یہ 15 مارچ 1989 کا دن تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15 مارچ 1989 کو شاکر شجاع آبادی نے اپنا پہلا مشاعرہ پڑھا تھا۔
دنیا ایک نئے عہد سے روشناس ہوئی تھی۔
شاکرؔ شجاع آبادی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے ۔ اُن کی شاعری نے ایک عہد کو متاثر کیا ہے۔ اُن کے متاثرین کی تعداد اب ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ چکی ہے ۔ شاکرؔ شجاع آبادی اس نوجوان نسل کا پسندیدہ اور مقبول شاعر ہے ۔ وہ جب شعر پڑھ رہا ہوتا ہے تو ہزاروں کے مجمعے پر خامشی اور ہو کا عالم طاری ہوتا ہے ۔ سامعین اُن کے کلام کو گوش جاں سے سنتے ہیں اور چشم قلب سے پڑھتے ہیں "
شاکرؔ شجاع آبادی نے 1986ء میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا ۔ وہ 1989ء تک ایک گمنام شاعر رہے ۔ 15 مارچ 1989ء کو انہوں نے پہلی مرتبہ سرائیکی ادبی مجلس بہاولپور کے مشاعرے میں شرکت کی۔
پہلی مرتبہ مشاعرے میں حسین بخش حسنیؔ نے سٹیج پر شور مچا دیا تھا کہ ایک شاعر ابھی رہتے ہیں ان کو بھی سنا جائے اُس وقت شاکرؔ شجاع آبادی کو اپنا کلام سنانے کے لیے دو منٹ کے لیے اجازت ملی ۔
اس بارے میں شاکرؔ شجاع آبادی کہتے ہیں :" مجھے دو منٹ اپنے اشعار سنانے کے کی اجازت ملی تھی لیکن میں نے 35 منٹ اپنے اشعار سنائے "
اس مشاعرے کی صدارت جاں بازؔ جتوئی کر رہے تھے ۔ انھوں نے شاکرؔ شجاع آبادی کے بعد اپنا کلام نہیں سنایا اور سٹیج پر سے کچھ یوں کہہ کر لوٹ آئے ۔" میں چالیس سال سے سننے کی کوشش کر رہا تھا لیکن سننے کا موقع نہیں ملا مگر آج سنا ہے۔"
شاکرؔ شجاع آبادی بتاتے ہیں کہ انھوں نے عروض باقاعدہ نہیں سیکھا بلکہ لوگوں سے سن کے سیکھا ہے ۔ ان کی پسندیدی بحر بحر رمل مثن محزوف ہے " فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن"
شاکرؔ شجاع آبادی کہتے ہیں کہ انھوں نے کسی دوسرے شاعر سے متاثر ہو کر شاعری نہیں کی اور نہ ہی وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو کسی بڑے شاعر سے منسوب کیا جائے ۔ " میں شاکرؔ شجاع آبادی ہوں اور شاکرؔ شجاع آبادی ہی رہنا چاہتا ہوں ۔ میں نہیں چاہتا کہ مجھ پر کسی دوسرے شاعر کی چھاپ لگے"
شاکرؔ شجاع آبادی خود کو بطور شاعر کئی بار منوا چکے ہیں ۔ پاکستان کا پہلا عالمی مشاعرہ بہاولپور میں منعقد ہوا ۔ اس پہلے عالمی مشاعرے میں شاکرؔ شجاع آبادی نے بھی شرکت کی اور اُن کے کلام کے بارے میں ضمیر جعفری نے خبریں اخبار میں کچھ یوں لکھا:" پاکستان کا پہلا عالمی مشاعرہ سرائیکی کی پچ پر کھیلا گیا شاکرؔ شجاع آبادی نے آل آؤٹ کر دیا ۔"
ڈی ۔ سی ۔ اے بہاولپور چولستان ویلفئیر سوسائٹی نے شاکرؔ شجاع آبادی کو " پویٹ آف سنچری" 1900ء تا 2000ء کا ایوارڈ دیا ۔ 2000ء میں شاکرؔ شجاع آبادی کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انہیں " پرائز آف پرفارمنس ( صدارتی ایوارڈ) سے نوازا۔
شاکرؔ شجاع آبادی جنوبی پنجاب میں خواجہ غلام فرید کے بعد دوسرے ایسے شاعر ہیں جن کے اشعار بلا تفریق امیر غریب ، عوام اور سیاست دانوں کو بھی یاد ہیں ۔
جیو نیوز کے صحافی سہیل وڑائچ نے شاکرؔ شجاع آبادی کا انٹرویو " ایک دن جیو کے ساتھ" میں کیا ۔ اس انٹرویو کو جیو نیوز کی طرف سے 196 ممالک میں نشر کیا گیا ۔ اس انٹرویو میں واضح نظر آتا ہے کہ شاکرؔ شجاع آبادی صرف عوام کے دلوں میں ہی نہیں بلکہ حکمران طبقے کے دلوں میں بھی جگہ رکھتے ہیں ۔
ساجدہ لنگاہ ّ سربراہ نیشنل سرائیکی پارٹی) کہتی ہیں ۔ ان کی وجہ سے مجھ میں ایک چینج آیا ہے کہ میں اس تحریک کا حصہ بنی ہوں اور وہ صرف انھیں کے شعروں کی وجہ سے"
ساجدہ لنگاہ نے اپنی گفتگو کا اختتام ان اشعار سے کیا :
جے تنگ ہویں ساڈی ذات کنوں ڈے صاف ڈسا تیڈی جان چُھٹے
تیکو پیار کیتم تیڈا مجرم ہاں ڈے سخت سزا تیڈی جان چُھٹے
تب توں منگی ضائع نہیں تھیندی منگ ڈیکھ دعا تیڈی جان چُھٹے
ایویں مار نہ شاکرؔ قسطاں وچ یک مشت مۃکا تیڈی جان چُھٹے
رکن قومی اسمبلی ملک عامر ڈوگر شاکرؔ شجاع آبادی کے بارے میں کہتے ہیں کہ شاکرؔ شجاع آبادی علاقے کے عظیم شاعر ہیں اُن کے شعر سب کو یاد ہوتے ہیں ۔
" شاکرؔ شجاع آبادی ہمارے اس خطے کا ہمارے وسیب کا ایک عظیم شاعر ہے ۔ اُس کے شعر کو رکشے والا بھی پڑھتا ہے ، اُس کے شعر کو سیاسی کارکن بھی پڑھتا ہے ۔
تو محنت کر تے محنت دا صلا جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا ہوا جانے خدا جانے "
مخدوم جاوید ہاشمی ملکی سیاست اور جنوبی پنجاب کا ایک بڑا نام ہیں ، وہ شاکرؔ شجاع آبادی کے بارے کہتے ہیں :
"انھوں نے اپنی تکلیفوں کی بات نہیں کی ہمیشہ انسان کی محرومیوں اور مشکلات کی بات کی ہے اور اس خطے کے حساب سے وہ بہت خوبصرت شاعر بھی ہیں ، حسین طرز تکلم بھی ہے ۔ انھوں نے یہاں کے لوگوں کی صحیح ترجمانی کی ہے ۔"
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ شاکرؔ شجاع آبادی کے اس خطے پر بہت احسانات ہیں ۔ وہ شاکرؔ شجاع آبادی کے بارے میں کہتے ہیں :" جو بھی ان کے ساتھ نا انصافیاں ہوئی ہیں اُن کو شعر و شاعری میں سمو دیا ہے اور معاشرے کی جو گھٹن ہے اُس کا احساس دلوایا ہے اور میں سمجھتا ہوں اس خطے کے لیے جو ان کے احسانات ہے ان کو فراموش نہیں کر سکتے"
سہیل وڑائچ نے شاکرؔ شجاع آبادی کا انٹرویو کیا اور پورا دن ان کے ساتھ گزارنے کے بعد انھوں نے شاکرؔ شجاع آبادی کے بارے میں کچھ یوں کہا :" ہمیں کب فرصت ملے گی کہ ہم بڑے شہروں سے نکل کر دور رہنے والے ، دیہات میں رہنے والے اُن نگینوں کی تلاش کریں جو فاصلوں کی دوری اور وسائل میں کمی کی وجہ سے وہ رنگ نہیں دکھا سکے جو اُن کا حق ہے ۔ آخر ہم بڑے لوگوں کے مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں ؟"
*شاکر شجاع آبادی کے بارے میں کچھ
#حیرت_انگیز_معلومات:
شاکر شجاع آبادی کی تعلیم پرائمری ہے ان کا کلام اس وقت پانچ یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور۔۔بہاءالدین یونیورسٹی ملتان ۔۔ ایگری کلچرل یونیورسٹی فیصل آباد ۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد۔ شاکر شجاع آبادی صاحب کہتے ہیں کہ میں سائنسدان بننا چاھتا تھا مگر غربت آڑے آ گئ مگر اب کچھ نہ کچھ خواب پورا ہوا کیوں کہ لوگ میرے کلام کے اوپر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
شاکر شجاع آبادی کی #اردو_شاعری
سرائیکی کلام تو آپ نے بہت سنا پڑھا ہو گا ان کا ان کا تھوڑا سا اردو کلام ملاحظہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستم کو اپنے قدرت سا کبھی انداز مت دینا
وہ بے آواز لاٹھی ہے اسے آواز مت دینا
ستم جب لوٹتے ہیں تو ستم گر پر جھپٹتے ہیں
ستم جیسے عقابوں کو کھلی پرواز مت دینا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھونکا ہوا کا تھا آیا گزر گیا
کشتی میری ڈبو کےدریا اتر گیا
میرے پیار پہ جو صدقہ میرے یار نے دیا
دیکھا جو غور سے تو میرا ہی سر گیا
بٹتی ہیں اب نیازیں اس کے مزار پر
کچھ روز پہلے جو شخص فاقوں سے مر گیا
مجھے قتل کر کے شاکر وہ رویا بے پناہ
کتنی ہی سادگی سے قاتل مکر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان کا ایک سرائیکی قطع
ساری زندگی نفرت کیتی ہم ہنڑ الفت نال نبھا ڈیکھاں
میں ہر ھک سجنڑ کُوں ڈیکھ گِدا اے ہنڑ دشمنڑ کُوں بنڑا ڈیکھاں
جے کُوں یار بنڑایا او چھوڑ گیا اے نسخہ ول آزما ڈیکھاں
متاں دکھ وی شاکر چھوڑ ونجے دکھ نال ہنڑ یاری لا ڈیکھاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ . .
*سمیع اللہ عارفی*