Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

اتوار، 21 جون، 2020

گناہ سے نفرت کیجیے گناہ گار سے نہیں ((تحریر کائنات ملک ))


گناہ سے نفرت کیجیے گناہ گار سے نہیں
((تحریر کائنات ملک)) .

جام پور تھانہ سٹی میں ایک اور ملزم پولیس تشدد کے دوران جانبحق ایک ماہ میں دوسرا شخص پولیس حراست میں جانبحق۔
جام پورتھانے میں پولیس کے ہاتھوں دوسری ہلاکت کے واقعے نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ۔ کہ وطن عزیز میں قانون نافد کرنے والے ادارے قانون سے بالا تر کیوں ہیں۔ اے روز پولیس گردی پولیس۔ پولیس تشدد سے حولات میں بند ملزمان کی ہلاک ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ کیا ان ہلاک شدہ ملزموں کا مواضنع ان خطرناک مجرموں سے کیا جاسکتا ہے۔۔کیا وہ ملک دشمن دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک تھے جن کے ہاتھ کئی کئی
بے گناہ معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوے ہیں۔۔جن کو ہماری خفیہ اداروں کی نشاندہی پر ہمارے حساس اداروں نے اپنی جان کی بازی لگا کر گرفتار کیا ہو ۔مگر بعد میں ہماری
عدلیہ اسے باعزت بری کردیتی ہے۔ اور کیا ان ملزمان کا ان کرپٹ سیاستدانوں سے زیادہ جرم تھا ۔جنہوں نے پورے ملک پر ڈاکہ ڈال کرعوام کی دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے گئے ۔
۔ اور اپنے فلیٹوں کے لٹرین اور لوٹے تک سونے کے بنوا ڈالے ۔ کیا ان منی لانڈنگ کرکے کھربوں روپے سوئس بینک میں رکھوانے والے۔۔چینی۔مافیا۔اٹا مافیا ۔پٹرول مافیا سے بھی بڑے چور تھے ۔ملک کے لیٹروں کو تو پچاس روپے کے اسٹام کے ساتھ بڑے پرٹو کول سے ملک سے فرار کراتے ہیں۔ اور منی لانڈرنگ مافیا کو ضمانتیں دے کران کو اپنے گھروں کے اے سی روم میں ارام فراہم کرتے ہیں۔ اور بچ جاتے ہیں بچارے غریب عوام۔۔ مگر ان اشرافیہ کو کیا پتہ یہ غریب لوگ ان کے ظلم ستم کے ستاے ہوے۔
کس طرح اپنی گزر بسر کررہے ہیں۔اور بچارے غربت اور مہنگائی کی چکی میں پیسے ہوے مجبور لوگ کبھی حالات کے اگے جو کہ ان اشرفیہ کا پیدا کردا ہے۔ میں بے بس ہوکر اگر مرغی بھی چوری کرتا ہے۔تو یہ ظالم لوگ اس کا اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیتے ہیں ۔کیا گزرتی ہوگی ان گھروں ان والدین پر جن کے لخت جگر کی لاشے ان کے انکھوں کے سامنے پڑے ہوں ۔کیا گزرتی ہوگی ان معصوم بچوں پر جن کا باپ صبح ان کو یہ دلاسہ دے کر گیا ہو ۔کہ میں اپنی گڑیا بیٹی کے لیے گڑیا اور اپنے بیٹے کے لیے سکول کی کتابیں لے کر اوں گا ۔ جب صبح کا بھولا شام کو گھر نہیں لوٹتا ۔تب پولیس کی طرف سے ان بچوں کو ان کے باپ کی بجاے ان کو کفن میں لپٹی لاش دی جاتی ہے۔ریاست کا قانون توانسان کو جینے کا حق دیتا ہے۔مگر ریاست میں ہی قانون کے رکھوالے انسانوں سے ان کا جینے کا حق چھین رہے ہیں ۔نفرت جرم سے ہونی چاہیے ۔جرم کرنے والے سے نہیں۔نفرت گناہ سے ہونی چاہیے گناہ گار سے نہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہم نفرت کی اگ میں اتنے اندھے ہوجاتے ہیں ۔کہ گناہ کی بجاے گناہ گار سے نفرت کرکے کے اسے سب سے بڑا مجرم بنا دیتے ہیں ۔کیا ان قانون کے رکھوالوں کے اپنے گھر میں میں باپ۔بھائی بیٹے نہیں ہیں ۔کیا ان لوگوں کی جگہ ان کا کوئی بھائی باپ بیٹا ہوتا تو ان کے دل پر کیا گزرتی کبھی ان لوگوں نے سوچا ہے۔کیا ان کے سینے میں دل نہیں کیا ان کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔ کیا ان کے اندر ضمیر نام کی کوئی چیز انہیں کبھی بھی ملامت نہیں کرتی ۔پاکستان کے ائین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ ملزم پر سنگین تشدد کرکے اس سے ملزم سے مجرم ثابت کرو۔تھانوں اور ٹارچر سیل میں جو بھی جس بھی ڈگری کا تشدد کیا جاتا ہے۔وہ سب غیر قانونی ہوتا ہے۔ اور اس تشدد پر قانون بھی اس لیے خاموش ہوتا ہے۔کیونکہ قانون خود یہ غیر قانونی عمل کررہا ہوتا ہے پولیس کی حراست میں ملزم یا مجرم پر کسی قسم کا تشدد کرنا منع ہے۔ کیونکہ سزا دینے کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہوتا ہے۔ جسمانی ریمانڈ کا مطلب صرف اور صرف ملزم سے پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ یہ ایک فزیکل موجودگی ہوتی ہے ۔ لہذا متعلقہ معلومات حاصل کرنے کے لیے ملزم پر کسی قسم کا ذہنی یا جسمانی  تشدد آئین کی رو سے منع ہے۔۔ مگر خدا کی لاٹھی بے آ واز ہے۔ ہاں اگر ملزم مجرم ثابت ہوجاتا ہے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ تو اس کو اس گناہ کی اتنی سزا دو جتنا اس کا قصور تھا ۔یہ نہیں کہ انتقام اور نفرت کی اگ میں اتنے اندھے ہوجاو کہ ایک انسان سے اس کے جینے کا حق تک چھین لو۔ اسے ہلاک کردو۔پولیس اپنے ایسے جرم پر ہمیشہ سے پردہ ڈالتی ا رہی ہے۔ اور ان ہلاکتوں کو محض ایک حادثہ قرار دے کر یا ہلاک ہونے والے کا اپنا قصور تھا کا سارا ملبہ ڈال کر خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔اور من گھرٹ سٹوریاں بنا کر میڈیا کو پیش کی جاتی ہیں ۔۔ مگر بھنس بھنس کی بہن ہوتی ہے۔اور ایسے واقعات میں ملزمان کے ورثا کو مطمین کرنے عوام کی انکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر چند روز کے لیے واقعے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کردیا جاتا ہے ۔اور پھر ان کے اپنے پولیس والے تفشیشی افسران کو انکوائری افسران تعنیات کردیا جاتا ہے۔اس دوران پولیس کے مقامی اعلی افسران مقامی سیاسی شخصیت کے تعاون سے ہلاک شدہ افراد کے ورثا پر دباو ڈالا جاتا ہے۔کہ جانے والا تو چلا گیا ہے۔۔اللہ کی یہی مرضی تھی۔اب اپ کہاں پولیس تھانے کے چکروں میں پڑ کر دھکے کھاتے زلیل خوار ہوتے رہو گے۔بہتر ہے کچھ لے کر معاملہ رفع دفعہ کرلو ایسی میں اپ لوگوں کی بھلائی ہے۔۔ویسے بھی پولیس والوں سے دشمنی اچھی بات نہیں ہے ۔ اور اس طرح یہ پولیس والے اپنے جرم پر پردہ ڈالتے ہیں اور اپنے کالے کرتوتوں کو چھپا لیتے ہیں۔۔
حکومت کو چاہیے ۔
ان پولیس والے نئے اور پرانے بھرتی شدہ لوگوں کے لیے اس طرح کے کورس کے تعلیم تربیت کا بندوبست کرے کہ کوئی قیدی پولیس کی حوالگی کے دوران ہلاک نہ ہو۔ایسے پولیس والوں کے خلاف فوری ایف ائی ار درج کرکے ان کےدفعہ جرم 302کے تحت سزا دی جاے۔ اور اس کو نوکری سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برخاست کیا جاے۔ اور کسی بھی ادارے میں نوکری کرنےکے لیے تا حیات نہ اہل قرار دے دیا جاے ۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں: