”تم پاس رہو میرے“
نمرہ ملک”تم پاس رہو میرے
میری ہر تحریر بھی تم۔۔میری ہر تصویر بھی تم!
جو خواب کبھی دیکھے۔۔ان کی تعبیر بھی تم!
میرے ماتھے پہ لکھی۔۔دلکش تقدیر بھی تم!
کیا تم سے کہوں جاناں!تم ہو تو میں ہوں جاناں!
پہلے ترا نام لکھوں۔۔جب کچھ بھی لکھوں جاناں“!
درثمن بلال کا کتابی شکل میں آیا یہ ناول نام سے ہی اتنا دلر با لگتا ہے کہ بے اختیار گنگنانے کو دل کرتا ہے کہ ”تم پاس رہو میرے“!اتنا دلکش،اتنا نیچرل اور محبت بھرے رشتوں سے گندھا یہ ناول بے اختیار قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔بلا مبالغہ یہ ناول میں نے اک ہی نشست میں پڑھا اور پڑھنے کے بعد دیر تک اس کے زیر اثر رہی اور مجھے یقین ہے یہ ناول بہت سارے محبت کرنے والوں کے لیے اچھے تحفے کی صورت اختیار کرے گا۔
درثمن بلال کے لفظوں نے مجھے کب سے متاثر کرنا شروع کیا نہیں معلوم!لیکن جب جب میں نے خواتین کے رسائل میں اس کی کوئی تحریر،کوئی تبصرہ دیکھا تو دل کرتا کہ اس اپنے جیسی لڑکی سے ملا جائے!در ثمن کی اک عام سے گھر کی خواہش کرتی،اپنے گھر کے لیے دل و جان سے قربان ہوتی،انا کے لیے دل پہ پاؤں رکھ لینے والی،امید پہ قائم اور خوددار سی ہیروئن بالکل اپنی کہانی لگتی ہے،پھر سب سے بڑی بات کہ درثمن لفظوں میں الجھانے کے بجائے صاف سیدھی اور کھری بات کر جاتی ہے بالکل یوں لگتا ہے کہ میں نے سو چا اور درثمن نے میری سوچ کو لفظوں میں ڈھال دیا!ہے نا عجیب بات!!
درثمن نے لکھنا تو شائد تب سے شروع کر دیا جب وہ کہانیوں کو اپنے شعور میں محسوس کرتی تھی،لیکن اس کی پہلی باقاعدہ ناول کی صورت آئی تحریر ماہنامہ ’کرن‘ میں چھپی جس کا نام تھا ”چلو کچھ دئیے جلائیں“اس کے ناول کے نام ہی اس قدر دلکش ہیں کہ پڑھے بنا بندہ نہیں رہ سکتا۔”اے عشق ترے ہیں کھیل عجب“!بھی درثمن کا دل کو چھو لینے والا ناول ہے۔حال ہی میں کتابی شکل میں آنے والا نیا ناول ”تم پاس رہو میرے“جب مجھے ڈاک سے موصول ہوا تو درثمن کے عید کے اس تحفے سے ذیادہ اس کے ان لفظوں نے مری عید کروا دی۔
”نذر نمرہ ملک
آسمان صحافت پر چمکتا ستارہ جو اپنی محبت امیز کرنوں سے دلوں کی دھرتی کو ہمہ وقت منور کئے ہوئے ہے!
جسے نمرہ ملک کہا جاتا ہے“!!
صاحب!سچ کہتی ہوں،درثمن بلال کو محبت کی مٹی سے گوندھا گیا ہے!
ایسی مٹی جس میں ملاوٹ کی گنجائش ہی نہیں بنتی!
ایسی مٹی جس کے لفظوں کے زروں میں ہجر کی خاک اڑتی ہے مگر جو امید کے پانی سے کبھی خالی نہیں ہوتی!
درثمن کے لفظ بنجر زندگیوں کو بھی اس خوبصورتی سے صفحہ قرطاس پہ سجاتے ہیں کہ بے اختیار دل کہہ اٹھتا ہے کہ وصال کے لمحوں سے تو ہجر کی چاشنی میں زیادہ مزا ہے!
اندازہ کریں جب ہجر میں اتنی مٹھاس بھر دیتی ہے یہ لڑکی تو وصل کے لمحوں کو تو وصل بھی شوق سے پڑھتا ہو گا!!
”تم پاس رہو میرے“ درثمن کا ایسا ہی ناول ہے جس میں درد جھانجھریں چھنکاتا پھرتا ہے،ہجر کا خونخوار جبڑا مسلسل جوانیوں کو روگ لگائے پھرتا ہے مگر امید کہیں بھی دامن سے الگ نہیں ہوتی۔اس ناول کے مرکزی کردار ماہین اور دوریز جیسے دو مکمل انسان لیکن محبت کے ادھورے روگی ہیں جو اک حاسد دوست کی لگائی آگ میں اٹھارہ سال جلتے ہیں لیکن بالاخر اک دوسرے کو مل جاتے ہیں تو نفرت کی ساری دیواریں گرا دیتے ہیں۔اسی ناول کا اک اور کردار عارفہ ہے جو دنیا دار،حاسد اور مفاد پرستی کی گہرائیوں میں گری ہے،جسے نہ اپنی نسوانیت عزیز ہے نہ ہی اپنی بیٹی پریشے!۔وہ صرف دولت کی پجارن ہے،اور کئی شادیوں کے بعد بھی نامراد رہتی ہے۔وہ ماہین اور دوریز کی زندگی میں جھوٹ اور حسد کا زہر گھولتی ہے لیکن آخر تنہا رہ جاتی ہے،خدا کی پکڑ اسے گرفت میں لیتی ہے اور دنیا اور آخرت تباہ کر کے کینسر جیسے مرض کے ہاتھوں سسک کر مرجاتی ہے۔اس کا شوہر سہیل بھی اسی جیسا ہے جو دو شادیاں کر کے بھی سکھ نہیں پا سکتا۔درثمن نے بہت خوبصورتی سے ان کرداروں کے زریعے معاشرے کے ان ناسوروں کو بے نقاب کیا ہے جو ہمارے گرد بہتان اور حسد کے زریعے جال بنتے اور کئی گھر تباہ کرتے ہیں لیکن اخیر میں ان کا مقدر زلت اور رسوائی ہی ہوتی ہے۔
پریشے عارفہ کی بیٹی ہے جسے اپنی ماں کی روش سے نفرت اور اس کے تجربات کی وجہ سے اک ایسے گھر کی چاہ ہے جسے وہ جان مار کر گھر کہہ سکے۔ سمیر اوراس کی ماں سارہ جو عارفہ کے ڈسے ہوئے ہیں،اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا پول کھل جاتا ہے۔پریشے گھر بچانے کے لیے طلاق کے بعد حلالہ کرنے کے لیے انزک جیسے شریف النفس اور خوددار انسان سے نکاح کرتی ہے مگر سمیر کی اصلیت سامنے آنے پہ انزک کے ہی گھر کو ترجیع دیتی ہے۔انزک افاق کا خاندان محبت،خلوص اور روایت کا گہوارہ ہے جو کورٹ میرج کر کے آئی پریشے کو دل سے قبول کرتے ہیں۔یہاں انزک کی ماں صابرہ کا اک جملہ اس کے اعلی کردار اور خاندانی اوصاف کی گواہی دیتا ہے جب وہ انزک کو تنبیہ کرتے ہوئے کہتی ہے”بس ایک بات کا خیال رکھنا،پری نے تمہاری خاطر بہت بڑی قربانی دی ہے،کبھی پچھتاوے کا احساس اس کے دل میں جگہ نہ بنا پائے،وہ ہمیشہ اپنے انتخاب پہ ناز کرتی رہے“۔حالانکہ پریشے سمیر سے طلاق کے بعد محض حلالہ کی نیت اور سمیر کے انتظار میں سانزک کے ساتھ رہ رہی ہے لیکن انزک کی شرافت،اس کا خاندانی ماحول اور محبت اسے جکڑ لیتی ہے۔وہ ہمارے معاشرے کے عام خاندان کی نسبت اک ایسے مخلص گھرانے میں آتی ہے جو کورٹ میرج والی لڑکی سے بھی خاندانی بہو جیسا بے مثال سلوک کرتے ہیں۔در ثمن کا تخلیق کردہ یہ خاندان اس کی اچھی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
ماہین اور دوریز نے بھی اگرچہ گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کی اور ان سے الگ ہوئے تھے لیکن بیس سال بعد خون کے رشتوں نے پائیداری کا ثبوت دیتے ہوئے ماہین کو گلے سے لگا کر ثابت کیا کہ خون پانی سے بہت گہرا ہوتا ہے جو کبھی نہیں مٹ سکتا۔
اسی کہانی کے تین کردار ماہین کے دو بھتیجے شاہ ویز،انوش اور پارس ہیں جو الگ الگ حثیت میں اپنی زات کا سکہ جماتے ہیں۔شاہ ویز بگڑا ہوا ہمارے معاشرے کا وہ مرد ہے جو انا پہ چوٹ برداشت نہیں کرتا اور سانپ کی طرح بدلہ لینے پہ کمربستہ ہے،انوش اس کی محبت بھی ہے اور بدلہ بھی لیکن یہاں محبت بدلے پہ حاوی آجاتی ہے۔دوسری طرف پارس اک ایسے نوجوان کا کردار ہے جس کے نزدیک رشتے زاتی خواہشات سے بہت آگے ہیں۔وہ انوش سے منگنی کی بجائے شاہ ویز کی اس سے نسبت کروانے میں کردار ادا کر کے اعلی ظرفی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتا ہے۔ لکھاری اپنی سوچ کو ہی کاغذ پہ لفظوں کا جامہ پہناتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ درثمن اپنی اعلیٰ سوچ کو یہاں پیش کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوئی ہے۔
انزک کی پھوپھو ستارہ اگرچہ شوہر کے ظالمانہ سلوک کی وجہ سے بے جی (انزک کی دادی)کے پاس ہے،لیکن جب شوہر شرمسار ہو کر اس کے پاس لوٹتا ہے تو وہ اولاد اور گھر بچانے کے لیے چلی جاتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ عفو و درگزر عورت کا ہی ظرف ہے۔یہاں در ثمن نے خوبصورتی سے بتایا کہ عورت کا شوہر کتنا ہی برا اور بد کردار کیوں نہ ہو،ہمارے معاشرے میں ہر حال میں عورت کو ہی سمجھوتہ کر کے گھر بچانا پڑتا ہے۔عورت اگر قربانی نہ دے تو شائد کوئی گھر بھی قائم نہ رہے۔
اسی کہانی کا اک کردار ریکھا اگروال ہے جو دوریز سے شدید محبت کرتی ہے،وفا کی مثال قائم کرتے ہوئے اس کی مرضی سے شادی کر لیتی ہے۔دوریز،ریکھا،پری،پارس،بے جی اور حمیرا بھابھی محبت کے اعلی کردار بن کے سامنے آتے ہیں۔
درثمن کی تحریریں اس کی زات کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہیں،اس کی کہانیاں ہمارے ارد گرد کی حقیقی کہانیاں ہیں۔ا س ناول کے بعد جملے دل کو چھو جاتے ہیں۔ملاحظہ کیجیے
”غلطی کی معافی اک بار ملتی ہے،جبغلطیوں کی عادت پڑنے لگے تو معافی نہیں ملا کرتی“۔
”جہاں آپ جیسی بھابھیاں ہوں،وہاں میکے کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے“
”ستارہ پھوپھو!کچھ لوگوں کو کو جانے سے نہیں روکتے،انہیں روک لین تو زندگی رک جاتی ہے۔زندہ رہنے کے لیے کچھ لوگوں پہ زندگی کے دروازے ہمیں خود بند کرنا پڑتے ہیں“۔
”زندگی بھر خود فریبی اور خوشگمانیوں میں رہنے سے بہتر ہے کہ انسان اک بار ہی خود کو جھلستی ہوئی حقیقت کے سپرد کر لے“۔
”میری وہ بددعائیں جو میں نے تمہیں کبھی بول کر نہیں دیں،وہ تمہیں ہمیشہ ڈراتی رہیں گی،پیچھا کرتی رہیں گی“۔
”میاں بیوی کو اک دوسرے سے دور کرنا شیطان کا من پسند کام ہے،بیوی کو شہر کے نصف ایمان کا وارث کہا گیا ہے اور اچھی بیوی وہی ہوتی ہے جس سے اس کے شوہر کو سکون حاصل ہو“۔
”دھوکا انسان کو مار ڈالتا ہے۔جو تعلق انتقام کے لیے جوڑے جاتے ہیں،انہیں قدرت جلد منظر عام پہ لے آتی ہے تاکہ ہم زندگی کو اس وقت جینا سیکھیں جب زندگی ہمیں ہمارے پیاروں اور چاہنے والوں کے زریعے ”مار“ رہی ہوتی ہے لیکن اس کے بعد ہم مضبوط ہو جاتے ہیں“۔
اک اک جملے میں مصنفہ نے بہ گہرے رویے سمو دئیے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ شاعری کا خوبصورت انتخاب قاری کے شاعرانہ زوق کی بھرپور تسکین کرتا ہے۔
درثمن بلال کا یہ ناول معاشرتی رویوں کا شاہکار ہے۔اس نے ہر ہر کردار سے بھرپور انصاف کیا ہے۔بس ایک گلہ ہے کہ اس نے کہیں کہیں اردو میں بھی انگریزی استعمال کی ہے۔جیسے یلو ڈریس پہن رکھا تھا،وغیرہ۔اردو لکھاریوں کو اردو کی ترویج کے لیے اردو کے ہی الفاظ استعمال کرنے چاہیں البتہ ماحول اور کردار جیسے بھی بولیں ان کے حالات کے مطابق ہر زبان استعمال کی جاسکتی ہے۔
صاحب!درثمن کو اللہ نے حسن قلم عطا کیا ہے،وہ کرداروں کے روئیے،ارد گرد کے ماحول اور خوبصورتی کو بہت دلنشین انداز میں سامنے لاتی ہے۔یہ اک لکھاری کی بڑی کامیابی ہے کہ قاری اس کی تحریر میں کھو جائے اور خود کو کرداروں میں ڈھلتا محسوس کرے۔اللہ اس کے قلم کی روانی،جولانی اور جوانی قائم رکھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں