Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

اتوار، 28 جون، 2020

آڑی بہن کھیس گھندو کھیس ((تحریر۔ کائنات ملک)


آڑی بہن کھیس گھندو کھیس
((تحریر۔ کائنات ملک)) ۔۔۔
آڑی کھیس گھندو کھیس کی صدا لگانے اور نگر نگر محلے محلے گلی گلی گھر گھر پہنچنے والی یہ مزدور عورتیں نسل در نسل اس شعبہ سے منسلک ہیں اور یہ خاندانی پیشہ کی مسافتیں طے کرتیں ۔سرخ گلابی رنگت والی لمبی اونچی قد کی یہ خواتین محنت مزدوری اور گھر کی زمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر زمہ داریوں وقت کی بھٹی میں جل کر اپنا اصل رنگ روپ کھو بیٹھتی ہیں۔
ہو، مگر معاشرہ انہیں فقیروں کے نام سے جانتے ہیں ۔ان فقیروں کے قبیلے کی ہر عورت اپنے کنبے کی سربراہ ہوتی ہے۔جس کے زمہ گھر کی تمام تر زمہ داریاں ،ہوتی ہیں گھر کے لیے زمین لینا پھر اس پر گھر بنوانا ۔بچوں کی شادیاں کرنا پھر ان کے بچوں کو بھی پالنا شامل ہوتا ہے۔ یہ عورتیں ملتان کے مختلف بازاروں سے دوکانداروں سے جاکر چادریں ،کھیسں اور بیڈ شیٹ لے کر اتی ہیں ۔اور ہر ایٹم کو بیچنے کے پیچھے انہیں ایک سو،روپے کمیشن دیا جاتا ہے ۔یہ عورتیں سال کے بارہ مہینےہر موسم میں سردی گرمی دھوپ چھاوں خزاں بہار برسات میں سارا دن بھوکی پیاسی کرایہ کے موٹر سائیکل پر دو سو،روپے پٹرول اور چار سوروپے مزدوری کے ساتھ مختلف علاقوں کا روزانہ الصبح رخ کرتی ہیں۔اور مفرب تک ان علاقوں شہر ہویا دیہاتوں میں جاکر بیڈ شیٹ۔چادریں ۔اور کھیس بیچتی ہیں۔اور فی کس کھیس ۔چادر یا بیڈ شیٹ پر انہیں ایک سو کی بچت ہوتی ہے ۔روزانہ وہ ایک ہزار سے بارہ سوروپے تک کماتی ہیں۔جس سے چھہ سوروپے وہ موٹرسائیکل کی مزدوری دیتی ہیں بقیہ رقم سے گھر کے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ کبھی کبھی تو پورا دن کچھ بھی نہیں بکتا موٹرسائیکل کا پٹرول اور کرایہ انہیں خود اپنی جیب سے دینا پڑتا ہے۔اس دن گھر کا چولہا بھی نہیں جلتا۔اس سلسلے میں ایک خاتون مقصودہ بی بی نے بتایا کہ ہم لوگ نسل در نسل یہ کام کرتی ارہی ہیں۔ہمارے مرد حضرات کوئی کام کاج نہیں کرتے ۔ہمیں ان کو پالنا پڑتا ہے اور ان کے بچوں کو بھی۔ہمارے قبیلے میں اکثر خواتین بیواہ خواتین ہیں یا ایسی خواتین ہیں جن کے شوہر طلاق دے گے اپنی بیویوں کو یا پھر دوسری شادی کرکے الگ ہوگے ہیں۔مقصود بی بی کا کہنا تھا کہ جب ہم لوگ مختلف علاقوں میں جاتی ہیں تو ہمیں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔علاقے کے لوگ ہم پر کتے چھوڑ دیتے ہیں ۔کئی بار کتوں نے کاٹا ہے۔ارد گرد کے لوگ تماشہ دیکھتے اور ہنستے رہتے ہیں۔اس طرح جس گلی محلے یا گھر میں جائیں وہاں کے مرد حضرات ہم پر جملے کستے ہیں۔ہمیں دعوت گنہاہ دیتے ہیں ۔کوئی شادی تک کی افر کردیتا ہے۔کبھی تو خاموشی سے سن کر برداشت کرلیتے ہیں تو کبھی کھری کھری بھی سنا دیتے ہیں۔لوگوں کے دل دماغ میں ہمارے بارے میں بہت غلط قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔کہ یہ مال بیچنے کی اڑ میں گھروں میں موجود گاہک خواتین کو نشہ اوار ادویات کھلا کر چوریاں کرتی ہیں۔گلی سے چھوٹے بچے اغواہ کرلیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ ہمیں اپنے گھروں میں گھسنے نہیں دیتا ہمیں دیکھ کر اپنے دروازے بند کرلیتے ہیں ۔اور بدلے میں الٹا ہمیں گالیاں بھی نکالتے ہیں۔یہ سراسر بے بنیاد ہم پر الزام ہیں۔ہم محنت کش مزدور خواتین ہیں ۔ہم حق حلال کی کماتے ہیں اور وہی خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ہماری اکثر خواتین مختلف حادثوں میں ٹانگوں ۔بازو۔سے معزور ہوچکی ہیں ۔دیسی اقسام کے اور جڑیوں بوٹیوں کے ٹوٹکوں سے اپنا علاج معالجہ کرتے ہیں۔ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم اپنا اچھا علاج کراسکیں۔سرکاری ہسپتالوں میں تو صرف بخار کی گولی مل جاتی ہے ۔وہ بھی غنیمت ہے۔ہم ان تمام مسائل کو برداشت کرتی ہیں۔ہماری مجبوری ہے۔پیٹ کا ایدھن جو بھرنا ہے۔ہماری خواتین معزوری میں بھی کھیس ۔چادریں بیڈ شیٹ بیچنے روزانہ کی بنیاد پر جاتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ایک اور نوجوان خاتون نے بتایا ہمارے بچے کبھی سکول نہیں جاتے ہمارے پاس سکول کی فیس۔کتابیں اور یونیفارم خریدنے کے لیے اتنی رقم نہیں ہوتی اس لیے اج تک ہمارے قبیلے میں کوئی اج تک سکول نہیں گیا اور ویسے بھی ہم خود صبح گھر سے نکلتی ہیں شام گئے گھر لوٹتی ہیں ۔ جب ہم اپنا مال بیچنے مختلف علاقوں میں جاتی ہیں۔تو مرد حضرات ہم سے فری ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔دوستیاں لگانے کی افر کرتے ہیں ۔جب ہم ان کی ان بتمیزیوں کا جواب سخت لہجہ سے دیتے ہوے انہیں ان کی ماں بہین بیٹی کا احساس دلاتے ہیں ۔تو وہ بدلے میں غصے سے بل کھانا شروع کرکے ہمیں گندی گندی گالیاں نکال کر کہتے ہیں۔اپنی گندی زبان سے ہماری گھر بیٹھی بہن بیٹیوں کا نام نہ لو وہ تمہاری طرح اوارہ اور بدکردار نہیں ہیں۔اس وقت ایسی باتیں سن کر ہمارا دل خون کے انسو روتا ہے۔ہم بھی انسان ہیں۔ کسی کی عزت ہیں کسی کی ماں بہین ہیں ۔ہم نہ بد کردار ہیں نہ ہی آوارہ عورتیں ہیں ۔بس ہم غریب ہیں اور
غربت ہمارا جرم۔ہے ہم معاشرے کے ایسے رویعے اور ان کی کڑوی کسیلی باتیں برداشت کرتی ہیں۔ہمیں یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے اچھے برے لوگ تو ہر جگہ موجود ہیں۔ہمارے مرد نکمے سارا دن گھروں میں سوے رہتے ہیں یا پھر نشہ کرتے اور جوا کھیلتے ہیں۔ہمیں زندگی نے بہت دکھ دیے ہیں۔مگر شکر ہے پھر بھی اس خدا کا ایک سوال کا جواب دیتے ہوے نے کہا ہمیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام۔احساس پروگرام۔یا صحت کارڈ میں بھی شامل نہیں کیا گیا ۔

کوئی تبصرے نہیں: