Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

ہفتہ، 6 جون، 2020

فرشتہ یا جلاد ---- ملک نذر حسین عاصم

فرشتہ یا جلاد
---------------------------
ملک نذر حسین عاصم
0333 5253836
===================
اسلام نے ہمیں صرف انسان پر ہی نہیں چوپائے،  پرندوں اور ہر قسم کی مخلوق پر رحم کرنے کا حکم۔دیا ہے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اس پر کتنا عمل کرتے ہیں آپ نے انسان اور کتے والی بات ضرور سن رکھی ہوگی کہ ایک مسافر کسی رستے پر جا رہا تھا کہ اس کی نظر ایک کتے پر پڑی    جسکی زبان پیاس کی شدت کی وجہ سے باہر نکلی ہوئ تھی اور وہ نڈھال ہوچکا تھا اس شخص کو کتے پر ترس آگیا چنانچہ اس نے کنویں سے پانی نکالا اور کتے کو پلایا تو اسکی جان میں جان آگئ اور وہ دم ہلا ہلا کر اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنے لگا۔
موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو انسان وحشی درندہ بن چکا ہے رشتوں کا تقدس اور احترام آدمیت کی تمام حدود و قیود پھلانگ چکا ہے بڑے چھوٹے، اپنے پرائے، اقربا خویش، معصوم، مظلوم،مجبور بےکس، محتاج، غریب، درویش اور جابر قاہر،ظالم سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے بزرگوں سے اکثر سنتے آئے ہیں کہ غریب کی بددعا سے بچو، اسکی بددعا اثر ضرور دکھاتی ہے لیکن سارا معاشرہ ایک ہی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے حضرت انسان ایسے ایسے ظلم ڈھا رہا ہے کہ عرش کانپ جاتا ہے مگر انسان کو دوسرے انسان پر، اپنے ہی بھائ پر ترس نہیں آتا، اسکی چھری کسی کا گلا کاٹنے کیلئے ہروقت تیار ہے جبرو زیادتی کی تمام داستانیں اولاد آدم ہی سے منسوب ہیں کبھی یہ انسان فرشتہ بن جاتا ہے اور کبھی جلاد۔ اسکے کئ روپ ہیں کبھی یہ حادثات میں زخمیوں کیلئے خون دے رہا ہے اور کبھی کوئ جہاز گرتا ہے تو یہ ان لوگوں کا مال متاع لوٹنے میں مصروف ہے
کہیں بے سہارا بچیوں کو جہیز دیکر انکا گھر آباد کر رہا ہے تو کہیں معصوم زینب کے قتل کا مرتکب بن رہا ہے۔
خبر آئ ہے کہ آٹھ سالہ معصوم بچی جو کسی گھر میں خادمہ تھی اس سے کبوتر اڑ جانے کی پاداش میں اسقدر تشدد کیا گیا کہ ابدی نیند سلادی گئ۔یہ کوئ پہلا واقعہ نہیں ہے آئے روز ایسے واقعات ہماری سمع خراشی کرتے  ہیں اخبار میں دو کالم خبر لگتی ہے اعلی افسران کے بیانات جاری ہوتے ہیں اور کہانی ختم ہو جاتی ہے کبھی کسی ملازمہ پر زیور چوری، کبھی پرس چوری ، اور نہ جانے کون کون سے الزامات لگا کر بنت حوا پر ظلم و زیادتی کی انتہا کردی جاتی ہے مجبور و بے کس، نادار و مفلس بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر پھر بھی باز نہیں آتے۔ صاحب اور بیگم ہی نہیں، انکے لاڈلے بھی غریب خادموں سے ہتھوڑے کی زبان بولتے ہیں مگر غربت کے بحر بیکراں میں رہنے والوں کی کوئ زبان نہیں ہوتی۔ صاحب جی کی وفاداریوں میں انکی زندگیاں بیت جاتی ہیں ان غریبوں کا سب کچھ یہ بڑے لوگ ہوتے ہیں کیونکہ انہی کے گھر سے انکا چولہا وابستہ ہے سارے وڈیرے ظالم نہیں ہوتے، ساری بیگمات ڈائنیں نہیں ہوتیں۔ چند لوگ ہوتے ہیں جنہیں دولت کا بخار اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق کو حشرات الارض سمجھتے ہیں لیکن کب تک آخر ظلم و زیادتی کی یہ داستانیں سانسیں توڑتی رہیں گی۔اوپر ایک ذات ہے جو عادل ہے وہ انصاف ضرور کرتی ہے دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔

ایک شخص کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائ گئ تو قریبی احباب نے دریافت کیا کہ تم نے قتل کرکے ہم سے بات چھپائے رکھی اور آج قتل ثابت ہو گیا ہے  اس شخص نے جوابا" وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جہاں چاہو تسلی لے لو یہ قتل میں نے نہیں کیا۔ لیکن چند سال قبل فلاں جو قتل ہوا تھا وہ میں نے کیا تھا مجھے اس قتل کی سزا مل رہی ہے

کوئی تبصرے نہیں: