Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

بدھ، 17 جون، 2020

بلوچستان /رحمت اللہ بلوچ /۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلی بلوچستان رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل وفاق میں حکومت کی اتحادی تھے

تحریر رحمت اللہ بلوچ نمائندہ روح عصر بلوچستان/ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلی بلوچستان رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل  وفاق میں حکومت کی اتحادی تھے بدھ کو قومی اسمبلی میں 50 منٹ کی طویل خطاب میں حکومت سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کیا اکثر سیاستدان بجٹ کے دنوں میں ایک دوسرے سے گلے شکوے  ناراضگی کی اظہار کرکے اتحاد ختم کرنے کی اعلان کرتے ہیں پھر اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے سے رابطوں میں شروع ہوجاتے ہیں جمعت علماء اسلام نے بھی بی این پی کی علیحدگی کو سراہا پپلز پارٹی نے بھی بی این پی کی سربراہ سے رابطہ کیا مگر سیاستدانوں کی ایک دوسرے پر اعتماد کی فقدان ہے ہر ایک دوسرے کو کراس کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں  عدم بھروسہ کیوجہ سے اپوزیشن میں اتحاد مشکل نظر آرہا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آجکل یو ٹرن نے بھی شہرت حاصل کر رکھی ہے یعنی پیچھے چل کا بھی موقع مل جائے تو دیر نہیں اعلانات بھی ہوتے ہیں اتحاد بھی ہوتے ہیں جدائی بھی سیاست میں ہوتی ہے منانے والے بھی سیاستدانوں کو واپس آنے دوستی کو قائم رکھنے میں ذہین ذین راستے ہموار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں سیاست میں کوئی اعلان حرف          آخر نہیں ہوتا ہے  2018 کے عام  انتخابات کے بعد جب بلوچستان نیشنل پارٹی ( مینگل) نے مرکز میں پاکستان تحریک انصاف
 بی این پی نے پی ٹی آئی کی حمایت کا فیصلہ کیا چھ نکات پی ٹی آئی کے سامنے رکھے جو انھوں ان چھ نکات کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی جو ابھی تک چھ نکات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے
انتخابات کے بعد خان صاحب بظاہر بدل گئے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے وعدوں سے مکر گئے اور بلوچستان ان کی ترجحات میں شامل نہیں رہا۔ سرداراخترمینگل صاحب اسوجہ سے بھی حکمران جماعت سے نالاں تھے اور بدھ کے روز بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے مکمل حکومت کی اتحاد سے علیحدگی کی اعلان کیا انھوں نے اپنے خطاب میں کہا
پی ٹی آئی بلوچستان کے مسائل حل کرے لیکن تسلیوں کے باوجود کچھ نہ ہوا
 پی ٹی آئی کو بی این پی کے خدشات سے آگاہ کرنا تھا۔آگاہ کیا ہوگا
  پی ٹی آئی حکومت کے لیے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں مانگی جس سے میری ذات یا جماعت کو فائدہ ہو۔ ہم نے صرف صوبہ ( بلوچستان) کے لوگوں کے لیے انصاف مانگا ہے۔ ہم تو بلوچستان اور بلوچ قوم کی صرف حقوق کی بات کرتے ہیں مگر وہاں بھی پی ٹی آئی نے بی این پی کو مایوس کیا
 پی ٹی آئی  نے لاپتہ افراد کے معاملہ میں اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ہے اور نہ ہی وفاقی ملازمتوں پر بلوچستان کے چھ فیصد کوٹہ پر عمل درآمد کیا ہے۔
 اختر مینگل نے بتایا کہ حکمران جماعت نے ہمارے ساتھ لاپتہ افراد اور بلوچستان کی ترقی کے حوالہ سے معاہدہ کیا،لیکن کیا ان معاہدوں پر عمل کیا گیا، آج بھی لاپتہ افراد کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس معاہدہ پر شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور یار محمد رند کے دستخط ہیں۔ اختر مینگل نے کہا کہ ہم کوئی کالونی نہیں، ہمیں اس ملک کا شہری سمجھا جائے،ہم نے دو سال انتظار کیا، ابھی بھی وقت مانگا جارہا ہے۔اخترمینگل نے یہ بھی بتایا کہ ایک لڑکی جس کا بھائی 4 سال سے لاپتہ ہے، اس نے احتجاج کرتے کرتے خود کشی کرلی۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ پہلے بلوچ مردوں کی لاشیں ملتی  اب بلوچ عورتو کی انھوں نے کہا
صوبے سے متعلق انھوں کہ ہم ایوان میں موجود رہنگے اور اپنی آواز بلند کرتے رہینگے سوئی گیس کی رائلٹی کو چھوڑ کر ہم کو گیس سونگھنے کیلئے بھی نہیں ملتی ہے لوگوں کے مجھے میسجز آئے کہ ہمارے بچوں کو مت پڑھاٶ اگر ہمارے بچے پڑھ کر تو حق اور نا حق میں فرق کرنا سیکھ جائیں گے نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے، ہم نے سیاسی طریقہ سے حل کرنے کی کوشش کی، ہمارے نکات سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہونے تھے لیکن ساتھ لے کر تو چلا جائے۔
انھوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ آج دن تک بتائیں کہ بلوچستان پر پارلیمانی کمیٹی کا نوٹیفکیشن ہوا تھا،اگر نوٹیفکیشن ہوا تو کیا ایک میٹنگ بھی بلائی گئی یا ٹی او آرز بنائے گئے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ گوادر کے ماہی گیروں کے ساتھ تو تعاون کیا جائے،آئی ڈی پی کیمپوں میں جاکر پوچھا جائے کہ کون ذمہ دار ہے۔
پی ٹی آئی سے تعلق پر اختر مینگل نے کہا کہ ہم نے حکمرانوں سے ہاتھ ملایا، جب بھی ووٹ مانگا دیا لیکن آپ نے کیا دیا۔
اختر مینگل نے یہ نکتہ اٹھایا کہ بوسنیا اور فلسطین کےلئے احتجاج کرتے ہیں، ٹماٹر ، چینی پر بحث ہوتی ہے لیکن بلوچستان کے لوگوں کے خون پر بات نہیں ہوتی۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا بلوچستان کے لوگوں کے خون کا رنگ ٹماٹر سے زیادہ سرخ نہیں ہے اس لئے اس پر بات نہیں کرتے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کو کالونی سمجھتے ہیں اور ہمارے ساتھ وہی ہورہاہے جو غلاموں کے ساتھ ہوتاہے
تحریک انصاف کو شاید ہماری ضرورت نہیں تھی ‘ حکومت نے وعدے پورے نہیں کئے
سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی اجلاس سے 50 منٹ طویل خطاب
انصاف ملتا نہیں بکھتا ہے ‘ آج تک اس ملک میں کسی کو انصاف نہیں ملا۔
بلوچستان اس ملک کا حصہ ہے کالونی نہیں ‘ ہمیں شہری سمجھو’’
آٶ حساب کرو ‘ آپکے سر کا بال بھی بلوچستان کا قرضدار ہے۔
 ‘بلوچستان آپکا نہیں
بلوچستان جو آپکے ہاتھ سے جارہا ہے اس کے مسئلہ پر بات کیوں نہیں کی جاتی؟
بلوچستان کو موٹروے نہیں چاہیے صرف ایک ڈبل شاہراہ چاہیے مگر اسکو بجٹ سے نکال دیا گیا۔
 قومی اسمبلی میں اخترمینگل کی گھن گرجدار خطاب
چمن سے کراچی تک سڑک کی بنیاد 1973 میں رکھی گئی تھی، ساڑھے چار ہزار لوگ اس سڑک پر حادثات کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے۔ ہمیں 6 لین سڑک کی بجائے دو لین سڑک ہی دے دیں۔
گزشتہ پی ایس ڈی پی میں جو رقم اس سڑک کے لیے رکھی گئی تھی اس کو کورونا یا ٹڈی دل کھا گئی
کورونا کی علاج کے بارے میں کوئی کہتا ہے ثنامکی کھا لو، کوئی کہتا کلونجی کھا لو، ہم تو سب سجیاں کھا کر تھک گئےہم نے کورونا کو نظر انداز کرکے تفتان بارڈر ایسے کھولا جیسے ماضی کی طرح ڈالرز آئیں گے
تفتان بارڈر کھولنا تھا تو احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتیں
تفتان بارڈر پر نالائقی سے جو ہلاکتیں ہوئیں انکی ایف آئی آر حکمرانوں کیخلاف کاٹی جائیں
ٹڈی دل سے بلوچستان کے 32 اضلاع متاثر ہیں، کوئی فصل اور باغ نہیں بچا
جب بھی کہا تو جواب آیا کہ اسپرے کے لیے جہاز نہیں ہے
وزیراعلی کے لیے تو جہاز لیا جاسکتا لیکن اسپرے کے لیے کیوں نہیں
اگر اب بھی اسکا تدارک نہ کیا گیا تو اگر آج اسکی تعداد لاکھوں میں تو اگلے سال کروڑوں میں ہوگی
ٹڈی دل سے پھر آپکے عرب دوست بھی نہیں بچا سکیں گے
بلوچستان روز اول سے معاہدات کا مارا ہوا ہے
نواب اکبر بگٹی کو کہا گیا کہ آپ اسلام آباد آئیں
اس ضعیف شخص کو اسلام آباد لانے والے جہاز میں فنی خرابی ہوجاتی ہے، بعد میں نواب اکبر بگٹی کو شہید کردیا گیا۔ جمہوری وطن پارٹی نے بھی حکومت کی اتحاد سے علیحدگی کی عندیہ دیا ہے
دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے سردار اختر مینگل کو منانے کیلئے کوششیں جاری ہیں شبلی فرازوفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ ‏اخترمینگل ہمارے حلیف تھے اور رہیں گے،
 ‏اخترمینگل سے رابطہ کررہے ہیں، بی این پی کی سربراہ کے تمام تحفظات جلد دور کرلیں گے
 ‏اختر مینگل کے6نکاتی مطالبے پر کمیٹی بنائی تھی،
‏ممبر کا تقرر ہوتےہیں اختر مینگل کےتحفظات دور ہوجائیں گے
‏بلوچستان صوبہ ہمارےلیے بہت اہم ہے،
ایک دو روز میں تمام مسائل حل ہوجائیں گے،وزیراطلاعات  شبلی فراز

کوئی تبصرے نہیں: