،محترم ظفراعوان کا اپنے ادارہ آکر ملاقات کرنے اور مسائل کو میڈیا کے ذریعے اعلی حکام تک پہنچانے کیلیے  آواز بننے پر شکریہ ادا کیا ۔

تحریر۔محمدلقمان زاہد//اعتبار پیدا کریں

 موضوع : اعتبار پیدا کیجیے 


تحریر نگار : محمدلقمان زاھد 


ایک آدمی نے کاروبار شروع کیا اس کے پاس مشکل سے چند سو روپے تھے۔وہ کپڑے کے کچھ ٹکڑے خرید کر لاتا اور پھیری کر کے اس کو فروخت کرتا۔کچھ کام بڑھا تو اس نے ایک دکان والے سے اجازت لے کر اس کی دکان کے سامنے بیٹھنا شروع کردیا۔وہ جس تھوک فروش سے کپڑے خریدتا تھا۔اس سے اس نے نہایت اصول کا معاملہ کیا۔آہستہ آہستہ اس تھوک فروش کو اس آدمی کے اوپر اعتبار ہوگیا۔وہ اس کو ادھار کپڑا دینے لگا۔جب آدمی ادھار پر کپڑا لاتا تو اس کی کوشش ہوتی کہ وعدہ سے کچھ پہلے ہی اس کی ادائیگی کر دے۔اسی طرح کرتا رہا یہاں تک کہ تھوک فروش کی نظر میں اور اعتبار بڑھ گیا۔اب وہ اس کو اور زیادہ کپڑے ادھار دینے لگا۔چند سال میں یہ نوبت آ گئی کے تھوک فروش اس کو پچاس ہزار اور ایک لاکھ روپے کا کپڑا بے تکلف دے دیتا۔وہ اس کو اس طرح مال دینے لگا۔جیسے کہ وہ اس کے ہاتھ نقد فروخت کر رہا ہوں۔اب آدمی کا کام اتنا بڑھ چکا تھا کہ اس نے ایک دکان لے لی۔دکان بھی اس نے نہایت اصول کے ساتھ چلائی۔اور اپنے شہر میں کپڑے کے بڑے دکانداروں میں شمار ہونے لگا۔


میرے گھر سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مدرسہ  تھا۔ جس میں میں قرآن پاک حفظ کرتا تھا۔میرے ابو جان نے مجھے نیا سائیکل لے کر دیا. میں سائیکل پر مدرسہ جانے لگا۔ایک دن میں نے دوپہر کو مدرسہ سے سائیکل باہر نکالا  اور دیکھا کہ اس کا ٹائر پنچر تھا۔ اوپر سے سخت گرمی اور میرا روزہ بھی تھا۔ اتفاق سے اس دن میرے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔میں کافی پریشان تھا۔میں نے سوچا چلو سائیکل والی دکان پر جاتا ہوں۔میں دکان پر پہنچا۔دکاندار باہر ہی کھڑا تھا۔ جیسے میرا انتظار کر رہا ہوں۔اس نے جلدی سے میرے سائیکل کو پنچر لگایا۔اس نے پیسے نہیں مانگے۔میں نے اسے کہا کہ میں نے مدرسہ آنا ہے دو بجے تب دے دو گا۔دکاندار نے کہا کوئی بات نہیں جب مرضی دے دینا۔۔جو اللہ کہ راستے مین جاتا ہے اللہ اس کی اسے مدد فرماتے ہے۔ میں گھر پہنچا میں نے امی جان سے پیسے لیے اور فورا دکان پر آیا۔اور اس دکاندار کو دیے ۔میں نے تین چار دفعہ ایسے ہی کیا۔اس کے ذہن میں میرا اعتبار آہستہ آہستہ بیٹھنے لگا۔میں نے تین سال مدرسہ پڑھا۔کوئی بھی مسئلہ ہوتا میں دکان پر جاتا سائیکل ٹھیک کروانے۔اگر پیسے ہوتے تو فورا دے دیتا نہیں تو وقت سے پہلے دے دیتا۔ اسی طرح اس کو مجھ پر اعتبار ہو گیا۔اتنا اعتبار ہو گیا۔ایک دفعہ سائیکل کی خرابی کی وجہ سے پھر جانا ہوا میں پہنچا کہنے لگا۔حافظ صاحب اب دس منٹ دکان پر بیٹھے میں نے کچھ چیزیں لینی تھی وہ لے آؤں۔ اعتماد کی وجہ سے پوری دکان میرے حوالے کر گیا۔


اعتبار چھوٹا سا ایک لفظ ہے لیکن جب ٹوٹتا ہے تو بہت لمبی دوریاں پیدا کر دیتا ہے۔ اعتبار اسٹیکر جیسا ہوتا ہے وہ دوبارہ پہلے جیسا نہیں لگتا۔ اعتبار بولنے میں دو سیکنڈ لگتے ہیں، سوچنے میں دو منٹ لگتے ہیں، سمجھنے میں دن لگتے ہیں، اور ثابت کرنے میں پوری زندگی لگ جاتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہر اس دوست پر اعتبار کرو جو تمہارے مشکل وقت میں کام آۓ۔ جب کسی پر اعتبار کرو تو اتنا حد تک کرو. یا تو ایک سچا ساتھی مل جاۓ گا۔یا پھر سچا سبق مل جاۓ گا۔

کہتے ہیں کہ اعتبار انتہائی بے اعتباری چیز ہے جسے حاصل کرنے میں سالہا سال بیت جاتے ہیں لیکن گنوانے میں چند سیکنڈ بھی نہیں لگتے۔ اسی لیے تو مثال مشہور ہے کہ پہاڑ سے گرا پھر بھی دوبارہ اس پر چڑھ سکتا ہے لیکن نظروں سے گرا ہوا شخص کبھی بھی دوبارہ نہیں چڑھ پاتا۔


اس دنیا میں سب سے بڑی ضرورت روپیہ نہیں۔ اس دنیا میں سب سے بڑی دولت اعتبار ہے۔اعتبار کی بنیاد پر آپ کچھ بھی لے سکتے ہیں۔جس طرح نوٹ کے بنیاد پر آدمی بازار سے سامان خرید سکتا ہے۔اعتبار ہر چیز کا بدل ہے۔مگر اعتبار زبانی دعؤاں سے حاصل نہیں ہوتا۔اعتبار قائم ہونے میں صرف ایک ہی بنیاد ہے۔وہ حقیقی عمل ہے۔خارجی دنیا اس معاملے میں انتہائی حد تک بے رحم ہے۔لمبی مدت تک بےداغ عمل پیش کرنے کے بعد ہی وہ وقت آتا ہے۔کہ لوگ آپ کے اوپر اعتبار قائم کرے۔

گنگ (ظفر اعوان)تلہ گنگ کی غیور عوام کی ضلع تلہ گنگ مبا رک ہو نومی انصاری نائب صدر پنجاب انصاری متحدہ موومنٹ پاکستان


تلہ گنگ (ظفر اعوان)تلہ گنگ کی غیور عوام کی ضلع تلہ گنگ مبا رک ہو نومی انصاری نائب صدر پنجاب انصاری متحدہ موومنٹ پاکستان۔ ضلع تلہ گنگ ہم سب کا دیرینہ مطالبہ اور ہماری نسلوں کی بہتری کا ضامن ہے. ہم حافظ عمار یاسر اور چودھری پرویز الہٰی وزیر اعلی پنجاب کے انتہائی مشکور ہیں جن کی وجہ سے ناممکن بھی ممکن ہوا۔ میری اہلیان لاوہ اور اہلیان تلہ گنگ کے ہر زی شعور شہری سے اپیل ہے بے شک اپنی مزہبی سیاسی سماجی وابستگی اپنی جماعت یا تنظیم سے رکھیں مگر آج حصول ضلع تلہ گنگ جشن تلہ گنگ تشکر ضلع تلہ گنگ کیلئے ڈگری کالج تلہ گنگ کے گراونڈ میں پہنچ کر پورے پاکستان کی عوام کو یہ پیغام دیا کہ تلہ گنگ ضلع کی عوام پر اگر کوئی احسان کرے تو اس دھرتی کے عظیم بیٹے اظہار تشکر میں کوئی کسر نہی چھوڑتے.اور اس کے ساتھ ساتھ آج وہ سیاسی و سماجی شخصیات بھی خراج تحسین مستحق ہیں جنہوں نے تلہ گنگ ضلع بنانے کیلئے مثبت اپنا کردار ادا کی ا۔

تحریر۔نمرہ ملک "ناول شاہ سائیں سے ۔کبھی کبھی لفظ حرمت بن جاتے ہیں اور کبھی ذلت ۔کامیاب انسان وہ ہے جو لفظوں کی حرمت سے واقف ہو ۔

"بالکل درست کہا۔کبھی کبھی لفظ حرمت بن جاتے ہیں اور کبھی زلت۔۔۔۔کامیاب انسان وہ ہے جو لفظوں کی حرمت سے واقف ہو۔ یاد رہے لفظ اپنی حرمت سے بولنے والے کی تربیت،خاندان اور ماحول کا پتہ دیتے ہیں۔گو تمہارے لفظ میرے لیے زلتوں کا انداز بیان ہے مگر تم کبھی جان نہیں پاؤ گے یا شاید جان پاؤ کہ سائرہ شاہ نے اپنی حرمت میں ان لفظوں کی زلت پی لی ہے۔تم نے اپنے ظرف کا پیمانہ بھر کے گرا دیا ہے جبکہ میں نے اپنے ظرف پہ خاموشی کی لکیر کھینچ کے بتا دیا ہے کہ سید ،سید ہوتا ہے، وہ کسی کو کیچڑ اچھالنے کی اجازت تو نہیں دیتا مگر کوئی گھٹیا پن پہ اتر جائے تو جوابی کیچڑ نہیں اچھالتا۔کیچڑ سے دامن بچا کے گزر جاتا ہے " یہ ہریرہ خلیل کو جھنجھوڑ دینے والی لڑکی ،اسی سائرہ شاہ کی آواز تھی جس نے گھٹنوں کے بل گر کر مرنا قبول کر لیا تھا مگر زلت کی زندگی گزارنے سے انکار کر دیا تھا۔ شاہ سائیں ناول نمرہ ملک۔

جمعرات، 20 اکتوبر، 2022

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔ عادات، اخلاق اور طرز عمل اور یہی سچ ہے کوئی اپنے آپکو چاہے جو بھی بتائے مگر عادت بتا دیتی

انتخاب بلال ساغر ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا، قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔ (عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں) بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی، اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا. چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا، اس نے کہا "نسلی نہیں ھے" بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،، اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے. مسئول کو بلایا گیا، تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟ اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے. بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا، مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا. اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا، چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی، اس نے کہا. طور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،" بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بیجھا، معاملہ اس کے گوش گذار کیا. اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئ تھی، چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا. بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،" اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک" جاہلوں سے بدتر ھے، بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں" بطور انعام دیں. ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا. کچھ وقت گزرا، "مصاحب کو بلایا،" "اپنے بارے دریافت کیا،" مصاحب نے کہا، جان کی امان، بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا: "نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے" بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا، سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے" تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ۔ بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا، "تجھے کیسے علم ھوا" ؟؟؟ اس نے کہا، "بادشاہ" جب کسی کو "انعام و اکرام" دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات" کی شکل میں دیتے ھیں،،،، لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں" عنایت کرتے ھیں "یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں " کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے. عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔ عادات، اخلاق اور طرز عمل اور یہی سچ ہے کوئی اپنے آپکو چاہے جو بھی بتائے مگر عادت بتا دیتی ہے

بدھ، 19 اکتوبر، 2022

بھکّر!ظفر اعوان!صدر تحریم فاونڈیشن بھکر میڈم مسرت یاسمین چودھری صاحبہ کی طرف سے دارالامان میں مقیم خواتین اور بچوں میں موسم کی مطابقت کے مطابق سوٹ تحائف اور بچوں میں کھلونے تقسیم

تحریم فاؤنڈیشن بھکر کی طرف سے دارالامان میں مقیم خواتین کے لیے موسم کے مطابق سوٹ تحائف اور بچوں کے لئے کھلونے بارش میں پہلا قطرہ ثابت ہوگا۔ ملک مشتاق حسین ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال بھکر۔ محکمہ سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال پنجاب کی ہدایات پر عمل پیرا ھوتے ہوئے تحریم فاونڈیشن بھکر اور سوشل ویلفیئر آفس تحصیل بھکر کی کاوش سے صدر تحریم فاونڈیشن بھکر میڈم مسرت یاسمین چودھری صاحبہ کی طرف سے دارالامان میں مقیم خواتین اور بچوں میں موسم کی مطابقت کے مطابق سوٹ تحائف اور بچوں میں کھلونے تقسیم کئے گئے۔ اس موقع پر ملک مشتاق حسین ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال بھکر کا کہنا تھا کہ تحریم فاؤنڈیشن بھکر کی دارالامان بھکر کی خواتین کے لیے مخلصانہ کاوش بارش کا پہلا قطرہ ثابت ھوگا۔ شہزاد ولی سوشل ویلفیر آفیسر بھکر کی سماجی تنظیموں سے روابط مثالی ھیں۔مستقبل میں بھی سوشل ویلفیر آفیسر بھکر سے امید کرتا ھوں کہ دارلامان میں مقیم خواتین کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ملک مشتاق حسین ڈپٹی ڈآئریکٹر سوشل ویلفیر بھکر کے ساتھ شہزاد ولی سوشل ویلفیر آفیسر بھکر,سپراٹیننڈنٹ دارالامان,میڈم فہمیدہ ناز اسسٹنٹ ڈآیرئکٹر صنعت زار,میڈم یاسمین چوہدری,ملک توصیف سیال موجود تھے۔

جمعہ، 14 اکتوبر، 2022

بھکر( )ضلع میں مصنوعی مہنگائی کے خاتمہ کیلئے عوامی تعاون ناگزیر ہے،عوام الناس اشیائے ضروریہ کی خریداری کے دوران سرکاری نرخ ناموں کا ضرور معائنہ کریں اووچارجنگ کرنیوالے دکانداروں کے خلاف قیمت پنجاب ایپ پر شکایت درج کریں 24 گھنٹے میں متعلقہ دکاندار کے خلاف ایکشن لیا جائے گا شکایت کرنیوالے شخص کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ان خیالات کا اظہار ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد نے ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل عباس رضا ناصر،ایس پی انویسٹی گیشن اللہ نواز خان،صدر انجمن تاجران رانا محمد اشرف خاں ودیگر تاجران کے عہدیدران،آڑھتیان، میڈیا نمائندگا ن اور دیگر متعلقہ افسران بھی موجود تھے۔ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سبزیوں،پھلوں،دالوں اور دیگرعام روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کو عام آدمی کی قوت خرید میں رکھنے کیلئے ضلع کی مرکزی منڈیوں سے عام مارکیٹ تک چیک اینڈ بیلنس برقرار رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پیاز اور ٹماٹر کی بیرونی ممالک سے درآمد کی بدولت قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے آنیوالے چند دنوں میں پاکستانی پیداوارکی بدولت مارکیٹ میں ترسیل کا عمل شروع ہوجائے گا جس سے قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ اشیائے ضررویہ کی ارزاں نرخوں میں دستیابی یقینی بنانے کیلئے تاجران اور میڈیا نمائندگان کا تعاون بھی کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہاکہ زیادہ سے زیادہ شہریوں کو قیمت پنجاب ایپ کے استعمال کو ترجیح دینا ہوگی تاکہ مصنوعی مہنگائی اور اوورچارجنگ کرنیوالے عناصر کی بروقت نشاندہی کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر انجمن تاجران رانا محمد اشرف خاں نے کہاکہ دکاندار اپنے کاروبار میں مناسب نفع رکھیں جبکہ مصنوعی مہنگائی اوراوور چارجنگ کرنے والے عناصر کیساتھ ہرگز رو رعایت نہ برتی جائے اس ضمن میں ضلعی انتظامیہ کو بھر پور معاونت فراہم کی جائیگی۔اجلاس میں ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد نے شہرمیں سستے آٹا کے سیل پوائنٹس پر ترسیل کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو خصوصی طور پر احکامات جاری کئے۔بعد ازاں ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد نے پولٹری ایسوسی ایشن کے وفد سے بھی ملاقات کی اور ضلع میں چکن کے سرکاری نرخوں میں فروخت یقینی بنانے کے احکامات جاری کئے اس ضمن میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو مارکیٹ میں موثر مانیٹرنگ کیلئے بھی ڈپٹی کمشنر نے خصوصی طور پر گائیڈ لائن جاری کی#

پیر، 10 اکتوبر، 2022

بھکر!ظفر اعوان سے /ضلعی دفتر محکمہ بہبودآبادی کے زیر اہتمام کاٹھ موڑ یونین کونسل برکت والا میں کمیونٹی کے ساتھ آگاہی سیشن کاانعقاد کیاگیا۔ڈپٹی ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفیسر(سی اینڈٹی)محمدرمضان اعوان نے سیشن کے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ بہبودآبادی پروگرام کے فروغ میں کمیونٹی کے افراد کا کلیدی تعاون حاصل کرنے کیلئے آگاہی سیشنز کا انعقاد کیاجارہاہے ۔ماں بچے کی صحت بارے آگاہی بہبودآبادی پروگرام کی اولین ترجیح ہے۔ماں بچے کو حکم الہی کے مطابق دو سال دودھ پلائے تاکہ اولاد میں 3سال کا قدرتی وقفہ ہو اور ماں بچے کی صحت بھی بہتر رہے۔ بچیوں کی تعلیم پرخصوصی توجہ والدین کی اولین ذمہ داری ہے تاکہ وہ معاشرے اورملک کی ترقی میں فعال کردار اداکرسکیں۔ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر نے محکمہ میں موجود مانع حمل ادویات اور مانع حمل ادویات بارے منفی رحجانات اور انکے مضر اثرات بارے تفصیلی گفتگو کی۔ شرکاء نے اس بات کی تائید کی کہ بچوں کو 2 سال دودھ پلانا اور ذمہ دار والدین کاکردار اسلامی نقطہ نظرسے بہت اہم ہے۔آبادی اور وسائل میں توازن ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی کاضامن ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل بارے آگاہی اورخصوصاًخواتین کی تعلیم پر توجہ دے کرمعاشرے میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جاسکتاہے۔سیشن کے شرکاء نے محکمہ بہبود آبادی کے ساتھ بھرپورتعاون کی یقین دہانی کرائی #

بھکر( )ضلعی دفتر محکمہ بہبودآبادی کے زیر اہتمام کاٹھ موڑ یونین کونسل برکت والا میں کمیونٹی کے ساتھ آگاہی سیشن کاانعقاد کیاگیا۔ڈپٹی ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفیسر(سی اینڈٹی)محمدرمضان اعوان نے سیشن کے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ بہبودآبادی پروگرام کے فروغ میں کمیونٹی کے افراد کا کلیدی تعاون حاصل کرنے کیلئے آگاہی سیشنز کا انعقاد کیاجارہاہے ۔ماں بچے کی صحت بارے آگاہی بہبودآبادی پروگرام کی اولین ترجیح ہے۔ماں بچے کو حکم الہی کے مطابق دو سال دودھ پلائے تاکہ اولاد میں 3سال کا قدرتی وقفہ ہو اور ماں بچے کی صحت بھی بہتر رہے۔ بچیوں کی تعلیم پرخصوصی توجہ والدین کی اولین ذمہ داری ہے تاکہ وہ معاشرے اورملک کی ترقی میں فعال کردار اداکرسکیں۔ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر نے محکمہ میں موجود مانع حمل ادویات اور مانع حمل ادویات بارے منفی رحجانات اور انکے مضر اثرات بارے تفصیلی گفتگو کی۔ شرکاء نے اس بات کی تائید کی کہ بچوں کو 2 سال دودھ پلانا اور ذمہ دار والدین کاکردار اسلامی نقطہ نظرسے بہت اہم ہے۔آبادی اور وسائل میں توازن ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی کاضامن ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل بارے آگاہی اورخصوصاًخواتین کی تعلیم پر توجہ دے کرمعاشرے میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جاسکتاہے۔سیشن کے شرکاء نے محکمہ بہبود آبادی کے ساتھ بھرپورتعاون کی یقین دہانی کرائی #

اتوار، 2 اکتوبر، 2022

۔ تحریر ظفر اعوان "اپنی جد کے دشمن" صحافت ایک مقدس پیشہ ہے شعبہ صحافت سے منسلک ہمارےصحافی بھائیوں کے ساتھ جو عوام الناس اورانتظامیہ کی جانب سےناروا سلوک اور انہیں جوتنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ہر بندےکا اک خاندان ہے۔اوررشتہ سے جڑا ہوا ہے۔رشتہ چاہے خون کا ہو۔ چاہے دوستی کا یاکسی محکمہ کا۔ اگر ہم ان تینوں رشتوں کے ساتھ مخلص ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ایک مثال توجہ فرمائیں۔ کسی وقتوں میں بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ ایک بادشاہ اور وزیر ایک روز شکار کیلئے جنگل میں نکلے۔اور آگے سے آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے پاس جو کھانے پینے کا سامان تھاختم هو گیا۔بادشاہ اور وزیر پیاس سے نڈھال هو گئے۔اور جنگل میں پانی تلاش کرنے لگے۔آخر کار انھیں ایک کھڈا دکھائی دیا جس میں بارش کا گندہ پانی کھڑا تھا۔ جس سے جانور وغیرہ بھی پانی پیتے تھے۔بادشاہ اور وزیر سوچنے لگ گئے۔اور پھر انہوں نے یہی پانی پینے کا فیصلہ کر لیا۔ابھی ان کے پاس کوئی برتن بھی نہیں تھا جس سے پانی پیتے۔خیر پھر ان کو جانوروں کی طرح پانی پینا پڑا ۔پہلے وزیر نے پانی پی کر دکھایا پھر بادشاہ نے پانی پیا ۔بادشاہ کو چونکہ پیاس بہت زیادہ لگی ہوئی تھی ۔ایک ہی سانس میں اس نے بہت بڑا گھونٹ بھرا۔جیسے ہی اس نے گھونٹ بھرا سانپ کا چھوٹا سا بچہ پانی کے ساتھ بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔مگر بادشاہ کو پتہ نا چل سکا بادشاہ نے واپس گھر جانے کا فیصلہ کیا ۔اور واپس چل دیئے۔کوئی بیس دن کے بعد بادشاہ کا پیٹ سوجنے لگا۔اور طبیت خراب ہونے لگ گئی ۔دن بدن بادشاہ لاغر ہونے لگا اور پیٹ سوج گیا۔دنیا کا کوئی حکیم اور کوئی طبیب نا چھوڑا مگر بیماری کا کسی کو پتہ ناچل سکا۔آخر کار بادشاہ نےوزیر سے کہا مجھے جنگل میں لے چلو ۔وزیر حکم کے مطابق بادشاہ کو جنگل میں لے گیا ۔جنگل کے اندر ایک گھنے درخت کے نیچے آرام کیا ۔بادشاہ کو کھلی فضا میں سکون ملا اور نیند آ گئی۔وزیر ساتھ میں لیٹاہوا تھا ۔اچانک وزیر کیا دیکھتا ہے ۔کہ جس گھنے درخت کے نیچے سویا ہوا ہے اس کی چوٹی پر ایک خوف ناک شیش ناگ بیٹھا جھوم رہا ہے ۔وزیر ایک دم گھبرا سا گیا مگر سہم گیا کہ بادشاہ کو بڑی مدت کے بعد سکون کی نیند آئی ہے اسے جگانا اچھا نہیں ۔ابھی یہی سوچ کر وزیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو ڈر گیا۔کیا دیکھتا ہے کہ بادشاہ کا منہ کھلا ہوا ہے اور بادشاہ خراٹے بھر رہا ہے ۔اور اس کے منہ سے ایک خوفناک سانپ نکل کر ہوا کی مستی میں جھوم رہا ہے ۔ یہ منظر دیکھ کر وزیر کے تو بس آخری سانس چل رہے تھے جیسے ۔ابھی موت جیسے دونوں کے سروں پر منڈلا رہی تھی۔وزیر ابھی سارا منظر دیکھ رہا ہے بادشاہ کے منہ سے جو سانپ نکلا ہوا تھا ۔اس نے جیسے اوپر دیکھا تو چوٹی پر شیش ناگ سانپ کو دیکھ کر کہا تم ااوپر کیوں کر بیٹھے هو ۔شیش ناگ نے سانپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم بادشاہ کے پیٹ میں کیسے بیٹھے هو ۔باہر نکلو باہر کی آب و ہوا لو ۔ایک چھوٹی سی دنیا میں کیا کر رہے هو ۔اور پھر بادشاھ کی ساری خوراک تم کھا رہے هو ۔بادشاہ کو بھی تم نے عذاب دے رکھا ہے ۔ادھر آؤ کھلے آسمان تلے ۔کھلی فضا میں۔ کھلی بادشاہت میں ۔مجھے دیکھو میں اس درخت کی چوٹی پر اس لیے بیٹھا هوں کہ اس درخت کے نیچے سات بادشاہوں کی دولت دبی ہوئی ہے ۔اور میں اس مستی میں بیٹھا ھوں ۔جو کوئی خزانے کو نکالنےکی کوشش کرتا ہے میں اسے مار دیتا ہوں ۔ تم ایک چھوٹے سے پیٹ میں بادشاہت بنا کر بیٹھے هو ۔ ۔جو بادشاہ کے اندر سانپ تھا اس جواب دیا۔تم رہو کھلی فضا میں مجھے چھوٹی سی دنیا میں بڑی بڑی خوراکیں ملتی ہیں ۔دنیا کی ہر چیز مجھے نصیب ہے ۔اور آج تک میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ شیش ناگ جواب دیتا ہے۔بیٹاتیرا علاج تو بہت آسان ہے اگر کوئی کرنے والا هو تو ۔پنسار کی دکان سے فلاں ۔فلاں دوائی دودھ میں ملا کر بادشاہ کو پلائی جاۓ تو ٹھیک 2 گھنٹے بعد تیرے ٹوٹے ٹوٹے هو جائیں گے ۔اور الٹی کے ساتھ تم باہر هو جاؤ گے ۔اور بادشاہ بھی بیماری سے آزاد هو جاۓ گا ۔۔ شیش ناگ کی یہ بات سن کر بادشاہ کے اندر جو سانپ تھا وہ آگ بھگولا هو گیا ۔اس نے شیش ناگ کو بولا پتر تیرا بھی اگر علاج کرنے والا ہو تو آدھے گھنٹے کے اندر تیرا کام تمام کر سکتا ہے ۔اور جس سات بادشاہوں کی دولت پر قبضہ کر کے بیٹھا ہےنا یہ بھی جاتی رہے گی۔ شیش ناگ بولا وہ کیسے ؟؟؟ سانپ نے جواب دیا اگر کوئی بندہ اس درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا کر آگ لگا دے تو یہ آگ آدھے گھنٹے کے اندر تجھے اپنی لپیٹ میں لے کر تجھے خاک کردے گی ۔اور وہ بندہ سات بادشاہوں کی دولت کا مالک بن جاۓ گا ۔۔ یہ کہ کر سانپ غصے سے بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔ وزیر نے اب دونوں سانپوں کی گفتگو سنی ۔اور اتنے تک بادشاہ بھی جاگ گیا ۔وزیر نے بادشاہ کو اٹھایا اور واپس چل پڑا اور محل میں پہنچ گیا ۔۔ وزیرنے فوری طور پر پنسار سے وہ دوائی منگوائی جو شیش ناگ نے کہی تھی۔ ۔ اور دودھ بھی اکٹھا کر لیا گیا ۔دوائی دودھ میں ملا کر جب بادشاہ کو پلائی گئی تو دو گھنٹے بعد بادشاہ کو الٹی شروع ہو گئی۔اورالٹی کے ساتھ ساتھ سانپ کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے نكلنا شروع ہو گئے ۔۔ اور بل آخر سانپ ٹکرے ٹکرے ہو کر نکل آیا ۔اور بادشاہ بھی سکون میں آ گیا ۔چند روز میں بادشاہ بالکل ٹھیک ہو گیا ۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا تم نے میری جان بچائی ہے اب آدھی بادشاہی تیری ۔ یہ سن کر وزیر نے کہا بادشاہ سلامت مجھے آدھی بادشاہی نہیں چاہئے ۔اللّه پاک آپ کو نصیب کرے۔مجھے آپ اجازت دیں ۔ اور اپنے نوکروں سے کہو۔جنگل میں فلاں درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا دیں ۔ بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہ کر باڑ لگوا دی ۔ وزیر نے بادشاہ سے اجازت لی اور جنگل کی طرف چل پڑا ۔ وزیر نے جا کر باڑ کو آگ لگا دی۔ آگ نے چاروں طرف سے اس درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ۔۔ آگ شیش ناگ تک جا پہنچی۔ شیش ناگ بے بس ہو گیا ۔اور آگ کے اندر گر گیا ۔ اور آخر میں مرتے ہووے شیش ناگ نے ایک جملہ کہا کہ ۔(کاش میں نے اپنی جد کی خیر مانگی ہوتی۔آج تم بھی زندہ ہوتے اور میں بھی )جو لوگ اپنی جد کے دشمن بنتے ہیں ان کو خود نقصان ہوتا ہے ۔اس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔جیسے وزیر نے مزدور لگا کر ساری دولت نکال لی ۔اور بہت بڑا بادشاہ بن گیا۔دونوں سانپ بھی ختم ہو گئے ۔ یہ ہر گھر کی کہانی ہے ۔ہرطرف دوستوں کی کہانی ہے۔جو اکٹھے کھاتے پیتے ہیں ۔اور ھمراز بن جاتے ہیں ۔کچھ دنوں بعددشمن ۔۔۔ اور معزرت کے ساتھ آج کل ہماری صحافی برادری میں یہ بہت پائی جاتی ہے ۔گزشتہ روز سے میں نے آفیشل میڈیا پر ان چیزوں کو زیادہ دیکھا ہے۔پہلے تو چھپ چھپا کر آفیسروں کے ٹاوٹ بن کر اپنے ہی صحافی بھائی کی مخالفت کرنا۔ اب خیر سے فیس بک پر صحافی حضرات ایک دوسرے کے خلاف پوسٹ لگا کر عوام سے کمنٹ حاصل کرنے کے لیے گند گھول رہے ہیں ۔اس بارے کیا خیال ہے ۔ صحافی کو تو عوام نے تو پہلے ہی بلیک میلر کا خطاب دیا ہوا ہے۔کوئی محکمہ اس طرح اپنے ساتھی کے خلاف باتیں نہیں کرتا جتنا صحافی کرتا ہے ۔ ایک صحافی دوسرے کو ڈی گریٹ کرنے کے چکر میں لگا ہوا ہے ۔جس کا رزلٹ یہ ہے کہ کسی محکمہ میں صحافی کو وہ مقام حاصل نہیں جو ہونا چاہئے ۔ اگر آج سے ہی ہم اپنے صحافی بھائیوں کی عزت کرنا شروع کر دیں اور منافقت چھوڑدیں۔اور چینل اور اخبار مالکان ان پڑھ افراد کو نمائندہ بنانا چھوڑ دیں تو بہتری آسکتی ہے۔ہمیں مثبت صحافت کو فروغ دینا ہو گااور اس عظیم پیشہ کی عزت کرنا ہو گی۔۔ تحریر ظفر اعوان "اپنی جد کے دشمن" صحافت ایک مقدس پیشہ ہے شعبہ صحافت سے منسلک ہمارےصحافی بھائیوں کے ساتھ جو عوام الناس اورانتظامیہ کی جانب سےناروا سلوک اور انہیں جوتنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ہر بندےکا اک خاندان ہے۔اوررشتہ سے جڑا ہوا ہے۔رشتہ چاہے خون کا ہو۔ چاہے دوستی کا یاکسی محکمہ کا۔ اگر ہم ان تینوں رشتوں کے ساتھ مخلص ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ایک مثال توجہ فرمائیں۔ کسی وقتوں میں بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ ایک بادشاہ اور وزیر ایک روز شکار کیلئے جنگل میں نکلے۔اور آگے سے آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے پاس جو کھانے پینے کا سامان تھاختم هو گیا۔بادشاہ اور وزیر پیاس سے نڈھال هو گئے۔اور جنگل میں پانی تلاش کرنے لگے۔آخر کار انھیں ایک کھڈا دکھائی دیا جس میں بارش کا گندہ پانی کھڑا تھا۔ جس سے جانور وغیرہ بھی پانی پیتے تھے۔بادشاہ اور وزیر سوچنے لگ گئے۔اور پھر انہوں نے یہی پانی پینے کا فیصلہ کر لیا۔ابھی ان کے پاس کوئی برتن بھی نہیں تھا جس سے پانی پیتے۔خیر پھر ان کو جانوروں کی طرح پانی پینا پڑا ۔پہلے وزیر نے پانی پی کر دکھایا پھر بادشاہ نے پانی پیا ۔بادشاہ کو چونکہ پیاس بہت زیادہ لگی ہوئی تھی ۔ایک ہی سانس میں اس نے بہت بڑا گھونٹ بھرا۔جیسے ہی اس نے گھونٹ بھرا سانپ کا چھوٹا سا بچہ پانی کے ساتھ بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔مگر بادشاہ کو پتہ نا چل سکا بادشاہ نے واپس گھر جانے کا فیصلہ کیا ۔اور واپس چل دیئے۔کوئی بیس دن کے بعد بادشاہ کا پیٹ سوجنے لگا۔اور طبیت خراب ہونے لگ گئی ۔دن بدن بادشاہ لاغر ہونے لگا اور پیٹ سوج گیا۔دنیا کا کوئی حکیم اور کوئی طبیب نا چھوڑا مگر بیماری کا کسی کو پتہ ناچل سکا۔آخر کار بادشاہ نےوزیر سے کہا مجھے جنگل میں لے چلو ۔وزیر حکم کے مطابق بادشاہ کو جنگل میں لے گیا ۔جنگل کے اندر ایک گھنے درخت کے نیچے آرام کیا ۔بادشاہ کو کھلی فضا میں سکون ملا اور نیند آ گئی۔وزیر ساتھ میں لیٹاہوا تھا ۔اچانک وزیر کیا دیکھتا ہے ۔کہ جس گھنے درخت کے نیچے سویا ہوا ہے اس کی چوٹی پر ایک خوف ناک شیش ناگ بیٹھا جھوم رہا ہے ۔وزیر ایک دم گھبرا سا گیا مگر سہم گیا کہ بادشاہ کو بڑی مدت کے بعد سکون کی نیند آئی ہے اسے جگانا اچھا نہیں ۔ابھی یہی سوچ کر وزیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو ڈر گیا۔کیا دیکھتا ہے کہ بادشاہ کا منہ کھلا ہوا ہے اور بادشاہ خراٹے بھر رہا ہے ۔اور اس کے منہ سے ایک خوفناک سانپ نکل کر ہوا کی مستی میں جھوم رہا ہے ۔ یہ منظر دیکھ کر وزیر کے تو بس آخری سانس چل رہے تھے جیسے ۔ابھی موت جیسے دونوں کے سروں پر منڈلا رہی تھی۔وزیر ابھی سارا منظر دیکھ رہا ہے بادشاہ کے منہ سے جو سانپ نکلا ہوا تھا ۔اس نے جیسے اوپر دیکھا تو چوٹی پر شیش ناگ سانپ کو دیکھ کر کہا تم ااوپر کیوں کر بیٹھے هو ۔شیش ناگ نے سانپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم بادشاہ کے پیٹ میں کیسے بیٹھے هو ۔باہر نکلو باہر کی آب و ہوا لو ۔ایک چھوٹی سی دنیا میں کیا کر رہے هو ۔اور پھر بادشاھ کی ساری خوراک تم کھا رہے هو ۔بادشاہ کو بھی تم نے عذاب دے رکھا ہے ۔ادھر آؤ کھلے آسمان تلے ۔کھلی فضا میں۔ کھلی بادشاہت میں ۔مجھے دیکھو میں اس درخت کی چوٹی پر اس لیے بیٹھا هوں کہ اس درخت کے نیچے سات بادشاہوں کی دولت دبی ہوئی ہے ۔اور میں اس مستی میں بیٹھا ھوں ۔جو کوئی خزانے کو نکالنےکی کوشش کرتا ہے میں اسے مار دیتا ہوں ۔ تم ایک چھوٹے سے پیٹ میں بادشاہت بنا کر بیٹھے هو ۔ ۔جو بادشاہ کے اندر سانپ تھا اس جواب دیا۔تم رہو کھلی فضا میں مجھے چھوٹی سی دنیا میں بڑی بڑی خوراکیں ملتی ہیں ۔دنیا کی ہر چیز مجھے نصیب ہے ۔اور آج تک میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ شیش ناگ جواب دیتا ہے۔بیٹاتیرا علاج تو بہت آسان ہے اگر کوئی کرنے والا هو تو ۔پنسار کی دکان سے فلاں ۔فلاں دوائی دودھ میں ملا کر بادشاہ کو پلائی جاۓ تو ٹھیک 2 گھنٹے بعد تیرے ٹوٹے ٹوٹے هو جائیں گے ۔اور الٹی کے ساتھ تم باہر هو جاؤ گے ۔اور بادشاہ بھی بیماری سے آزاد هو جاۓ گا ۔۔ شیش ناگ کی یہ بات سن کر بادشاہ کے اندر جو سانپ تھا وہ آگ بھگولا هو گیا ۔اس نے شیش ناگ کو بولا پتر تیرا بھی اگر علاج کرنے والا ہو تو آدھے گھنٹے کے اندر تیرا کام تمام کر سکتا ہے ۔اور جس سات بادشاہوں کی دولت پر قبضہ کر کے بیٹھا ہےنا یہ بھی جاتی رہے گی۔ شیش ناگ بولا وہ کیسے ؟؟؟ سانپ نے جواب دیا اگر کوئی بندہ اس درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا کر آگ لگا دے تو یہ آگ آدھے گھنٹے کے اندر تجھے اپنی لپیٹ میں لے کر تجھے خاک کردے گی ۔اور وہ بندہ سات بادشاہوں کی دولت کا مالک بن جاۓ گا ۔۔ یہ کہ کر سانپ غصے سے بادشاہ کے اندر چلا گیا ۔ وزیر نے اب دونوں سانپوں کی گفتگو سنی ۔اور اتنے تک بادشاہ بھی جاگ گیا ۔وزیر نے بادشاہ کو اٹھایا اور واپس چل پڑا اور محل میں پہنچ گیا ۔۔ وزیرنے فوری طور پر پنسار سے وہ دوائی منگوائی جو شیش ناگ نے کہی تھی۔ ۔ اور دودھ بھی اکٹھا کر لیا گیا ۔دوائی دودھ میں ملا کر جب بادشاہ کو پلائی گئی تو دو گھنٹے بعد بادشاہ کو الٹی شروع ہو گئی۔اورالٹی کے ساتھ ساتھ سانپ کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے نكلنا شروع ہو گئے ۔۔ اور بل آخر سانپ ٹکرے ٹکرے ہو کر نکل آیا ۔اور بادشاہ بھی سکون میں آ گیا ۔چند روز میں بادشاہ بالکل ٹھیک ہو گیا ۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا تم نے میری جان بچائی ہے اب آدھی بادشاہی تیری ۔ یہ سن کر وزیر نے کہا بادشاہ سلامت مجھے آدھی بادشاہی نہیں چاہئے ۔اللّه پاک آپ کو نصیب کرے۔مجھے آپ اجازت دیں ۔ اور اپنے نوکروں سے کہو۔جنگل میں فلاں درخت کے چاروں طرف سے لکڑیوں کی باڑ لگا دیں ۔ بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہ کر باڑ لگوا دی ۔ وزیر نے بادشاہ سے اجازت لی اور جنگل کی طرف چل پڑا ۔ وزیر نے جا کر باڑ کو آگ لگا دی۔ آگ نے چاروں طرف سے اس درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ۔۔ آگ شیش ناگ تک جا پہنچی۔ شیش ناگ بے بس ہو گیا ۔اور آگ کے اندر گر گیا ۔ اور آخر میں مرتے ہووے شیش ناگ نے ایک جملہ کہا کہ ۔(کاش میں نے اپنی جد کی خیر مانگی ہوتی۔آج تم بھی زندہ ہوتے اور میں بھی )جو لوگ اپنی جد کے دشمن بنتے ہیں ان کو خود نقصان ہوتا ہے ۔اس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔جیسے وزیر نے مزدور لگا کر ساری دولت نکال لی ۔اور بہت بڑا بادشاہ بن گیا۔دونوں سانپ بھی ختم ہو گئے ۔ یہ ہر گھر کی کہانی ہے ۔ہرطرف دوستوں کی کہانی ہے۔جو اکٹھے کھاتے پیتے ہیں ۔اور ھمراز بن جاتے ہیں ۔کچھ دنوں بعددشمن ۔۔۔ اور معزرت کے ساتھ آج کل ہماری صحافی برادری میں یہ بہت پائی جاتی ہے ۔گزشتہ روز سے میں نے آفیشل میڈیا پر ان چیزوں کو زیادہ دیکھا ہے۔پہلے تو چھپ چھپا کر آفیسروں کے ٹاوٹ بن کر اپنے ہی صحافی بھائی کی مخالفت کرنا۔ اب خیر سے فیس بک پر صحافی حضرات ایک دوسرے کے خلاف پوسٹ لگا کر عوام سے کمنٹ حاصل کرنے کے لیے گند گھول رہے ہیں ۔اس بارے کیا خیال ہے ۔ صحافی کو تو عوام نے تو پہلے ہی بلیک میلر کا خطاب دیا ہوا ہے۔کوئی محکمہ اس طرح اپنے ساتھی کے خلاف باتیں نہیں کرتا جتنا صحافی کرتا ہے ۔ ایک صحافی دوسرے کو ڈی گریٹ کرنے کے چکر میں لگا ہوا ہے ۔جس کا رزلٹ یہ ہے کہ کسی محکمہ میں صحافی کو وہ مقام حاصل نہیں جو ہونا چاہئے ۔ اگر آج سے ہی ہم اپنے صحافی بھائیوں کی عزت کرنا شروع کر دیں اور منافقت چھوڑدیں۔اور چینل اور اخبار مالکان ان پڑھ افراد کو نمائندہ بنانا چھوڑ دیں تو بہتری آسکتی ہے۔ہمیں مثبت صحافت کو فروغ دینا ہو گااور اس عظیم پیشہ کی عزت کرنا ہو گی۔


 

پیر، 30 مئی، 2022

بھکر کی سیاسی ڈائری رپورٹ !! اسلم خان بلوچ !! (وفا کا نام طارق حمید خان نیازی ) بھکر میں پی ٹی آئی کی اصل پہچان طارق حمید خان) پی پی 92 میں پی ٹی کے ٹکٹ کا حقدار طارق حمید خان نیازی ) تعارف طارق حمید خان نیازی بھکر میں پی ٹی آئی کا اصلی چہرہ 2013 میں منکیرہ سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم پی اے کا الیکشن لڑا بلکہ ضلع کے 6 ٹکٹ بھی طارق خان لائے 2014 کا دھرنا ہو یا لاک ڈاؤن طارق خان درجنوں گاڑیوں سینکڑوں کارکنان کو لیڈ کیا بلدیاتی الیکشن کے دوران ضلع بھکر کی چاروں تحصیلوں کے ٹکٹ طارق خان نے تقسیم کیے اکثر امیدواروں کے ٹکٹ کی رقم بھی پارٹی کو طارق خان نے ادا کی ضلعی یوتھ صدر رہے ضلعی جنرل سیکرٹری رہے اور ہمیشہ پارٹی کو فعال رکھا دور اقتدار میں طارق خان کو دیوار سے لگائے رکھا لیکن جب خان پر مشکل وقت آیا تو سب سے پہلے میدان میں ہزاروں ساتھیوں سمیت میدان میں اترا اور عمران خان کا بازو بنے کبھی عہدے سیٹوں وغیرہ کا مطالبہ نہیں کیا حقیقی مارچ میں بھی واحد مرد مجاھد طارق خان ہی ضلع بھکر میں نظر آیا جس نے ورکرز کو بزیعہ فون گرفتاریوں سے ہوشیار رکھا کارکنان کو کشتیوں کوچز اور موٹر سائیکلوں پر بھیج کر میانوالی اپنی رہائش گاہ پر کھانا رہائش اور ٹرانپورٹ کا بندوبست سمیت قافلہ کے فرنٹ فٹ پر کھیلے راستے کھلوائے اور خان کا ساتھ وفانبھاتے ہوئے اسلام آباد پنہچے 2018میں بھی طارق خان نے پی پی 92:سے الیکشن کیلئے کاغزات نامزدگی جمع کرائے مگر پارٹی کی خاطر کاغزات واپس لے لئے اور پارٹی کے ٹکٹس ہولڈرز کو سپورٹ کیا اب ہر صورت ٹکٹ پی پی 92 کا طارق حمید خان نیازی کو ملنا چاہئے اصل حقدار طارق حمید خان نیازی ہے

جمعہ، 15 اپریل، 2022

ظفر اعوان//سنگر ذیشان روکھڑی

انتخاب/ظفر اعوان۔عطاء اللّه خان عیسیٰ خیلوی #سیاست_ہوگئ_اب_موڈ_ٹھیک_کریں۔ #لالا۔عطاءاللہ_کو_سیریس_لینے_کے_سائیڈ_ایفیکٹس امی : اپنی بیوی سے کہو کچن میں جا کے برتن دھوئے میں : ان کے پاؤں میں مہندی لگی ہے آنے جانے کے قابل نہیں ہے 😑 رشتے دار : تمہاری پڑھائی کیسے جا رہی ہے میں: آپ وہ بات کیوں پوچھتے ہیں جو بتانے کے قابل نہیں ہے 😕 لڑکی : تصویر دیکھ کے ڈیلیٹ کر دینا میں : میری نظریں ابھی تک ہیں پیاسی میں نے جی بھر کے دیکھا نہیں ہے 😍 دوست : یار یہ اخبار اٹھانا میں (غصے سے): جانتے ہیں تمہاری کلائی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے 😏 ہمسائی : میں نے وائی فائی کا پاسورڈ بدل دیا ہے اب نہیں بتاوں گی۔ میں : تم تو ایسے بدلنے لگے ہو آج تک کوئی بدلا نہیں ہے 😒 موبی لنک : آپ بغیر پیکج کے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ میں : دل کسی کا اگر ٹوٹ جائے کوئی آواز سنتا نہیں ہے 😭 ابا حضور : مجھے پتا چلا ہے کہ تم مسکان سے چھپ چھپ کے ملتے ہو میں : پیار کو چاہے جتنا چھپاؤ یہ چھپانے سے چھپتا نہیں ہے 😌 پھپھو کی بیٹی : آج کل ہمارے گھر نہیں آتے ہو، ناراض ہو ؟؟ میں : تم تو دل میں سمائے ہوئے ہو ملنے کی ضرورت نہیں ہے ❤ پھپھو کی بیٹی : ایسے عاشق کو سولی چڑھا دو رحم کھانے کے قابل نہیں ہے 😐 لالا جی کی وال سے کاپی ۔۔

بدھ، 13 اپریل، 2022

انتخاب/ظفر اعوان//شاعرہ نمره ملک

اسے کهنا بیت دنوں سے مرے آنگن میں کوئ پهول نهیں کھلا اسے کهنا بهت لمحے بیتے کسی درد کو جگاۓ اسے کهنا که لوٹ آے که بے اندازه محبت اب هم سے یه کهتی هے جنون عشق بھی مری جاں کب اتنا بار سهتا هے اسے کهنا دکھوں کو کم کر دے مگر اتنا ستم کر دے مری آنکھیں جو بنجر هیں انهیں پهر سے رلاۓ وه اسے کهناکه اک بار تو لوٹ آے وه ( نمره ملک)

بدھ، 6 اپریل، 2022

سن سجن مینڈا میں سچ آکھاں ترا ناں سدا مینڈے نال راہسی جے ناں راسی تے مینڈی نال وفا لجپال راہسی تینڈے حسن تے عاشق بہوں ہوسن کوئ اکھ عاشق کوئ لکھ عاشق میں کملی،کوجھی یملی آں مینڈی گلی نا ہر اک ککھ عاشق سن سجن مینڈا میں سچ آکھاں تینڈے لگدے پیارے بہوں ہوسن ترے اک اک وال تے وکدے وی سارے شہر دے شیشے ڈل پوسن مینڈی اکھ نا شیشہ توں ویکھ گھدا اس شیشے وچ کوئ لکھ نہ ککھ اس شیشے وچ تینڈے ناں دی رکھ سنڑ سجن مینڈا میں سچ آکھاں ہک گل تے ہزارہا مطلب نیں تینڈی ہک ہک گل تے سئیں وکدے مینڈے ساہ نے ہر ہر ورقے تے تینڈی خشبو اے مہنڈی روح وچ چن مہنڈا توں ای توں ہر سو ایں اسی دل رکھیا اسی سائیاں لکھن دا ول سکھیا مینڈے لیکھاں وچ رب محرم نے قلماں دی چھاں لکھیا مہنڈا سوہنڑا سجن تینڈا ناں لکھیا میں کوجھی ،کملی یملی سہی پر سجن مہنڈا ای سچ آکھااااا۔۔۔۔۔ نمرہ ملک۔۔۔۔۔مجموعہ کلام مہنڈی روح دے یوسف بولیں نہ) (جبی شاااااہ کی بصارتوں کے نام۔۔۔۔میرے نئے ناول میں شامل پہلی نظم)

منگل، 5 اپریل، 2022

راولپنڈی(عارف اعوان ) سی۔پی۔او ۔راولپنڈی نے 39 كانسٹیبل کو ہیڈ كانسٹیبل پرموٹ کیا ۔ ہم اپنے دوست عاطف ظہور کو ہیڈ کانسٹیبل پرموٹ ہونے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔اللّه پاک ان کو ہر قدم پر کامیابیاں عطاء فرماۓ۔آمین۔

ایک دن نشا کے ساتھ //انٹرویو۔ تمنا ظفر

ایک دن نشا راؤ کے ساتھ انٹرویو! تمناظفر پاکستان میں پہلا خواجہ سرا وکیل نشا راؤ .... ملاقات میں پہلی فرست میں میرے نام کو پسند کرنے کے ساتھ میرے نام کی تعریف کرتے ہوئے، یک دم اپنی کہانی سنانا شروع کردی، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرا انتظار کررہا تھا کیوں کہ ہوتا ہے عموماً ایسا کہ جب بندہ سڑکوں پر بھیک مانگ کر کوئی مقام حاصل کرلے، اور پھر چاہے کتنا ہی بڑا بن جائے مگر! وہ اذیت وہ درد بھولے سے بھی نہیں بھولا جاتا ـ کوئی بھی نارمل بندہ سامنے آجائے تو بے شک وہ داستان یاد آتی ہے ـ کرا چی میں بھیک مانگنے والوں کی اکثریت دوسرے شہروں سے تعلق رکھتی ہے پھر چاہے اس میں خواجہ سرا ہوں یا باقی بچے بوڑھے... اسی طرح نشا نے بھی لاہور سے کراچی میں داخل ہوکر ہر وہ کام کیا جو ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا کے قابل سمجھا جاتا ہے، اپنی داستانِ حیات سناتے ہوئے مجھے متاثر کردیا... کیوں کہ نشا دس سال تک بھیک مانگ کر دن میں کلاسز لیتا اور رات کو پڑھائی کرتا یوں وکیل کی ڈگری حاصل کرلی بلکہ اب اپنی کمیونٹی کے حقوق کے لیے تنظیم بھی بنائی ہے جس میں دس سے زائد خواجہ سراؤں کے مسلے مسائل حل کیے گئے ہیں ـ موجودہ وقت میں کوئی بھی مرد خواجہ سرا کے مسائل سننا یا کھڑا ہونا تو دور کی بات پر ان سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا، ایسے میں نشا نے میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جب جب کراچی یونیورسٹی میں فیس اد کرنے جاتا تھا یا کوئی بھی ایسا اقدام اٹھانا چاہا ہے تو یہ وہ شخص ہے جو میرا سہارا بن کر کھڑا تھا ـ مجھے تم سندھی لوگوں سے بہت عقیدت ہے محبت ہے ـ آخر میں نشا نے کہا تمنا میری تمنا ہے کہ میری داستانِ حیات پر آپ بھی لکھیں ـ ساتھ میں وہ مجھے نقاب میں دیکھ کر اپنے روزہ نماز کی ادائیگی کا بھی ذکر کرنے لگے وہ روزہ نماز کا پابند بھی ہیں اور تحریک بھی چلا رہے ہیں ـ تو میں سوچ میں پڑ گئی اسی وقت کہ جس پر ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر سے لوگوں نے لکھا ہے، کئی ٹی وی چینلز نے ڈاکو مینٹری بنائ ہے اس شخصیت پر میرے الفاظ تو کچھ بھی نہیں ـ مگر! ان سے مل کر مجھے خوشی اس بات کی ہوئی ہے کہ بقول نشا کے میرے اپنے لوگ میری ہم زبان لوگ ان کو کامیاب کرنے میں ساتھ کھڑے ہیں ـ تو یہ بات میرے لیے قابل فخر ہے الحمد للہ! #تمناظفر #alhamdulillahforeverything #meet #transgenderawareness #with #nisharao #moodobservation #happiness #Tammanazafar #fellingpositive #sadarkarachiایک دن نشا راؤ کے ساتھ انٹرویو! تمناظفر پاکستان میں پہلا خواجہ سرا وکیل نشا راؤ .... ملاقات میں پہلی فرست میں میرے نام کو پسند کرنے کے ساتھ میرے نام کی تعریف کرتے ہوئے، یک دم اپنی کہانی سنانا شروع کردی، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرا انتظار کررہا تھا کیوں کہ ہوتا ہے عموماً ایسا کہ جب بندہ سڑکوں پر بھیک مانگ کر کوئی مقام حاصل کرلے، اور پھر چاہے کتنا ہی بڑا بن جائے مگر! وہ اذیت وہ درد بھولے سے بھی نہیں بھولا جاتا ـ کوئی بھی نارمل بندہ سامنے آجائے تو بے شک وہ داستان یاد آتی ہے ـ کرا چی میں بھیک مانگنے والوں کی اکثریت دوسرے شہروں سے تعلق رکھتی ہے پھر چاہے اس میں خواجہ سرا ہوں یا باقی بچے بوڑھے... اسی طرح نشا نے بھی لاہور سے کراچی میں داخل ہوکر ہر وہ کام کیا جو ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا کے قابل سمجھا جاتا ہے، اپنی داستانِ حیات سناتے ہوئے مجھے متاثر کردیا... کیوں کہ نشا دس سال تک بھیک مانگ کر دن میں کلاسز لیتا اور رات کو پڑھائی کرتا یوں وکیل کی ڈگری حاصل کرلی بلکہ اب اپنی کمیونٹی کے حقوق کے لیے تنظیم بھی بنائی ہے جس میں دس سے زائد خواجہ سراؤں کے مسلے مسائل حل کیے گئے ہیں ـ موجودہ وقت میں کوئی بھی مرد خواجہ سرا کے مسائل سننا یا کھڑا ہونا تو دور کی بات پر ان سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا، ایسے میں نشا نے میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جب جب کراچی یونیورسٹی میں فیس اد کرنے جاتا تھا یا کوئی بھی ایسا اقدام اٹھانا چاہا ہے تو یہ وہ شخص ہے جو میرا سہارا بن کر کھڑا تھا ـ مجھے تم سندھی لوگوں سے بہت عقیدت ہے محبت ہے ـ آخر میں نشا نے کہا تمنا میری تمنا ہے کہ میری داستانِ حیات پر آپ بھی لکھیں ـ ساتھ میں وہ مجھے نقاب میں دیکھ کر اپنے روزہ نماز کی ادائیگی کا بھی ذکر کرنے لگے وہ روزہ نماز کا پابند بھی ہیں اور تحریک بھی چلا رہے ہیں ـ تو میں سوچ میں پڑ گئی اسی وقت کہ جس پر ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر سے لوگوں نے لکھا ہے، کئی ٹی وی چینلز نے ڈاکو مینٹری بنائ ہے اس شخصیت پر میرے الفاظ تو کچھ بھی نہیں ـ مگر! ان سے مل کر مجھے خوشی اس بات کی ہوئی ہے کہ بقول نشا کے میرے اپنے لوگ میری ہم زبان لوگ ان کو کامیاب کرنے میں ساتھ کھڑے ہیں ـ تو یہ بات میرے لیے قابل فخر ہے الحمد للہ! #تمناظفر #alhamdulillahforeverything #meet #transgenderawareness #with #nisharao #moodobservation #happiness #Tammanazafar #fellingpositive #sadarkarachi

رپورٹ/ظفر اعوان//راولپنڈی اسلام آباد بیوروز جرنلسٹس ایسوسی ایشن (RIBJA) کے نومنتخب ایگزیکٹو، گورننگ عہدیداران 2022-23 ء، کے پہلے باضابطہ اجلاس کی صدر رانا زاہد حسین کی زیر صدارت منعقد ہوا ،نظامت کے فرائض سیکرٹری سردار شاید نے ادا کئے تلاوت کلام پاک سیکرٹری فنانس رازق بھٹی نے ادا کی اس کے بعد باضابطہ ایجنڈے پر کارروائی کا آغاز کیا گیا جاری کردہ انفارمیشن سیکرٹری فائزہ شاہ کاظمی (ربجا)

پیر، 4 اپریل، 2022

انتخاب//ظفر اعوان //علاقے کے ایک مشہور و معروف کردار کی کہانی وادی سون اورمحمد خان محمد خان اور اس کا بھائی ہاشم خان وادی سون کے پہاڑوں کواپناگھربنا چکے تھے ۔ پولیس ان کی گرفتاری کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے تھی لیکن وہ پولیس کے لئے چلاوہ بن چکے تھے۔ کئی مرتبہ پہاڑوں پر پولیس نے ریڈکیا کئی مرتبہ ان کے قریب سے پولیس گزر گئی لیکن وہ پولیس کے ہتھے نہ چڑھ سکے۔ پولیس کو آرڈر تھا کہ زندہ یا مردہ ان دونوں بھائیوں کو گرفتار کیا جائے۔ اس دوران آس پاس کے علاقوں میں جرائم پیشہ افراد نے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا جس سے پولیس نے یہ تاثر دیا کہ یہ وارداتیں محمد خان خود کرتا ہے یا اپنے بندوں سے کرواتا ہے حالانکہ ایسا نہیں تھاوہ رو پوش ضرور تھا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پیر مکھڈ شریف اور دوسرے بااثر اشخاص پولیس کے ہاتھوں اسے مروا دینا چاہتے تھے اگراسے پولیس کے اس ارادے کا علم نہ ہوتا تو یقیناًعدالت میں حاضر ہو جاتا ہر شخص اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے وہ فوج سے گھر چھٹی آیا تھا تو ملک لال خان نے ڈاکے اور قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا پھر گھیر کر اسے ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی بااثر افراد کی وجہ سے مولابخش اور اس کے آدمی مقدمات میں ایک بار بھی کڑی سزا نہیں پا سکے‘ پھر محمد خان کے گھر کا محاصرہ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے مسلح افراد نے دھاوا بول دیا مگر مقدمات بھی محمد خان اور اس کے خاندان پر قائم ہوئے مخالف فریق صاف بری ہو گیا یہ واقعات اس کے ذہن میں پتھر پر لکیر کی طرح نقش تھے ان بے انصافیوں نے اسے ایک نیا ذہن نئی سوچ اور الگ تھلگ کردار کا مالک بنا دیاتھا وہ ظالم سفاک قاتل اور لٹیرا نہیں تھا وہ تو اپنی جان بچانے کیلئے پہاڑوں کی وادی میں تنہائی کے مظالم سہ رہا تھا اگرچہ اس کا والد وفات پا چکا تھا تا ہم گھر میں بھائی فتح شیر ایک بوڑھی ماں اور بہن موجو دتھی اسکا دھیان ہر وقت ان کی جانب رہتا تھا وہ کئی مرتبہ پولیس کا گھیرا توڑ کر گھر آیا اور بہت دیر تک گھر رہ کر پھر رو پوش ہو جاتا پولیس یہ خیال کر رہی تھی کہ اس نے ڈاکوﺅں‘ چوروں اور قاتلوں کا ایک گروہ تیار کر رکھا ہے جو ہینڈ گرنیڈوں‘ آتشیں اسلحہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہے یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ اسکے قریب ہوتے ہوئے پولیس نے گولی نہیں چلائی۔وادی سون میں محمد خان کے ساتھیوں‘ عزیز رشتہ داروں اور بعض پولیس والوں کا تعاون بھی اسے حاصل رہا۔ بہت سے مقامی اعوان اس کے دوست بن چکے تھے وہ اسے خطرات سے آگاہ کر دیتے اور حالات سے پوری طرح باخبر رکھا کرتے یہی وجہ تھی کہ وہ پولیس کارروائی سے قبل ہی حفاظتی انتظامات کر لیا کرتا تھا۔ اس دوران اس کے دوستوں نے محمد خان کو بچانے کیلئے یہ مشہور کر دیا کہ وہ ایک خونی لٹیرا بن گیا ہے۔ اس نے پہاڑوں میں ایک بنک قائم کر رکھا تھا اس کے ہزاروں ساتھی وادی سون میں گھومتے رہتے اور وہ لوگوں کو پکڑ کر قتل کر دیا کرتا تھا اس کے خفیہ اڈے قائم تھے یہ تاثر بالکل غلط ہے‘ وہ فلمی ڈاکووں کی طرح پہاڑ میں سردار نہیں بنا بیٹھا تھا‘ اسکے پاس اسلحہ تھا ‘ حفاظت خود اختیاری کا پورا سامان تھا اسے لمحہ لمحہ کی خبر رہتی تھی لیکن اس نے ڈاکووں کا کوئی گینگ تیار نہیں کیا ہوا تھا بلکہ اس نے اس علاقہ میں امن و امان بحال کرنے کی پوری کوشش کی تھی ہو سکتا ہے بعض اوچھے لوگ اس کا نام استعمال کر کے وارداتیں کرتے ہوں اگر کبھی کوئی ایسا واقعہ اس کے علم میں لایا گیا تو اس نے سختی سے اس کا نوٹس لیا‘ اسے تو ہر وقت اپنے بھائی ہاشم خان کی فکر لگی رہتی وہ درد گردہ کا پرانا مریض تھا۔ ابھی رن باز خان کو قتل ہوئے چارماہ کاوقت ہی گزرا تھا کہ ہاشم خان طبیعت خراب ہو گئی۔ اس کے پاس دوائیاں موجودتھیں لیکن ان سے آرام نہیں آیا۔ کسی ہسپتال میں وہ بھائی کو لیکر نہیں جا سکتا تھا۔ بالآخر اسی رات محمد خان کی جھولی میں ہاشم خان کا دم نکل گیا۔ صبح ہوئی تو اس نے اپنے ساتھیوں کو کہاکہ ہاشم خان کی تدفین کا بندوبست کرنے کیلئے اس کی لاش کو اس کے دیرینہ دوست محمد خضر حیات کے ڈیرے پر پہنچادیں ۔ یہ لاش وہ اس لئے بھجوا رہا تھا کہ معززین کی نگرانی میں اس کے بھائی کی لاش کو سپرد خاک کیا جا سکے۔ پولیس کو اس کی اطلاع ہو ئی پولیس نے راستے میں ہی ساتھیوں سے اس بھائی کی لاش چھین لی اور لاش پر گولیاں برسا کر پولیس مقابلہ کی کہانی گھڑ لی‘ اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ ڈاکو محمد خان کا بھائی ہاشم خان پولیس مقابلہ میں مارا گیا‘ محمدخان کو اس کا بے حد دکھ ہوا وہ تو رو پوش تھا اس وقت کیا کر سکتا تھا پولیس خود اس کی تاک میں تھی‘ لیکن اب محمد خان حکمت عملی تبدیل کرلی۔۔ اس نے اپنا مسلح گروہ بنا لیا۔۔ اس کے ارد گرد رضا کار لوگ اکھٹا ہو گئے۔۔ روپوشی کے دوران وہ وادی سون ، تھوہا محرم خان، چینجی کوٹیڑہ اور بھلومار کے غریب لوگوں کی بے انتہاء مدد کیا کرتا تھا۔۔ اس بنا پر غریب لوگ اسے مسیحا ماننے تھے۔۔ جب وہ طاقت اختیار کر گیا تو ہاشم کی وفات کے ٹھیک پانچ ماہ بعد اس نے رو پوشی کی زندگی ترک کرتے ہوئے پولیس تھانہ ٹمن میں واقعہ ڈھوک مصائب میں مستقل رہائش اختیار کر لی ۔ ڈھوک مصائب تلہ گنگ میانوانی روڈ پر بڈھر ونہار سے تھوڑا پہلے دائیں جانب ہے۔ اب مخالفین نے جب اس کے ساتھ رضا کاروں کی فوج دیکھی تو وہ بھی خوفزدہ ہو گئے ہزاروں کی تعدادمیںرضا کار ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے۔ اب مولا بخش پارٹی کو جان کے لالے پڑ چکے تھے وہ بھی محمد خان سے راضی نامہ کے لئے کوشاں تھے۔ اس دوران محمد خان نے ملک امیر محمد خان کا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے انتظامیہ میں بھی اپنی جان پہچان بنا لی۔ قتل کے مقدمے بدستور اس کے خلاف قائم تھے پولیس کو اس کو تلاش بھی کر رہی تھی لیکن اس کے حالات بدل چکے تھے ۔ پولیس جہاں چھاپہ مارتی مقامی لوگ ڈنڈے لیکر پولیس کو بھگا دیتے۔ بلکہ اب تو اس کے نام کا اتنا ڈنکا بج چکا تھا کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اس سے دوستی کے خواہاں تھے۔ جب محمد خان نے ڈھوک مصائب پر ڈیرہ لگایا تو اس کی دہشت کے سائے وادی سون سے نکل کر تحصیل چکوال‘ تحصیل پنڈی گھیب اور نواحی علاقوں تک پھیل گئے تھے‘ اس نے اس جگہ آتے ہی تمام گھر والوں کو بھی بلالیا‘ اس کا مخالف فریق چل کر اس کے پاس آگیا‘ اس نے اس سے صلح کر لی اب محمد خان کا وہ دور شروع ہوتا ہے اس کی الگ ریاست قائم کرنے سے تشبیہ دی جاتی ہے‘ محمد خان نے جس طرح قانون و انصاف کا خون ہوتے ہوئے دیکھا انسانیت کی توہین اپنی آنکھوں سے دیکھی اس کے ساتھ جو ظلم و ستم روا رکھا گیا اس نے نفسیاتی رد عمل کے طور پر اسے ایک ایسا نظام قائم کرنے کی تحریک دی جس میں کمزور اور طاقتور برابر ہو سکیں جہاںرشوت ، سفارش اور ٹیلی فونوں پر انسانی قسمت کے فیصلے نہ ہوں‘ ظالم کو کڑی سزا ملے اور مظلوم کو اس کا حق دلا سکے ۔ محمد خان کی شخصیت کا رعب دبدبہ تھا کہ پورے ضلع میں پولیس کے ڈی ایس پی سے لیکر اک سپاہی تک اس کی اجازت کے بغیر گاﺅں میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ اپنے ڈیرے سے دور دور تک اس کے چیک پوسٹیں بنا رکھیں تھیں جن میں چڑیا کا بچہ بھی پر نہیں مارسکتا تھا۔ ۔۔ اور پھرمحمد خان نے اپنی ریاست قائم کرلی ۔۔۔ جب محمد خان نے اپنے گرد حصار مستحکم کرلیا ۔ پولیس اورانتظامیہ کو اپنا ہم نوا بنا لیا تو لوگوں اس کو مسیحا ماننے لگے۔ لوگ پولیس کے پاس جانے کی بجائے اپنے مسائل اورمقدمات کے حل کیلئے محمد خان سے رجوع کرنے لگے۔ وہ زیادہ پڑھا ہوا نہیں تھا لیکن تجربے نے بہت کچھ سکھایا تھا اس نے اپنی الگ عدالتیں لگانا شروع کر دیں وہ لوگ جو جان کے دشمن تھے اس کے خوف سے لرزنے لگے پولیس آفیسر‘ تحصیل دار‘ دوسرے محکموں کے سربراہ اس کے پاس آیا کرتے اور پاس بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے ہیں۔ محمد خان ان عدالتوں کا سربراہ اعلیٰ ہوا کرتا تھا۔ اس کے پاس سینکڑوں سپاہی ہوا کرتے جنہیں وہ خود بھرتی کیا کرتا انہیں باقاعدہ تنخواہ دی جاتی تھیں۔ ہزاروں رضا کار تھے۔ باقاعدہ مقدمات کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا سب کاروائی عام عدالتوں کی طرح لکھی جاتی۔ شہادتیں لی جاتیں مقدمات کی انکوائری کی جاتی وارنٹ جاری کئے جاتے اور محمد خان نے اپنے مسلح سپاہی ملزموں کو پکڑ کر لایا کرتے تھے۔ محرر تمام کارروائی نوٹ کرتا اس کے ساتھ علمائے کرام بیٹھا کرتے تھے تمام مقدمہ کی کاروائی سننے کے بعد و ہ قرآن و سنت کے روشنی میں جو فیصلہ دیا کرتے ہیں وہ ان پر دستخط کر کے اور اپنے سامنے عمل درآمد کرایا کرتا تھا۔ سپاہیوں کے پاس اسلحہ ہوا کرتا تھا اگر کوئی شخص محمد خان کی عدالت کا حکم ماننے سے انکار کر تا دیتا تو طاقت کے ذریعے اس پر عمل کرایا جاتا جب اس کی عدالتیں لگا کرتی تھی تو ارد گرد کے تھانے اجڑ گئے، تحصیلیں سونی ہو گئی تھیں اور دوسرے انصاف مہیا کرنے والے ادارے بالکل ویران ہو گئے‘ چار سال تک متذکرہ علاقوں پر اسکا مکمل کنٹرول رہا۔ وادی سون ‘ تحصیل چکوال ‘ تحصیل پنڈی‘ گھیب اور تلہ گنگ کے علاقوں میں اس کا سکہ جاری تھا۔ اس کی اجازت کے بغیر ان علاقوں پرمشتمل ریاست میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔ ان علاقوں کی انتظامیہ بالکل بے کار ہو کر رہ گئی تھی یہ درست ہے کہ وہ 1963ء سے 1966 میں تک اپنی ریاست کا بے تاج باد شاہ تھا اس کی عدالتوں میں 302 کے علاوہ ہر قسم کے مقدمات پیش ہوا کرتے تھے ۔ اس دوران 1964ءکے صدارتی انتخابات آ گئے۔ محمد خان کی اتنی طاقت تھی کہ وادی سون، تحصیل تلہ گنگ اور پنڈی گھیب کے تمام بی ڈی ممبروں اور چیئرمینوںکے ووٹ صدر ایوب خان کو دلوائے تھے‘ 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان سے جنگ شروع کی تو اس نے جنرل محمد موسیٰ اور صدر ایوب خان کو تار دی کہ اسے پانچ ہزار مجاہدین کو لے کر محاذ جنگ پر جانے کی اجازت دی جائے اسے اس تار کا جواب آیاکہ ابھی انتظار کرو بعد میں جنگ بندی کے باعث اس کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔ اس دوران اس کا اثرو رسوخ پورے علاقے میں مشہور ہوچکا تھا۔ پولیس بھی اس کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرتی تھی۔ لیکن اس وقت کے تمام لوگ شاہد ہیں کہ اس نے اتنی طاقت پکڑنے کے باوجود اپنے مخالفین کو تنگ نہ کیا۔ پورے علاقے میں مشہور زمانہ امن و امان قائم کیا۔ کسی بندے کو تنگ نہ کیا۔ کوئی چوری یا ڈاکہ نہیں ڈالا۔ ہاں جو کیس اس کی عدالت میں لائے جاتے ان سے واجبی جیب خرچ لیا جاتا جرمانہ کی صورت میں اصل رقم مالک کو واپس کر دی جاتی تھی اور اس میں سے صرف 30 روپے رکھے جاتے تھے تاکہ اہلکاروں کی تنخواہیںادا ہو سکیں۔ اس دوران سارا سارا دن وہ کچہری لگائے رکھتا اورلوگوں کے فیصلے کرتا رہتا۔ حتی ٰ کہ بعض اوقات رات بھی ہو جاتی۔ یہ قدرتی امر ہے کہ جب کوئی طاقت پکڑتا ہے تو لوگ اس کے گرد اکھٹا ہو جاتے ہیں۔ بعد ازاں اس نے یہ عدالتیں مختلف علاقوں میں سرکاری ریسٹ ہاﺅسوں میں لگانی شروع کر دیں۔ وہ ہفتہ وارپروگرام ترتیب دیتا اس کے اہلکار ہر علاقے کی مساجد میں اعلان کراتے ہیں کہ محمد خان فلاں دن فلاں جگہ کچہری لگائے گا۔ اس کے اہلکاروں کے پاس بے پناہ اسلحہ تھا لیکن سارے اسلحہ کے اس نے لائسنس بنوا رکھے تھے۔ ہزاروں اہلکاروں اس کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ حکومت اور افسران بھی اس بات سے آگاہ تھے۔ اس کی عدالتوں اور الگ ریاست کے قیام سے حکومت بھی لاعلم نہیں تھی۔ اس وقت اس کے پاس ایک نئی گاڑی بھی تھے اور کچھ گھوڑے تھے۔ اسکی عدالتوں کا نظام ٹھیک ٹھاک انداز سے چل رہاتھا چار سال کے طویل عرصہ میں اس کی ریاست سے رشوت کامکمل خاتمہ ہو گیا تھا۔ امیر کبیر لوگ خود اس کی خدمت کر جاتے اس لئے اس کی ریاست اور عدالتیں کبھی مالی بحران سے دوچار نہیں ہوئیں ۔ اس کی عدالت کے قاضی کا نام عبدالرحمٰن تھا ۔ جو بڑی عرق ریزی اور اسلام کی روشنی میں اپنے جونیئر قاضیوں کے مشورے سے مقدمات کا فیصلہ کیا کرتا تھا۔ وقت نے اچانک انگڑائی لی ملک امیر محمد خان اور صدر ایوب خان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گئے ملک امیر محمد خان نے گورنری سے استعفیٰ دے دیا‘ محمد خان کے مخالف عناصر نے صدر ایوب کو اس کے خلاف بھڑکا دیا اور حکومت کی پوری مشینری اس کے خلاف دوبارہ حرکت میں آ گئی یہاں سے محمد خان کی کہانی ایک نیا رخ اختیار کر گئی۔ وہی درباری افسران جو کل تک اسے جھک کر سلام کرتے تھے اس کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ صدر ایوب خان تک بات پہنچائی گئی کہ محمد خان اسے ملک امیر محمد خان کی ایما پر قتل کرنے کاپروگرام بنا رہا ہے۔ جب محمد خان نے وقت کا تیور دیکھا تو سب کچھ سمیٹ کر رپورش ہو گیا۔ یہ اگست 1966ءکی بات ہے۔ ۔۔ صدر ایوب خان نے آئی پولیس کو محمد خان کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا۔ لیکن محمد خان وقت کے تیور دیکھ کر پہلے ہی اپنے سپاہیوں کا حساب بے باق کر کے ملتان جا کر رپوش ہو چکا تھا۔ ابھی اسے ملتان آئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ ملک امیر محمد خان اور محمد خان کے مخالف پولیس افسران کو حکم دیا گیا جس طرح بھی ہو محمد خان کو تلاش کر کے گولی سے اڑا دیا جائے۔ اسے بھی اس حکم کا علم ہو گیا وہ اپنی جان بچانے کیلئے بہاولپور چلا گیا اور بال بچوں کو سرگودہا میں ایک رشتہ دار کے ہاں بھیج دیا پولیس کی بھاری نفری اسکی گرفتاری کیلئے تعینات کر دی گئی تھی حتیٰ کہ سپیشل دستے تعینات کر دیئے گئے اب وہ باقاعدہ رو پوش ہو گیا اسے خطرہ تھا کہ اگر وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو کبھی زندہ نہیں بچے گا پولیس نے اسکے رشتہ داروں اور جان پہچان رکھنے والوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دیں جب وہ پولیس کے ہاتھ نہ لگ سکا تو ایک نہایت اعلیٰ خفیہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رو پوشی کی حالت میں کسی بھی طرح اسے پکڑ کر مار دیا جائے اور ملک امیر محمد خان کو اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کر کے پابہ زنجیر کر دیا جائے۔ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنچانے کیلئے یہ حربہ استعمال کیا گیا کہ اس کی ضعیف ماں سے ایک سادہ کاغذ پر انگوٹھا لگوا لیا گیا اس کاغذ پر بعد میں یہ لکھا گیا کہ ملک محمد خان کو ملک امیر محمد خان نے قتل کر دیا ہے اس حلفیہ بیان کی روشنی میں استغاثہ تیار کر کے عدالت کو دے دیا گیا جب محمد خان کو اس کا علم ہوا کہ ملک امیر محمد خان کی زندگی خطرے میں ہے اور حکومت انہیں اسکے قتل کے کیس میں الجھا کر سزا دینا چاہتی ہے تو اس سے برداشت نہ ہو سکا اس نے 27 جولائی 1967 کو رات کے 9 بجے خفیہ مقام سے مختلف اخبارات اور بی بی سی لندن کو فون کیا اس نے انہیں بتایا کہ کسی نے اسے قتل نہیں کیا وہ اپنی جان کی حفاظت کیلئے رو پوش ہے کیونکہ جن پولیس افسران کی نگرانی میں سپیشل پولیس کی گار ڈیں تیار کی گئی وہ سب اس کے جانی دشمن ہیں وہ پولیس مقابلہ کی کہانی گھڑ کے اسے ٹھکانے لگا دیں گے اس لئے وہ گرفتاری پیش نہیں کر رہا اگر غیر جانبدانہ پولیس مقرر کر دی جائے تو وہ خود بخود گرفتاری پیش کرے گا‘ اس کے بعد سید اکبر شاہ انسپکٹر پولیس کو سپیشل گارڈ دے کر محمد خان کی گرفتاری پر مامور کر دیا گیا یہ ایک مخلص نیک کردار اور اچھا انسان تھا۔ محمد خان نے اپنے آدمی کے ذریعے سید اکبر شاہ سے رابطہ کیا اور اس سے معاہدہ طے کیا کہ اسے جان سے نہ مارا جائے تووہ گرفتاری پیش کر دے گا۔ سپیشل پولیس کے انسپکٹر سید اکبرشاہ نے وعدہ کیا کہ اگر محمد خان اسے گرفتار دے گا تو اپنی جان پر کھیل کر اس کی حفاظت کرے گا۔ چنا نچہ طے پا گیا کہ محمد خان تھانہ لاوا میں واقع ڈھوک شیر آکر اسے گرفتار کر لے ۔ ایک طرف یہ طے پا چکا تھا تو دوسری طرف پنجاب پولیس اسے جان سے مارنے کیلئے ڈھونڈنے میں مصروف تھی۔ پولیس کا خیال تھا کہ محمد خان پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی وادی سون میں چھپا ہوا ہے۔ صرف وادی سون میں ایس ایس پی عبداللہ خان کی نگرانی میں تین ہزارپولیس اہلکار تعینات تھے۔ خود آئی جی پنجاب پولیس قریشی صاحب ہیلی کاپٹر پر اس آپریشن کی نگرانی کررہے تھے۔ میڈیا پر محمد خان کی خبروں کی دھوم مچی تھی۔ بی بی سی ، وائس آف امریکہ اور وائس آف جرمنی محمد خان پر خصوصی بلیٹن نشر کررہے تھے۔ ملک میں اخبارات کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوچکا تھا۔ لوگ صبح سویرے سویرے محمد خان کی خبروں کی تلاش میں اخبارات خریدتے۔ محمد خان نے جب یہ صورتحال دیکھی تو انسپکٹر سید اکبرشاہ سے رابط کر کے اپنی گرفتاری کی تاریخ موخر کرنے کو کہا محمد خان کو پتہ تھا کہ اسے پولیس نہیں چھوڑے گی۔ اورپھر یوں گیارہ ماہ تک پولیس نے دن رات ایک کر دیا لیکن محمد خان کو گرفتار کرکے مارنے میں ناکام رہی۔ یہ تمام حالات ستمبر 1966ءسے اگست 1967ءتک کے ہیں۔ گیارہ ماہ تک پولیس اورمحمد خان کی آنکھ مچولی ہوتی رہی اور پولیس سے سامنا ہونے کے باوجود ہر مرتبہ محمد خان بچ نکلنے میں کامیاب ہوا رہا۔ دراصل محمد خان بہروپیے کا روپ دھار چکا تھا۔ جب وہ اپنے علاقے میں ہوتا تو مونچھیں رکھ لیتا جب باہر جاتا تو مونچھیں صاف کرا لیتا۔ عام طور پر شلوار قمیض پہنتا تھا لیکن رو پوشی کے دوران میں پینٹ کورٹ‘ نکٹائی‘ ٹائی اور ہیٹ بھی استعمال کرتا تھا آنکھوں پر مختلف رنگوں کی عینک بھی لگالیتا‘ یعنی کہیں بھی جاتے ہوئے وہ مکمل طور پر اپنا حلیہ بدل لیا کرتا رو پوشی کے دوران 6 ماہ یزمان منڈی میں اس نے ایک اینٹوں کے بھٹے پر پناہ لئے رکھی ایک ماہ ملتان میں ہوٹل کا کمرہ کرایہ پر لے کر رہا تین ماہ میانوالی میں گزارے یہاں اس نے 30 روپے ماہانہ میں ایک مکان کرایہ پر لے رکھا تھا جس کا خاص افراد کو علم تھا‘ اس طرح لیہ میں بھی اپنے قیام کیلئے اس نے ایک جگہ کرایہ پر لے رکھی تھی اور گرفتاری پیش کرنے سے قبل ایک ماہ ادھر ادھر بھاگ دوڑ میں گزرا‘ پولیس نے بہاولپور میں چھاپہ مار کر شاہ نواز آف حاصل پور کو گرفتار کر لیا حالانکہ اس سے اسکی کوئی شناسائی نہیں تھی خانیوال سے اسکے چچا بشیر اور ملک جان بیگ کو پکڑ لیا‘ اس کی تلاشی کے دوران ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا کہ محمد خان کہاں رو پوش ہے پھر ان میں سے بعض افراد پر بے پناہ تشدد کیا گیا اور پولیس نے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا تاکہ اسکا پتہ چلایا جا سکے‘ تھوہا محرم خان کے ڈیرہ پر سو افراد کے مکانوں کو پولیس نے صرف اس لئے آگ لگا دی کہ ان سے محمد خان کے تعلقات تھے لیکن وہ اس کے کسی بھی کام میں شریک نہ تھے پولیس ان کو کہتی کہ محمد خان کو لاکر پیش کر دو بھلا وہ اسے کہاں سے لاکر پیش کرتے اس طرح موضع ڈھرنال میں رہنے والے رشتہ داروں اور عزیزوں کو گرفتار کر کے سخت اذیتیں دی گئیں پولیس نے شک و شبہ میں ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے لیکن محمد خان کا سراغ نہ پا سکے‘ وہ بعض اوقات ان کے بیچ سے گزر جاتا انہیں بعد میں پتہ چلتا کہ محمد خان دھوکہ دے کر نکل گیا ہے ۔ اسی طرح ایک مرتبہ دندہ شاہ بلاول میں پناہ لئے ہوئے تھاکہ پولیس کو اطلاع مل گئی۔ پولیس کیل کانٹے سے لیس دندہ پہنچ گئی۔ جب محمد خان کو پتا چلا کہ پولیس نے جانے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں اس نے گھر سے سفید ٹوپی والا برقعہ لیا عورتوں کے سینڈل لے کر پاو ¿ں میں ڈالی شلوار اور کرتا پہلے ہی پہنا ہوا تھا پاو ¿ں میں جرابیں تھی ایک مرد بوڑھی عورت اور پانچ سالہ بچی کو ساتھ لیا اور بس پر سوار ہونے کیلئے نکل کھڑا ہوا مر د کو اس کا خاوند ظاہر کیا گیا جب کہ بوڑھی عورت اس کی ساس بنی اور لڑکی بیٹی۔ چنانچہ محمد خان عورت کے بھیس میں ٹھمک ٹھمک چلتا پولیس کے بیچ میں سے گزر کر میانوالی کی لاری پر سوار ہو گیا اورصحیح سلامت نکل جانے میں کامیاب رہا۔ جب ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود پولیس محمد خان کوگرفتار کرنے میں ناکام ہوئی تو اکبرشاہ نے صدر ایوب کو رپورٹ دی کہ اگر مجھے اختیارات دیئے جائیں تو میں محمد خان کو گرفتارکرسکتا ہوں۔ صدرایوب خان نے انسپکٹر اکبر شاہ کو اجازت دے دی کہ وہ محمد خان کو گرفتار کرے۔ انسپکٹر اکبر شاہ نے محمد خان تک اپروچ کی اور اسے گرفتار دینے پر رضا مند کیا ۔ جب اس بات کا علم ایس ایس پی عبداللہ اور ڈی آئی جی بنگش کو ہوا تو انہیں بہت برا لگا۔ انہوں نے اکبر شاہ پر پابندی لگا دی اور اسے نظر بند کر دیا۔ انسپکٹر اکبر کے ساتھیوں کو علم تھا کہ یکم اگست 1967ءکو ڈھوک شیرا داخلی لاوہ پر محمد خان نے دوبارہ گرفتاری دینی ہے تو انہوں نے ایس ایس پی عبداللہ اور ڈی آئی جی بنگش کو بتا دیا اور پولیس ہزاروں سپاہیوں کو لے کر یکم اگست 1967ءکو دن گیارہ بجے ڈھوک شیر پہنچ گئی اور اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں ڈھوک شیر ایسا علاقہ ہے جہاں چھوٹے چھوٹے نالے‘ کھائیاں اور پہاڑیاں ہیں۔ یکم اگست کو محمد خان ڈھرنال نے اکبر شاہ انسپکٹر سے گرفتاری دینے کا وعدہ کررکھا تھا۔۔۔ لیکن موقع پر الگ الگ پولیس ٹیمیں پہنچ گئیں۔۔ ایس ایس پی عبداللہ نے آتے ہی اسے گرفتاری کو کہا وہ اس وقت دھوتی اور بنیان پہنے ہوئے تھا وہ جب سے رو پوش تھا اس کے پاس ہینڈ گرینڈ‘ تہہ کی جانیوالی رائفل‘ ریوالور اور ڈھیر ساری گولیاں تھی جنہیں وہ ایک صندوق میں بند رکھتا تھا‘ ایس ایس پی عبداللہ نے کہا کہ محمد خان ہاتھ کھڑے کر دو اور خود کو گرفتاری کیلئے پیش کر دو پولیس نے چاروں طرف سے تمہیں گھیر لیا ہے اب تم کسی صورت نہیں بچ سکتے‘ اس نے جواب میں کہا کہ اس وقت بالکل خالی ہاتھ ہوں اکبر شاہ کو بھیجو کہ مجھے گرفتار کر لے یہ سنتے ہی ایس پی عبداللہ نے فائر کھول دیا وہ اس وقت بالکل نہتا تھا پہلی گولی اس کی چھاتی میں لگی اس نے بھاگ کر بیٹھک سے تہہ بند لیا جہاں گولی لگی وہاں باندھا گھنی جھاڑیوں کے درمیان گہری کھائی میں جا چھپا پولیس نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال رکھاتھا اورفائرنگ کر رہی تھی حتیٰ کہ شام کے ساڑھے پانچ بج گئے۔ پولیس اس کے قریب جانے سے خوفزدہ تھی۔ جب پولیس کو پتہ چلا کہ محمد خان کسی صورت گرفتاری نہیں دے گا تو مجبوراً انسپکٹر اکبر شاہ کو بلایا گیا انسپکٹر اکبر شاہ نے تمام اہلکاروں کو افسران سے وعدہ لیا کہ محمد خان کو گولی نہیں ماری جائے گی جب تمام طرف سے تسلی ہوئی تو آگے بڑھ کر گہری کھائیوں میں اتر گیا اور اسے آواز دی محمد خان میں اکبر شاہ ہوں تو محمد خان ڈھرنال نے خود کو اس کے حوالے کر دیا اتنے وقت میں اس کا بہت سا خون ضائع ہو چکا تھا ۔ اسی وقت وائرلیس پر صدر ایوب کو محمد خان کی گرفتاری کی اطلاع دی گئی اور انہیں اس کے زخمی ہونے کا بھی بتایا گیا صدر ایوب نے اس وقت حکم دیا کہ اسے بلاتا خیرملٹری ہسپتال راولپنڈی منتقل کر دیا جائے چنانچہ رات کے دس بجے کے قریب اسے پنڈی ملٹری ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہاں اس کا آپریشن ہوا گولی نکالی گئی اور اٹھارہ دن تک وہ یہاں زیر علاج رہا۔ اس دوران پولیس کی بھاری نفری وہاں تعینات تھی۔ محمد خان کی گرفتاری کے بعد میڈیا پر شور مچ گیا۔۔ میڈیا نے اسے بڑے عجیب و غریب القابات دینا شروع کردیئے۔ کسی نے قاتل کہا کسی نے ڈاکو کہا۔ بے سروپا باتیںاورواقعات اس سے منسوب ہونے لگے۔ اس سے وہ وارداتیں بھی منسلک کر دی گئیں جن کا اسے پتہ تک نہیں تھا یکطرفہ میڈیا پر اس کے خلاف پروپیگنڈہ جاری تھا۔۔ ہسپتال سے فار غ ہوتے ہی اسے شاہی قلعہ لاہورمنتقل کر دیاگیا۔ جہاں اے آئی جی کرائم برانچ کے عبدالوکیل خان نے اس سے تفتیش کا آغازکیا۔ چھ ماہ تک اس سے تفتیش ہوتی رہی۔ اسے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کررکھا گیا۔ حکومت کاسارا زور اس بات پرتھاکہ امیر محمد خان صدر ایوب کو محمد خان کے ہاتھوں قتل کرانا چاہتا تھا۔ یہ بات غلط تھی اس بیان کی روشنی میں حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو الجھانا چاہتی تھی انہوں نے اس سے یہ بیان حاصل کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا دفتروں کے دفتر دیکھے گئے کہیں سے بھی محمد خان اور امیر محمد خان کی ملاقات کا ریکارڈ حاصل نہ کیا جاسکا اس نے بھی حالات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے ہر وار اپنی جان پر سہہ لیا لیکن وعدہ معاف گوا ہ بن کر اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا پولیس نے اس کے ڈیرے کا مال و متاع لوٹ لیا، گھروں کو آگ لگا دی اس کی پانچ مربعہ اراضی بحق سرکار ضبط کر کے نیلام کر دی گئی شاہی قلعہ میں اسے کڑے پہرے میں رکھاگیا‘ 6 ماہ بعد اسے گوجرانوالہ جیل منتقل کر دیا گیا وہاں اسے پھانسی کی کوٹھڑی میں رکھا گیا حالانکہ ابھی اسے کسی مقدمہ میں سزا نہیں ہوئی تھی یہاں بھی اتنے سخت حفاظتی انتظامات تھے کہ پھانسی کی کوٹھڑی کے اوپردائیں بائیں اور آمنے سامنے مسلح سپاہی تعینات تھے حتیٰ کہ پھانسی کوٹھڑی کے اندر بھی اس کے ہاتھوں کو ہتھکڑیاں لگائی جاتیں پاو ¿ں میں بیڑیاں اور ایک موٹا سنگل ہتھکڑی کے ساتھ باند ھ کر پھانسی کوٹھڑی کے لوہے کے دروازے کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا کھاناکھانے اور وضو کرنے کیلئے بھی اسکی ہتھکڑیاں نہیں کھولی جاتی تھیں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل خود آکر صرف ایک ہاتھ کی ہتھکڑی کھولتا اسی حالت میں وضو کر کے نماز پڑھتا اور کھانا کھاتا تھا‘ جیل میں قتل کے 19 اور 5 زخمیوں کے کیس کی سماعت شروع ہوئی اس کیلئے حکومت نے جج مظہرالحق اور سپیشل مجسٹریٹ اعجاز احمد چیمہ پر مشتمل خصوصی پینل تشکیل دیا 8 ماہ تک سماعت جاری رہی بالآخر 12 ستمبر 1968ء کو محمد خان ڈھرنال کو 4 بار سزائے موت اور 149 سال قید مشقت کی سزا سنادی گئی‘ اس نے کم و بیش 12 سال اسی حالت میں پھانسی کوٹھڑی میں گزارے اس مقدمہ میں نہ وکیل کی اجازت تھی اور نہ ہی وہ کسی سے مل سکتا تھا مکمل طور پر اسے قید تنہائی میں رکھا گیا اسے اتنی ذہنی اذیتیں دی گئیں کو کوئی اورہوتا تو پاگل ہو گیا ہوتا‘ اس فیصلے کے خلاف اسے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ سیشن کورٹ نے محمد خان کو قتل کے جرم میں چار مرتبہ سزائے موت سنائی۔اس کے بھائی نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی کہ ہمیں اپیل کا حق کیوں نہیں دیا جا رہا۔ ہائی کورٹ نے پٹیشن سماعت کیلئے منظور کرلی اور محمد خان کو ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق مل گیا لیکن یہاں بھی اس اسے پیش ہونے سے مستثنی قرار دے دیا گیا۔ محمد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ اسے تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی پر جرح کرنے کی اجازت دی جاے?۔ دودفعہ اس کی درخواست نامنظور کردی گی۔ بالاخر اک ڈویژن بنچ نے جس میں جسٹس مشتاق حسین بھی شامل تھے ، نے اسے ڈی ایس پی پر جرح کرنے کی اجازت دے دی کہ اک آدمی جسے چار مرتبہ سزائے موت سنائی گئی ہو اس کی حسرت کو پورا کیا جائے۔ محمد خان کی تفتیشی افسر پر ہونے والی جرح کو سننے و دیکھنے کے لیے لوگوں کا مجمع عدالت میں جمع ہوگیا۔ محمد خان درمیانے قد کا مضبوط قد کاٹھ کا حامل شخص تھا۔خوبصور ت بھاری بھرکم چہرہ، سفیدی بہ مائل گھنی مونچھیں اور ذہین و مسحور کردینے والی آنکھیں۔عدالت میں نہایت ادب و احترام اور خوداعتمادی سے آیا، اور نہایت اطمینان سے تفتیشی ڈی ایس پی پر جرح کرنے لگا۔کہ تفتیشی افسر کو مجھ سے ذاتی انا ہے اور جرح میں ثابت کردیاکہ تفتیشی ڈی ایس پی نے عدالت کو ساری من گھڑت کہانی سنائی ہے ۔ بہر حال محمد خان عدالت سے سلام کے بعد اجازت لینے کے بعد یہ کہتا ہوا نکلا کہ میری تقدیر میں جولکھا ہے وہ ضرور دیکھوں گا لیکن مجھے اطمینان ہے کہ عدالت نے مجھے سنا۔ اس جرح کے بعد ہائی کورٹ نے محمد خان کو دو سزائے موت کی سزا سے بر ی کردیا جبکہ دو میں سزا برقرار رکھی۔ ۔۔ سے موت کی سزامیں بار پھانسی کی تاریخ مقرر ہوئی لیکن وہ اپنی تقدیر سے لڑ کر آزاد ہوا ۔ بالآخر فیصلہ ہواکہ اسے 8 جنوری1976ءکو تختہ دارپرلٹکا دیاجائے گا۔ اس کے چھوٹے بھائی فتح شیر نے6 جنوری کوہائی کورٹ میں اپیل کردی۔ وہ اس وقت اٹک جیل میں تھا اس مرتبہ اس کے بچنے کے کوئی امکانات نہیںتھے۔ صبح چار بجے اسے تختہ دار پر لٹکانے کے تمام انتظامات مکمل تھے۔ اسے پتہ تھاکہ صبح اسے پھانسی دے دی جائےگی۔ لیکن اس کا دل مطمئن تھا سارا دن دوسرے قیدی اس کے پاس آتے رہے اور الوداعی ملاقات کرتے رہے۔ وہ بے خوف و خطر پھانسی سیل میں بیٹھا رہا معمول کے مطابق اس نے روٹی کھائی‘ چائے پی اور ملنے والوں سے گپیں ہانکتارہا حتیٰ کہ رات کو گہری نیند سویا جیل حکام کو مصیبت پڑی ہوئی تھی وہ پھانسی گھر میں خصوصی انتظامات کرنے میں لگے ہوئے تھے اور جیل کے باہر بھی غیر معمولی انتظامات تھے‘ پھانسی دینے والے جلاد کو بھی بلا لیا گیا تھا محمد خان نے معمول کے مطابق عشاءکی نماز اداکی اور اطمینان کی نیندسوگیا۔ رات کے گیارہ بجے کے بعد پھانسی پانے سے صرف 5 گھنٹے قبل ہائی کورٹ کی جانب سے سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم مل گیا اسے جگا کر اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اوراٹھا شکرانے کے نوافل ادا کئے اور پھر گہری نیند سوگیا۔ 6 جنوری 1976ءکو اس کے بھائی نے ہائی کورٹ میں جو اپیل دائر کر دی تھی وہ منظور ہو گئی اور اس کی سزاپر عملدرآمد روک دیا گیا۔ اس کا کیس دوبارہ ہائی کو رٹ میںسنا گیا اور 1978ءمیں اس کی سزائے موت کو عمر قیدمیں تبدیل کر دیا گیا ۔ محمد خان 22 برس کی سزا کاٹنے کے بعد بالآخر 1989ءمیں بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدارتی آڈیننس کے تحت 60 سال سے زائد عمر قیدیوں کی سزا کی معافی کے تحت آزاد ہوگیا۔ رہائی کے وقت اس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میری تمام رقابتیں، رنجشیں اور دشمنیاں ختم ہو چکی ہیں۔ رہا ہو کر ملک و قوم کی خدمت کروں گا۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ انسانیت دکھاﺅں گا۔ محمد خان بہت اچھا مقرر بھی تھا وہ رہائی کے بعد بینظیر بھٹو کی موجودگی میں جلسوں سے خطاب بھی کرتا تھا۔ بالآخر تلہ گنگ کی تاریخ کا یہ طلسماتی کردار 29 ستمبر 1995 کو طبعی موت مرا۔ اسے آبائی گاﺅں ڈھوک مصائب تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال میں دفن کیا گیا۔ آخری بات: اور یوں ایک بہادری اور دلیری کی داستان کا خاتمہ ہوگیا۔۔۔ محمد خان ڈھرنال اور ہاشم خان دونوں انتہائی دلیر اوربہادر جوان تھے۔۔۔ تلہ گنگ پہلے ضلع اٹک کا حصہ ہوا کرتا تھا اور ہمارے علاقے میں پیر آف مکھڈ کی سیاسی اجارہ داری تھی۔۔۔ پاکستان بننے کے بعد تلہ گنگ کی ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹیں ہمیشہ پیر آف مکھڈ جیتا کرتے تھے۔۔۔۔ اور یہ دونوں جوان پیر آف مکھڈ کے سیاسی نظریے کے مخالف تھے۔۔۔۔ انہیں صرف اور صرف پیر آف مکھڈ کی سیاسی مخالفت کی بنا پر عبرت کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔۔ محمد خان ڈھرنال نے اپنی زندگی میں نہ تو کبھی ڈاکہ مارا نہ ڈاکے کا کوئی کیس اس کے خلاف درج تھا۔۔۔ مفروری کے دوران اور بعد ازاں جب اس نے عدالتیں لگانا شروع کیں تو غریب لوگ اس کے ہمنوا بن گئے۔۔۔ اور غریبوں کا حقیقی ساتھی اورمسیحا تھا جبکہ ظالموں کے خلاف ہمیشہ برسر پیکار رہا۔۔۔ محمد خان ڈھرنال نے ابھی جوانی میں قدم ہی رکھا تھا کہ اسے مختلف مقدمات میں الجھا دیا گیا۔۔۔ اپنی ساری زندگی وہ انصاف کی تلاش میں رہا۔۔۔ زندگی کا زیادہ وقت مفروری اور جیل میں گزارا۔۔۔ انتہائی مضبوط اعصاب کا مالک محمد خان ڈھرنال میری ذاتی رائے کے مطابق سیاسی انتقام کا نشانہ بنا نہ تو وہ ڈاکو تھا اور ہی ظالم و جابر تھا۔۔۔۔ وہ غریب لوگوں کا ایک حقیقی مسیحا تھا۔۔۔ اور یہی سچ ہے۔۔ ۔۔۔ ماخذ: -1 محمد خان کا طویل انٹرویو جو فدا الرحمان نے روزنامہ خبریں کیلئے لیا تھا۔ (روزنامہ خبریں اسلام آباد) -2 ممتاز ناول نگار خلش ہمدانی مرحوم کی کتاب ” محمد خان ڈھرنال کی سوانح حیات“ (جو اب نا یاب ہے) -3 خوشاب نیوز ڈاٹ کام پر بھی محمد خان ڈھرنال کی سوانح حیات شائع ہو چکی ہے -4 محمد خان ڈھرنال پر ”سپوتنک لاہور “ کا بھی خاص نمبر شائع ہو چکا ہے۔ /

ہفتہ، 2 اپریل، 2022

بھکّر//رپورٹ ۔ظفر اعوان //کل رات بزمِ رفیقِ پاکستان جہان خان بھکر کے زیر اہتمام ایک شام پروفیسر قلب عباس عابس کے نام سے محفل مشاعرہ کا انعقاد گورنمنٹ گریجویٹ کالج 48 ٹی ڈی اے جہان خان بھکر میں کیا گیا جس کی صدارت معروف ادیب اور دانشور جناب ناصر ملک چوک اعظم نے کی جبکہ سرپرستی محترم نذیر ڈھالہ خیلوی صاحب کی تھی لاہور ، سمندری ، لیہ ، میانوالی ،مظفرگڑھ، جمن شاہ ، کروڑ ، فتح پور اور بھکر سے شعراء کرام کی شرکت نے پروگرام کو چار چاند لگائے نظامت کے فرائض ریڈیو کمپئیر سجاد حسین راز صاحب نے باخوبی نبھائے اس پروگرام کو معروف افسانہ نگار ، شاعر محترم ڈاکٹر خالد جاوید اسراں اور بندہ ناچیز عابد علیم سہو نے اورینج کیا اس کے علاوہ پرنسپل شہزاد ساجد ، ماسٹر افضل صاحب ،علی حسن ، سہیل اکرم ودیگر اراکین بزمِ رفیقِ پاکستان نے پروگرام کو کامیاب بنانے کےلئے اپنا اپنا کردار ادا کیا آخر پر صاحب شام اور صاحب صدارت کو اعزازی شیلڈز سے نوازا گیا اور مہمان شاعروں کی دستار بندی کی گئی ۔ بزمِ رفیقِ پاکستان جہان خان بھکر تہہ دل سے شکر گزار ھے تمام دور و نزدیک سے تشریف لائے ھوئے شعراء حضرات اور معزز مہمانوں کی جن کی آمد سے اہل علاقہ کو ایک یادگار اور شاندار پروگرام دیکھنے اور سننے کو ملا ۔ آخر پر پروگرام کی چند تصاویری جھلکیاں بار دیگر تمام احباب کا شکریہ ان شاءاللہ بشرط زندگی بزمِ رفیقِ پاکستان جہان خان بھکر آئندہ بھی اس طرح کے پروگرام منعقد کرواتی رہے گی اور فروغ علم و ادب کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی دعاؤں میں یاد رکھیے گا اللّٰہ آپ کا حامی و ناصر ہو آمین