Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

اتوار، 31 مئی، 2020

یہ دوائیاں گھر میں لازمی رکھیے،کیونکہ یہ دوائیاں ایمرجنسی میں کام آسکتی ہیں۔۔۔



یہ دوائیاں گھر میں لازمی رکھیے،کیونکہ یہ دوائیاں ایمرجنسی میں کام آسکتی ہیں، رات کے وقت بسا اوقات طبیعت بگڑ جانے کی صورت میں ان کی ضرورت پڑسکتی ہے۔۔۔۔۔ڈاکٹر اویلیبل نا ہو یا فوری طبی امداد کے طور پہ استعمال کی جاسکتی ہیں ۔

سر درد اور بخار کیلئے
Panadol , Panadol Extra , Releif

نزلہ ، زکام کیلئے
Arinac Fort

پیٹ کے درد ، موشن وغیرہ کیلئے
Flygel , Imodium , ORS

جسم کے کسی حصے میں درد کیلئے
Caflam 50 , Spasrid

ہائی بلڈ پریشر کیلئے
Cepoten

سینے یا گلے کی خراب کیلئے
Augmentin

الٹی وغیرہ کیلئے
Gravinate tablet

گیس کے مسائل کیلئے
Gaviscon syp
Mucan syp

تیزابیت سینے کی جلن اور معدے کیلئے
Risek 20 ,

زخم وغیرہ کیلئے
PolyFax , payodin , زخم پٹی

دانت یا داڑھ درد کے لیے
CalmoX 625 mg
Caflam 50

پِھنسی پھوڑوں کے لیے
Double sptran

بچوں /بڑوں کے بخار کے فوری آرام کےلیے
Brofin syp

نو نہال بچے کے بخار کے لیے
Panadol Drop
نو نہال کے پیٹ درد یا بڑے پیشاب کے نہ آنے کی صورت میں یا پیٹ میں گیس کے لیے
Colic Drops

نو نہال بچے کو زیادہ دن پیمپرز لگانے سے زخم ہونے کی صورت میں
Hydrozole Cream

کھانسی کے لیے
Pulomonol

کتا ﻧﺠﺲ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﯿﻮﮞ ھے ۔صاحبزادہ حکیم ملک نعیم اعوان


صاحبزادہ حکیم ملک نعیم اعوان
 السلام و علیکم و رحمت اللہ

ﮐﺘﺎ ﻧﺠﺲ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ؟


ﻗﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﮯﮐﻮ ﻧﺠﺲ ﺍﻟﻌﯿﻦ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔
ﮐﺘﮯﮐﯽ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺗﯿﻦ ﻓﻄﺮﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻧﺠﺲ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻗﺮﺍﺭ ﭘﺎﯾﺎ؟
ﭘﮩﻠﯽ ﻓﻄﺮﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺟﺐ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﻧﺰﻭﻝ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﻨﮧ ﺍﻭﻧﺪﮬﮯ ﭘﮍ ﮐﺮ ﺳﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﺟﺎﮔﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺰﻭﻝ ﺭﺣﻤﺖ ِﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﺎ ﻏﻠﺒﮧ ﺁﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻓﻄﺮﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻢ ﺟﻨﺲ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺑﮭﻮﻧﮑﮯ ﮔﺎ۔ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔
ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻓﻄﺮﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺬﺍﺋﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﭽﯽ کھُچی ﻏﺬﺍ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﮍﮬﺎ ﮐﮭﻮﺩ ﮐﺮ ﺍُﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﻧﮧ ﺁ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﺮﮮ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﻧﺠﺲ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮐﺘﺎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﺻﺤﺎﺏِ ﮐﮩﻒ ﮐﺎ ﮐﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﻨﺖ ﻭﺍﺟﺐ ﮐﯿﻮﮞ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ؟
‏( ﺍﺱ ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﻨﺖ ﻭﺍﺟﺐ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ‏)
ﺍﺻﺤﺎﺏ ﮐﮩﻒ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﺳﮯ ﭘﺘﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﯾﮧ ﮐﺘﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ، ﮐﯿﺎ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﮐﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﺍﺱ ﭼﺮﻭﺍﮬﮯ ﮐﺎ ﮐﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﭼﺮﻭﺍﮬﮯ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ہانک کر ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮐﺮﺩﯾﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﭘﺎﮐﺒﺎﺯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺣﻖ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺪﺍﺭِ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﺎ ﻃﺎﻟﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ۔ اﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﺘﺎ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﻟﯿﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺩﺷﻤﻦ ﻏﺎﺭ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺘﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻄﺮﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺑﮭﻮﻧﮑﻨﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ اﻭﺭ ﺳﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ۔ ﺩﺷﻤﻦ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ کتا ﺿﺮﻭﺭ ﺑﮭﻮﻧﮑﺘﺎ۔
ﺍﺱ ﮐﺘﮯ ﻧﮯﺍﭘﻨﯽ ﻓﻄﺮﺕ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﯾﮩﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺘﮯ ﭘﺮ ﺟﻨﺖ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﮯ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺑﺤﺚ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﮐﺸﻤﮑﺶ، ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﮔﮭﺒﺮﺍﮨﭧ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮ گیا۔ ﺑﺤﺚ ﭼﻠﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﯽ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻤﺎ ﻡ ﻓﻄﺮﺗﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﺎﺩﺗﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮐﺘﮯ ﮐﻮ ﻧﺠﺲ ﺍﻟﻌﯿﻦ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﯼ ﻓﻄﺮﺗﯿﮟ، ﻭﮦ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﺎﺩﺗﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻭﺍﺿﺢ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺳﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﭼﺮﺍﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭہا ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍﺗﻨﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﻋﻼﻣﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺠﺒﻮﺭاً ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺳﻮﭼﻨﺎ ﭘﮍﺍ۔
ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺠﺌﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻋﺎﺩﺗﯿﮟ ﮨﻢ ﺟِﺴﮯ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯿﮟ؟
ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺍﺱ ﻋﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﯾﺎ ﺍﺱ ﻓﻄﺮﺕ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ؟
ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮯ ﺟﺎ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮒ ﮐﺮ ﻃﻠﻮﻉِ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺳﻮ ﺟﺎﻧﺎ، ﮐﯿﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯿﻦ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟
ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻔﺮﺕ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻓﻄﺮﺕ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﻧﮩﯿﮟ؟
ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺬﺍﺋﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻘﯿﮧ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﻓﺮﯾﺞ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮧ ﭘﮍﻧﮯ ﭘﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ، ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﻭﺯﻣﺮﮦ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟
ﺍﻥ ﺳﺐ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺷﺎﯾﺪ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﮨﻮ۔
ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺏ، ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ، ﺗﻤﺎﻡ ﺟﮩﺎﻧﻮ ﮞ ﮐﺎ ﭘﺎﻟﻨﮯ ﻭﺍﻻ، ﺳﺘﺮ ﻣﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ، ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ کہ
ﺍﺻﺤﺎﺏِ ﮐﮩﻒ ﮐﮯ ﮐﺘﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻓﻄﺮﺕ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻨﺖ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺟِﺴﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ، ﺍﮔﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻓﻄﺮﺕ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ، ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ، ﻣﯿﺮﺍ ﺳﻮﮨﻨﺎ ﺭﺏ ﺟﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺐ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﺟﻮﻉ ﮐﺮ ﻟﮯ، ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﺨﺸﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﺎ۔ ۔ ۔ ؟؟
تھوڑا سا نہیں،
بہت سارا سوچٸے گا۔
میرے تمام چاہنے والے دوست میرے واٹس اپ نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں میں تمام دوستوں کے سوالات کا جواب واٹس اپ نمبر پر دیتا ہوں۔
اپنے تمام چاہنے والوں کی محبت کا ممنون و مشکور ہوں
آپ کوئی بھی طبی مشورہ واٹس ایپ نمبر پر کر سکتے ہیں

حکیم ملک نعیم اعوان وزیرآباد پاکستان.03025475008

باادب ۔با نصیب /انتخاب ۔ظفر اعوان

با ادب با نصیب...😊

اسٹوڈنٹس نے ٹیچر سے کہا سر آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں 5 گیندوں پر ٹیچر نے 2 رن بنائے چھٹی گیند پر کلین بولڈ ہو گئے...😕

 اسٹوڈنٹس نے شور مچا کر بھرپور خوشی ظاہر کی..

کلاس میں ٹیچر نے پوچھا کون کون چاہتا تھا کہ میں اسکی گیند پر آوٹ ہو جاٶں..؟

سب باٶلرز نے ہاتھ کھڑے کر دیئے..

ٹیچر ہنس دیئے پوچھا میں کرکٹر کیسا ہوں..؟

سب نے کہا بہت برے..

پوچھا میں ٹیچر کیسا ہوں جواب ملا بہت اچھے..

ٹیچر پھر ہنس دیئے..

صرف آپ نہیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے ہزارہا اسٹوڈنٹس جن میں کئی میرے نظریاتی مخالف ہیں گواہی دیتے ہیں کہ میں اچھا ٹیچر ہوں راز کی بات بتاؤں میں جتنا اچھا ٹیچر ہوں اتنا اچھا اسٹوڈنٹ نہیں تھا مجھے ہمیشہ سبق یاد کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور بات سمجھنے میں وقت لگا لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں اسکے باوجود مجھے اچھا ٹیچر کیوں مانا جاتا ہے..؟

سب نے کہا سر آپ بتائیں کیوں..؟

ٹیچر نے کہا ادب...

مجھے اچھی طرح یاد ہے اپنے ٹیچر کے ہاں دعوت کی تیاری میں انکی مدد کر رہا تھا فریزر سے برف نکالی جسے توڑنے کیلئے کمرے میں کوئی شے نہیں تھی استاد کام کیلئے کمرے سے نکلے تو میں نے مکا مار کر برف توڑ دی اور استاد کے آنے سے پہلے جلدی سے ٹوٹی ہوئی برف دیوار پر بھی دے ماری...☺

استاد کمرے میں آئے تو دیکھا کہ میں نے برف دیوار پر مار کر توڑی ہے انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ تمہیں عقل کب آئیگی یوں برف توڑی جاتی ہے میں نے انکی ڈانٹ خاموشی سے سنی بعد میں انہوں نے اس بیوقوفی کا ذکر کئی جگہ کیا میں ہمیشہ بیوقوفوں کی طرح سر ہلا کر انکی ڈانٹ سنتا..

انہیں آج بھی نہیں معلوم کہ برف میں نے مکا مار کر توڑی تھی...☺

یہ بات میں نے انہیں اسلئے نہیں بتائی کہ وہ ایک ہاتھ سے معذور تھے انکی غیر موجودگی میں میں نے جوانی کے جوش میں مکا مار کر برف توڑ دی لیکن جب انکی معذوری کا خیال آیا تو سوچا کہ میرے طاقت کے مظاہرے سے انہیں احساس کمتری نہ ہو اس لیئے میں نے برف دیوار پر مارنے کی احمقانہ حرکت کی اور لمبے عرصے تک انکی ڈانٹ سنتا رہا...😕

اور ایک آپ لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر ہدایات دے رہے تھے کہ سر کو یارکر مار کر آوٹ کرو..

جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا کبھی ہارنے سے زندگی میں جیت کے رستے کھلتے ہیں آپ طاقت میں اپنے ٹیچرز اور والدین سے بے شک بڑھ جاتے ہیں لیکن زندگی میں سب سے جیتنا چاہتے ہیں تو اپنے ٹیچرز اور والدین سے جیتنے کی کوشش نہ کریں آپ کبھی نہیں ہاریں گے...☺

اللہ پاک آپکو ہر میدان میں سرخرو کرے گا....☺

#Aameeen...!!

شاعر منظور سیال کی گفتگو ۔شاعری کا نیا مجموعہ کتاب ۔۔سیت



سرائیکی زبان کے معروف شاعر منظورسیال نے روح عصر نیوز کے ایڈیٹر ظفر اعوان  سے گفتگو کرتے ھوئے کہا ھے کہ میری پہلی سرائیکی کتاب مندری جس کو قارئین نے بہت پسند کیا میں تمام دوستوں کا شکر گزار ھوں جنہوں نے اپنی بے پناہ محبتوں سے نوازا میں تمام میڈیا سوشل میڈیا اور اخبار والوں کا شکر گزار ھوں جنہوں نے مجھے بہت عزت دی جن کی بدولت مجھے مندری کتاب پر گولڈمیڈل ملا جس کی وجہ سے مجھے دوسری کتاب چھپوانے کی ھمت ملی دوسرا سرائیکی مجموعہ کلام کا نام

 ۔سئیت  .   

دوستوں کی مشاورت سے رکھا گیا ھے منظورسیال نے کہا ھے کہ اس کتاب میں میں نے مندری کتاب سے زیادہ محنت کی ھے انشاءاللہ میری کتاب جلد چھپ کر قارئین کے ھاتھ میں ھوگی اور پسند آئے گی انہوں نے کہا یہ کتاب حمد نعت ڈوھڑے نظمیں ۔کافیاں اورغزلیات پر مشتمل ھوگی میری یہ کتاب جھوک پبلشرز ملتان پر زیر اشاعت ھے اور۔۔ سئیت ۔نام پر اپنا حق محفوظ رکھتا ھوں

وفاقی حکومت اس مجرمانہ حرکت پہ نوٹس لے ملک اطہر یار اعوان کو سیاسی آشیر باد حاصل ہے۔وفاقی حکومت اس غیر قانونی کاروائی پہ مذکورہ پھنے خان کے خلاف کاروائی کرے۔عوامی حلقے دندہ شاہ بلاول

وفاقی حکومت اس مجرمانہ حرکت پہ نوٹس لے
ملک اطہر یار اعوان کو سیاسی آشیر باد حاصل ہے۔وفاقی حکومت اس غیر قانونی کاروائی پہ مذکورہ پھنے خان کے خلاف کاروائی کرے۔عوامی حلقے

دندہ شاہ بلاول۔

دندہ شاہ بلاول میں ایس ڈی او واپڈا اجمل نذیر کو گزشتہ دنوں ان کے دفتر میں معروف سیاسی شخصیت کے بیٹے ملک اطہر یار اعوان نے شدید زدو کوب کیا۔اس واقعے کے خلاف عوامی حلقے میں شدید غم و غصے کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔چکڑالہ،ڈھوک نور شاہ کی سیاسی و سماجی شخصیات،ملک اللہ یار،ملک سہیل،محمد ناصر،محمد جاوید،محمد یعقوب اور دیگرنے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا مطالبہ کیا کہ ایس ڈی او اجمل نذیر پر تشدد کرنے والے مافیا کی سرکوبی کی جائے۔اگر کوئی غریب کا بچہ ملزم ہو تو اسے پکڑا جاتا ہے جب کہ امیر قانونی ہتھکنڈوں اور پیسے کی بدولت بچ جاتا ہے۔ہمیں اگر انصاف نہ دیا گیا تو بھرپور احتجاج کریں گے۔اس لئے وفاقی حکومت اور عدلیہ سے بھی بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک اطہر یاراعوان نامی اس شخص کو قرار واقعی سزا دی جایے۔واضع رہے کہ ایس ڈی او دندہ شاہ بلاول اجمل نذیر کو معروف سیاسی شخصیت ملک اللہ یار نمل  کے بیٹے نے ملک اطہر یار اعوان آف نمل نے ان کے دفتر میں جا کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ایس ڈی او کی حالت اب خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے

جمعہ، 29 مئی، 2020

اردو میں الف چار طرح پر پایا جاتا ہے۔ انتخاب۔ ظفر اعوان



”اردو میں الف چار طرح پر پایا جاتا ہے۔ مجرد، مہموز، ہمزہ اور
ممدودہ۔

*الفِ مجرد:*
یہ سادہ الف ہے جو سب سے زیادہ پائی جانے والی شکل ہے۔ الفاظ کے شروع، وسط اور آخر تینوں میں آتا ہے۔ مثلاً شروع میں

امید، احساس، اجر، اثر ، امنگ، اٹل وغیرہ

درمیان

راز، سلام، ناراض، پاکستان وغیرہ

آخر میں

دعا، روا، پیدا، جینا، کھیلنا وغیرہ۔

شروع میں جب یہ الف آتا ہے تو اردو زبان کے اس قاعدے کے مطابق کہ ہر لفظ کے پہلے حرف پر ضرور بالضرور حرکت ہو گی، متحرک ہوتا ہے۔ امید میں اس پر پیش ہے، احساس میں زیر، اجر میں زبر۔ قس علیٰ ہٰذا۔

درمیان اور آخر ہر دو صورتوں میں یہ ساکن ہوتا ہے۔ اور پہلا ساکن یعنی مجزوم۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الف اردو میں موقوف نہیں ہو سکتا۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ الف سے پہلے بھی کوئی ساکن حرف موجود ہو۔ یہ جب بھی ساکن کے طور پر آئے گا تو پہلا ساکن خود ہو گا۔ بعد میں چاہے جتنے مرضی ساکن یعنی موقوف حروف آ جائیں۔ جیسے راست میں الف رے کے بعد پہلا ساکن یعنی مجزوم ہے اور اس کے بعد دو ساکن یعنی موقوف آئے ہیں۔

*الفِ مہموز:*
یہ وہ الف ہے جو جرأت اور برأت جیسے الفاظ میں ملتا ہے۔ یہ اردو میں ہمیشہ کسی عربی الاصل لفظ کے درمیان ہی ملے گا اور اس پر زبر ہو گی۔ اس کے علاوہ اردو میں اس کی کوئی صورت نہیں۔

جرأت میں الف ساکن نہیں ہے بلکہ اس پر زبر ہے۔ ہم اس لفظ کے دو ٹکڑے کر کے اس بات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں:

جُر + اَت = جُرأت

اسی طرح برأت کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہو جانے کے ہیں۔

مہموز کا مطلب ہے ہمزہ والا۔ یعنی وہ الف جس کے اوپر چھوٹا سا ہمزہ ہو۔
مدعا یہ کہ الفِ مہموز اردو زبان میں صرف کسی لفظ کے درمیان ہی آئے گا اور ہمیشہ اس پر زبر ہو گی۔ الفِ مہموز نہ ساکن ہو سکتا ہے اور نہ اس پر زیر یا پیش وغیرہ ہو سکتی ہے۔ ساکن ہو گا تو الفِ مجرد کی طرح لکھا جائے گاجسے ہم نے اوپر دیکھا۔ زیر یا پیش کی حرکت ہو گی تو ہمزہ کی صورت میں لکھا جائے گا جسے ہم آگے دیکھیں گے۔

*ہمزہ:*
ہمزہ دراصل الف کا قائم مقام ہے جو وہاں آتا ہے جہاں الف کی آواز کسی لفظ کے درمیان ہو اور اس پر زیر یا پیش ہو۔ ہم نے ابھی ابھی سیکھا کہ اگر درمیان کے الف پر زبر ہو گی تو اسے ہم الفِ مہموز کی صورت میں لکھیں گے۔ لیکن اگر زبر یا پیش ہو گی تو پھر وہاں ہمزہ لکھا جائے گا۔

مثلاً

قائم = قا + اِم

دائر = دا + اِر

مسئول = مس + اُول

رؤف = رَ + اُوف

گئی = گَ + اِی

رائے = را + اِے

مرکبِ اضافی میں اگر مضاف کے آخر میں الف یا واؤ ہو تو قاعدے کے مطابق زیر لگانے کی بجائے ہمزہ لکھ کر بڑی یے لکھ دیتے ہیں۔ جیسے

روئے سخن = رُو + اے

دعائے خیر = دعا + اے

اگر ہائے مختفی یعنی چھوٹی گول ہ یا چھوٹی ی آخر میں ہو تو  ہمزہ لکھ کر زیر دیتے ہیں۔ جیسے

ہدیۂِ نعت = ہد + یہ + اے

گرمئِ بازار = گر + می + اے

البتہ اگر بڑی یے آخر میں آئے تو صرف ہمزہ کا اضافہ کرتے ہیں کیونکہ اضافت والی یے پہلے ہی سے موجود ہے۔ جیسے

مئے ناب = مَ + اے

عربی میں جب الف موقوف ہوتا ہے تو اسے ہمزہ سے ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے ماء، شاء، انبیاء وغیرہ میں۔ اردو  کے مستند تلفظ اور ٹکسالی لہجے میں، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، الف موقوف یعنی دوسرے ساکن کے طور پر کبھی نہیں آتا بلکہ ہمیشہ پہلا ساکن ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اردو میں انبیا، اولیا وغیرہ کو ہمزہ کے بغیرلکھا جاتا ہے۔ البتہ بعض عربی الاصل تراکیب میں اس کی یادگاریں باقی رہ گئی ہیں۔ جیسے ان شاء اللہ، ماشاءاللہ وغیرہ۔

*الفِ ممدودہ:*
ممدودہ کے معنی ہیں کھینچا ہوا۔ مد کے معانی ہیں کھینچنا۔ الفِ ممدودہ وہ ہے جس پر مد یعنی کھنچاو موجود ہو۔ یہ درحقیقت ایک الف نہیں بلکہ دو الف کا مجموعہ ہے۔

سا، کا، گا، لا، جا وغیرہ میں الف سے پہلے س، ک، گ، ل اور ج موجود ہیں جو متحرک ہیں اور الف ساکن ہے۔ اگر پہلا حرف بھی الف ہی ہو تو دو الف ہو جائیں گے جن میں سے پہلا متحرک اور دوسرا ساکن ہو گا۔ یہ الفِ ممدودہ ہے اور اسے الف پر مد ڈال کر ظاہر کرتے ہیں۔

ا + ا = آ

اردو میں الفِ ممدودہ ہمیشہ الفاظ کے شروع میں آتا ہے۔ درمیان یا آخر میں نہیں پایا جاتا۔ اس کا وزن بھی دو حروف کے برابر ہی شمار کیا جاتا ہے نہ ایک الف کے برابر۔ مثلاً

آج = اَ + ا + ج

یہ سہ حرفی لفظ ہے۔ یعنی تین حروف والا۔ پہلا الف متحرک، دوسرا مجزوم اور تیسرا جیم موقوف۔ فاع کے وزن پر۔

آغاز = ا+ ا+ غا + ز

یہ پنج حرفی لفظ ہے۔ مفعول کے وزن پر۔

*خلاصہ:*

مدعا یہ کہ الف اردو میں اگر ساکن ہو تو درمیان یا آخر میں ہو گا اور ہمیشہ کسی حرکت کے بعد پہلا ساکن یعنی مجزوم ہی ہو گا۔ موقوف کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں اسے الفِ مجرد یا سادہ الف سے ظاہر کریں گے۔ اگر متحرک ہو گا اور لفظ کے شروع میں ہو گا تو اسے بھی سادہ ہی لکھا جائے گا۔ اگر کسی لفظ کے درمیان متحرک ہو گا تو زبر کی حرکت کے ساتھ الفِ مہموز یعنی ہمزہ والا الف لکھا جائےگا۔ پیش اور زیر کے ساتھ خود ہمزہ ڈال دیا جائے گا۔ آخر میں متحرک ہو ہی نہیں سکتا۔ دو الف اکٹھے آئیں گے تو انھیں الفِ ممدودہ کے ساتھ یعنی الف پر مد ڈال کر ظاہر کیا جائے گا۔

تباہی پھیلانے والا پانی اب خوشحالی لائے گا (تحریر کائنات ملک)

تباہی پھیلانے والا پانی اب خوشحالی لائے گا ۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

(تحریر کائنات ملک) 

راجن پورپنجاب کا آخری ضلع ہے اور پاکستان کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔ دریائے سندھ اس کے مشرق میں اور مغرب میں کوہ سلیمان کا 

پہاڑی سلسلہ موجود ہے: کوہ سلیمان 

پر ہر سال مون سون کی بارشوں کی وجہ سے درہ کاہا سلطان کے سیلابی نالے میں ظغیانی اجاتی ہے جس کے باعث کئی ہزار کیوسک پانی کا سیلابی ریلہ نشیبی علاقوں میں جاکر تباہی پھیلا دیتا ہے۔ جب کہ علاقہ میں سیلاب سے پہلےضلعی انتظامیہ کی طرف سے کسی قسم کے کوئی ٹھوس حفاظتی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ جس کے باعث علاقے میں موجود کئی ایکٹر کاشت کی گئی فصلوں کے ساتھ وہاں کی مقامی ابادی اور جانوروں کوبھی شدید نقصان پہنچتا ہے ۔رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جاتیں ہیں۔ مکان سیلابی پانی سے زمین بوس ہوجاتے ہیں کھانے پینے کا سامان اور جانور جانوروں کا چارہ تک پانی میں بہہ جاتا ہے۔کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ جن سے کروڑوں روپے مالیت کا نقصان ہوتا ہے۔لوگوں کے سر پر چھت نہیں رہتی اور کھانے پینےکو کچھ نہیں ملتا۔ وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ ادویات کی قلت پیدا ہوجاتی ہے ۔ بچے بڑھے عوتیں مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔یہ لوگ پہلے بھی بہت مشکلات میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر اس قدرتی آفات کی وجہ سے متاثرین میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور ان سب کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ حکومت پاکستان نے ان لوگوں کی کئی دہائیوں کی مشکلات کے ازالے کے لیے ان کی فریاد سنتے ہوے اور ان لوگوں کی خواہش کے عین مطابق اور اس سیلابی پانی کی روک تھام کے لیے۔ علاقے کی خوشحالی وترقی کے لیے باقاعدہ طور پر مورونج ڈیم کی تعمیر کی منظوری دیتے ہوے فنڈ بھی جاری کردیا ہے ۔ مورونج ڈیم کی تعمیر سے علاقے میں نئے دور کا آغاز ہوجاے گا 

ضلع راجن پور کے بچادھ کے لوگوں کے کے لیے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے اب ان کے علاقے میں ڈیم بنانے کے لیے حکومت نے فنڈ جاری کردیے ہیں واپڈا نے مورونج ڈیم پراجیکٹ کیلئے مشاورتی خدمات 

کاکنٹریکٹ ایوارڈ کردیاہے۔ مشاورتی خدمات کا کنٹریکٹ 15 کروڑ62۔ لاکھ ،26ہزار روپے کی لاگت سے تین پرسوں میں مکمل کیا جاے گا ۔ 

کنٹریکٹ نیسپاک کی سربراہی میں قائم تین کمپنیوں کے جوائنٹ ونچر کو دیا 

گیا ہے۔کنٹریکٹ کے تحت مورونج ڈیم کی، فزیبلٹی، سٹڈی،انجینئرنگ ڈیزائن، ٹینڈر، دستاویزات، اور پی سی،ون تیار 

ہوگا۔مورونج ڈیم میں 8لاکھ ایکڑ فٹ میٹھا پینے کا پانی کا ذخیرہ بھی ہوگا، جس سے اس علاقے کی ابادی کو میٹھے پینے کے پانی کی سہولت میسر ہوگی۔اور اس پانی سےایک لاکھ 20ہزار ایکڑ 

زمین زیر کاشت آے گی ۔ڈیم کی بدولت ہر سال سیلاب کی طغیانی کی وجہ سے جو جانی ومالی نقصان ہوتا تھا۔اب اس ڈیم کی تعمیر سے بچاؤ ممکن ہوجاےگا۔ اور ساتھ ہی ساتھ 12میگا واٹ سستی پن بجلی بھی پیدا ہوگی۔اس سے لوگوں کے لیے روزگار کے دروازے کھل جائیں گے علاقے میں ترقیاتی کام ہونے سے خوشحالی اے گی اور زہر زمین پینے کا میٹھا پانی نہ ہونے کی وجہ سے پینے کے پانی کا مسلہ بھی حل ہوجاے گا نقل مکانی کا سلسلہ بھی ختم ہوجاے گا ۔

29 مئی 2020 ء جنوبی پنجاب میں پانی کے کمیاب وسائل کو بروئے کار لانے کیلئے واپڈا نے مورونج ڈیم پراجیکٹ کیلئے مشاورتی خدمات کا کنٹریکٹ 3کمپنیوں پر مشتمل جوائنٹ ونچر کو ایوارڈ کردیا۔ نیسپاک جوائنٹ وینچر کی مرکزی فرم ہے۔ کنٹریکٹ کی مالیت 15 کروڑ 62 لاکھ 26ہزار روپے ہے۔ کنٹریکٹ میں مورونج ڈیم کی فزیبلٹی سٹڈی، تفصیلی انجنیئرنگ ڈیزائن، ٹینڈر دستاویزات 

اور پی سی۔ون کی تیاری شامل ہے۔ 

واپڈا ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں واپڈا کے جنرل منیجر (ہائیڈروپلاننگ) محمد امین اور نیسپاک کے جنرل منیجر (واٹر اینڈ ایگریکلچر) جاوید منیر نے اس خصوصی معاہدے پر دستخط کیے۔ 

مورونج ڈیم پراجیکٹ کاہا نالہ پر تعمیر کیا جائے گا۔ ڈیم سائٹ ماڑی گاؤں سے 15کلومیٹر دور اور راجن پور سے غربی سمت 116 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ کاہا نالہ راجن پور کے نواح میں کوہ سلیمان کے پہاڑی نالوں (Hill Torrents) میں سے ایک بڑا نالہ ہے جس میں پانی کا سالانہ اوسط بہاؤ ایک لاکھ 83ہزار ایکڑ فٹ ہے۔ راجن پوراور اس کے ملحقہ علاقوں میں پانی کے وسائل انتہائی کم ہیں اور وہاں زراعت اور پینے کے صاف پانی کی شدید قلت درپیش رہتی ہے اس ڈیم کے بننے سے ان تمام مسائل کا خاتمہ ہوجاے گا علاقے میں خوشحالی ہوگی ۔ 

مورونج ڈیم پراجیکٹ کے تین بنیادی مقاصد ہیں،جن میں زراعت اور پینے کیلئے پانی کی فراہمی، سیلاب سے بچاؤ اور بجلی کی پیداوار شامل ہیں۔ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 8لاکھ ایکڑ ٖفٹ ہوگی۔ ہر سال مون سون میں بارشوں کی وجہ سے ملحقہ پہاڑی نالوں میں طغیانی آنے سے ہزاروں ایکڑ اراضی سیلاب سے متاثر ہوتی ہے جس سے زرعی اراضی اور املاک کو نقصان پہنچتا ہے۔ پراجیکٹ سے 12میگا واٹ سستی اور ماحول دوست بجلی بھی پیدا ہوگی۔ 

مورونج ڈیم جنوبی پنجاب کیلئے اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ ہے، جس سے ان پسماندہ علاقوں میں غربت کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی، معاشی استحکام آئے گا اور لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔پراجیکٹ کی بدولت ایک لاکھ 20 ہزار ایکڑ بنجر زمین زیرکاشت آئے گی، زیرزمین پانی کی سطح بلند ہوگی اور ماہی گیری کوبھی فروغ ملے گا۔

٭٭٭

لاک ڈاؤن ۔۔۔سعدیہ ھما شیخ ۔

لاک ڈاون
ہیما کو اپنے حسن و جمال پر بہت غرور تھا اس پر وہ ہر فن مولا بھى تھى حسن و ذہانت کا مجموعہ محبت کی شادی اور  شوہر کے دن رات وفا کےدعوے اسے کچھ اور ہوا میں اڑانے لگے
اس کی دوست نوشین کا شوہر بہت دل پھینک تھا م مگر ہیما  ہمیشہ اسى کو کہتى کہ اگر تم میں گن ہوتے تو تمہارا شوہر کبھى باہر نہ جاتا جبکہ نوشئن کا یہى کہنا تھا کہ تمام مرد ایک جیسے ہوتے ہیں اور وہ فٹ اپنے شوہر نبیل کی مثال دیتى  جو ایسى تمام خرافات سے دور تھا
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اچانک بڑھتى بيمارى کی وجہ سے حکومت نے لاک ڈاون کا اعلان کر دیا اور اس لاک ڈاون میں نبیل کا وہ روپ جو پندرہ سال کہ ازدواجى زندگی میں وہ نہ دیکھ پاى سامنے آ گیا ہر وقت موبائیل اور مخصوص وقت پر باہر جانے کہ جلدى جو وہ سوچ نہیں سکتى تھى وہ ہی ہو رہا تھا کام کا بہانہ چل نہیں سکتا تھا اور ہوٹل پارکس بھى بند تھے
 عید کى تیارى کے لىے نبیل نے صاف بول دیا تھا کہ حالات اچھے نہى پرانى اشیاء  سے  گزارہ کرو  اور ہیما نے بھی بچوں کو سمجھا دیا تھا مگر اکاونٹ سے رقم مسلسل نکل رہى تھى جس پر ہیما کو شک ہوا  اور جب اس نے سیل چیک کیا تو اس میں موجود کلپس نے اس کا سارا وجود توڑ دیا مختلف عورتوں کے ساتھ فنکشنز پر ناچتا نبیل اس کے پورے جسم میں چیونٹیاں رینگ گیں اىک نرالے روپ میں طوائف کی اداوں پر  تن من اور دھن سے نثار ہوتا لو پروفائل بندہ اس کا شوہر تھا یہ ادراک اس کی موت تھا اس کے غرور کی موت تھا اس کی دوست نوشین اس پر ہنس رہى تھى اور کہ رہى تھى مردوں میں تو یہ شغل چلتے رہتے ہیں جبکہ ہیما ایسے بندے کے ساتھ ایک پل گزار نے کو تیار نہیں تھى اسے گھن آ رہى تھى شوہر سے کراہیت محسوس ہو رہى تھى جو شرمندہ اور تائب  ہونے کی بجاے اپنے گناہ کہ تاویلیں پیش کر رہا تھا کہ رہا تھا کہ اس میں کیا ہے میں نے کون سا کسى سے نکاح پڑھا لیا ہے
اور جب اس کے گھر والوں نے بھی اس بات پر گھر چھوڑنا اس کی بے وقوفى کہا  اور بولے کون سا وہ تم پر سوتن لے آیا ہے تو وہ حیران رہ گئی جس گناہ کہ سزا موت ہے جس پر رب نے حد لاگو کہ وہ کسى کے لئے مسلہ ہى نہیں اور شادى شدہ زانى کے لئے تو سنگسارى مگر اسے معمولى کہا گیا جس پر اس کا شوہر اور ڈھیٹ ہو گیا  حد تو ئہ کہ نکاح کو جرم مانا جاتا مگر کھلے عام طوائفوں کے ساتھ ہلڑ بازى  سب  کو منظور بچوں کی خاطر اسے ایک ایسے شخص کہ بیوى بن کر رہنے پر مجبور کر دیا گیا جو عورت کو شغل میلہ سمجھتا
ہے
ہیما جو ہمیشہ ان پیشہ ور عورتوں سے نفرت کرتى تھى یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ایک ہاوس واقف سے تو یہ بہتر ہیں جن کہ پیچھے مرد خوار بیوى سارا دن گھر اور گھر کے کاموں میں پستى بچے پیدا کرتى مردکى نسل کو پروان چڑھاتى اپنا آپ بھلا دیتى اور شوہر ان دو ٹکے کی لو پروفائل عورتوں پر تن من اور دھن سے نثار ہوتی ویڈیو کلپ میں دل و جاں سے طوائف پر نثار ہوتا نبیل اس کے دل کا درد بن گیا
لاک. ڈاون کھل گیا تھا نبیل نے ہیما کو شاپنگ پر چلنے کو کہا اور وہ جس کی شاپنگ کمزورى تھى اس کی نظروں کے سامنے ہزاروں کى دھتیاں لوٹاتا ایک طوائف کا رسیا آ گیا اور اس نے انکار کر دیا
رات کو ڈھیروں اشیاء کے ساتھ نبیل کمرے میں آیا اور ہیما سے راز و نیاز کرنے لگا اگر اسے شوہر کے کرتوت معلوم نہ پڑتےتو وہ اپنے شوہر کی محبت پر دل و جاں سے نثار ہوتی مگر اب اس نے سختى سے انکار کر دیا اور اسے باور کرا دیا کہ اس کے دل میں ہمیشہ لاک ڈاون ہى رہے گا اور اس بے وفاى اور کھلى بے حیاى کے وائرس کی پکڑ حشر میں ہو گى
از قلم سعدیہ ہما شیخ

اپلوں کا ٹااال نمرہ ملک ۔۔۔قسط نمبر3

اپلوں کا ٹااال
نمرہ ملک
قسط نمبر3.
ہم سارا دن کودتے پھاندتے،جب کبھی کسی گڑیا کی شادی کرتے تو ہم جولیوں میں سے ایک آپا بن جاتی،اک باجی۔۔۔۔۔سرگودھا بیس پہ چونکہ مختلف علاقوں کی ثقافت پڑوس میں اکٹھی ہوتی تھی،اور ہر کوئ اپنے علاقے کی بولی پریزنٹ کرتی تھی تو ہم آپائیں،باجیائیں اور بچے مل کر ان کی نقل کیا کرتے تھے۔۔۔۔بالکل ویسے ہی جیسے آج کل فیس بک پہ اپنے اپنے لیڈرز کی اندھی تقلید میں قوم کا ثانی نہیں۔۔۔۔😂😂
پیٹیوں والے حصے میں "باجی عقیلہ" ہوتیں ۔۔۔۔(واضع رہے یہ نام بھی سرگودھائ پڑوسنوں کے چرائے جاتے تھے_)
دوسرے گوشے میں اپلوں کے اک سائڈ پہ آنٹی شانڑیں ہوتیں،ساتھ ہی اگلا کوارٹر باجی ریحانہ کا ہوتا۔۔۔۔یہ بھی سچ ہے کہ اپا،باجی خالہ اور آنٹی نامی یہ سابقے لاحقے ہماری والدہ کے تھے،ہم ان کی نقل کرتے تھے
ملاحظہ فرمائیے۔.
باجی عقیلہ۔۔۔۔۔" باجی ریحانہ!!! آج تسی کی پکیا جے؟؟؟؟؟؟؟"
باجی ریحانہ.." اسی آج او پکایا۔۔۔۔او جیھڑے لال لال ہوندے آ۔۔۔۔۔۔(ٹماٹر)او وی وچ پائے۔۔۔۔اوووو جیھڑے ساوے ساوے ہوندے آاااااا۔۔۔۔(سبز پیاز۔۔۔وصل)
باجی عقیلہ۔۔۔" باجی ریحانہ۔۔۔۔خاہ خاہ خاہ۔۔۔۔۔۔(یہ ہنسا جا رہا ہے۔۔۔۔قہقہہ)
باجی ریحانہ۔۔" باااااجی عقیلہ!!! خاہ خاہ خاہ
اتنے میں آنٹی شانڑیں آجاتی ہیں۔اک اپلہ پیٹھ کے نیچے رکھتی ہیں۔۔۔۔۔آ۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔تسی غلط ہی سوچیو۔۔۔
اے پیڑھی نہیں جی،صوفہ اے۔۔۔
گندی نیتو۔۔۔۔۔گل سمجھووو۔۔۔۔۔یہ ایک بیس ہے جہاں سامنے ہی اپلوں کا۔۔۔۔آہاں۔۔۔۔اف
ااررررے ہاں! پارک ہے ،یہ جو درمیان میں چھت کی کڑی سے پینگ ڈالی گئ ہے نا ،یہ ہمارے پارک کا جھولہ ہے ۔۔۔جی
خیر شانڑیں آنٹی کا بیٹا پارک جانا چاہتا ہے ان کے ہاتھ میں سائیکل کا ٹائر ہے۔۔۔۔ریڑھا۔۔اک ہاتھ سے دھکیلنا اور ٹائر چلانا جسے بچے ریڑھا بولتے۔۔۔اک ہاتھ سے دھکیلتے اور ساتھ ہی کہتے ۔۔۔۔وہیل وہیل۔۔۔۔۔بیل بیل۔۔۔( beel beel)
ٹائر۔۔جسے ہم یہاں پہ سائیکل ہی کہیں گے۔۔۔ ے بی سائیکل۔۔۔کیونکہ شانڑیں آنٹی واحد ہیں اس لین میں جن کے بچے کے پاس بے بی باییسکل ہے۔
 شانڑیں آنٹی۔۔۔" میں اکھینی آں نی مسیریو۔۔۔۔۔۔چلو کتھاں ونجاں،سامنڑے پارق( پارک) وچ سیل. شیل کرئیے ہااااا( سیر سپاٹا)
آنٹی شانڑیں کی بات پہ اظہار یکجہتی ہوتا ہے اور اک بار پھر قہقہے گونجتے ہیں
باجی عقیلہ! خاہ خاہ خاہ
باجی ریحانہ! خاہ خاہ خاہ
شانڑیں آپا! خاہ خاہ خاہ
مختلف صوفوں پہ بیٹھی عوام،سایئیکل کی سواری کرتے خواص اور ہیلی پیڈ پہ بیٹھی گڑیا شاہ زادیاں۔۔۔۔تخلیہ۔۔۔۔۔!
( تسی وی دند کڈھ لو ۔۔۔۔میں زرا ساہ لے لواں تے آپااں آنٹیاں سیل شیل کر لون)
جاری ہےےےے

جمعرات، 28 مئی، 2020

قسط نمبر 2۔ اپلوں کا ٹااال۔ نمرہ ملک

قسط نمبر 2۔
اپلوں کا ٹااال
نمرہ ملک

ہاں تو صاحب ! ہم بتائے دیتے ہیں کہ اس قصے کو جیسے بھی پڑھیے،سنیے ،سر دھنیے۔۔۔۔مگر یقین کر لیجیے کہ ہماری معصومیت اس دور میں زوروں پہ تھی ( یہ الگ بات کہ یہ معصومیت کا ٹائٹل قبلہ والد صاحب نے ہمیں دے رکھا تھا جب کہ ہماری اماں جان آج بھی اس بارے میں والد محترم سے شدید اختلاف رکھتے ہوئے ہماری معصومیت کو کچھ اور کہتی ہیں۔۔۔۔اب آپ سے کیاپردہ۔۔۔۔
ان کا خیال ہے کہ پاپا کی گڑیا معصوم نہیں ہے
بلکہ پاپا کی سر چڑھی اچھی خاصی بے وقوف ہے۔۔۔۔آں۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔بالکل بھی نہیں۔۔آپ کا ہماری اماں کی رائے سے کیا لینا دینا؟سو متفق ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ہاں جی!)
خیر صاحب!!! ہم چونکہ بچپن میں گڑیاؤں کے بہت شوقین تھے تو گھر کے کونوں کھدروں میں ایسے خلا جنہیں بعض دفعہ بالکل ہی خالی کر دیا جاتا،ہماری خصوصی توجہ کا مرکز تھے۔۔۔۔ان میں کچن نما بڑے سے کمرے کے اندر بھی چارپائیوں کے نیچے پڑی چھوٹی لکڑیاں ہماری پسندیدہ تھیں۔۔۔جہاں سے لکڑیاں نکال کے چولہے میں جھونکی جاتیں،وہاں نیچے اک خلا سا بنتا اور ہماری کسی نہ کسی گڑیا کا بیڈروم سج جاتا۔۔۔۔
اس کمرے نما سٹور یا سٹور نما کچن کے آگے بڑا برآمدہ تھا۔۔۔اس برامدے کے ہزار فائدے تھے۔۔۔۔بوجھیں تو جانیں۔۔۔.
خیر ایڈے تسی لائق فائق۔۔۔۔۔ابھی ہماری اماں سن لیں تو وہ فورا فتوی دے دیں گی کہ جیسے تم،ویسے تمہارے بیلی۔۔۔۔۔۔ ( اب آگے بے وقوفی کا ٹائٹل اپنی مرضی سے سجا لیں۔۔۔۔ہم تو کبھی اپنے پیارے دوستوں اور پڑھنے والوں کو ایسا نہ کہیں۔۔۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمیں آپ سے محبت نہیں،
بالکل ہے اور ہم نے آپ اور اپنے آپ میں فرق کبھی نہیں سمجھا۔۔۔۔۔سچی۔۔۔۔.. نہ منو تسی😋)
خیر۔۔۔۔اک تو آپ ہر بار ہی ہمیں الجھا دیتے ہیں۔۔۔ہم آپکو لمبے برآمدے کے خواص بتا رہے تھے۔۔۔تو سنیے اور سر دھنیے۔۔۔
1۔اس برآمدے کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ یہ بقلم خود برآمدہ تھا ،جسے اگر تھوڑا سا مارجن دے کے ہال نما بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔ہیں؟؟؟؟ انگلش ہال کو دفع ماریں،ہم اسے مالہا۔۔۔۔( ماہل) بھی کہہ سکتے۔۔۔
نہیں سمجھے تو بابا محمد خان Muammad Muhammad Khan
سے پوچھ لیں
2.یہ برآمدہ جو کہ پسار کم ماہل ہی تھا،تین چار یا شائد پانچ کڑیوں پہ تھا،اس کے ستونوں کو دونوں طرف سے بند کر دیا گیا تھا اس لیے یہ درمیان کے دو ستونوں کی وجہ سے کھلے دروازے کا حامل تھا جس پہ پردہ لگا دیا گیا تھا۔
3.اس برآمدے کے اک کونے میں پرانی پیٹیاں جن میں بستر اور موسمی کپڑے سمیٹے جاتے تھے ،پڑی تھیں،دوسرے کونا گودام کے طور پہ استعمال ہو جاتا تھا کبھی کبھار۔۔۔۔ہمارے تایا کی دکان تھی،وہ کبھی کبھار کھل وغیرہ بھی ادھر ہی ڈال دیتے۔
تیسرے کونے میں اپلوں کا ڈھیر تھا اور ہم اس پہ سیڑھیاں بنا کے چڑھنے کا کھیل کھیلتے تھے۔۔۔جب کبھی گڑیا ،گڈے نے سفر پہ جانا ہوتا تو یہ ہمارا ہیلی پیڈ بھی بن جاتا

( چلو اگلی قسط تک انتظار کیا جائےےےے۔۔۔۔زرا ہیلی پیڈ کا کھلاڑا اور ہیلی کاپٹر کا تیل پانی چیک کر لوں)

اگر ہم شاہ زادی ہوتے تو اپلوں کا ٹال جہاز سے اٹھاتے ۔۔نمرہ ملک

اگر ہم شاہ زادی ہوتے تو اپلوں کا ٹال جہاز سے اٹھاتے


نمرہ ملک
اب اللہ جانے نائنٹیز کا کونسا سال تھا جب ہم حسب سابق گاؤں آئے ہوئے تھے۔پرانے زمانے میں ۔۔۔بلکہ اب بھی اکثر گاؤں والے گھر کے اندر ہی جانوروں کی رہائش رکھتے ہیں ۔گھریلو خواتین گائے،بھینسوں کا دودھ دوہتی،لسی بناتی اور ان کے گوبر سے اپلے جنہیں مقامی زبان میں گوئے کہا جاتا ہے،تھاپتی ہیں یہ اپلے یا گوئے بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔بعض علاقوں میں انہیں پاتھیاں بھی کہا جاتا ہے۔۔۔۔
گاؤں میں ویسے تو ساری ہی سہولیات پہنچ چکی ہیں ،جن میں سر فہرست سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ جیسی خرافات ہیں اور موبائل جیسے فتنے بھی ۔۔۔
اب تندور پہ روٹی پکانی ہو تو فون کر کے پوچھا جاتا ہے" نی بھینڑیں!تندور ویہلا وے؟؟؟؟ میں روٹیاں لا کھڑاں؟)بہن تندور فری ہے تو میں روٹی پکا لوں۔۔۔۔

( نوٹ۔۔۔۔اگلی قسط کا انتظار کیجیے)

پیر، 25 مئی، 2020

15 مارچ 1989 کو شاکر شجاع آبادی نے اپنا پہلا مشاعرہ پڑھا تھا.ظفر اعوان

یہ 15 مارچ  1989 کا دن تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

15 مارچ 1989 کو شاکر شجاع آبادی نے اپنا پہلا مشاعرہ پڑھا تھا۔

دنیا ایک نئے عہد سے روشناس ہوئی تھی۔
شاکرؔ شجاع آبادی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے ۔ اُن کی شاعری نے ایک عہد کو متاثر کیا ہے۔ اُن کے متاثرین کی تعداد اب ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ چکی ہے ۔ شاکرؔ شجاع آبادی اس نوجوان نسل کا پسندیدہ اور مقبول شاعر ہے ۔ وہ جب شعر پڑھ رہا ہوتا ہے تو ہزاروں کے مجمعے پر خامشی اور ہو کا عالم طاری ہوتا ہے ۔ سامعین اُن کے کلام کو گوش جاں سے سنتے ہیں اور چشم قلب سے پڑھتے ہیں "

شاکرؔ شجاع آبادی نے 1986ء میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا ۔ وہ 1989ء تک ایک گمنام شاعر رہے ۔ 15 مارچ 1989ء کو انہوں نے پہلی مرتبہ سرائیکی ادبی مجلس بہاولپور کے مشاعرے میں شرکت کی۔

 پہلی مرتبہ مشاعرے میں حسین بخش حسنیؔ نے سٹیج پر شور مچا دیا تھا کہ ایک شاعر ابھی رہتے ہیں ان کو بھی سنا جائے اُس وقت شاکرؔ شجاع آبادی کو اپنا کلام سنانے کے لیے دو منٹ کے لیے اجازت ملی ۔

اس بارے میں شاکرؔ شجاع آبادی کہتے ہیں :" مجھے دو منٹ اپنے اشعار سنانے کے کی اجازت ملی تھی لیکن میں نے 35 منٹ اپنے اشعار سنائے "

اس مشاعرے کی صدارت جاں بازؔ جتوئی کر رہے تھے ۔ انھوں نے شاکرؔ شجاع آبادی کے بعد اپنا کلام نہیں سنایا اور سٹیج پر سے کچھ یوں کہہ کر لوٹ آئے ۔" میں چالیس سال سے سننے کی کوشش کر رہا تھا لیکن سننے کا موقع نہیں ملا مگر آج سنا ہے۔"

شاکرؔ شجاع آبادی بتاتے ہیں کہ انھوں نے عروض باقاعدہ نہیں سیکھا بلکہ لوگوں سے سن کے سیکھا ہے ۔ ان کی پسندیدی بحر بحر رمل مثن محزوف ہے " فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن"

شاکرؔ شجاع آبادی کہتے ہیں کہ انھوں نے کسی دوسرے شاعر سے متاثر ہو کر شاعری نہیں کی اور نہ ہی وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو کسی بڑے شاعر سے منسوب کیا جائے ۔ " میں شاکرؔ شجاع آبادی ہوں اور شاکرؔ شجاع آبادی ہی رہنا چاہتا ہوں ۔ میں نہیں چاہتا کہ مجھ پر کسی دوسرے شاعر کی چھاپ لگے"

شاکرؔ شجاع آبادی خود کو بطور شاعر کئی بار منوا چکے ہیں ۔ پاکستان کا پہلا عالمی مشاعرہ بہاولپور میں منعقد ہوا ۔ اس پہلے عالمی مشاعرے میں شاکرؔ شجاع آبادی نے بھی شرکت کی اور اُن کے کلام کے بارے میں ضمیر جعفری نے خبریں اخبار میں کچھ یوں لکھا:" پاکستان کا پہلا عالمی مشاعرہ سرائیکی کی پچ پر کھیلا گیا شاکرؔ شجاع آبادی نے آل آؤٹ کر دیا ۔"

ڈی ۔ سی ۔ اے بہاولپور چولستان ویلفئیر سوسائٹی نے شاکرؔ شجاع آبادی کو " پویٹ آف سنچری" 1900ء تا 2000ء کا ایوارڈ دیا ۔ 2000ء میں شاکرؔ شجاع آبادی کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انہیں " پرائز آف پرفارمنس ( صدارتی ایوارڈ) سے نوازا۔

شاکرؔ شجاع آبادی جنوبی پنجاب میں خواجہ غلام فرید کے بعد دوسرے ایسے شاعر ہیں جن کے اشعار بلا تفریق امیر غریب ، عوام اور سیاست دانوں کو بھی یاد ہیں ۔

جیو نیوز کے صحافی سہیل وڑائچ نے شاکرؔ شجاع آبادی کا انٹرویو " ایک دن جیو کے ساتھ" میں کیا ۔ اس انٹرویو کو جیو نیوز کی طرف سے 196 ممالک میں نشر کیا گیا ۔ اس انٹرویو میں واضح نظر آتا ہے کہ شاکرؔ شجاع آبادی صرف عوام کے دلوں میں ہی نہیں بلکہ حکمران طبقے کے دلوں میں بھی جگہ رکھتے ہیں ۔

ساجدہ لنگاہ ّ سربراہ نیشنل سرائیکی پارٹی) کہتی ہیں ۔ ان کی وجہ سے مجھ میں ایک چینج آیا ہے کہ میں اس تحریک کا حصہ بنی ہوں اور وہ صرف انھیں کے شعروں کی وجہ سے"
ساجدہ لنگاہ نے اپنی گفتگو کا اختتام ان اشعار سے کیا :

جے تنگ ہویں ساڈی ذات کنوں ڈے صاف ڈسا تیڈی جان چُھٹے
تیکو پیار کیتم تیڈا مجرم ہاں ڈے سخت سزا تیڈی جان چُھٹے
تب توں منگی ضائع نہیں تھیندی منگ ڈیکھ دعا تیڈی جان چُھٹے
ایویں مار نہ شاکرؔ قسطاں وچ یک مشت مۃکا تیڈی جان چُھٹے

رکن قومی اسمبلی ملک عامر ڈوگر شاکرؔ شجاع آبادی کے بارے میں کہتے ہیں کہ شاکرؔ شجاع آبادی علاقے کے عظیم شاعر ہیں اُن کے شعر سب کو یاد ہوتے ہیں ۔
" شاکرؔ شجاع آبادی ہمارے اس خطے کا ہمارے وسیب کا ایک عظیم شاعر ہے ۔ اُس کے شعر کو رکشے والا بھی پڑھتا ہے ، اُس کے شعر کو سیاسی کارکن بھی پڑھتا ہے ۔

تو محنت کر تے محنت دا صلا جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا ہوا جانے خدا جانے "

مخدوم جاوید ہاشمی ملکی سیاست اور جنوبی پنجاب کا ایک بڑا نام ہیں ، وہ شاکرؔ شجاع آبادی کے بارے کہتے ہیں :

"انھوں نے اپنی تکلیفوں کی بات نہیں کی ہمیشہ انسان کی محرومیوں اور مشکلات کی بات کی ہے اور اس خطے کے حساب سے وہ بہت خوبصرت شاعر بھی ہیں ، حسین طرز تکلم بھی ہے ۔ انھوں نے یہاں کے لوگوں کی صحیح ترجمانی کی ہے ۔"

سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ شاکرؔ شجاع آبادی کے اس خطے پر بہت احسانات ہیں ۔ وہ شاکرؔ شجاع آبادی کے بارے میں کہتے ہیں :" جو بھی ان کے ساتھ نا انصافیاں ہوئی ہیں اُن کو شعر و شاعری میں سمو دیا ہے اور معاشرے کی جو گھٹن ہے اُس کا احساس دلوایا ہے اور میں سمجھتا ہوں اس خطے کے لیے جو ان کے احسانات ہے ان کو فراموش نہیں کر سکتے"

سہیل وڑائچ نے شاکرؔ شجاع آبادی کا انٹرویو کیا اور پورا دن ان کے ساتھ گزارنے کے بعد انھوں نے شاکرؔ شجاع آبادی کے بارے میں کچھ یوں کہا :" ہمیں کب فرصت ملے گی کہ ہم بڑے شہروں سے نکل کر دور رہنے والے ، دیہات میں رہنے والے اُن نگینوں کی تلاش کریں جو فاصلوں کی دوری اور وسائل میں کمی کی وجہ سے وہ رنگ نہیں دکھا سکے جو اُن کا حق ہے ۔ آخر ہم بڑے لوگوں کے مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں ؟"

*شاکر شجاع آبادی کے بارے میں کچھ
#حیرت_انگیز_معلومات:

شاکر شجاع آبادی کی تعلیم پرائمری ہے ان کا کلام اس وقت پانچ یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور۔۔بہاءالدین یونیورسٹی ملتان ۔۔ ایگری کلچرل یونیورسٹی فیصل آباد ۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد۔ شاکر شجاع آبادی صاحب کہتے ہیں کہ میں سائنسدان بننا چاھتا تھا مگر غربت آڑے آ گئ مگر اب کچھ نہ کچھ خواب پورا ہوا کیوں کہ لوگ میرے کلام کے اوپر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

شاکر شجاع آبادی کی #اردو_شاعری

سرائیکی کلام تو آپ نے بہت سنا پڑھا ہو گا ان کا ان کا تھوڑا سا اردو کلام ملاحظہ ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستم کو اپنے قدرت سا کبھی انداز مت دینا
وہ بے آواز لاٹھی ہے اسے  آواز  مت  دینا
ستم جب لوٹتے ہیں تو ستم گر پر جھپٹتے ہیں
ستم جیسے عقابوں کو کھلی پرواز مت دینا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھونکا ہوا  کا   تھا   آیا   گزر   گیا
کشتی میری ڈبو کےدریا اتر  گیا
میرے پیار پہ جو صدقہ میرے یار نے دیا
دیکھا جو غور  سے تو میرا ہی سر گیا
بٹتی ہیں اب نیازیں اس  کے  مزار  پر
کچھ روز پہلے جو شخص فاقوں سے مر گیا
مجھے قتل کر کے شاکر وہ رویا بے پناہ
کتنی ہی سادگی سے قاتل مکر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان کا ایک سرائیکی قطع

ساری زندگی نفرت کیتی ہم ہنڑ الفت نال نبھا ڈیکھاں
میں ہر ھک سجنڑ کُوں ڈیکھ گِدا اے ہنڑ دشمنڑ کُوں بنڑا ڈیکھاں
جے کُوں یار بنڑایا او چھوڑ گیا اے نسخہ ول آزما ڈیکھاں
متاں دکھ وی شاکر چھوڑ ونجے دکھ نال ہنڑ یاری لا ڈیکھاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ .  .
*سمیع اللہ عارفی*

جمعرات، 21 مئی، 2020

کائنات ملک صاحبہ پرعزم صحافی اور شاعرہ ادباء اور شعراء کا تعارفی سلسلہ۔


کائنات ملک صاحبہ
    پرعزم صحافی اور شاعرہ


ادباء اور شعراء کا تعارفی سلسلہ

تحریر و تعارف     آغا نیاز مگسی

وطن عزیز میں  کسی بھی شعبے سے   کسی بھی خاتون  کا وابستہ ہونا خواتین کے لئے  کتنے مسائل اور مشکلات  کا باعث بنتا ہے یہ صرف ان خواتین کو ہی معلوم ہے کہ جو اعلی اور ارفع عزم لے کر خارزار اور پرخطر راستوں پر چل پڑتی ہیں اور ہر طرح کی مشکلات کا ہمت، صبر اور حوصلے کے ساتھ  مقابلہ کرتی ہیں ۔  ملک کی نامور صحافی اور شاعرہ محترمہ کائنات ملک صاحبہ کا شمار بھی ایسی ہی باہمت اور بہادر خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے  اپنی منزل کی طرف سفر کو جاری رکھا ہوا ہے ۔

کائنات ملک صاحبہ  7 جولائی 1978 کو جام پور ضلع راجن پور میں پیدا ہوئیں  ۔ ان کے والد صاحب کا نام ملک اللہ  دتہ ہے ۔ بی اے  تک تعلیم حاصل کی ہے ۔ وہ  2 بچوں، لاریب کائنات اور ارج خان کی " جنت اور کل کائنات " ہیں ۔ ان کی مادری زبان سرائیکی ہے  تاہم اردو اور پنجابی زبان روانی کے ساتھ بولتی ہیں  ۔  شاعری کا شوق انہیں چوتھی جماعت میں رسالے پڑھتے ہوئے پیدا ہوا  جبکہ 1990 سے انہوں نے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا ۔  وہ  اردو اور سرائیکی زبانوں میں شاعری کرتی ہیں ۔ ان کی پسندیدہ صنف نظم ہے  اس لیے زیادہ تر اسی صنف میں مشق سخن جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کے خیالات میں پختگی اور معاشرتی مسائل خاص طور پر پر خواتین اور بے بس اور مجبور عوام کی حالت زار ان کے سامنے ہے ۔ انہوں نے خواتین اور بے بس اور مجبور عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے اور عوام میں شعور  و آگہی کی غرض سے صحافت اور شاعری کو اپنا موثر ہتھیار بنا لیا ہے ۔

کائنات ملک صاحبہ ایک صحافی کی حیثیت سے ایسے ایسے مسائل کو بھی اجاگر کرتی ہیں جن کی  طرف عام طور پر کوئی ادیب، صحافی، شاعر  یا ادارہ توجہ نہیں دیتا یا ان کو اہمیت ہی نہیں دیتے ۔ مثال کے طور پر پاکستان میں خواجہ سرا ایک فطری خوشیوں  و خواہشات  اور انسان کے ناطے اپنے جائز اور بنیادی حقوق سے محروم اور مظلوم طبقہ ہے ۔ پاکستان کے  2  سابق چیف جسٹس صاحبان  جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ثاقب نثار   صاحب  نے خواجہ سراؤں کے مسائل پر خصوصی توجہ دی اور افتخار محمد چوہدری صاحب نے ان کے لیے قانون سازی بھی کروائی مگر ان پر عمل درآمد کی توفیق شاید ہی کسی کو ہو رہی ہو ۔ کائنات صاحبہ نے اسی مظلوم اور محروم طبقے اور تیسری جنس خواجہ سراؤں کے مسائل پر تحقیق کی اور ان کے مسائل اور مشکلات کو حل کرانے کے لئے بھرپور کوششیں کیں اور اسی طرح وہ دیگر عوامی مسائل پر بھی لکھتی رہتی ہیں اور شاعری میں بھی ان کو اپنا موضوع بناتی ہیں ۔ الیکشن کے دوران ہمارے اکثر سیاستدان جس طرح عوام کو ووٹ پر آمادہ کرنے کے لئے سبز باغ دکھا کر بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو بھی انہوں نے اپنی ایک نظم کا موضوع بنایا ہے ۔   2002 میں  " رنگ کائنات " کے نام سے ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ شایع ہوا ہے ۔ یہ ان کے لیے بہت بڑے اعزاز اور فخر کی بات ہے کہ  ملک کے ممتاز ادیب و شاعر، صحافی، کالم نگار  اور دانشور  منو بھائی  نے ان کی کتاب پر خصوصی طور پر تبصرہ کیا ہے ۔ اپنے تبصرے میں منو بھائی  لکھتے ہیں کہ   "  اس شاعری میں کائنات ملک ابھی اپنے وجود کی تلاش میں ہے مگر اس کی سمت بہت واضح ہے کہ وہ پہلے اپنے وجود کو منوانے کا فرض ادا کر رہی ہے جو کہ مردوں کی محتاجی کے اس نظام میں بہت ضروری ہے ۔ اپنے وجود کو منوانے کے فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد  کائنات کے کچے رنگوں کے پختہ ہونے کی امید ان کی شاعری میں یقین کی منزل کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہے ۔"

بحیثیت عورت صحافی اور شاعرہ کے سماجی رویوں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ   ہر قدم پر میری حوصلہ شکنی کی گئی بہت مشکلات پیدا کی گئیں  اور کئی طرح کی باتیں سننا پڑیں تاہم انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود میں اپنی صحافتی کیریئر سے سو فیصد مطمئن ہوں لیکن شاعری میں خود کو  ایک طالب علم سمجھتی ہوں ۔   کائنات  کی شاعری ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ مشاعروں کے بارے میں میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھی روایت ہے  مشاعروں کے انعقاد سے ادب کو فروغ دینے اور نئے شعراء کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور اپنی فنی کمزوریوں کو دور کرنے کا موقع ملتا ہے ۔  موجودہ ادبی صورتحال کے بارے میں انہوں نے کہا کہ  آجکل سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ماضی کا ادب زوال پذیر ہو رہا ہے  لوگوں کی  مطالعے اور کتب بینی کے بجائے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے زیادہ دلچسپی ہے ۔ پسندیدہ شعراء کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ پروین شاکر کی شاعری اور شخصیت سے متاثر ہیں ۔

کائنات ملک صاحبہ کی  شاعری سے کچھ انتخاب قارئین کی نذر

۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان سے پیار مت کرنا کہا تھا
کبھی ان کا انتظار مت کرنا

دل کی بستی اجڑ جائے گی ناں
زندگی سولہ سنگار مت کرنا

ازل سے زمانہ دشمن محبت کا
کہا تھا کہ اس پر اعتبار مت کرنا

سنگ دل محبوب کے سامنے کہا تھا
نادان دل محبت کا اظہار مت کرنا

بات چھپی تھی لاکھوں کی تھی
کہا تھا لوگوں کے سامنے اقرار مت کرنا

اب اس کھیل میں کود پڑے ہو تو
" کائنات " کو کائنات میں شرمسار مت کرنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باتوں سے مہکتے گلاب سارے
دیکھتے ہیں کھلتے شباب سارے

باتیں کریں تو زندگی بدل دیں
سوالوں کے ہیں جواب سارے

دکھا کر سبز باغ لوگوں کو یہ
ہیں سیاستدان سراب سارے

بڑی شوخی بکھیریں الیکشن میں
کمپین میں بولیں بے حساب سارے

جھوٹ، کرپشن، رشوت، منشور ان کا
یہ ہیں بس خانہ خراب سارے

تن دن کے اجلے من کے کالے
خود کو سمجھنے ہیں نواب سارے

بتاوں کس نے کتنی کرپشن کی ہے
اب " کائنات " کو دیں حساب سارے


کائنات ملک

بہترین انسان بننے کےلیے کسی مہنگی یا برانڈڈ چیز خريد کر اسکی زیب و نمائش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہترین دل ہی بہترین انسان کی پہچان ہے

جیسے جیسے میری عمر میں اضافہ ہوتا گیا، مجھے سمجھ آتی



گئی کہ اگر میں Rs. 3000 کی گھڑی پہنوں یا Rs. 30000 کی، دونوں وقت ایک جیسا ہی بتائیں گی۔۔!
میرے پاس Rs. 3000 کا بیگ ہو یا Rs. 30000 کا، اس کے اندر کی چیزیں تبدیل نہیں ہوں گی ۔ ۔ !
میں 300 گز کے مکان میں رہوں یا3000 گز کے مکان میں، تنہائی کا احساس ایک جیسا ہی ہوگا ۔ ۔ !
آخر میں مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ اگر میں بزنس کلاس میں سفر کروں یا اکانومی کلاس میں، میں اپنی منزل پر اسی مقررہ وقت پر پہنچوں گا۔ ۔ !
اس لئے اپنی اولاد کو مالدار ہونے کی ترغیب مت دو بلکہ ان کو یہ سکھاؤ کہ وہ خوش کس طرح رہ سکتے ہیں اور جب بڑے ہوں تو چیزوں کی قدر کو دیکھیں قیمت کو نہیں ۔۔۔۔۔۔
دل کو دنیا سے نہ لگاؤ کہ وہ فانی ہے، بلکہ آخرت سے چمٹ جاؤ کیونکہ وہ باقی رہنے والی ہے۔۔۔۔
فرانس کا ایک وزیر تجارت کہتا تھا؛ برانڈڈ چیزیں مارکیٹنگ کی دُنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہوتی ہیں جنکا مقصد تو امیروں سے پیسہ نکلوانا ہوتا ہے مگر غریب اس سے بہت متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔کیا یہ ضروری ہے کہ میں Iphone اُٹھا کر پھروں تاکہ لوگ مجھے ذہین اور سمجھدار مانیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ Mac یا Kfc کھاؤں تاکہ لوگ یہ نا سمجھیں کہ میں کنجوس ہوں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ دوستوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک Downtown Cafe پر جا کر لگایا کروں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں خاندانی رئیس ہوں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں Gucci,Lacoste, Adidas یا Nike سے کپڑے لیکر پہنوں تو جینٹل مین کہلایا جاؤں گا؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں اپنی ہر بات میں دو چار انگریزی کے لفظ ٹھونسوں تو مہذب کہلاؤں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں Adele یا Rihanna کو سنوں تو ثابت کر سکوں کہ میں ترقی یافتہ ہو چکا ہوں؟
نہیں یار!!!
میرے کپڑے عام دکانوں سے خریدے ہوئے ہوتے ہیں، دوستوں کے ساتھ کسی تھڑے پر بھی بیٹھ جاتا ہوں، بھوک لگے تو کسی ٹھیلے سے لیکر کھانے میں بھی عار نہیں سمجھتا، اپنی سیدھی سادی زبان بولتا ہوں۔ چاہوں تو وہ سب کر سکتا ہوں جو اوپر لکھا ہے لیکن۔۔۔۔
میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو میری Adidas سے خریدی گئی ایک قمیص کی قیمت میں پورے ہفتے کا راشن لے سکتے ہیں۔
میں نے ایسے خاندان دیکھے ہیں جو میرے ایک Mac برگر کی قیمت میں سارے گھر کا کھانا بنا سکتے ہیں۔ بس میں نے یہاں سے راز پایا ہے کہ پیسے سب کچھ نہیں، جو لوگ ظاہری حالت سے کسی کی قیمت لگاتے ہیں وہ فورا اپنا علاج کروائیں۔ انسان کی اصل قیمت اس کا اخلاق، برتاؤ، میل جول کا انداز، صلہ رحمی، ہمدردی اور بھائی چارہ ہے۔ نہ کہ اسکی ظاہری شکل و صورت...
مجھے بہترین انسان بننے کےلیے کسی مہنگی یا برانڈڈ چیز خريد کر اسکی زیب و نمائش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔      بہترین دل  ہی بہترین انسان کی پہچان ہے

بدھ، 20 مئی، 2020

وزیراعظم عمران خان..........اپیل......آل محکمہ جات آل کلاس فور ملازمین ایسوسی ایشن پنجاب..................... تحریر...شفقت علی فناس سیکرٹری پنجاب سیکرٹری جنرل ضلع راولپنڈی. ...موبائل نمبر03009887410

وزیر اعظم عمران خان..........اپیل......آل محکمہ جات آل کلاس فور ملازمین ایسوسی ایشن پنجاب.....................
تحریر...شفقت علی فناس سیکرٹری پنجاب سیکرٹری جنرل ضلع راولپنڈی.  ...موبائل نمبر03009887410...........
.ہم جناب آپ کو سچا مسحیا سمجھتے ہوۓ انصاف پسند وزیراعظم تسلیم کرتے ہیں اورموجودہ سالانہ بجٹ میں آپ سے ڈھیروں ڈھیر امیدیں وابستہ کرچکے ہیں کہ شاہد تحریک انصاف کی حکومت میں ہمارے ساتھ تفریق کا رویہ کاخاتمہ ممکن ہوجاۓ غریب طبقہ کے ملازمین کی زندگیاں اجیرن ہوچکی ہیں اورآے روز مہنگائی کے دن بدن بڑھتے ہوۓ طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی سکت کھو چکے ہیں کمتنخواہیں ..کم.مراعات آخر کار سرکار ہمارا چھوٹے طبقہ کے ملازمین کا قصور یہی ہے کہ ہم ادنی ملازمین ہوتے ہیں آخر کیوں اورکب تک ایسا حسن سلوک ہوتا رہے گا ہم ساری سروس کی مدت کمپسری میںگزارنے پربے بس ہوتے ہیں اور اعلی عہدوں پر فائز ساری زندگی موجیں لوٹتے رہتے ہیں کیا ہمارا جرم یہی ہے کہ ہم چھوٹے طبقہ کے لوگ ہیں ہر وہ مراعات جب بھیحکومت اعلان کرتی ہے وہ اعلی عہدوں پر تعنیات ملازمین کوخوش کرنے کےلیے ہرمراعات قابل وقت فراہم کرنے کے اقدامات کیے جاتے آخر کیوں اور کب تک نہ ہمارے حکمرانوں کوکب  چھوٹے ملازمین کی تقدیر بدلنے کاخیال آۓ گا یہکیسی ریاست مدینہ جہاں پر ہر معاملے میں صاف تفریق اورکھلا فرق نظر اتا ہے  جناب ہمارے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوۓ ہم غریبوں پر رحم وکرم کریں اور صاف ستھرا اور کھرا انصاف کریں ہم اپنی دادرسی کے لیے کس کے پاس جائیں لہزا آپ ہمارے وزیر اعظم عمران خان ہیں ہم اپ سے پر زور ایپل کرتے ہیں کہ ہمارے دیرینہ مطالبات تسلیم کیے جائیں ہمیں پواپورا حق مہیا کیا جاۓ وسلام وزیر اعظم عمران خان.

منگل، 19 مئی، 2020

اسلام آباد //ظفر اعوان سے ۔// مشترکہ لسٹ پر میڈیا ورکرز کو ریلیف پیکج دینے کے تیار ہیں ۔Pioشاہرہ شاہد صاحبہ کی وفد سے گفتگو

مشترکہ لسٹ پر میڈیا ورکرز کو ریلیف پیکج دینے کے تیار ہیں ۔Pioشاہرہ شاہد صاحبہ کی وفد سے گفتگو
اسلام آباد(بیورو رپورٹ)

 APRNS آل پاکستان ریجنل نیوز پیپرز سوسائٹی اور ورلڈ یونین آف جرنلسٹس کے وفد نے PIO میڈیم شاہرہ شاہد صاحبہ سے ملاقات کی جس میں ریجنل اخبارات کی پریس چیکنگ کے لیے بنائی گئی پالیسی پر تفصیلی بات کی گئی اور مطالبہ کیا کہ قومی اخبارات اور ریجنل اخبارات کو ایک قانون کے ساتھ ڈیل کیا جائے۔اور پریس چیکنگ کمیٹی کو کورونا اور رمضان کی وجہ سے روکا جائے اور حالات معمول پر آنے تک اس عمل کو  روکا جائے ۔ کرونا کی وجہ سے ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اخبارات مختلف سٹیشن پر نہیں پہنچ پا رہی ۔شفاف طریقے سے چیک اینڈ بیلنس ہو سکے۔ اس کے ساتھ اُن ورکرز کے لیے ریلیف پیکج کا مطالبہ کیا گیا جو پی آئی ڈی میں روزانہ کی بنیاد پر حاضری لگواتے ہیں جس پر میڈم شاہرہ شاہد صاحبہ نے یقین دہانی کروائی کہ ریلیف پیکج کے لیے پی آئی ڈی میں آنے والے ورکرز کے لیے تمام تنظیموں کی مشترکہ لسٹ  پر سب کو ریلیف پیکج دینے کے لئے تیار ہیں۔ ملاقاتی وفد کے مطالبہ پر پریس چیکنگ کے لیے وقت میں اضافہ کرتے ہوئے عید سے بعد کا وقت دے دیا۔ ملاقاتی وفد نے مزیدمطالبات بھی پیش کئے ۔جن میں یہ مطالبہ کیا گیاکہ جب تک ایڈیشنز بند ہے تب تک ریگولر اخبارات کو کلائنٹ میڈیا میں ایڈجسٹ کیا جائے جس پر میڈم شاہرہ pio اس پر غور کرنے کا وعدہ کیا اور کہا کہ ریگولر اخبارات کو انکا حق دیا جائے گا۔  پی آئی او شاہرہ شاہد صاحبہ سے ملاقات میں APRNS کے صدر غلام مرتضیٰ جٹ، ورلڈ یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی صدر محمد فیصل ندیم کی قیادت وفد نے ملاقات کی ۔وفد میں صابر بلوچ، راچہ اظہر حسین، ملک عادل شہزاد،  عامر نواز،  آفتاب کھوکھر، ملک حفیظ عاسم شامل تھے۔

پیر، 18 مئی، 2020

ـ’’ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا‘‘ آہ! حاجی محمد وحید (آف تلہ گنگ) (کچھ یادیں کچھ باتیں) صاحب تحریر: سراج الدین راہیؔ (سینئر صحافی)





ـ’’ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا‘‘

آہ! حاجی محمد وحید
 (آف تلہ گنگ)

(کچھ یادیں کچھ باتیں)


صاحب تحریر: سراج الدین راہیؔ (سینئر صحافی)

معاونت و تصویری تعاون: ظفر اعوان (صحافی)

کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آسان موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت
نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوق گلو افشار ہے

قارئین محترم! علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی والدہ محترمہ کی وفات پر جو مرثیہ لکھا ، مندرجہ بالا اشعار اسی میں سے لئے گئے ہیں۔ بے شک موت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ جسے ہم اکثر جھوٹ سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیتے ہیں ۔ لیکن بلاشبہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھ کر اس فانی دنیا سے چلے جانا ہے ۔ چونکہ ہر یاک کے لئے موت کا وقت مقرر ہے اسی بناء پر سب ساکنان عالم اپنی اپنی زندگی کا وقت مکمل کرکے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جن میں سے اکثر لوگ تو اپنی جوانی اور بڑھایا دیکھ کر دنیا سے سیر ہو کر رخصت ہوتے ہیں اور اُن کی موت پر بہت زیادہ افسوس نہیں کیا جاتا ۔ لیکن وہ لوگ جو عالم شبات میں اچانک دنیا سے ناگہان کنارہ کر جاتے ہیں اُن کی موت نہ صرف ان کے لواحقین اور پس ماندگان کے لیے بہت اذیت ناک اور ناقابل برداشت صدمہ ہوتی ہے بلکہ ایسی حسرت ناک موت سب کے لئے دلخراش ہوتی ہے۔


رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ہو ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

٭ ماضی میں ایسی ہی مرگ ناگہانی کاشکار ہونے والے میرے نہایت پیارے بھانجے اور داماد جوان سال محمد اقبال مرحوم اور میرے بھتیجے عبدالرحیم مرحوم کے بعد اب میرے انتہائی قریبی عزیز ، رشتے میں نواسے اور میری پیاری بھانجی کے سرتاج وسہاگ 38سالہ نوجوان حاجی محمد وحید کا 6رمضان المبارک بروز جمعرات اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال پر ملال ایک ایسا صدمہ ہے جو ہمیشہ دلوں پر نقش رہے گا بلکہ ہر دلعزیز مرحوم کی ناگہانی موت تمام خاندان کے لیے ایک ایسا خلا ہے جو شاید کبھی پُر نہ ہوسکے گا۔

یوں تیری جدائی کا  نہ تھا وہم و گمان بھی

٭ محمد وحید مرحوم تلہ گنگ کی معروف کاروباری شخصیت حاجی محمد رفیق مرحوم کے گھر کے چشم و چراغ اپنے بھائیوں محمد توصیف ، محمد ظہیر ، محمد شکیل اور محمد مدثر کا دست و بازو ، والدہ کی آنکھوں کا تارا ، بیوی کا محبت کرنے والا شوہر نامدار اور چار معصوم بچوں محمدبدر ، محمد سمیع ، محمد باسط ، محمد صائم کا شفیق باپ ہونے کے علاوہ ورلڈ یونین آف جرنلسٹ کے مرکزی جنرل سیکرٹری، روزنامہ نوائے بھکر ، عوام کی عدالت اور روح عصر ایڈیٹر ظفر اعوان کا بہنوئی ور حاجی محمد بشیر المعروف سندھی کا داماد تھا۔ صوم وصلوٰۃ کا پابند اور والدین کا نہایت خدمت گزار و فرمانبردار حاجی محمد وحید مرحوم اپنے بھائیوں کا کاروبار میں شریک کارہونے کے ساتھ ساتھ کوہ نور ٹی وی اور پُرامن اخبار تلہ گنگ۔تلہ گنگ ٹائم ۔الوجود صحافتی تنظیم کا ممبر  اور  معروف نیو ز رپورٹر بھی تھا۔
٭ خدمت والدین کے حوالے سے مرحوم کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ ان کے والدمحمد رفیق مرحوم جب تک بستر علات پر رہے وہ ان کے نہ صرف گھر میں بلکہ تلہ گنگ ، چکوال اور روالپنڈی کے ہسپتانوں میں علاج معالجہ اور دیکھ بھال کے لیے دوش بدوش رہے اور اپنے آپ کو اس عظیم خدمت کے لیے وقف کئے رکھا جبکہ والد کی وفات کے بعد محمد وحید نے روزمرہ امور کی انجام دہی کے لے گھر سے باہر جانے سے پہلے والدہ محترمہ کی خدمت میں باقاعدہ حاضری دینے ان کے ہاتھ پائوں چومنے اور ان کی دعائیں لینے کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیا تھا۔
٭ آج محمد وحید کی والدہ محترمہ جو ابھی اپنے شوہر مرحوم کی وفات حسرت آیات کا غم بھی بھول نہ پائی تھی۔ جو تقریباً نوماہ قبل ہی انھیں داغ مفارقت دے کر راہی ملک عدم ہوگئے تھے۔ اپنے جواں ہمت اور پُراوصاف بیٹے کی اچانک موت پر حیران و پریشان ہے اس کے آنسو آنکھوں میں ساکن اور اس کا دل و دماغ اپنی برسوں کی محنت سے پالے ہوئے لخت جگر کی ناگہاں جدائی پر ماتم کناں ہے اور ہر ایک سے کہہ رہی ہے جائو میرا بیٹا مجھے لادو ۔

۔لیکن بقول صوفی شاعر وارث شاہ ؒ۔
ایسا کوئی نہ ملیامیں ڈھونڈ تھکی
جہیڑا گیئاں نوں موڑ لیا وندا ای

٭ رسم زمانہ ہے کہ جوان بیٹے
 بوڑھے ماں باپ کے جنازوں کو کندھا دیتے ہیں لیکن یہاں تو بوڑھی ماں کو جوان بیٹے کے جنازے کا دل شکن منظر دیکھنا پڑگیا ہے۔ خدایا ! تو اس دکھیاری کو صبر اوربرداشت کی توفیق عطا فرما۔

٭ کچھ ایسی ہی پُردرد کیفیت سے ہماری بچی مرحوم وحید کی بیوہ بھی دو چار ہے جو اس المناک اور ناگہانی حادثے پر معروف صوفی شاعر شاہ حسین ؒ کے ان اشعار کی عملی تفسیر بن کر رہ گئی ہے۔ کہ

جنگل پہلے پھراں ڈھڈیندی شوہ ملے تاں ہواں نہال نی
مائے نی میں کنوں آکھاں درد و چھوڑے دا حال نی

٭ یہی حالت زار غم سے نڈھال وحید مرحوم کے ساس ، سسر اور بھائی ظفر اعوان کی بھی ہے۔ جن کے لیے وحید سے یہ جدائی عمر بھر کا روگ اور بیٹی کا دکھ ناقابل برداشت ہو کر رہ گیا ہے۔
٭ کہتے ہیں کہ دنیا میں بھائی ایک دوسرے کے سہارے ہوتے ہیں۔ ایک بھائی کے مرنے سے دوسروں کے بازوکم ہوجاتے ہیں ۔ مرحوم حاجی وحید کے بھائی بھی اس کی موت پر ادھورے اور اپنے آپ کو کم ہمت محسوس کررہے ہیں ہمیشہ ان کی ہمت بندھانے والا بھائی آج ان میں موجود نہیںہے۔

 بقول صوفی شاعر میان محمد بخشؒ
بھائی بھائیاں دے درد ونڈا ئوندے بھائی بھائیاں دیاں باہنواں
باپ سراں دے تاج محمد ؒ مانواں ٹھنڈیاں چھانواں
گویا!
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن بہت اداس بہت سوگوار گزرے گی

٭ ادھر مرحوم کے چار معصوم بچے پھٹی پھٹی نظروں سے ہر روز دروازے پر یہ آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں ک ابھی ان کے پاپا اچانک کہیں سے نمودار ہوں گے انھیں گلے سے لگا کر پیار کریں گے اور حسب عادت و حسب روایت انھیں گھمانے پھرانے باہر لے جائیں گے لیکن ان بھولے بھالے پیاروں سے بچوں کو کیا خبر کہ ان کے پاپا تو وہاں چلے گئے ہیں ۔ جہاں سے آج تک کوئی پلٹ کر نہیں آیا۔

اب لوٹ کے نہیں آنے والا گھر کھلا چھوڑ کے جانے والا

٭ مرحوم و مغفور محمد وحید کو اللہ نے بہترین خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا وہ بڑے حوصلہ مند اور بہادر نوجوان تھا کسی بھی قسم کی مشکل یا محنت سے قطعاً گھبرانے والا نہیں تھا بلکہ اپنے عزم اور ارادے کا پکا اور عزیز واقارب اور دوست احباب کے ہر مشکل میں مدد و تعاون کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ بطور سماجی کارکن اور پریس رپورٹر عوامی مسائل کے حل کے لئے شبانہ و روز بھر پور مسائمی جمیلہ انجام دینے وا لے نہایت ملنسار حاجی محمد وحید زندگی میں تو ہمیشہ باوقار مقام سے سرفراز رہا۔ لیکن اللہ نے 6رمضان المبارک بروز جمعرات افطاری سے چند ہی لمحے پہلے روز ے کے ساتھ ناگہانی موت کو بھی اس وقت قابل رشک بنا دیا کہ اگلی صبح بروز جمعۃ المبارک ان کے نماز جنازہ اور تدفین کے موقع پر عوام و خواص کا جم غفیر دیکھ کر چشم فلک بھی حیران رہ گئی ۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

٭ ایک بزرگ کا قول ہے کہ اے انسان اس وقت کو یاد کر جب تو اس دنیا میں روتا ہوا آیا تھا لیکن لوگ تیری پیدائش پر خوشیاں منا رہے تھے ۔ اب تو اس دنیا میں اس طرح زندگی گزار اور ایسے اعمال کر کہ جب تو اس دنیا سے جائے تو ہنستا ہوا جائے لیکن لوگ تیری موت پر دھاڑیں ما ر مار کر رو رہے ہوں۔یقینا رقت آمیز مناظر نوجوان حاجی محمد وحید کی بے وقت موت پر ان کی تحہیز و تکفین اور نماز جنازہ کے موقع پر دیکھنے کو ملے ۔ ہر کوئی مرحوم کا آخری دیدار کرنے کو بے قرار ، ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوار نظرآیا۔
راولپنڈی ، تلہ گنگ ، ڈھرنال ، مرگلہ ، سگھر ، بلال آباد، دھندہ شاہ بلاول، بھکر ، سکا ، ڈھیر مونڈ ، بڈھیال اور دیگر مقیم وسیع برادری کے افراد کے ساتھ ساتھ شہر تلہ گنگن سے سیاسی سماجی ، مذہبی ، عوامی اور صحافتی حلقوں نے مرحوم وحید کے جنازے اور قل خوانی میں شرکت کرکے مرحوم کے لیے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور جملہ پسماندگان اور لواحقین کے لئے صبر جمیل کی دعائیں کیں۔
٭ اُدھر تلہ گنگ کی تمام صحافی برادری کی طرف سے مقامی پریس کلب میں محمد وحید کی المناک وفات کے حوالے سے تعزیتی ریفرنس ہوا جس سے اسسٹنٹ کمشنر تلہ گنگ حافظ عمران کھوکھر نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوکر مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی اور ان کی بطور صحافی بہترین خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
بعدازاں وہ مرحوم حاجی محمد وحید کے گھر بھی گئے اور تمام اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے خصوصی دعا کی۔
بس آخری میں یہی دعا ہے کہ اللہ کریم ہمارے نوجوان بچے حاجی محمد وحید کو کروٹ کروٹ جنت دے اور گھر کے تمام افراد کو یہ صدمہ صبر اور حوصلے سے برداشت کرنے کی توفیق بخشے (آمین ثم آمین)
آسماں تیری لحد پر شبنم افسانی کرے
سبزہٗ نور ستہ اس گھر نگہبانی کرے

شاہ سائیں۔ ۔۔نمرہ ملک

شاہ سائیں
نمرہ ملک

میں کس کے یاتھ په اپنا لہو تلاش کروں؟؟؟؟؟
تمام شہر نے ۔۔۔۔۔۔۔۔پہنے هوۓ ہیں دستانے!!!!!
اور وه بھی ایسے دستانے که جن سے ہاتھ کی ساخت کا اندازه لگانا ....امپاسیبل!
کتنی عجیب بات هے که ایمان شاه کو اپنا ستاره ماننے والی رستہ کھو بیٹھی تھی.اسے منزل کے تعین کے لیے پھر سے سفر کرنا تھا.دکھوں کے سنگ میل عبور کرنے تھے مگر کوئی ایسا آلہ کہاں سے لاتی که جس سے ریاضت ناکام نه ہوتی۔۔۔۔۔۔
کسی قطبی ستارے کو اپنا رہنما کیسے کرتی که ستارے تو اس نے کب کے ہاتھوں کے ساتھ آنکھوں سے بھی گرا دیے تھے.
کسی نے اس کے سارے خواب اکٹھے کر کے آگ لگا ڈالی تھی۔۔۔
بریرہ کی آنکھوں کو کسی نے بری طرح مسلا تھا اور پھر بنجر کردیا تھا۔۔۔۔
گیٹ سے اندر آتے مراره خلیل نے لان میں کرسی پہ بیٹھی ،گھاس میں سبز تتلی جیسی لڑکی کو دیکھا تو اک لمحے کے لیے اس کے ہاتھ سٹیرنگ په لرزے تھے!
وه ایسی پر نچی تتلی لگ رهی تھی جس کے سارے رنگ اڑنے لگے تھے مگر اس کی آب و تاب اس کی معصومیت کی گواہی دیتی تھی.
کس نے اس کے پنکھ توڑے تھے ؟؟
وہ کیوں چپ تھی ،کیوں سفید پوشوں کی سیاہیاں سامنے نہیں لا رہی تھی ؟؟؟
اسے پتہ تھا کہ قصور ہمیشہ عورت کا بنتا ہے!!!
یه معاشرے کے ناسور کسی پاکدامن لڑکی کو تحفظ تو دے نہیں سکتے مگر کسی کے دامن په کیچڑ اچھالنا ہو تو ہر شخص اپنی مرضی کا گند اچھال کے خود کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔۔۔۔
اور یہ بھول جاتا ہے که کسی عورت کو بدنامی کی دلدل میں جب بھی دھکا لگا اس کا زمے دار ہمیشہ کسی نه کسی سفید پوش، کلف زده، بڑے صاحب کا نفس ہی هوتا ہے!!،،،،۔۔۔۔
مراره نے ہلکے سے ٹیبل بجائ تو بریره خان کی آنکھیں اوپر اٹھیں
" یه شام کے اندھیروں میں کسے تلاشا جا رہا هے؟؟؟،،
اس نے آسمان کی وسعتوں کی طرف نگاه کی
" خضر کی....جو کسی قطبی ستارے کی نشاندہی کرتے بخل سے کام نه لیتا ہو" اس نے متانت سے جواب دیا
" بریره! اک بات کہوں؟؟"
سوالیه نظریں اٹھ کے جھک گئیں
"زندگی میں جب کسی عزازیل کی کوئ نظر پڑے یا کوئی  شیطان اپنی گندگی سے لبریز کوی کارستانی سامنے لے کے آ کھڑا هو تو اس پہ نگاه جمانے کے بجاۓ اپنی راه په سجے جگنووں کو دیکھنا چاہیے۔۔۔
ہاں! شیطان اپنی خصلت سے باز نہ أۓ تو اس په ایمان کی طاقت آزمانا عین شریعت ہے"
بریرہ خلیل اس لمحے آنکھ کا بھید کھل جانے پہ ساکت رہ گئی تھی۔۔۔

اتوار، 17 مئی، 2020

ندی نالوں کی مانیٹرنگ ۔ ملک نذر حسین عاصم

ندی نالوں کی مانیٹرنگ ۔
 ملک نذر حسین عاصم
0333 5253836
حکومت کیطرف سے نہر وغیرہ پر نہانے کی پابندی کے باوجود لوگ نہروں پر نہانے سے باز نہیں آتے۔بعض مقامات پر ان نالوں میں سیوریج کا پانی بھی ڈالا جا رہا ہے پھر بھی لوگ گرمی بڑھتے ہی ان نہروں اور نالوں کا رخ کرتے ہیں نوعمر بچے اور ناتجربہ کار ان ندی نالوں میں بعض اوقات زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں خوش ہو کر چھلانگیں لگانے والے جب پانی کے منجدھار یا گرداب کے جھمیلے میں آجاتے ہیں تو دائیں بائیں کھڑے ہوئے افراد بھی کچھ کرنہیں پاتے، اور دیکھتے ہی دیکھتے کوئ ساتھی پانی کی نچلی تہہ تک چلا جاتا ہے اسکے ساتھی واویلا کرتے ہیں لیکن کچھ ہو نہیں پاتا۔
نہر یا کسی بھی گہرے پانی میں نہانا خطرے سے خالی نہیں لیکن سخت گرمی پڑرہی ہو یا منچلے نوجوان مل بیٹھیں تو نہائے بغیر یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔کنارے پر کھڑے ہو کر چھلانگیں لگانے والے اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ نیچے نوکیلے پتھر بھی ہوسکتے ہیں پھر ایسی جگہوں پر کتے، گائے بھینسیں اور دیگر جانور بھی نہاتے ہیں اسلئے وہ پانی سراسر جراثیم کی آماجگاہ ہوتاہے جہاں سے بیماریاں بھی چمٹ سکتی ہیں اکثر وہ لوگ بھی نہروں پر چلے جاتے ہیں جوتیراکی کے فن سے بے خبر ہوتے ہیں
کچھ لوگ لائف جیکٹس کا استعمال کرتے ہیں بعض علاقوں میں دریا یا ندی نالہ پار کرکے کشتی کا استعمال کیا جاتا ہے کبھی کبھی وہ بھی خطرات سے خالی نہیں ہوتا۔نہروں اور جھیلوں پر پیش آنیوالے المناک حادثات سے بچاؤ کیلئے سخت حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے لائف جیکٹس کا استعمال لازمی قرار دیا جائے یا حکومتی اہلکار سخت گرمی کے موسم میں ان ندی نالوں کی مانیٹرنگ کریں تاکہ ایسے حادثات کی روک تھام کی جا سکے۔

اللہ_بندے_کوسزا_کیوں_دیتاہے______

#اللہ_بندے_کوسزا_کیوں_دیتاہے______£...؟
مجھے اس سوال کا ایسا جواب ملا کہ آج تک مطمئن ہوں..
ہمارے ویٹنری ڈپارٹمٹ کے پروفیسر ہوا کرتے تھے.. میرے اُن سے اچھے مراسم تھے..
یہ یو نیورسٹی میں میرا تیسرا سال تھا..
اک دفعہ میں انکے دفتر گیا..
مجھ سے کہنے لگے:
اک مزے کی بات سناؤں تمہیں؟ ؟
" جی سر ضرور "
" پچھلے ہفتے کی بات ہے
میں اپنے دفتر می‍ں بیٹھا تھا..
اچانک اک غیر معمولی نمبر سے مجھے کال آئی:
"پندرہ منٹ کے اندر اندر اپنی سراونڈگنز کی کلیئرنس دیں!"
ٹھیک پندرہ منٹ بعد پانچ بکتر بند گاڑیاں گھوم کے میرے آفس کے اطراف میں آکر رکیں..
سول وردی میں ملبوس تقریباً حساس اداروں کے لوگ دفتر می‍ں آئے
ایک آفیسر آگے بڑھا..
"'"امریکہ کی سفیر آئی ہیں..
انکے کتے کو پرابلم ہے اسکا علاج کریئے..""
تھوڑی دیر بعد اک فرنگی عورت
انکے ساتھ انکا ایک عالی نسل کا کتا بھی تھا..
کہنے لگیں..
میرے کتے کے ساتھ عجیب و غریب مسئلہ ہے
میرا کتا نافرمان ہوگیا ہے..
اسے میں پاس بلاتی ہوں یہ دور بھاگ جاتا ہے..
خدارا کچھ کریے یہ مجھے بہت عزیز ہے اسکی بے اعتنائ مجھ سے سہی نہیں جاتی..
میں نے کتے کو غور سے دیکھا..
پندرہ منٹ جائز لینے کے بعد میں نے کہا:
میم..!!
یہ کتا ایک رات کے لیے میرے پاس چھوڑ دیں میں اسکا جائزہ لے کے حل کرتا ہوں..
اس نے بے دلی سے حامی بھرلی..
سب چلے گئے..
میں نے کمدار کو آوز لگائی..
فیضو اسے بھینسوں والے بھانے میں باندھ کے آ..
سن اسے ہر آدھے گھنٹے بعد چمڑے کے لتر مار..
ہر آدھے گھنٹے بعد صرف پانی ڈالنا.. جب پانی پی لے تو پھر لتر مار.....!!!
کمدار جٹ آدمی تھا۔ ساری رات کتے کے ساتھ لتر ٹریٹ منٹ کرتا رہا..
صبح میں پورا عملہ لئے میرے آفس کے باہر
سفیر زلف پریشاں لئے آفس میں آدھمکی..
Sir what about my pup...?
I said Hope your pup has missed you too....
کمدار کتے کو لے آیا..
جونہی کتا کمرے کے دروازے میں آیا..
چھلانگ لگا کے سفیر کی گود میں آبیٹھا..
لگا دم ہلانے منہ چاٹنے.......!!!
کتا مُڑ مڑ تشکر آمیز نگاہوں سے مجھے تکتا رہا..
میں گردن ہلا ہلا کے مسکراتا رہا..
سفیر کہنے لگی: سر آپ نے اسکے ساتھ کیا کیا کہ اچانک اسکا یہ حال ہے..؟؟؟
میں نے کہا:
" ریشم و اطلس ، ایئر کنڈیشن روم، اعلی پائے کی خوراک کھا کھا کے یہ خودکو مالک سمجھ بیٹھا تھا اور اپنے مالک کی پہچان بھول گیا.. بس اسکا یہ خناس اُتارنے کے لیے اسکو ذرا سائیکولوجیکل پلس فیزیکل ٹریٹمنٹ کی اشد ضروت تھی.. وہ دیدی.. ناؤ ہی از اوكے...!

وارث شاہ ۔

وارث شاہ

میں چار جماعتاں کی پڑھیاں
میں فتوے لاواں ہر اک تے
کدی بے عملاں تے
کدی بے عقلاں تے
کدی شاعری تے، کدی گاؤن تے
کدی ہسن تے کدی روون تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے

میں آپ مسیتی جاواں ناں
جئے جاواں مَن ٹکاواں ناں
میں فتوے لاواں اوتھے وی
کدی وضو تے کدی نماز اتے
کدی اُچی نیویں آواز اتے
کدی مَنن یا نہ مَنن تے
ہتھ اُتے تھلے بنھن تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے

کدی کافر آکھاں مولویاں نوں
میں فتوے لاواں ساریاں تے ،،
کدی ٹوپی تے کدی داڑھی تے
گل چنگی یا گل ماڑی تے
کدی شہیداں تے کدی مریاں تے
کدی مناؤندے جمن ورھیاں تے
کدی جنگاں تے کدی جہاد اتے
میں فتوے لاواں ہر اک تے

کدی رسم آکھاں دین نوں
کدی دین آکھاں رسماں نوں
میں رَبّ، قرآن نوں من لیا
پر منیا چُکن قسماں نوں
کدی عیداں تے شبراتاں تے
کدی جاگن والیاں راتاں تے
کدی زیراں تے کدی زبران تے
کدی مزاراں تے کدی قبراں تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے

میں سُنی،وہابی،حنفی ہویا
 ہویا شافعی،مالکی، تےحنبلی
میں سب کجھ ہویا
پر  ہو یا نہ  مسلماں
 میں چار کتاباں جوِپڑھیاں
اپنے علم دیاں لاواں تڑیاں

ویلا میرے علم دا ٹھوٹھا جے
ہر فتوٰی میرا جھوٹھا جے
میں آپ تاں فرض نبھاواں نہ
دین دے نیڑے جاواں نہ
پر کافر آکھاں ہر اک نوں
میں فتوے لاواں ہر اک نوں

سسکتی زندگی۔ ملک نذر حسین عاصم۔

سسکتی زندگی۔
ملک نذر حسین عاصم۔
ہمارے مہربان رب نے اولاد آدم کو کائنات کے اسرار ورموز پر غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے اور بشریت کو پوری کائنات مسخر کئے جانے کی نوید سنائ ہے لیکن ہم جس معاشرے میں زندگی کے لیل ونہار گذار رہے ہیں یہاں ستاروں  پر کمندیں ڈالنے والے کچھ نونہالان قوم  کچرے کے ڈھیروں سے رزق تلاش کرکے پیٹ کا جہنم بھرتے ہیں زمانے کا اژدھا انکی سسکتی زندگی سے مستقبل کے خواب نگل لیتا ہے اپنے ملک کا سرمایہ،خزانہ،دولت، طاقت، مستقبل کے مالک اسوقت ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہیں کمسن بچے بیگار پر لگے ہیں خوبرو نوعمر نونہالان بھٹہ خشت کی زیبائش بنے ہوئے ہیں کچھ ہوٹلوں پر ٹیبل مین ہیں کچھ سروس اسٹیشنوں پر کاریں واش کرتے ہیں ہماری آکسیجن ہماری توانائ ہمارا نیا خون عجب گورکھ دھندوں میں لپٹی ہوئ مالا ہے دیہی آبادیوں میں یہ چمکتے خوبرو نونہال اپنی اپنی مزدوریوں میں ہمہ تن گوش ہیں محدود وسائل میں یہ بچے پرائمری کبھی مڈل اور کچھ میٹرک تک پہنچ کر معاشی کمزوریوں کے آگے ہاتھ جوڑ دیتے ہیں ہمارے پاس انکے لئے کوئ پلان نہیں ہے ہمارا تعلیمی سسٹم وڈیرہ شاہی کیلئے ہے غریب کی کیا مجال کہ صلاحیتوں سے مالا مال چاند چہرے اعلی تعلیم کا دشوار گذار سفر طے کر سکیں۔جو پڑھ لکھ جاتے ہیں انکے لئے بھی ہمارے پاس نوکریوں کی کوئ گنجائش نہیں ہے نوجوان ڈگریاں گلے میں ڈالکر سڑک پر ایڑیاں چٹخاتا پھر رہا ہے مگر وہی رسمی کاروائ، درخواست، انٹرویو اور ویٹ کرو کا کلیہ لاگو ہے سال ہا سال نوکریوں پر پابندی ہوتی ہے کبھی نوکریوں کا اشتہار آجائے تو میں اور آپ بانٹ لیتے ہیں غریب لائق محنتی پڑھا لکھا سفارش نہ ہونے کی وجہ سے پھر رہ جاتا ہے طوطی کی آواز نقارخانے میں کون سنتا ہے جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے مصداق قوانین بنائے جاتے ہیں یہاں سب کیلئے الگ الگ قانون لاگو ہے کلرک کا بیٹا کلرک ہی بنتا ہے بڑی نوکریاں تو بڑے لوگوں کیلئے ہیں اگر چھوٹی سطح پر ملازمتیں منصفانہ دی جائیں تو غربت کے زخم کچھ مندمل ہوسکتے ہیں سینکڑوں آسامیاں خالی ہیں جن پرہزارہا نوجوان  امید لگائے بیٹھے ہیں کبھی تو یہ در کھلے گا کبھی تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آئے گا مایوسی کفر ہے دنیا میں ابھی اچھے لوگوں کی اکثریت ہے تبھی تو نظام چل رہا ہے جس دن زیادہ گڑبڑ ہونے لگی اس دن کسی  "کرونا" کی امید رکھنا۔

ہفتہ، 16 مئی، 2020

دریاوں کے واسی ؛؛مہانڑے؛؛ (تحریر کائنات ملک) جس طرح کائنات کی تمام تہذیبوں کا جنم دریاوں کے کنارے سے ہوا اس طرح ایک قوم ایسی ہے جو ساری عمر دریاوں کے کناروں پر چھوٹے پانی میں کشتی کے گھروں میں رہے رہی ہے کئی دہائیوں سے آباد یہ لوگ ان کا تمام کاروبار زندگی سب ان پانیوں سے وابسطہ ہے یہ لوگ صدیوں سے نسل در نسل آباد ہیں ان کا روزگار کھانا پینا مرنا جینا خوشی غمی سب ان کشتیوں میں ہوتا ہے یہ اپنے اندر کرب دکھ محرومیاں لےکر پیدا ہوتے ہیں اور مختلف واقعات کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔اج ایسے طبقہ پر قلم آٹھارہی ہوں جو جنوبی پنجاب کے علاقوں مظفرگڑھ ۔ڈیڑھ غازی اور راجن پور کے دریا سندھ کےکنارے کشتیوں کے بنے گھروں میں آباد ہیں انھیں مقامی زبان میں مہانڑے کہاجاتا ہے یہ لوگ ساری عمر ان کشتیوں میں رہتے ہیں ان کشتیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کشتیوں میں ہی مرجاتے ہیں یہ لوگ سارا دن دریا میں کشتاں چلاتے ہیں جہاں کہیں انھیں لئی نظر اتی ہے یہ کلہاڑی کی مددسے کاٹ لیتے ہیں لئی کاٹتے ہوئے ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم تک زخمی ہوجاتا ہے یہ لئی کی لکڑی کو دو سے تین دن پانی میں بھگو کر رکھ دیتے ہیں تاکہ یہ نرم اور لچکدار ہوجاے پھر مرد اور عورتیں مل کر ان سے ٹوکریاں تیار کرتے ہیں ان کے مرد یہ ٹوکریاں شہروں میں بیچنے جاتے ہیں تاکہ دو وقت کی عزت کے ساتھ روٹی میسر ہو مگر ان لوگوں کا کہنا ہے ہم جتنی محنت کرتے ہیں اس کا ہمیں اتنا معاوضہ نہیں ملتا یہ کام بہت سخت اور محنت طلب ہوتا ہے مگر اس کے باوجود ہمیں ان محدود پیسوں میں گزارہ کرنا پڑتا ہے کبھی کبھی تو نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے بعض اوقات ہمارے پاس بیماری کی حالت میں علاج معالجہ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔فوتگی کی صورت میں ان کا اپنا کوئی قبرستان نہیں ہوتا چلتے پھرتے جہاں ان کو نزدیکی قبرستان مل جاے یہ مردہ ادھر دفن کر دیتے ہیں ۔ یہ سارا سال دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے جگہ بدلتے رہتے ہیں سفر کرتے ریتے ہیں اس کی وجہ سے ان کے بچے سکول نہیں جاسکتے اور ساری عمر تعلم جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں ۔ان کشتوں میں رہنا سرکنڈے۔لئی کاٹ کر ان سے ٹوکریاں تیار کرنا ان کے ہاں نسل در نسل یہی کام چلا ارہا ہے ۔مہانڑے مرد دریا سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور خواتین اس مچھلی سے لزیز سالن تیار کرتی ہیں جیسے سب مل کر شوق سے کھاتے ہیں ۔ ان لوگوں کا اپنا الگ سے رنگ اپنی ثقافت ہے ان لوگوں کی شادی بیاہ کی تقریب دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں کشتی کے گھروں کو بہت خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے اور سرسوں کے تیل سے دیے جلا کر چراغاں کیا جاتاہے شادی کی تقریب میں تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے ان کے عزیز دوست رشتے دار بہت خوشی سے شریک ہوتے ہیں سب مل کر علاقائی رقص کرتے جھومر ڈالتے علاقئی گیت گاتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں ان کی شادی کی تقریب تقریبا سات دن جوش خروش سے رہتی ہے جس میں یہ اپنی مخلتف اقسام کے رسم ورواج ادا کرتے ہیں محدود خواہشوں کے ساتھ شہروں کے شورغل گندگی سے پاک صاف اورپرسکون ماحول میں یہ یہ اپنی ساری عمر ارباب اختیار سئ کوئی شکوہ کیے گزاردیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں ۔۔۔

دریاوں کے واسی ؛؛مہانڑے؛؛ 


(تحریر کائنات ملک) 
جس طرح کائنات کی تمام تہذیبوں کا جنم دریاوں کے کنارے سے ہوا اس طرح ایک قوم ایسی ہے جو ساری عمر دریاوں کے کناروں پر چھوٹے پانی میں کشتی کے گھروں میں رہے رہی ہے کئی دہائیوں سے آباد یہ لوگ ان کا تمام کاروبار زندگی سب ان پانیوں سے وابسطہ ہے یہ لوگ صدیوں سے نسل در نسل آباد ہیں ان کا روزگار کھانا پینا مرنا جینا خوشی غمی سب ان کشتیوں میں ہوتا ہے یہ اپنے اندر کرب دکھ محرومیاں لےکر پیدا ہوتے ہیں اور مختلف واقعات کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔اج ایسے طبقہ پر قلم آٹھارہی ہوں جو جنوبی پنجاب کے علاقوں مظفرگڑھ ۔ڈیڑھ غازی اور راجن پور کے دریا سندھ کےکنارے کشتیوں کے بنے گھروں میں آباد ہیں انھیں مقامی زبان میں مہانڑے کہاجاتا ہے یہ لوگ ساری عمر ان کشتیوں میں رہتے ہیں ان کشتیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کشتیوں میں ہی مرجاتے ہیں یہ لوگ سارا دن دریا میں کشتاں چلاتے ہیں جہاں کہیں انھیں لئی نظر اتی ہے یہ کلہاڑی کی مددسے کاٹ لیتے ہیں لئی کاٹتے ہوئے ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم تک زخمی ہوجاتا ہے یہ لئی کی لکڑی کو دو سے تین دن پانی میں بھگو کر رکھ دیتے ہیں تاکہ یہ نرم اور لچکدار ہوجاے پھر مرد اور عورتیں مل کر ان سے ٹوکریاں تیار کرتے ہیں ان کے مرد یہ ٹوکریاں شہروں میں بیچنے جاتے ہیں تاکہ دو وقت کی عزت کے ساتھ روٹی میسر ہو مگر ان لوگوں کا کہنا ہے ہم جتنی محنت کرتے ہیں اس کا ہمیں اتنا معاوضہ نہیں ملتا یہ کام بہت سخت اور محنت طلب ہوتا ہے مگر اس کے باوجود ہمیں ان محدود پیسوں میں گزارہ کرنا پڑتا ہے کبھی کبھی تو نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے بعض اوقات ہمارے پاس بیماری کی حالت میں علاج معالجہ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔فوتگی کی صورت میں ان کا اپنا کوئی قبرستان نہیں ہوتا چلتے پھرتے جہاں ان کو نزدیکی قبرستان مل جاے یہ مردہ ادھر دفن کر دیتے ہیں ۔ یہ سارا سال دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے جگہ بدلتے رہتے ہیں سفر کرتے ریتے ہیں اس کی وجہ سے ان کے بچے سکول نہیں جاسکتے اور ساری عمر تعلم جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں ۔ان کشتوں میں رہنا سرکنڈے۔لئی کاٹ کر ان سے ٹوکریاں تیار کرنا ان کے ہاں نسل در نسل یہی کام چلا ارہا ہے ۔مہانڑے مرد دریا سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور خواتین اس مچھلی سے لزیز سالن تیار کرتی ہیں جیسے سب مل کر شوق سے کھاتے ہیں ۔ ان لوگوں کا اپنا الگ سے رنگ اپنی ثقافت ہے ان لوگوں کی شادی بیاہ کی تقریب دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں کشتی کے گھروں کو بہت خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے اور سرسوں کے تیل سے دیے جلا کر چراغاں کیا جاتاہے شادی کی تقریب میں تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے ان کے عزیز دوست رشتے دار بہت خوشی سے شریک ہوتے ہیں سب مل کر علاقائی رقص کرتے جھومر ڈالتے علاقئی گیت گاتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں ان کی شادی کی تقریب تقریبا سات دن جوش خروش سے رہتی ہے جس میں یہ اپنی مخلتف اقسام کے رسم ورواج ادا کرتے ہیں محدود خواہشوں کے ساتھ شہروں کے شورغل گندگی سے پاک صاف اورپرسکون ماحول میں یہ یہ اپنی ساری عمر ارباب اختیار سئ کوئی شکوہ کیے گزاردیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں ۔۔۔



علمائے حق تلہ گنگ کی محنتوں کا ثمر۔ ۔عمران سرورجبی

علمائے حق تلہ گنگ کی محنتوں کا ثمر
عمران سرور جبی ّ
تلہ گنگ وہ زرخیز دھرتی ہے جس نے ملک وقوم کے ساتھ ساتھ دین اسلام کے لیے بھی گوہر نایاب پیدا کیے ہیں۔یہ دھرتی صرف غازیوں اور شہیدوں کی ہی نہیں،بلکہ اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے تحفظ ناموس صحابہؓو اہل بیت عظامؓ کے لیے اپنا فرزند پیدا کیا جس کی للکار آج ایوانوں میں گونج رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اللہ جسے چاہے اپنے دین،اپنے نبیﷺ،ان کے صحابہؓو اہل بیت عظامؓ کے لیے چن لیتا ہے۔یہ بات قابل زکر ہے کہ تلہ گنگ سیاست کے میدان میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے،وڈیرے،جاگیرداراورموروثی سیاست کم از کم تین دہائی تک ہم پہ مسلط رہے۔پھر تلہ گنگ سیاست نے کروٹ لی اور اک ایسا نام سامنے آگیا جو نہ سیاسی پس منظر رکھتا تھا نہ ہی اس کے پاس آکسفورڈ کی ڈگری تھی۔عام سا مدرسے میں حفظ کر کے عام سے سکولوں میں پڑھنے والا،جس کی ڈگریوں کا سن کر بے وقوف لوگ ہنستے بھی تھے،یہ ہی علمائے دین کی محنتوں کا ثمر حافط عمار یاسر صوبائی وزیر معدنیات اور اپنے علاقے کے مظلوموں کی آواز بن کر اقتدار کے ایوانوں میں جا پہنچا۔طنز کیے جاتے کہ مدرسے کا طالب کیا نمائیندہ بنے گا!کہنے والے شاید پاکستان کی تاریخ میں مفتی محمود جیسے عالم اور مدرسے والے کو بھول گئے تھے اور یہ بھی کہ ان کی قومی اور خانگی تاریخ مدرسے کے بنا نامکمل ہے۔کہنے والے اک نقطہ اور بھی بھول رہے تھے کہ مدرسے کے اس طالب علم کی زندگی میں نکھار لانے میں فاضل علماء کا ہاتھ ہے اور اللہ اسے اپنے دین کی سربلندیوں کے لیے چن چکا ہے۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ فرزند تلہ گنگ،فرزند اسلام بن کر پنجاب اسمبلی کے فلور پہ تحفظ ناموس صحابہ کرام ؓ و اہل بیت ؓ کے لیے بولتا ہے تو کفریہ عقائد پہ لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔اس مرد مجاہد کی پہلی انٹری ہی ایوان میں قرار دار کے ساتھ ہوئی جو یقینا سانحہ دوالمیال کے قادیانی طبقے کے کرتوتوں کے نتیجے پہ ان کے منہ پہ زوردار تھپڑ کی صورت پڑی اور ابلیسی ٹولے نے جان لیا کہ اب ہمارے سامنے واقعی ”محمدی ﷺ“آگئے ہیں.اس سے پہلے بھی جب کبھی تلہ گنگ میں کوئی مسئلہ ہوا،کہیں انسانیت کو ضرورت پڑی،اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی حافظ عمار یاسر نے ہی اپنے علاقے کے لوگوں کی بانہہ پکڑی،وہ حادثات ہوں،وبائی صورتحال ہو یا پھر دینی مشکلات۔۔حال ہی میں کرونا وائرس کی صورت میں آزمائش آگئی تو اس مشکل وقت میں بھی طاغوتی قوتوں نے مذموم مقاصد کے لیے پہلا وار ہی تبلیغی جماعت پہ کیا۔راہ حق کے  معصوم،پیغمبروں کے جانشین مبلغ اور دین حق کے علمبردار وں کو بری طرح زلیل کرنے کے لیے ان کی تشکیل کردہ جگہ سے انہیں اک جگہ پہ پابند کردیا جاتا ہے،جیسے قید کردیا گیا ہو۔اس وقت تمام بڑے بڑے ڈگری ہولڈرز،کاپی پیسٹ سیاسی چپ رہے لیکن اس وقت مدرسے کا اصل وارث حافظ عمار یاسر اٹھتا ہے،اپنے دینی بزرگوں کی ڈھال بنتا اور انہیں باعزت طریقے سے بہ حفاظت گھر پہنچاتا ہے۔اسی دوران وفاقی وزیر فواد چوہدری علمائے حق کے خلاف توہین امیز گفتگو کرتاہے تو تلہ گنگ کی غیرت حافظ عمار یاسر کی صورت جوش میں آکر للکارتی ہے کہ خبردار علمائے حق کی تذلیل کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔یہ للکار عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔
مملکت خداداد پاکستان کے نام سے واضع ہے کہ یہ ملک،اسلام کا قلعہ ہے جہاں مسلمان آزادی سے اپنے رب کے آگے سر بسجود ہوتے ہیں۔ہم اسی ملک کو مضبوط اور عوامی فلاح کے لیے اپنے نمائیندے چنتے ہیں لیکن ہماری بنیاد ہمارا مذہب ہے اور اسلام کی سربلندی و تحفظ ہی ہمارااولین مقصد حیات ہونا چاہیے،ہمارے منتخب نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے لیے آگے بڑھیں۔الحمدللہ!تلہ گنگ سے نمائندگی کا حق حافظ عمار یاسر بخوبی نبھا رہے ہیں۔مجھے یہ لکھنے میں عار نہیں بلکہ فخر ہے کہ یہ سب محنت اساتذہ و علمائے تلہ گنگ کی ہے کہ ان کی تربیت کا ثمر آج ہم سب کے سامنے ہے۔مدرسے کی تعلیم کا اثر حافظ عمار یاسر کی زندگی میں ان کے عجز و انکسار سے جھلکتا ہے۔علمائے حق تلہ گنگ کو فخر ہونا چاہیے کہ آج جب باطل قوتیں پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے خلاف نبرد آزما ہیں،ان کا ہونہار شاگرد اپنے اساتذہ کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے دین اسلام کی سربلندی کے لیے کوشاں ہے،اپنے علماء کو تحفظ دے رہا ہے،انکی شان میں گستاخی کرنے والے حکومتی حصہ بنے سیاستدانوں کو للکار رہا ہے۔تلہ گنگ کے اساتذہ دین کے لیے باعث فخر ہے۔شاگرد ہمیشہ شاگرد ہوتا ہے،استاد جب اپنے کسی شاگرد کو پروان چڑھتا دیکھتا ہے تو  فخر سے اس کی چھاتی چوڑی ہو جاتی ہے۔ دنیا لاکھ کہے،اس میں شک نہیں کہ آج جو کچھ بھی حافظ عمار یاسر کی صورت میں ملک و قوم کو ثمر مل رہا ہے،یہ سب علماء،اساتذہ اور بالخصوص تلہ گنگ کے علماء کا ہی کرشمہ ہے۔یہاں ایک بات اور بھی کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ علماء کو حافظ عمار یاسر پہ اپنا دست شفقت رکھے رکھنا چاہیے،یہ ایک ہیرا ہے جس کی تراش خراش علماء نے کی ہے اور اس ہیرے کی روشنی کے پہلے حقدار بھی علمائے حق ہیں تا کہ ان کے اسلامی پوائنٹس قتدار تک پہنچتے رہیں۔دیکھا جائے تو یہ تبلیغ اقتدار تک جا پہنچی ہے۔تلہ گنگ دھرتی کا یہ فرزند علماء ے حق کی محنت کا شاخسانہ ہے۔قابل زکر بات یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں ہر قسم کی سیاسی شخصیات موجود ہیں،جن میں سرفہرست موروثی سیاست ہے لیکن آج تک کسی سیاسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ علماء کے لیے بولے،مسلکی بحث ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کرے،دنیا کی معصوم لیکن سب سے مضبوط تبلیغی جماعت کے لیے آواز بلند کرے۔شہیدوں اور غازیوں کے لیے کوئی للکارے،کسی سیاسی نے آج تک سوائے فاتحہ،جنازے،گلی محلے اور تھانے کی سیاست سے ہٹ کر کوئی بامقصد کام کیا ہے تو سامنے لایا جائے۔کسی سیاسی شخصیت نے کسی حادثاتی یا وبائی صورتحال میں اپنی نیند قربان نہیں کی۔فوٹو سیشن کے بعد تم کون ہم کون کی سیاسی جنگ کے پیرو کار لوگ بھلا عام آدمی کی زہنی و مسلکی جنگ کیا جا ن سکتے!اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ سارے اعزازات اک مدرسے کے طالب علم نے سمیٹ لیے۔اس وقت پورے حلقے کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے دل حافظ عمار یاسر کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔علماء کو چاہیے کہ اپنے اختلافات بھلا کر اس شخص کے ساتھ کھڑے ہوں جسے اللہ نے امت مسلمہ کی وکالت کے لیے چن لیا ہے،یہ شخص اپنی زات میں اک ایسا گوہر ہے جسے صرف علماء ہی سمجھ سکتے،پہچان سکتے اور ساتھ کھڑے ہوکر تراش خراش کر سکتے ہیں۔ یقین کیجیے یہ وقت اللہ نے علماء کی جیت بنا دینا ہے۔حافظ عمار یاسر کچھ بھی نہیں لیکن اس کا امت مسلمہ کی خاطر،اسلاف امت کی خاطر ناموس رسالتﷺ کی خاطر اٹھی للکار اسے ہم تمام مسلمانوں کا ہیرو بناتی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اے مالک کل کائنات! فرزند تلہ گنگ کی عمر،صحت میں برکت دے،ان کی حفاظت فرمائیں،یااللہ!اک عرصے بعد ہمیں اک عالم لیڈر ملا ہے،اس کے سنگ ہمیں بھی آقائے دو جہاں ﷺ کے خدمتگاروں میں شامل کردے۔ہمارے قلم،ہمارے ہاتھ ہر اس شخص کے لیے ہوں جو ناموس رسالت ﷺو ناموس اصحاب رسول ؓ کی خاطر اٹھے۔یا اللہ!ہمارے علاقے میں آئے اس مدرسے والے اور تمام علماء کی حفاظت فرما۔آمین۔علماء حضرات سے دلی درخواست ہے کہ وہ بھی حافظ عمار یاسر کے اس مشن میں ان کے ساتھ کندھا ملا کے کھڑے ہوں،شاید یہ ہی ہمارے لیے نجات کا زریعہ بن جائے۔سچی بات ہے کندھا وہی ملائے گا جو ناموس رسالت ﷺ کا پروانہ ہو گا ورنہ جنہیں ناموس کی پرواہ نہیں،انہیں جنت و دوزخ سے کیا لینا دینا!

Show quoted text

اسلام آباد ۔ پرنسپل انفارمیشن آفیسر(پی آئی او)پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ محترمہ شاہیرہ شاہد نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان میڈیا فرینڈلی ہیں تنخواہوں کے مسائل اور علاقائی اخبارات کے 25 فیصد کوٹے سمیت تمام مسائل حل کر لیئے جائیں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے آر آئی یو جے،ایپنک اور ایم ڈبلیو او کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا وفد میں صدر آر آئی یو جے شکیل احمد،سیکرٹری آر آئی یو جے اور لوکل چیئرمین ایپنک صدیق انظر،جنرل سیکرٹری ایم ڈبلیو او راجا جاوید خان،نعیم سندھو،یاسر نظر اور چوہدری لیاقت شامل تھے a

 اسلام آباد

پرنسپل انفارمیشن آفیسر(پی آئی او)پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ محترمہ شاہیرہ شاہد نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان میڈیا فرینڈلی ہیں تنخواہوں کے مسائل اور علاقائی اخبارات کے 25 فیصد کوٹے سمیت تمام مسائل حل کر لیئے جائیں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے آر آئی یو جے،ایپنک اور ایم ڈبلیو او کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا وفد میں صدر آر آئی یو جے شکیل احمد،سیکرٹری آر آئی یو جے اور لوکل چیئرمین ایپنک صدیق انظر،جنرل سیکرٹری ایم ڈبلیو او راجا جاوید خان،نعیم سندھو،یاسر نظر اور چوہدری لیاقت شامل تھے وفد نے پی آئی او کو میڈیا کے مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا اور انھیں بتایا کہ ایک طرف قومی اخبارات و ٹیلی ویژن چیلنز مالکان نے میڈیا کارکنوں کی کئی ماہ سے تنخواہیں روکی ہوئی ہیں جبکہ دوسری طرف ریجنل اخبارات کے 25 فیصد اشتہارات پر قدغن لگا کر ملک بھر سے 1 لاکھ سے زائد میڈیا کارکنان کو بے روزگار کر دیا گیا ہے جسکی وجہ ان کارکنان کے خاندانوں کے 10 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں وزیر اعظم عمران خان کو غلط بریفنگ دینے والے افراد کی نشاندہی کیجانی چاہیئے تحریک انصاف کو مقامی سطح پر مظبوط کرنے کیلئے علاقائی اخبارات کو مضبوط کرنا ضروری ہے اور علاقائی اخبارات کے 25 فیصد اشتہارات کے کوٹے کو بڑھا کر 50 فیصد کیا جانا چاہیے جبکہ اگر کوئی ڈمی اخبار ہے تو اس کی نشاندہی بھی ضروری ہے  وفد نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ اگر عید سے قبل علاقائی اخبارات کے کوٹے سمیت تصفیہ طلب مسائل حل نہ کیئے گئے تو پی ایف یو جے اور ایپنک دیگر تنظیموں کے ساتھ ملکر عید کے فوری بعد ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گے
 پی آئی او شاہیرہ شاہد نے وفد کو یقین دلایا کہ وزیر اعظم عمران خان علاقائی اخبارات کے کوٹے سمیت صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس سلسلے میں مسلسل بریفنگز بھی لے رہے ہیں اور ہم پرعزم ہیں کہ عید سے قبل صحافیوں اور صحافتی اداروں کے اکثر مسائل حل کر لیئے جائیں گے