Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

ہفتہ، 6 جون، 2020

"شکوہ شکایت " تمنا ظفر سموں کراچی

"شکوہ شکایت "

از قلم تمنا ظفر سموں کراچی

اگر کوئی غلطی پر ہو تو اس کو " وتواصو بالحق" ضرور کرنا چاہیئے-  دل میں ہی رکھے ہوے بد گمانی پالتے رہنا ہرگز  درست نہیں ہوتا ۔ چھوٹی سی بھی” ناپسندیدہ بات“ اگر ذہن میں آجاۓ تو دوسروں سے شکوہ شکایت نہیں کرنا چاہئے -
’’ شکوہ چاہے اللہ سے ہو یا بندوں سے شکوہ انسان کی قدر و قیمت کم کر دیتا ہے اور یہی عمل اسے انسانیت کے معیار کہیں نیچے لے آتا ہے-،،
اول تو کسی رنجش کو دل میں جگہ نہ دیں۔۔۔ لیکن اگر دوسروں سے متعلق  کبھی کوٸی شکوہ  آپ کو زبان تلک لانا ہی پڑے، تو اس کیلیے ایک موثر انداز سیکھئے،  کہ کس طرح دوسروں کی دل آزاری کیے بغیر ان کی تصحیح کی  جا سکتی ہے -  مثلا" ایک شخص کے دل میں آپ کی بہت قدر و اہمیت ہے - مگر آپ جب اُس کی ذات بارے شکایات شروع کریں گے، تو ایک دم گراف نیچے آکر گرتا ہے -
کیونکہ ’’ شکر اور شکوہ میں فرق ہے۔ بلکہ دونوں ایک دوسرے کا متضاد ہیں۔ “ شکر ادا کرنے والے کو مزید عطا کیے جانے کا وعدہ ہے جبکہ شکوہ شکایات کرنے والے رزق اور خیر برکت اٹھا لی جاتی ہے ۔

عورتیں جہنم میں کیوں زیادہ ہوں گی ؟
ناشکری کی وجہ سے، بہت زیادہ شکوہ و شکایت کی وجہ سے- مردوں کے نسبت عورتوں میں یہ شکوہ شکایت کی بیماری نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے - تو ہمیں چاہیئے خود پر قابو رکھیں ، دوسروں کی اغلاط اور ناپسندیدہ اعمال پر صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا سیکھیں ۔۔۔ ایسے زبان کو شکوہ آلود نہیں کرنا چاہیے اور اگر ضرورت پیش آ بھی رہی ہوتو اس کا بہتر سے بہتر انداز کیا ہوسکتا ہے ؟ ........’’ بھول جانا، درگزر یا معاف کر دینا ۔۔۔ اور خدا کے نزدیک سب سے بہترین عمل بھی یہی ہے یعنی مخلوقِ خدا کے ساتھ درگزر کا معاملہ رکھنا ۔
اور
یہ ہم سب کیسے سیکھیں گے۔۔۔۔کیا کریں گے؟ ہمیں سیکھنا ہے  اُن لوگوں سے جو  ’’اھدنصراطالمستقیم ہیں، انعمت علیھم “ ہیں - ان کے ہاں کیا طریقہ تھا  شکوہ شکایت کا؟......................شکایت کرنا ہو تو اس کے انداز بیان  کیا ہونا چاہئے ؟ یہ آپ کے معاملات اور  زبان سے تعلق رکھتا ہے - ......ہمارے آس پاس بہت سی مائیں کیا کرتی ہیں بچوں کو ذہنی انتشار میں مبتلا کرنے کے ساتھ ایک ہی دھمکی دیتی پاٸی جاتی ہیں ”تمہارا باپ آئے گا شکایت کرتی ہوں تمہاری ،“ اور پھر باپ کے سامنے ہی بچے کو ذلیل کرنا شروع کر دیا جاتا ہے  !!!.......
غور کریں کہ بچے کی نظر میں ماں کا کیا مقام رہ جاتا ہے ؟
ذرا سوچئیے اس عمل کا انجام کس قدر یہ خطر ناک ہو سکتا  ہے۔ بچے کے دل و دماغ پر اس سب کا کیا اثر پڑ سکتا ہے ۔۔۔؟!!
اکثر والدین اپنی معاملات میں ایسی شکایات اور عادات کی آبیاری کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا    کہ وہ کتنی سگین  قسم کی غلطی کر رہے ہیں  یعنی آپ کو اگر بچے کے باپ سے شکوہ کرنا ہے یا کوئی بھی ایسا سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ زیرِ بحث لانا ہی ہے، تو بچے کے سامنے مت کریں !!!
ورنہ  بچے کے دل پر اس سب کا کیا اثر پڑ سکتا ہے ہم سوچ ہی نہیں سکتے ۔۔۔بچہ اپنی طفلانہ سوچ کے مطابق خیال کرتا ہے کہ مجھے تو نہ ماں چاہتی ہے نہ ہی باپ۔۔۔ اور برا تو میں ہوں ہی لہذا میں کچھ اور ہی برائی کیوں نہ کرلوں ؟ ..........یعنی ایک غلطی ، ایک گناہ مزید سہی ۔۔۔کیا فرق پڑتا ہے بھلا ۔۔۔۔؟
بچے کو سمجھانے کا تعلق ”حکمت “ سے ہوتا ہے ۔  بندے کو حکمت سے ، سمجھداری سے بچوں کے معاملے حل کرنے چاہیں۔
 بعض   لوگ بقیہ تمام دنیاوی معاملات میں بہت عقلمند اور زیرک  ہوتے ہیں لیکن اپنی اولاد اور رشتہ داروں یا دوستوں   کے متعلق اکثر و بیشتر شکوہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں ۔

ہمارا اکثر مئسلہ یہ ہی ہوتا ہے معاملات میں ، گھر میں کاروبار میں کیونکہ حکمت اور درگزر سے کام نہیں لیتے اس لیے صرف شکوہ شکایت کرتے پاۓ جاتے ہیں۔  حکمت اللہ دیتا ہے اور حکمت یہ ہے کہ ہمیں بندوں سے اپنے معاملات کس طرح رکھنے ہیں ان تمام احکام پر عمل کیسے کرنا چاہئیے جو خداوند تعالیٰ نے مخلوقات بارے فرماۓ ہیں ۔۔۔
ایسے تمام علوم بے کار و بے مایا ہیں جو آپ کو کچھ بھی نہیں سکھاپاتے پھر چاہے آپ کے کتنی ہی بڑی ڈگریاں کیوں نہ ہوں سب بیکار اور کاغذی کھیل ہیں  ۔۔۔۔- اس لئیے بہت ضروری ہے کہ ہمیں اپنا تجربہ اور مشاہدہ بڑھانا ہوگا کہ خدا کے پسندیدہ لوگ  مختلف معاملات کو کیسے حل کرتے ہیں۔ کس طرح سب سے پیش آتے ہیں ۔۔۔۔بہت لازم ہے   ..............دنیا میں  کامیاب صرف وہی نہیں جو مال و دولت کے انبار رکھتا ہو بلکہ وہ بھی ہے جو مفلس ہے مگر اپنے معاملات میں صالح ہے۔

مثال کے طور پر ایک سنجیدہ بیماری میں مبتلا مریض ہے مگر اس کے پاس آنے والے تمام لوگ اس مریض کو صبر و رضا پر پاتے ہیں اس کی زبان سے شُکر کے کلمات سنتے ہیں ۔ جبکہ کوٸی دوسرا مریض ایسا بھی ہوتا ہے جو ایک چھوٹے سے عارضے کو لے خدا سے شکوے شکایات میں مبتلا پایا جاتا ہے  ۔  
 اللہ تبارک و تعالی' نے بھی کچھ ایسے ہی فرمایا ہے -’’ میں اپنے مومن بندے کو آزماتا ہوں جو بیماری کی حالت میں میری شکایت نہیں کرتا،  پھر میں اس کو پہلے سے بھی زیادہ اچھا خون اور زیادہ بہترین  صحت دے دیتا ہوں - کیونکہ بیماری میں بندہ تو ایک تکلیف دہ دور سے  گزرتا ہے۔۔۔۔
روز اول سے ہی شکوہ شکایت عورتوں کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے ۔۔۔۔ یعنی ہمہ وقت کسی نہ کسی سے شکایت پالے  رکھتی ہیں ...ہمیں احسن طریقے سے بتانا ہوگا ، لکھ کر پہنچانا ہوگا کہ شکوہ شکایت کا یہ عمل ہرگز منافع بخش نہیں  بلکہ یہ انسان کی قدر و قیمت کھو دیتا ہے  اس عمل کو کسی نہ کسی طریقے سے ختم کرنا چاہئیے تا کہ مسلئے  حل ہوں نہ کے بگڑ جائیں

کوئی تبصرے نہیں: