Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

ہفتہ، 16 مئی، 2020

دریاوں کے واسی ؛؛مہانڑے؛؛ (تحریر کائنات ملک) جس طرح کائنات کی تمام تہذیبوں کا جنم دریاوں کے کنارے سے ہوا اس طرح ایک قوم ایسی ہے جو ساری عمر دریاوں کے کناروں پر چھوٹے پانی میں کشتی کے گھروں میں رہے رہی ہے کئی دہائیوں سے آباد یہ لوگ ان کا تمام کاروبار زندگی سب ان پانیوں سے وابسطہ ہے یہ لوگ صدیوں سے نسل در نسل آباد ہیں ان کا روزگار کھانا پینا مرنا جینا خوشی غمی سب ان کشتیوں میں ہوتا ہے یہ اپنے اندر کرب دکھ محرومیاں لےکر پیدا ہوتے ہیں اور مختلف واقعات کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔اج ایسے طبقہ پر قلم آٹھارہی ہوں جو جنوبی پنجاب کے علاقوں مظفرگڑھ ۔ڈیڑھ غازی اور راجن پور کے دریا سندھ کےکنارے کشتیوں کے بنے گھروں میں آباد ہیں انھیں مقامی زبان میں مہانڑے کہاجاتا ہے یہ لوگ ساری عمر ان کشتیوں میں رہتے ہیں ان کشتیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کشتیوں میں ہی مرجاتے ہیں یہ لوگ سارا دن دریا میں کشتاں چلاتے ہیں جہاں کہیں انھیں لئی نظر اتی ہے یہ کلہاڑی کی مددسے کاٹ لیتے ہیں لئی کاٹتے ہوئے ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم تک زخمی ہوجاتا ہے یہ لئی کی لکڑی کو دو سے تین دن پانی میں بھگو کر رکھ دیتے ہیں تاکہ یہ نرم اور لچکدار ہوجاے پھر مرد اور عورتیں مل کر ان سے ٹوکریاں تیار کرتے ہیں ان کے مرد یہ ٹوکریاں شہروں میں بیچنے جاتے ہیں تاکہ دو وقت کی عزت کے ساتھ روٹی میسر ہو مگر ان لوگوں کا کہنا ہے ہم جتنی محنت کرتے ہیں اس کا ہمیں اتنا معاوضہ نہیں ملتا یہ کام بہت سخت اور محنت طلب ہوتا ہے مگر اس کے باوجود ہمیں ان محدود پیسوں میں گزارہ کرنا پڑتا ہے کبھی کبھی تو نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے بعض اوقات ہمارے پاس بیماری کی حالت میں علاج معالجہ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔فوتگی کی صورت میں ان کا اپنا کوئی قبرستان نہیں ہوتا چلتے پھرتے جہاں ان کو نزدیکی قبرستان مل جاے یہ مردہ ادھر دفن کر دیتے ہیں ۔ یہ سارا سال دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے جگہ بدلتے رہتے ہیں سفر کرتے ریتے ہیں اس کی وجہ سے ان کے بچے سکول نہیں جاسکتے اور ساری عمر تعلم جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں ۔ان کشتوں میں رہنا سرکنڈے۔لئی کاٹ کر ان سے ٹوکریاں تیار کرنا ان کے ہاں نسل در نسل یہی کام چلا ارہا ہے ۔مہانڑے مرد دریا سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور خواتین اس مچھلی سے لزیز سالن تیار کرتی ہیں جیسے سب مل کر شوق سے کھاتے ہیں ۔ ان لوگوں کا اپنا الگ سے رنگ اپنی ثقافت ہے ان لوگوں کی شادی بیاہ کی تقریب دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں کشتی کے گھروں کو بہت خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے اور سرسوں کے تیل سے دیے جلا کر چراغاں کیا جاتاہے شادی کی تقریب میں تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے ان کے عزیز دوست رشتے دار بہت خوشی سے شریک ہوتے ہیں سب مل کر علاقائی رقص کرتے جھومر ڈالتے علاقئی گیت گاتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں ان کی شادی کی تقریب تقریبا سات دن جوش خروش سے رہتی ہے جس میں یہ اپنی مخلتف اقسام کے رسم ورواج ادا کرتے ہیں محدود خواہشوں کے ساتھ شہروں کے شورغل گندگی سے پاک صاف اورپرسکون ماحول میں یہ یہ اپنی ساری عمر ارباب اختیار سئ کوئی شکوہ کیے گزاردیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں ۔۔۔

دریاوں کے واسی ؛؛مہانڑے؛؛ 


(تحریر کائنات ملک) 
جس طرح کائنات کی تمام تہذیبوں کا جنم دریاوں کے کنارے سے ہوا اس طرح ایک قوم ایسی ہے جو ساری عمر دریاوں کے کناروں پر چھوٹے پانی میں کشتی کے گھروں میں رہے رہی ہے کئی دہائیوں سے آباد یہ لوگ ان کا تمام کاروبار زندگی سب ان پانیوں سے وابسطہ ہے یہ لوگ صدیوں سے نسل در نسل آباد ہیں ان کا روزگار کھانا پینا مرنا جینا خوشی غمی سب ان کشتیوں میں ہوتا ہے یہ اپنے اندر کرب دکھ محرومیاں لےکر پیدا ہوتے ہیں اور مختلف واقعات کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔اج ایسے طبقہ پر قلم آٹھارہی ہوں جو جنوبی پنجاب کے علاقوں مظفرگڑھ ۔ڈیڑھ غازی اور راجن پور کے دریا سندھ کےکنارے کشتیوں کے بنے گھروں میں آباد ہیں انھیں مقامی زبان میں مہانڑے کہاجاتا ہے یہ لوگ ساری عمر ان کشتیوں میں رہتے ہیں ان کشتیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کشتیوں میں ہی مرجاتے ہیں یہ لوگ سارا دن دریا میں کشتاں چلاتے ہیں جہاں کہیں انھیں لئی نظر اتی ہے یہ کلہاڑی کی مددسے کاٹ لیتے ہیں لئی کاٹتے ہوئے ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم تک زخمی ہوجاتا ہے یہ لئی کی لکڑی کو دو سے تین دن پانی میں بھگو کر رکھ دیتے ہیں تاکہ یہ نرم اور لچکدار ہوجاے پھر مرد اور عورتیں مل کر ان سے ٹوکریاں تیار کرتے ہیں ان کے مرد یہ ٹوکریاں شہروں میں بیچنے جاتے ہیں تاکہ دو وقت کی عزت کے ساتھ روٹی میسر ہو مگر ان لوگوں کا کہنا ہے ہم جتنی محنت کرتے ہیں اس کا ہمیں اتنا معاوضہ نہیں ملتا یہ کام بہت سخت اور محنت طلب ہوتا ہے مگر اس کے باوجود ہمیں ان محدود پیسوں میں گزارہ کرنا پڑتا ہے کبھی کبھی تو نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے بعض اوقات ہمارے پاس بیماری کی حالت میں علاج معالجہ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔فوتگی کی صورت میں ان کا اپنا کوئی قبرستان نہیں ہوتا چلتے پھرتے جہاں ان کو نزدیکی قبرستان مل جاے یہ مردہ ادھر دفن کر دیتے ہیں ۔ یہ سارا سال دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے جگہ بدلتے رہتے ہیں سفر کرتے ریتے ہیں اس کی وجہ سے ان کے بچے سکول نہیں جاسکتے اور ساری عمر تعلم جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں ۔ان کشتوں میں رہنا سرکنڈے۔لئی کاٹ کر ان سے ٹوکریاں تیار کرنا ان کے ہاں نسل در نسل یہی کام چلا ارہا ہے ۔مہانڑے مرد دریا سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور خواتین اس مچھلی سے لزیز سالن تیار کرتی ہیں جیسے سب مل کر شوق سے کھاتے ہیں ۔ ان لوگوں کا اپنا الگ سے رنگ اپنی ثقافت ہے ان لوگوں کی شادی بیاہ کی تقریب دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں کشتی کے گھروں کو بہت خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے اور سرسوں کے تیل سے دیے جلا کر چراغاں کیا جاتاہے شادی کی تقریب میں تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے ان کے عزیز دوست رشتے دار بہت خوشی سے شریک ہوتے ہیں سب مل کر علاقائی رقص کرتے جھومر ڈالتے علاقئی گیت گاتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں ان کی شادی کی تقریب تقریبا سات دن جوش خروش سے رہتی ہے جس میں یہ اپنی مخلتف اقسام کے رسم ورواج ادا کرتے ہیں محدود خواہشوں کے ساتھ شہروں کے شورغل گندگی سے پاک صاف اورپرسکون ماحول میں یہ یہ اپنی ساری عمر ارباب اختیار سئ کوئی شکوہ کیے گزاردیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں ۔۔۔



کوئی تبصرے نہیں: