Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

منگل، 2 جون، 2020

2 جون سقوط ملتان #BlackDay (تحریر کائنات ملک )


2 جون سقوط ملتان
#BlackDay
(تحریر کائنات ملک )
قلعہ ملتان جسے قلعہ کہنہ بھی کہا جاتا ہے، جو برصغیر پاک و ہند کے طرز تعمیر اور دفاعی لائحہ عمل کا شاہکار ۔ یہ قلعہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ یہ قلعہ، برطانوی سامراجی دور میں برطانوی افواج کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
یہ قلعہ اپنے اندر موجود دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ طرز تعمیر میں بھی الگ مقام رکھتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق، اس قلعہ کی دیواریں تقریباً 40 سے 70 فٹ (21 میٹر) اونچی اور 6،800 فٹ (2 کلومیٹر) کے علاقے کا گھیراؤ کرتی تھیں۔ اس کی دیواریں برج دار تھیں۔ اور اس کے ہر داخلی دروازے کے پہلو میں گشتی اور حفاظتی مینارے تعمیر کیے گئے تھے۔ اس قلعہ کے چار داخلی دروازے تھے، جن میں قاسمی، سکی، حریری اور خضری دروازے شامل ہیں۔ قلعے کی حفاظت کے لیے اس کے ارد گرد 26 فٹ گہری اور 40 فٹ چوڑی خندق بھی کھودی گئی تھی، جو بیرونی حملہ آوروں کو روکنے میں مددگار ثابت رہتی تھی۔
قلعہ کی بیرونی فصیلوں کی حصار میں اندر کی جانب ایک مورچہ نما چھوٹا قلعہ تعمیر کیا گیا تھا، جس کے پہلو میں 30 حفاظتی مینار، ایک مسجد، ہندوؤں کا مندر اور خوانین کے محل تعمیر کیے گئے تھے۔ 1818ء میں رنجیت سنگھ کی افواج کے حملے میں اندرونی چھوٹے قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔
اس قلعہ کو راجپوتوں کی شہنشاہی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔
2 جون 1818 کو پنجاب کے پنجابی حکمران رنجھیت سنگھ نے ملتان پر اپنی افواج کے ساتھ حملہ کردیا اس حملے میں ہزاروں بےگناہ معصوم سرائیکیوں کو شہید کر دیا گیا۔اس حملے کا مقصد ملتان کی سرائیکی عوام کو سکھ حاکمیت قبول کرنا مقصود تھی۔ مگر سرائیکی عوام نے مرنا قبول کیا اور سکھ حاکم کی اطاعت قبول نہیں کی ۔
اس حملے میں نواب آف ملتان مظفر خان اور ان کے سات بیٹے بھی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے .
ملتان کی جنگ درانی سلطنت کے ایک وزیر اور سکھ سلطنت کے مابین لڑائی تھی۔ جو مارچ 1818 میں شروع ہوئی اور 2 جون 1818 کو ہی ختم ہوگئی۔
رنجھیت سنگھ کی فوجیوں نے ملتان پر حملہ کرکےقلعے پر قبضہ کر لیا ۔ دو جون کا دن تاریخی اہمیت کا اس لیے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ دو جون کا دن
’’ سقوط ملتان ‘‘ اور نواب مظفر خان شہید کی لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے اور آج کے دن کو سرائیکی عوام اس دن کی عظیم قربانی کی یاد کے طور پر مناتی ہے ۔پورےسرائیکی خطہ میں سیمینار اور ریلیوں جلوسوں جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اور مقررین نواب مظفر خان کی عظیم لازوال قربانی پر اسے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ اور ظالم حاکم رنجیت سنگھ کے ظلم کی بھرپور مذمت کرتے ہیں ۔ نواب مظفر خان بیرونی جارحیت کے خلاف مزاحمت اور دھرتی کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے قربان والے عظیم انسان اور ملتان سرائیکی عوام کےہیرو ہیں ۔ آج سے تقریبا 200سو سال قبل تخت لاہور کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجیوں نے ملتان پر اس نیت سےحملہ کیا تھا ۔ کہ نواب مظفر خان سکھ دربار کی حاکمیت قبول کر لیں لیکن ملتان کے بیٹے نواب مظفر خان نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حاکمیت قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجیوں کا بھرپور انداز میں چار ماہ تک خوب مقابلہ کیا ۔ تاریخ میں اسے
’’ جنگ ملتان ‘‘ کے نام سے لکھا گیا ہے ۔ چار ماہ تک جاری رہنے والی یہ جنگ مارچ 1818 ء میں شروع ہوئی اور 2 جون 1818 ء کو ختم ہوئی ۔
مہارا رنجیت سنگھ کی فوجیوں نے قلعہ ملتان پر قبضہ کر لیا ۔اور اس لڑائی میں نواب مظفر خان اپنے سات بیٹوں اور دیگر عزیز و اقارب سمیت شہید
ہو گئے ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ آج کل پنجابی قوم پرستوں کے ہیرو ہیں اور نواب مظفر خان سرائیکی قوم پرستوں کے لیے وطن پرست اور دھرتی سے محبت کی علامت ہیں ۔اور سرائیکی دھرتی کے لوگ ہر سال دو جون کو ان کی دھرتی ماں سے محبت کی لازوال قربانی پر یہ دن بڑے جوش وجزبے سے مناتی ہے۔ جو انسان اپنی دھرتی ماں کے لیے اپنی اور خاندان والوں کے ساتھ جان تک کی بازی لگادے اصل ہیرو تو وہ کہلاتا ہے۔اور تاریخ میں اس کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے ۔نواب مظفر خان نے ایسا کرکے دکھایا۔ حالانکہ تاریخ توحملہ آوروں ، نو آبادیوں اور سامراجیوں نے خود مرتب کی ہے ۔ انہوں نے ’’ حق ‘‘ رائج کرنے کے لیے دنیا کو تاراج کیا اور مزاحمت کرنے والے مقامی باشندوں کو بدبخت اور گمراہ قرار دے دیا ، اس کے باوجود تاریخ کے اصل ہیروز حملہ آور نہیں بلکہ مزاحمت کار
اور دھرتی پرقربان ہونے والے لوگ ہیں ۔ نواب مظفر خان افغان سدوزئی اور غیر مقامی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نواب مظفر خان نے ملتان کا دفاع اپنے خون سے کیا ۔ انہوں نے اپنے سات بیٹے سمیت اپنا پورا خاندان اس دھرتی پر قربان کردیا ۔ دھرتی کی مٹی کو اپنے اور اپنے خاندان کے خون سے رنگین کر دیا ۔ ملتان کے لوگوں نے اس جنگ میں نواب مظفر خان کا ساتھ دیا ۔ نواب مظفر سے زیادہ ’’ دھرتی کا مخلص بیٹا اور کون ہو گا ۔ سلطنت ملتان کے لوگ تو آج تک تخت دہلی کے حکمران سلطان غیاث بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کے احسان مند ہیں ۔ شہزادہ محمد بھی مقامی نہیں تھا اور وہ 13 ویں صدی میں کچھ عرصے کے لیے ملتان کا گورنر بن کر آیا تھا ۔ ان کے والد نے انہیں ملتان پر تاتاریوں ( منگولوں ) کے حملے روکنے کے لیے گورنر بنا کر بھیجا تھا ۔ تاتاری ملتان اور ارد گرد کے علاقوں پر حملہ آور ہو کر وحشیانہ انداز میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے رہتے تھے۔ اور یہاں کا سب کچھ لوٹ کر چلے جاتے تھے ۔ شہزادہ محمد تاتاریوں سے لڑتا ہوا شہید ہو گیاتھا۔ اور آج تک وہ اس علاقے کی شاعری اور ادب میں وطن پرستی اور مزاحمت کا استعارہ ہیں ۔ رنجیت سنگھ کی فوجیں پہلے بھی حملہ آور ہوئی تھیں اور انہوں نے ملتان میں لوگوں کا قتل عام کیا تھا ۔ اور اس غارت گری کو روکنے کے لیے نواب مظفر نے تخت لاہور کی اطاعت قبول کرنے اور تاوان دینے سے انکار کیا تھا ۔ جس کے نتیجے میں یہ" جنگ ملتان" مسلمانوں اور سکھوں و ہندؤوں کے درمیان تھی یا مقامی یا غیر مقامی لوگوں کے درمیان تھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ نواب مظفر کی شہادت کے بعد لاہور اور ملتان کے درمیان محبت کا جو رشتہ قائم تھا وہ اس حملے اور نواب مظفر خان کی شہادت کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ماضی کی طرح اج بھی سرائیکی عوام تخت لاہور کی حکمرانی اس لیے بھی قبول نہیں کرتے کہ اج بھی اس سرائیکی دھرتی کے ساتھ سوتیلہ سلوک کیاجارہا ہے۔ اس بات کے قطع نظرکہ ابوالفضل نے ’’ آئین اکبری ‘‘ میں ملتان کو ایک بہت بڑی اقلیم اور ایک الگ جغرافیائی وحدت قرار دیا ۔ تاریخ میں یہ الگ سلطنت ہونے کے بارے میں کئی ثبوت موجود ہیں ۔ ایک طرف ٹھٹھہ ، تو دوسری طرف فیروز پور ، جیسلمیر اور کیچ مکران تک کے علاقے اس سلطنت میں شامل تھے ۔ نواب مظفر خان ، جنہوں نے بیرونی جارحیت کو للکارا اور اپنی اور اپنے سات بیٹوں کی زندگیاں اس دھرتی پرقربان کر دیں ۔
جب بھی کسی قوم کو بیرونی جارحیت کے خلاف دو ٹوک اور جرأت مندانہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا ، اسے یقینا

نواب مظفر خان شہید جیسے لوگوں کی کمی ضرورت محسوس ہو گی۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں: