سیاست ۔عدلیہ۔فوج۔بیوروکریٹ عام ادمی سب کا
احتساب ضروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(تحریر کائنات ملک)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزیز دوستو ایک بات تو طے ہے
کہ جب تک ہم خود ہی ٹھیک نہیں ہونگے۔ اس وقت تک کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا ۔ہمیں اگر سب کچھ ٹھیک کرنا ہے۔تو شروعات خود سے کرنی پڑے گی ۔دل پر پتھر رکھ کر اور ہمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اندر سے تبدیلی لانا پڑے گی ۔اپنی سوچ میں اپنے عمل میں ورنہ ساری زندگی تبدیلی کا راگ الاپتے الاپتے اس کائنات سے گزر جائیں گے ۔کبھی اکیلے بیٹھ کر سوچا کہ ہم لوگ ایسے کیوں ہیں ۔کیا ہمارے مفادات ایسے لوگوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔جنہوں نے ملک خدا داد کو بے دردی سے لوٹا ترقی سے روکے رکھا۔مگر خود ترقی کرتے کرتے۔کئی کئی مربعے زمینوں کئی کئی شادی حال کے مالک بن گئے۔ اور سوئٹزر لینڈ کی بینکوں،اور لندن کے فیلٹوں تک پہنچ گے۔ کیا ہماری تواقعات ان لوگوں سے وابستہ ہیں جنہوں نے عام ادمی کو تو پسماندہ دی ،مگر اپنے بچوں کو لندن ،امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں ۔ تو کیا ہم ان لوگوں کی شخصیت پرستی کی قید میں ہیں۔جن لوگوں کی وجہ سے غریب لوگوں کے بچے کچرے سے کھانا ڈھونڈ کر کھاتے ہیں ۔اور اکثر بھوکھے پیٹ ہی سوجاتے ہیں ۔۔مگر ان لوگوں کے کتے،گدھے، گھوڑے ،بادام ،شہد،کھاتے ہیں ۔ہمیں ان مظلوم لوگوں کے آنسو نظر کیوں نہیں اتے۔جو بھوک افلاس تنگدستی اور بے روزگاری سے تنگ اکر ایک روٹی چوری کرلے تو اسے ضمانت نہیں ملتی اور وہ کئی کئی سال جیل کی کال کوٹھڑی میں سڑتے رہتے ہیں ۔اور اس کے مقابلے میں ایک امیر آدمی جس نے پورے ملک کو لوٹا ہو ۔اسے جیل کی کال کوٹھڑی سے بچایا جاتا ہے۔ گو اس میں کوئی شک نہیں پاک فوج بھی ایک ادارہ ہے پاک فوج سے ہم بہت پیار کرتے ہیں ۔مشکل کی گھڑی ہو پوری عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں ۔مگر پاک فوج میں ماضی اور حال میں ایسے لوگ بے نقاب ہوے ہیں جو ملک کے خلاف دشمنوں سے ملکر جاسوسی کے کام سرانجام دینے پر مامور رہے جنہیں خود پاک فوجی عدالتوں نے سزائے موت دی۔اس ادارے کے ایک ان فرد کا بھی احتساب ہونا چاہیے ۔ کوئی ادارہ یا فرد واحد یا کوئی خاندان قانون سے زیادہ طاقتور نہیں ہونا چاہیے ۔چاہیے وہ عام بندہ ہو یا کوئی طاقت ور سیاستدان ۔بیورو کریٹ ہو یا ایک جرنیل جس کو سزائے موت کی سزا سنادی گئی ہو۔ اور اس پر یہ ظلم کہ اس پر یہ ردے عمل ہو کہ اس کی سزا کلادم قرار دے دی جاے۔اور ایسے مجرم کو جس کو عدالت تاحیات نااہل قرار دے کر مجرم بھی ثابت کرچکی ہو اسے پچاس روپے کے اسٹام پر چھٹی والے دن ضمانت منظور کرکے ملک سے باہر بھیج دیا جاے
۔غریب ادمی وہ بریف کیس نہیں دے سکتا۔اور اپنے لیے انصاف نہیں خرید سکتا اس لیے اسے بھیانک سزا ملتی ہے ۔ انصاف کی دیوی نے ترازو اس لیے پکڑا ہوا ہے۔کہ ایک طرف رقم ڈالو دوسری طرف اپنی مرضی کا فیصلہ لو۔افسوس بے گنہاہ غریب ادمی کے لیے ثبوت بناے جاتےہیں۔اور گنگار امیر ادمی کے لیے ثبوت مٹاے جاتے ہیں ۔ اور پھر ان غریب انسانوں کی غریب اور مجبوریوں کو خرید کر اپنے حق میں نعرے لگواے جاتے ہیں۔ایک طرف ہم نعرہ لگاتے ہیں احتساب سب کے لیے۔ ان میں سیاست دان بیوروکریٹ اور فوج بھی شامل ہے۔جب احتساب کا وقت اتا ہے۔تب ہم مخالفت شروع کردیتے ہیں۔
ان ادروں اور ان کرپٹ لوگوں کو مقدس گاے سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔یہ وہ کرپٹ ادارے اور کرپٹ لوگ ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہوے ہیں ۔ ایک دوسرے کا فائدہ اٹھاتے بھی ہیں اور وقت انے پر ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتے بھی ہیں ۔
ہمارے ملک کا طاقتور طبقہ فوج بھی ہے ان کو بھی احتساب میں انا چاہیے۔ ہم خدا پرست کی بجاۓ، شخصیت پرست ہوچکےہیں۔ہم اپنی سوچ اور اپنی زبان کی بجاے ان کی سوچ سوچتے ہیں ۔ اوران کی زبان بولنا شروع کردیتے ہیں ۔ہم غلط کو غلط اور صیح کو صیح نہیں کہ سکتے۔ہم خوشامد میں اس قدر اگے نکل جاتے ہیں ۔ کہ اپنی شخصیت کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ۔یہ سچ ہے ۔"جوبیج بویا جائے گا اسی کی فصل کاٹےگا"ہم کب شخصیت پرستی کے حصار سے نکل کر پاکستان کے بارے میں سوچیں گے وہ پاکستان جو ہم سب کا گھر ہے ۔وہ پاکستان جس کی وجہ سے ہماری عزت ہے۔وہ پاکستان جو ہماری شناخت ہے۔ہم کب پاکستان کی ترقی عوام کی بھلائی اور اپنے بچوں کی ترقی اور فلاح کا سوچے گے۔۔ پلز اپ تمام سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر اس طرف تو سوچ کر دیکھیں اخر کب تک ان کرپٹ لوگوں کی کرپشن کا دفاع کرتے رہیں گے۔جنہوں نے ہمارا پیسہ لوٹ کر باہر تجوریاں بھر رکھی ہیں ۔یہاں غریب عوام دو وقت کی روٹی۔روزگار اور ایک چھت کے لیے ترس رہی ہے۔اور ان لوگوں نے اپنے کئی کئی محل بنا رکھے ہیں ۔شاید انھیں اس عذاب کی خبر نہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ ۔یا ان لوگوں کو موت کا ڈر نہیں۔ کہ ان لوگوں نے مرنا ہی نہیں ۔یا پھر یہ اس دولت کے نشے میں مست ہیں۔کہ اللہ کو دولت دے کے خود کو بخشوا لیں گے۔۔یہ تووہ ظالم لوگ ہیں۔جو انصاف کے ساتھ بڑی صفائی سے نہ انصافی کرتے ہیں ۔یہ وہ ظالم لوگ ہیں جو سیاست کو عبادت کہ کرگنہاہ کماتےہیں۔ یہ وہ بے حس لوگ ہیں جو اپنے فائدے کے لئے لوگوں کو زندہ جلادیتے ہیں ۔یہ وہ ظالم لوگ ہیں جوغریب تک کا نوالہ تک چھین لیتے ہیں یہ وہ ظالم لوگ ہیں جو یتیموں کا حق کھاجاتے ہیں ۔کسی مظلوم کی آہ و بکا تک سنائی نہیں دیتی ان کویہ بہرے بن جاتے ہیں ۔یہ وہ پتھر دل لوگ ہیں۔کہ بیمار کی ادویات تک گم کردیتے ہیں ۔دیہاڑی دار کی دیہاڑی کھاجاتے ہیں۔ یہاں ہر ادارے میں انسان نما گدھ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔جو انسان ہوکر انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں ۔انسانوں کے خواب ۔خوائیش،ارمان ، زندگی تک
احتساب ضروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(تحریر کائنات ملک)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزیز دوستو ایک بات تو طے ہے
کہ جب تک ہم خود ہی ٹھیک نہیں ہونگے۔ اس وقت تک کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا ۔ہمیں اگر سب کچھ ٹھیک کرنا ہے۔تو شروعات خود سے کرنی پڑے گی ۔دل پر پتھر رکھ کر اور ہمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اندر سے تبدیلی لانا پڑے گی ۔اپنی سوچ میں اپنے عمل میں ورنہ ساری زندگی تبدیلی کا راگ الاپتے الاپتے اس کائنات سے گزر جائیں گے ۔کبھی اکیلے بیٹھ کر سوچا کہ ہم لوگ ایسے کیوں ہیں ۔کیا ہمارے مفادات ایسے لوگوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔جنہوں نے ملک خدا داد کو بے دردی سے لوٹا ترقی سے روکے رکھا۔مگر خود ترقی کرتے کرتے۔کئی کئی مربعے زمینوں کئی کئی شادی حال کے مالک بن گئے۔ اور سوئٹزر لینڈ کی بینکوں،اور لندن کے فیلٹوں تک پہنچ گے۔ کیا ہماری تواقعات ان لوگوں سے وابستہ ہیں جنہوں نے عام ادمی کو تو پسماندہ دی ،مگر اپنے بچوں کو لندن ،امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں ۔ تو کیا ہم ان لوگوں کی شخصیت پرستی کی قید میں ہیں۔جن لوگوں کی وجہ سے غریب لوگوں کے بچے کچرے سے کھانا ڈھونڈ کر کھاتے ہیں ۔اور اکثر بھوکھے پیٹ ہی سوجاتے ہیں ۔۔مگر ان لوگوں کے کتے،گدھے، گھوڑے ،بادام ،شہد،کھاتے ہیں ۔ہمیں ان مظلوم لوگوں کے آنسو نظر کیوں نہیں اتے۔جو بھوک افلاس تنگدستی اور بے روزگاری سے تنگ اکر ایک روٹی چوری کرلے تو اسے ضمانت نہیں ملتی اور وہ کئی کئی سال جیل کی کال کوٹھڑی میں سڑتے رہتے ہیں ۔اور اس کے مقابلے میں ایک امیر آدمی جس نے پورے ملک کو لوٹا ہو ۔اسے جیل کی کال کوٹھڑی سے بچایا جاتا ہے۔ گو اس میں کوئی شک نہیں پاک فوج بھی ایک ادارہ ہے پاک فوج سے ہم بہت پیار کرتے ہیں ۔مشکل کی گھڑی ہو پوری عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں ۔مگر پاک فوج میں ماضی اور حال میں ایسے لوگ بے نقاب ہوے ہیں جو ملک کے خلاف دشمنوں سے ملکر جاسوسی کے کام سرانجام دینے پر مامور رہے جنہیں خود پاک فوجی عدالتوں نے سزائے موت دی۔اس ادارے کے ایک ان فرد کا بھی احتساب ہونا چاہیے ۔ کوئی ادارہ یا فرد واحد یا کوئی خاندان قانون سے زیادہ طاقتور نہیں ہونا چاہیے ۔چاہیے وہ عام بندہ ہو یا کوئی طاقت ور سیاستدان ۔بیورو کریٹ ہو یا ایک جرنیل جس کو سزائے موت کی سزا سنادی گئی ہو۔ اور اس پر یہ ظلم کہ اس پر یہ ردے عمل ہو کہ اس کی سزا کلادم قرار دے دی جاے۔اور ایسے مجرم کو جس کو عدالت تاحیات نااہل قرار دے کر مجرم بھی ثابت کرچکی ہو اسے پچاس روپے کے اسٹام پر چھٹی والے دن ضمانت منظور کرکے ملک سے باہر بھیج دیا جاے
۔غریب ادمی وہ بریف کیس نہیں دے سکتا۔اور اپنے لیے انصاف نہیں خرید سکتا اس لیے اسے بھیانک سزا ملتی ہے ۔ انصاف کی دیوی نے ترازو اس لیے پکڑا ہوا ہے۔کہ ایک طرف رقم ڈالو دوسری طرف اپنی مرضی کا فیصلہ لو۔افسوس بے گنہاہ غریب ادمی کے لیے ثبوت بناے جاتےہیں۔اور گنگار امیر ادمی کے لیے ثبوت مٹاے جاتے ہیں ۔ اور پھر ان غریب انسانوں کی غریب اور مجبوریوں کو خرید کر اپنے حق میں نعرے لگواے جاتے ہیں۔ایک طرف ہم نعرہ لگاتے ہیں احتساب سب کے لیے۔ ان میں سیاست دان بیوروکریٹ اور فوج بھی شامل ہے۔جب احتساب کا وقت اتا ہے۔تب ہم مخالفت شروع کردیتے ہیں۔
ان ادروں اور ان کرپٹ لوگوں کو مقدس گاے سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔یہ وہ کرپٹ ادارے اور کرپٹ لوگ ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہوے ہیں ۔ ایک دوسرے کا فائدہ اٹھاتے بھی ہیں اور وقت انے پر ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتے بھی ہیں ۔
ہمارے ملک کا طاقتور طبقہ فوج بھی ہے ان کو بھی احتساب میں انا چاہیے۔ ہم خدا پرست کی بجاۓ، شخصیت پرست ہوچکےہیں۔ہم اپنی سوچ اور اپنی زبان کی بجاے ان کی سوچ سوچتے ہیں ۔ اوران کی زبان بولنا شروع کردیتے ہیں ۔ہم غلط کو غلط اور صیح کو صیح نہیں کہ سکتے۔ہم خوشامد میں اس قدر اگے نکل جاتے ہیں ۔ کہ اپنی شخصیت کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ۔یہ سچ ہے ۔"جوبیج بویا جائے گا اسی کی فصل کاٹےگا"ہم کب شخصیت پرستی کے حصار سے نکل کر پاکستان کے بارے میں سوچیں گے وہ پاکستان جو ہم سب کا گھر ہے ۔وہ پاکستان جس کی وجہ سے ہماری عزت ہے۔وہ پاکستان جو ہماری شناخت ہے۔ہم کب پاکستان کی ترقی عوام کی بھلائی اور اپنے بچوں کی ترقی اور فلاح کا سوچے گے۔۔ پلز اپ تمام سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر اس طرف تو سوچ کر دیکھیں اخر کب تک ان کرپٹ لوگوں کی کرپشن کا دفاع کرتے رہیں گے۔جنہوں نے ہمارا پیسہ لوٹ کر باہر تجوریاں بھر رکھی ہیں ۔یہاں غریب عوام دو وقت کی روٹی۔روزگار اور ایک چھت کے لیے ترس رہی ہے۔اور ان لوگوں نے اپنے کئی کئی محل بنا رکھے ہیں ۔شاید انھیں اس عذاب کی خبر نہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ ۔یا ان لوگوں کو موت کا ڈر نہیں۔ کہ ان لوگوں نے مرنا ہی نہیں ۔یا پھر یہ اس دولت کے نشے میں مست ہیں۔کہ اللہ کو دولت دے کے خود کو بخشوا لیں گے۔۔یہ تووہ ظالم لوگ ہیں۔جو انصاف کے ساتھ بڑی صفائی سے نہ انصافی کرتے ہیں ۔یہ وہ ظالم لوگ ہیں جو سیاست کو عبادت کہ کرگنہاہ کماتےہیں۔ یہ وہ بے حس لوگ ہیں جو اپنے فائدے کے لئے لوگوں کو زندہ جلادیتے ہیں ۔یہ وہ ظالم لوگ ہیں جوغریب تک کا نوالہ تک چھین لیتے ہیں یہ وہ ظالم لوگ ہیں جو یتیموں کا حق کھاجاتے ہیں ۔کسی مظلوم کی آہ و بکا تک سنائی نہیں دیتی ان کویہ بہرے بن جاتے ہیں ۔یہ وہ پتھر دل لوگ ہیں۔کہ بیمار کی ادویات تک گم کردیتے ہیں ۔دیہاڑی دار کی دیہاڑی کھاجاتے ہیں۔ یہاں ہر ادارے میں انسان نما گدھ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔جو انسان ہوکر انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں ۔انسانوں کے خواب ۔خوائیش،ارمان ، زندگی تک
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں