Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

اتوار، 28 جون، 2020

آڑی بہن کھیس گھندو کھیس ((تحریر۔ کائنات ملک)


آڑی بہن کھیس گھندو کھیس
((تحریر۔ کائنات ملک)) ۔۔۔
آڑی کھیس گھندو کھیس کی صدا لگانے اور نگر نگر محلے محلے گلی گلی گھر گھر پہنچنے والی یہ مزدور عورتیں نسل در نسل اس شعبہ سے منسلک ہیں اور یہ خاندانی پیشہ کی مسافتیں طے کرتیں ۔سرخ گلابی رنگت والی لمبی اونچی قد کی یہ خواتین محنت مزدوری اور گھر کی زمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر زمہ داریوں وقت کی بھٹی میں جل کر اپنا اصل رنگ روپ کھو بیٹھتی ہیں۔
ہو، مگر معاشرہ انہیں فقیروں کے نام سے جانتے ہیں ۔ان فقیروں کے قبیلے کی ہر عورت اپنے کنبے کی سربراہ ہوتی ہے۔جس کے زمہ گھر کی تمام تر زمہ داریاں ،ہوتی ہیں گھر کے لیے زمین لینا پھر اس پر گھر بنوانا ۔بچوں کی شادیاں کرنا پھر ان کے بچوں کو بھی پالنا شامل ہوتا ہے۔ یہ عورتیں ملتان کے مختلف بازاروں سے دوکانداروں سے جاکر چادریں ،کھیسں اور بیڈ شیٹ لے کر اتی ہیں ۔اور ہر ایٹم کو بیچنے کے پیچھے انہیں ایک سو،روپے کمیشن دیا جاتا ہے ۔یہ عورتیں سال کے بارہ مہینےہر موسم میں سردی گرمی دھوپ چھاوں خزاں بہار برسات میں سارا دن بھوکی پیاسی کرایہ کے موٹر سائیکل پر دو سو،روپے پٹرول اور چار سوروپے مزدوری کے ساتھ مختلف علاقوں کا روزانہ الصبح رخ کرتی ہیں۔اور مفرب تک ان علاقوں شہر ہویا دیہاتوں میں جاکر بیڈ شیٹ۔چادریں ۔اور کھیس بیچتی ہیں۔اور فی کس کھیس ۔چادر یا بیڈ شیٹ پر انہیں ایک سو کی بچت ہوتی ہے ۔روزانہ وہ ایک ہزار سے بارہ سوروپے تک کماتی ہیں۔جس سے چھہ سوروپے وہ موٹرسائیکل کی مزدوری دیتی ہیں بقیہ رقم سے گھر کے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ کبھی کبھی تو پورا دن کچھ بھی نہیں بکتا موٹرسائیکل کا پٹرول اور کرایہ انہیں خود اپنی جیب سے دینا پڑتا ہے۔اس دن گھر کا چولہا بھی نہیں جلتا۔اس سلسلے میں ایک خاتون مقصودہ بی بی نے بتایا کہ ہم لوگ نسل در نسل یہ کام کرتی ارہی ہیں۔ہمارے مرد حضرات کوئی کام کاج نہیں کرتے ۔ہمیں ان کو پالنا پڑتا ہے اور ان کے بچوں کو بھی۔ہمارے قبیلے میں اکثر خواتین بیواہ خواتین ہیں یا ایسی خواتین ہیں جن کے شوہر طلاق دے گے اپنی بیویوں کو یا پھر دوسری شادی کرکے الگ ہوگے ہیں۔مقصود بی بی کا کہنا تھا کہ جب ہم لوگ مختلف علاقوں میں جاتی ہیں تو ہمیں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔علاقے کے لوگ ہم پر کتے چھوڑ دیتے ہیں ۔کئی بار کتوں نے کاٹا ہے۔ارد گرد کے لوگ تماشہ دیکھتے اور ہنستے رہتے ہیں۔اس طرح جس گلی محلے یا گھر میں جائیں وہاں کے مرد حضرات ہم پر جملے کستے ہیں۔ہمیں دعوت گنہاہ دیتے ہیں ۔کوئی شادی تک کی افر کردیتا ہے۔کبھی تو خاموشی سے سن کر برداشت کرلیتے ہیں تو کبھی کھری کھری بھی سنا دیتے ہیں۔لوگوں کے دل دماغ میں ہمارے بارے میں بہت غلط قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔کہ یہ مال بیچنے کی اڑ میں گھروں میں موجود گاہک خواتین کو نشہ اوار ادویات کھلا کر چوریاں کرتی ہیں۔گلی سے چھوٹے بچے اغواہ کرلیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ ہمیں اپنے گھروں میں گھسنے نہیں دیتا ہمیں دیکھ کر اپنے دروازے بند کرلیتے ہیں ۔اور بدلے میں الٹا ہمیں گالیاں بھی نکالتے ہیں۔یہ سراسر بے بنیاد ہم پر الزام ہیں۔ہم محنت کش مزدور خواتین ہیں ۔ہم حق حلال کی کماتے ہیں اور وہی خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ہماری اکثر خواتین مختلف حادثوں میں ٹانگوں ۔بازو۔سے معزور ہوچکی ہیں ۔دیسی اقسام کے اور جڑیوں بوٹیوں کے ٹوٹکوں سے اپنا علاج معالجہ کرتے ہیں۔ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم اپنا اچھا علاج کراسکیں۔سرکاری ہسپتالوں میں تو صرف بخار کی گولی مل جاتی ہے ۔وہ بھی غنیمت ہے۔ہم ان تمام مسائل کو برداشت کرتی ہیں۔ہماری مجبوری ہے۔پیٹ کا ایدھن جو بھرنا ہے۔ہماری خواتین معزوری میں بھی کھیس ۔چادریں بیڈ شیٹ بیچنے روزانہ کی بنیاد پر جاتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ایک اور نوجوان خاتون نے بتایا ہمارے بچے کبھی سکول نہیں جاتے ہمارے پاس سکول کی فیس۔کتابیں اور یونیفارم خریدنے کے لیے اتنی رقم نہیں ہوتی اس لیے اج تک ہمارے قبیلے میں کوئی اج تک سکول نہیں گیا اور ویسے بھی ہم خود صبح گھر سے نکلتی ہیں شام گئے گھر لوٹتی ہیں ۔ جب ہم اپنا مال بیچنے مختلف علاقوں میں جاتی ہیں۔تو مرد حضرات ہم سے فری ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔دوستیاں لگانے کی افر کرتے ہیں ۔جب ہم ان کی ان بتمیزیوں کا جواب سخت لہجہ سے دیتے ہوے انہیں ان کی ماں بہین بیٹی کا احساس دلاتے ہیں ۔تو وہ بدلے میں غصے سے بل کھانا شروع کرکے ہمیں گندی گندی گالیاں نکال کر کہتے ہیں۔اپنی گندی زبان سے ہماری گھر بیٹھی بہن بیٹیوں کا نام نہ لو وہ تمہاری طرح اوارہ اور بدکردار نہیں ہیں۔اس وقت ایسی باتیں سن کر ہمارا دل خون کے انسو روتا ہے۔ہم بھی انسان ہیں۔ کسی کی عزت ہیں کسی کی ماں بہین ہیں ۔ہم نہ بد کردار ہیں نہ ہی آوارہ عورتیں ہیں ۔بس ہم غریب ہیں اور
غربت ہمارا جرم۔ہے ہم معاشرے کے ایسے رویعے اور ان کی کڑوی کسیلی باتیں برداشت کرتی ہیں۔ہمیں یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے اچھے برے لوگ تو ہر جگہ موجود ہیں۔ہمارے مرد نکمے سارا دن گھروں میں سوے رہتے ہیں یا پھر نشہ کرتے اور جوا کھیلتے ہیں۔ہمیں زندگی نے بہت دکھ دیے ہیں۔مگر شکر ہے پھر بھی اس خدا کا ایک سوال کا جواب دیتے ہوے نے کہا ہمیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام۔احساس پروگرام۔یا صحت کارڈ میں بھی شامل نہیں کیا گیا ۔

بدھ، 24 جون، 2020

( حماد بلوچ ): گوادر پانی بحران کے وقت شہر کو پانی سپلائی کرنے والے ٹینکرز مالکان کے 76 کروڑ روپے ڈوب گئے.

گوادر ( حماد بلوچ ): گوادر  پانی بحران کے وقت شہر کو پانی سپلائی کرنے والے ٹینکرز مالکان کے 76 کروڑ روپے ڈوب گئے.

گوادر:  تین  سال گزرنے کے باوجود حکومت بلوچستان ٹینکر مالکان کو واجبات کی ادائیگی کرنے سے قاصر.

گوادر:  2018 کو پانی بحران کے وقت حکومت بلوچستان کی جانب سے  پرائیویٹ ٹینکروں سے شہر اور گرد ونواح کے علاقوں میں پانی سپلائی کیا گیا تھا.  ( ٹینکر مالکان  )

گوادر:  حکومت بلوچستان پر 350 ٹینکروں کے 76 کروڑ روپے واجب الادا ہیں. (ٹینکر مالکان )

گوادر:  میڈیا اور سیاسی پارٹیاں بقایاجات کی حصول کیلیئے ہماری آواز بنیں. (ٹینکر مالکان)
ٹینکر مالکان نے اپنے  جاری ایک  اعلامہ میں کہا ہیکہ گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ ہماری پیسہ جلد ریلیز کیا جائے ورنہ سخت احتجاج کیا جائیگا .ہمارے چند ٹینکرز  پمپ مالکان نے ضفت کردیئے 5.5لاکهہ روپے میں پمپ مالکان کی قرض دار ہیں
ہم نے مشکل گهڑی میں گورنمنٹ کے ساتهہ دی ہے پبلک کو پانی فراہم کی ہے اب گورنمنٹ بهی ہمارے ساتهہ دے
ایم پی اے گوادر میر حمل کلمتی،ایم این اے اسلم بهوتانی ، سی ایم جام کمال خان ،ڈپٹی کمشنر گوادر ،آفیسرز پبلک ہیلتهہ ،و دیگر ذمہ داروں سے پرزور اپیل کی جاتی ہیکہ گورنمنٹ جلد ہماری پیسہ ریلیز کریں ورنہ سخت احتجاج کیا جائیگ

منگل، 23 جون، 2020

اوتھل : ( حماد بلوچ )ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو لسبیلہ ڈاکٹر جمیل احمد بلوچ سے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر ضلعی رہنما غلام محمد عرف گلو جاموٹ ۔ڈاکٹر عبدالحکیم لاسی ۔نائب تحصیلدار اوتھل آفتاب موندرہ ۔عبدالواحد بلوچ ۔شاہد بلوچ اور صحافیوں رفیق تبسم ۔سلیم مجاہد ۔پیربخش کلمتی ودیگر ملاقات کررہے ہیں

اوتھل : ( حماد بلوچ )ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو لسبیلہ ڈاکٹر جمیل احمد بلوچ سے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر ضلعی رہنما غلام محمد عرف گلو جاموٹ ۔ڈاکٹر عبدالحکیم لاسی ۔نائب تحصیلدار اوتھل آفتاب موندرہ ۔عبدالواحد بلوچ ۔شاہد بلوچ اور صحافیوں رفیق تبسم ۔سلیم مجاہد ۔پیربخش کلمتی ودیگر ملاقات کررہے ہیں

بھکر(حسن چھینہ)ٹاٸیگرفورس تحصیل بھکر کے نوجوان سخت گرمی میں بھی اپنی خدمات سرانجام دیتے ہوۓ۔

بھکر(حسن چھینہ)ٹاٸیگرفورس تحصیل بھکر کے نوجوان سخت گرمی میں بھی اپنی خدمات سرانجام دیتے ہوۓ۔اسسٹنٹ کمشنر بھکر کی ہدایات پر نادرا آفس بھکر،ڈی ایچ کیو بھکر،احساس کفالت سنٹر منڈی ٹاٶن بھکر اور بی ایچ یو سراۓ مہاجر پر ٹاٸیگرز ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوۓ اور ایس او پیز پر عمل کرواتے ہوۓ۔
اہل علاقہ کا  ضیاء اعوان اور تمام ٹیم کو خراج تحسین 

*گوادر : ( حماد بلوچ ) ایم پی اے گوادر میر حمل کلمتی* کے قربانی کسی سے ڈهکی چپی نہیں ہیں . *_کہده اکرم کلانچی_* کلانچ میں ایم پی اے گوادر میر حمل کلمتی کے سوا کسی نے ایک اینٹ تک نہیں رکهی *_ابوبکر کلانچی_

*گوادر : ( حماد بلوچ ) ایم پی اے گوادر میر حمل کلمتی* کے قربانی کسی سے ڈهکی چپی نہیں ہیں . *_کہده اکرم کلانچی_*
کلانچ میں ایم پی اے گوادر  میر حمل کلمتی کے سوا کسی نے ایک اینٹ تک نہیں رکهی  *_ابوبکر کلانچی_*
بی این پی سے تعلق رکهنے والے سماجی رہنما   *_کہده اکرم کلانچی_*  اور *_ابوبکر کلانچی_* نے اپنے مشترکہ اخبار  بیان جاری کرتے ہوۓ کہا ہیکہ ایم پی اے گوادر میر حمل کلمتی کے قربانی صرف کلانچ میں نہ بلکہ پورے ڈسٹرکٹ میں کسی سے ڈهکی چُپی نہیں ہیں جب سے 2020-21 بجٹ کے بعد پی ایس ڈی پی میں شامل اسکیمز کی ڈیٹیئل سامنے آئے ہیں  تو تب سے کریڈت لینے کے بازار گرمی کی منظر پیش کر رہی ہیں
حالانکہ کلانچ میں میر فیملی کے  سوا کبهی کسی نے کوئی اینٹ تک نہیں رکها ہے اب آگئے ہیں کریڈٹ لینے ہر کوئی بوٹ شوٹ ہوکر کسی گاڑی کے پاس کهڑا ہوکر فوٹو نکال کر وٹس ایپ گروپ میں جام کا شکریہ ادا کرنے پہنچ جاتے ہیں وائرل ہونے کیلئے مبائل کمپنیز نے اور ایپس بهی اپڈیٹ کئے ہیں جائے وہاں اپنی نمائش کرائیں
یہاں دوسروں کی اسکیمز اپنے نام کرکے شو کرنے میں کوئی فائده نہیں
کچهہ چہرے تو وہی ہیں جو کچهہ سال پہلے کلانچ میں بڑے بڑے اسکیمز ٹهیکہ لے کر کرپشن کی نظر کی ہیں جو آج تک اسکیمز ناکام  ہیں عوام کی بنیادی سہولتوں کیلئے آئے ہوئے کروڈوں روپے آپس میں بندر بانٹ کیئے گئے ہیں.
عوام کو ریلیپ دینے کیلئے پہلے تو ٹهیکداری میں ناکام ہو چکے ہیں  اب لیڈری کرکے دوسروں کی کئے ہوئے کام اپنے نام کرکے ناکام نام کمانے کی کوشش کر رہے ہیں
اُنہوں نے مذید اپنے بیان میں کہا ہیکہ کلانچ میں جتنے بهی اسکیمز آپروب ہوئے ہیں وه *میر حمل کلمتی* کی رحم و کرم سے ہوئے ہیں
پہلے کی طرح اس بار بهی میر صاحب نے کُلانچ یوسی ہاری بیلار کیلئے کچهہ اسکیمز شامل کئے ہیں
جن میں *نالوڈ پرائمری اسکول کیلئے دو نئے  کلاس روم*
*سروڈ گرلز پرائمری اسکول کیلئے دو نئے کلاس روم*
اور *ایم ایٹ روڈ سے لیکر ابراهیم نورمحمد بازار تک 6.5کلومیٹر روڈ* شامل کرکے ایک بار پهر کلانچ کے باسیوں کا دل جیتنے میں کامیاب ہوگیا اور اس نیک کام کیلئے هم تہہ دل سے میر صاحب  کی شکریہ ادا کرتے ہیں
اور اُمید کرتے ہیں آئنده بهی *میر صاحب* اسی طرح کلانچ کے لوگوں کو بنیادی پیسلیٹیز فراہم کرنے کیلئے  اہم کردار ادا کرے گی.

*نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کی پریس کانفرنس* *صوبائی حکومت کرونا وائرس کو مزاق سمجھ رہی ہے حکومت ابھی تک کنفیوژ ہے، نہیں سمجھ رہی کہ یہ ہیلتھ ایمرجنسی کا ایشو ہے یا ڈیزاہسٹر کا معاملہ ہے/رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان/

*نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کی پریس کانفرنس*
*صوبائی حکومت کرونا وائرس کو مزاق سمجھ رہی ہے حکومت ابھی  تک کنفیوژ ہے، نہیں سمجھ رہی کہ یہ ہیلتھ ایمرجنسی کا ایشو ہے یا ڈیزاہسٹر کا معاملہ ہے/رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان/*
*بھاری رقم کےحامل ہونے کی وجہ سے اسے ہیلتھ کے ماہرین کی توسط سے ڈیل کرنے کے بجاۓ ڈیزاہسٹر کے اداروں کی توسط سے ڈیل کیا جارہا ہے۔ جوکہ حکومت کی ناپختگی ہے، اسکا خمیازہ عوام کو تباہی کی صورت میں ملے گا*
*حکومت کی نااہلی کے سبب کرونا وائرس پھیل گئی، اگر مکمل لاک ڈائون نہ کی گئی تو اموات کی شرح بڑھ سکتی ہے۔*
*کرونا وائرس معمولی نہیں عالمی وبا ہے جس کے تدارک کا واحد زریعہ یہ ہے کہ ڈیزاسٹر کے اداروں کے بجاۓ  ہیلتھ ماہرین کی توسط سے ڈیل کیا جاۓ ،  احتیاطی تدابیر اور مکمل لاک ڈائون کیا جاۓ*۔
*پورے صوبہ میں صرف کوئٹہ میں ٹیسٹ کی سہولت ہے باقی تمام اضلاع میں نہیں ہے۔*
*صوبائی حکومت تمام اضلاع یا ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں پی سی آر مشین، موبائل لیب ،کرونا وائرس کی سہولیات اور حفاظتی سامان مہیا کرے ہسپتالوں میں ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیئے فوری اقدامات اُٹھائیں۔خاص*
*ضلع کیچ میں آئسو لیشن وارڈ نان فنکشنل ہے، وینٹی لیٹر موجود نہیں ہیں وینٹی لیٹر کے نام پر تربت میں BIPAP لائے گئے*
*حکومت کی نااہلی کی وجہ سے تربت میں اب تک 7 سینیئر ڈاکٹر اور ان کے فیملی کرونا سے متاثر ہوئے ہیں تربت میں صرف 423 افراد کی سمپلنگ کی گئی جن میں 71 پازیٹیو کیس آئے۔جس کی شرح 18 فیصد بنتی ہے۔*
*ضلع کیچ کی 9 لاکھ کی آبادی ہے اس حساب سے متاثرہ افراد کی تعدادِ ہوشربا ہوسکتی ہے*
*نامناسب اقدامات کے سبب تربت میں روزانہ 3 سے 4 مشتبہ مریض ہلاک ہورہے ہیں*
*حکومت فوری کام ڈائون کرے، ہر اضلاع یا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں پی سی آر مشین، وینٹی لیٹر سمیت تمام حفاظتی سامان پہنچانے کے ساتھ ڈاکٹروں کی تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔ ہسپتالوں میں ایس او پیز پر عملدرآمد کے علاوہ عوام سے اپیل ہے کہ اپنی حفاظت کی خاطر بغیر ضرورت باہر نہ نکلیں، سنیٹائزر اور ماسک کا استعمال لازمی کریں اور ہاتھ ہمشیہ دھوتے رہیں۔

بی این پی اور جے یو آئی ف نے بلوچستان حکومت گرانے کیلئے کمر کس لی/رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان/

بی این پی اور جے یو آئی ف نے بلوچستان حکومت گرانے کیلئے کمر کس لی/رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان/
کوئٹہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے ملک اور بلوچستان کی سطح پر سیاسی فیصلوں کو حتمی شکل دیدی ہے جبکہ سردار اختر مینگل نے بی این پی کی جانب سے آزاد بینچوں پر بیٹھنے کی روزنامہ آزادی کی خبر کی تصدیق کردی ہے۔  گزشتہ روز بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے درمیان اسلام آباد میں ون ٹو ون ملاقات ہوئی ہے۔ سردار اختر مینگل نے مولانا فضل الرحمان کو اپنے حالیہ فیصلے اور مستقبل کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات پر اعتماد میں لیا۔مولانا فضل الرحمان اور سردار اختر قومی سطح کی سیاست اور بالخصوص بلوچستان کی پارلیمانی سیاست پر بھی غور وخوض کیا جسکے بعد دونوں رہنماؤں نے قومی اور صوبائی سطح بالخصوص بلوچستان کی سطح کے فیصلوں پر یکساں مؤقف لیکر چلنے پر اتفاق کر لیا ہے۔بلوچستان میں آئندہ چند روز میں بی این پی مینگل اور جمعیت علماء اسلام کی مرکزی قیادت اس سلسلے میں اپنی پارلیمانی جماعتوں کو ہدایات جاری کردیں گی جسکے بعد دونوں جماعتیں جہاں قومی سطح کے سیاسی رابطے شروع کرینگی وہیں بلوچستان اسمبلی میں موجود پارلیمانی جماعتوں سے بھی رابطے کئے جائینگے۔

ھر قسم کے اشتہارات بنوانے کیلئے رابطہ کریں ۔۔۔مجید احمد ۔03338044304


پیر، 22 جون، 2020

*حب : ( حماد بلوچ ) شہری رضاکار حب کے جنرل سیکریٹری غلام رسول بلوچ نے اپنے ایک جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ پانی ایک بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں

*حب : ( حماد بلوچ )  شہری رضاکار حب کے جنرل سیکریٹری غلام رسول بلوچ نے اپنے ایک جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ پانی ایک بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں مگر عدالت روڈ حب کے ریاٸشی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں حب ڈیم و محکمہ پبلک ھیلتھ انجینرنگ کے تالاب میں وافر مقدار میں پانی کے باوجود عدالت روڈ حب کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں عدالت روڈ کے عوام کو کس چیز کی سزا دی جارہی ہے یہاں کے لوگ تالابوں کے مضر صحت پانی کے مہنگے داموں ٹینکر خرید کر پینے پر مجبور ہے آلودہ و غیر معیاری پانی پینے کی وجہ سے یہاں کے مکین پھپڑوں جلد سانس و دیگر مرض میں مبتلہ ہے پانی کے مصنوٸی بحران پیدا کرنے سے ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگٸی جوڑوں اور تالابوں کا پانی 1000 1500 میں فروخت ہونے لگا سرکاری بور صرف من پسند لوگوں کے گھروں کے سامنے لگادیا گیا ہے حب شہر کے 80 فیصد علاقوں میں محکمہ PHE کے واٹر پاٸپ ہی موجود نہیں ڈپٹی کمشنر لسبیلہ ڈاکٹر حسن وقار چیمہ اسسٹنٹ کمشنر حب محترمہ روحانہ گل کاکڑ سے مطالبہ کرتے ہے کہ وہ نوٹس لے عدالت روڈ سمیت حب کے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بناۓ

بلوچستان (رحمت اللہ بلوچ) نیشنل پارٹی پنجگور کے ضلعی صدر حاجی صالح محمد بلوچ نے آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی کے کامیاب ریلی اور جلسہ

نیشنل پارٹی پنجگور کے ضلعی صدر حاجی صالح محمد بلوچ نے آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی کے کامیاب ریلی اور جلسہ/رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان/ریلی اورجلسہ  عام کی کامیابی پر آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی مین شامل جماعتوں انجمن تاجران  سول سوسائٹی طلباء تنظیموں  اور خصوصآ نیشنل پارٹی کے باہمت نظریاتی فکری ساتھیوں ہمدردوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ال پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی کے کامیاب ریلی اور جلسہ عام  امن دشمن عناصر انسانیت کے قاتلوں کیلئے ایک اہم پیغام ہے کہ پنجگور کے عوام  اب مزید اپنے ننگ ناموس غیرت اور چادر اور چاردیواری کی پائمالی برداشت نہیں کرینگے اب پنجگور کے عوام جاگ اٹھے ہیں اپنے بھر پور سیاسی مزاحمت سے مقابلہ کرکے انکے اخری کمین گاہوں تک انکا پیچا کرینگے انہوں نے نیشنل پارٹی کے کارکنوں خصوصآ پنجگور چتکان خدابادان سراوان گرمکان وشبود تسپ عیسئی بونستان  سوردو سریکوران گوارگو پروم کیل کور سبزاب گچک کلگ  اور دیگر شہروں گاوں کوچہ جات کے دلیر ساتھیوں کی امن ریلی میں بھرپور محنت اور بڑی تعداد میں شرکت کو سہراتے ہوئے کہا کہ نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے ال پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی کے ریلی اور جلسہ عام کو کامیاب بنا کر ثابت کردیا کہ نیشنل پارٹی سب سے بڑی جماعت ہے  جو امن اور عوام کی عزت ننگ ناموس اور جانوں کی حفاظت میں کسی قربانی سے دریخ نہیں کریگی انہوں نے کہا کہ 2013 سے لیکر 2018 تک پنجگور میں امن اور ترقی کی بحالی اور عوام کی چین وسکون کی بحالی میں نیشنل پارٹی اور انکے ورکروں کی لازوال قربانی اور محنت شامل ہیں نیشنل پارٹی پنجگور کی امن کیلئے کسی بھی سطع پر جانے کیلئے تیار ہے جو قوتیں اپنی مفادات کیلئے پنجگور کے امن کو تباہ کرنا چاھتے ہیں ال پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی کا ریلی اور جلسہ عام ان قوتیں کیلئے ایک پیغام ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ پنجگور کے چھ لاکھ ابادی کی رائے کو تسلیم کرکے اپنے عوام دشمن فیصلوں پر نظرثانی کرکے عوامی رائے کا احترام کرکے سماج دشمن امن دشمن اور انسان دشمن عناصر کی ہشت پنائی بند کریں پنجگور انتظامیہ اور پولیس اپنی قانونی اختیار کو استعمال کرکے جرائم کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں

*قیامت کی نشانی بیٹے نے گھریلوں جھگڑے پر ماں پر چاقو سے حملہ کرکے ماں کو شدید زخمی کردی/رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان/

*قیامت کی نشانی بیٹے نے گھریلوں جھگڑے پر ماں پر چاقو سے حملہ  کرکے ماں کو شدید زخمی کردی/رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان/*
تحصیل ماوند کے علاقے بغار وڈھ میں گھریلو جھگڑے پر چاقو کے وار سے بیٹے  کا بوڑھی ماں پر حملہ ۔
 چاقو کے وار سے خاتون کی ناک بری طرح متاثر ۔
 بیٹے نے ماں سے فروخت کرنے کےلئے بکری مانگی نہ ملنے پر ماں پر چاقو سے وار کیا ۔  
بوڑھی زخمی خاتون کو ماوند تحصیل ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
لیویز نے کاروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرلیا ،،رسالدار میجر لیویز شیر محمد مری

بھکر(ظفر اعوان) حکومت پنجاب کے احکامات اور ڈپٹی کمشنر سید موسیٰ رضا کی خصوصی ہدایات پر اسسٹنٹ کمشنر کلورکوٹ کی سربراہی میں سول ڈیفنس آفیسر بھکر نے فلنگ اسٹیشنز / غیر قانونی پیٹرول ایجنسیز کے خلاف ایکشن

بھکر(ظفر اعوان) حکومت پنجاب کے احکامات اور ڈپٹی کمشنر سید موسیٰ رضا کی خصوصی ہدایات پر اسسٹنٹ کمشنر کلورکوٹ کی سربراہی میں سول ڈیفنس آفیسر بھکر نے فلنگ اسٹیشنز / غیر قانونی پیٹرول ایجنسیز کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے رانا فلنگ سٹیشن اکیرانوالہ،تیمور فلنگ اسٹیشن،عثمان فلنگ اسٹیشن،بسمہ اللہ فلنگ اسٹیشن ذمے والا،عدنان فلنگ اسٹیشن،طاہر فلنگ اسٹیشن روڈی،محمد عارف فلنگ اسٹیشن،مشتاق فلنگ اسٹیشن اورفاروق اعظم فلنگ اسٹیشن جنڈانوالہ کوپیٹرولیم ایکٹ 1971،1934 اور 1937 کے تحت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے  سیل کردیاہے۔سول ڈیفنس آفیسر نے مزید بتایا کہ اس ضمن میں کارروائی کا سلسلہ روزانہ بنیاد پر جاری ہے #

شیخوپورہ(ایم۔ایچ۔بابر)گردونواح میں مختلف واقعات کے نتیجہ میں میاں بیوی اور بیٹی سمیت چار افراد جان بحق جبکہ ماں بیٹے سمیت4افراد شدید زخمی ہوگئے

شیخوپورہ(ایم۔ایچ۔بابر)گردونواح میں مختلف واقعات کے نتیجہ میں میاں بیوی اور بیٹی سمیت چار افراد جان بحق جبکہ ماں بیٹے سمیت4افراد شدید زخمی ہوگئے،ریسکیواہلکاروں نے زخمیوں کو طبی امداد کے بعد ہسپتالوں میں جبکہ جان بحق ہونے والوں کی لاشوں کو متعلقہ تھانوں کی پولیس کے حوالہ کردیا گیا،22چک ناظرلبانہ کے قریب شرقپور روڈ پر موٹروئے سے اترنے والے تیزرفتار آئیل ٹینکرنے موٹر سائیکل سوار فیملی کے 3افراد کو کچل ڈالا محنت کش بیوی اور بیٹی سمیت جان بحق ریسکیواہلکاروں نے لاشوں کو نکال کر متعلقہ پولیس کی تحویل میں دے دیا،تفصیلات کے مطابق غازی پور کا رہایشی محنت کش عصمت30سالہ اپنی 27سالہ اہلیہ ثانیہ بی بی اور9سالہ بیٹی سونیا کے ہمراہ شہر سے گھر جارہاتھا کہ 22چک ناظر لبانہ کے قریب موٹر وے کی جانب سے آنے والا تیزرفتار آئیل ٹینکر بے قابو ہوکر موٹر سائیکل سواروں کو کچلتا ہوا اینٹوں سے لوڈر ٹریکٹر ٹرالی سے ٹکرا کر رک گیا،حادثہ کے نتیجہ میں موٹر سائیکل سوار مذکورہ فیملی کے تینوں افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان بحق ہوگئے ریسکیواہلکاروں نے لاشوں کو متعلقہ پولیس کی تحویل میں دے دیا جبکہ آئیل ٹینکر کا ڈرائیور جائے حادثہ سے فرا ر ہونے میں کامیاب ہوگیا پولیس نے آئیل ٹینکر کو تحویل میں لیکر لاشوں کو ضروری کارروائی کے لیے مردہ خانہ منتقل کردیا ہے پولیس مصروف تفتیش ہے،گوجرانوالہ سیکشن پر کالا شاہ کاکو کے قریب تیزرفتار ٹرین کی زد میں آکر45سالہ نامعلوم شخص جان بحق ہوگیا ریلوئے پولیس نے لاش کو تحویل میں لے لیا تاہم ابھی تک شناخت نہ ہوپائی،ٹریفک کے تیسراحادثہ سرگودھا روڈ جھامکے سٹاپ کے قریب تیزرفتار مسافر ویگن اور رکشہ میں تصادم کے نتیجہ میں خاتون سمیت3افراد شدید زخمی ہوگئے ٹریفک حادثہ کے بعد ریسکیوامدادی ٹیموں نے جائے حادثہ پر پہنچ کر تینوں زخمیوں 62سالہ خاتون صغراں بی بی،42سالہ بیٹے عبدالغفار اور34سالہ فیروز سکنہ اجنیانوالہ کو طبی امداد فراہم کرتے ہوئے ڈی ایچ کیوہسپتال شیخوپورہ کے ایمرجنسی میں منتقل کردیا متعلقہ پولیس نے رکشہ اور ویگن کو تحویل میں لیکر کارروائی شروع کردی ہے،ہاوسنگ کالونی کی حدود میں گھریلوں ناچاقی کی بنا پر مشتعل شوہر نے بیوی پر تشدد کرکے اسکو لہولہان کردیااور فرار ہوگیا مضروبہ خاتون کو طبی امداد کے لیے ڈی ایچ کیوہسپتال شیخوپورہ کے ایمرجنسی میں منتقل کردیا گیا بتایا گیا ہے کہ منور اور اسکی بیوی صائمہ کے درمیان غربت کی وجہ سے کئی بار جھگڑا ہوتا رہتا تھا کہ گذشتہ روز بھی دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا طول پکڑ گیا اور صائمہ بی بی کے مشتعل شوہر نے اپنی بیوی کے سر میں ڈنڈا مار کر سر پھاڑ دیا جس سے خاتون لہولہان ہوگئی جس کو طبی امداد کے لیے مقامی ہسپتال کے ایمرجنسی میں منتقل کردیا جبکہ ملزم جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھانہ ہاوسنگ کالونی پولیس مصروف تفتیش ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 شیخوپورہ(ایم۔ایچ۔بابر) گاؤں نرنجی خورد میں بااثر زمیندار نے غریب شخص نصیر احمداوراسکی بیوہ والدہ کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا نصیر احمد کے مطابق بااثر زمیندار کے پالتو غنڈؤں نے ہمراہ گھر پر حملہ کیا اور بیوہ عورت کو مار ما ر کرلہولہان کردیا اورگھر میں موجود مہمانوں کو بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے ملزمان فرا ر ہونے میں کامیاب ہوگئے،مذکورہ ملزمان کے خلاف شرقپور پولیس کارروائی کرنے سے لیت ولعل سے کام لے رہی ہے،دوسری جانب پولیس نے لگائے گئے الزامات کی تصدیق نہ کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔   .   .   .   .   .   .   .

 شیخوپورہ(ایم۔ایچ۔بابر)ڈی پی اوشیخوپورہ غازی محمد صلاح الدین کی طرف سے چلائی جانے والی منشیات فروشوں کے خلاف مہم کے دوران بھکھی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے گاؤں گھنگ کی رہایشی منشیات فروش بدنام زمانہ خاتون نصرت بی بی کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے3کلوچرس برآمد کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا۔
۔۔۔۔۔   .   .   .   .   .   .
 شیخوپورہ(ایم ۔ایچ۔بابر ) شیخوپورہ پولیس ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتوں پر قابو پانے میں مکمل ناکام ہو گئی،نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر ملک طارق کو ڈاکوؤں نے گن پوائنٹ پر لوٹ لیا وہ اپنی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر خانپور جارہے تھے کہ تھانہ ہاؤسنگ کالونی سے چند گز کے فاصلہ پر مسلح موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے روک کر نقدی اور موبائل فون چھین لیا اور فرار ہوگئے، صحافتی حلقوں نے ڈکیتی کی اس واردار ت پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری اور چھینی گئی نقدی و موبائل فون کی برآمدگی کا مطالبہ کیا ہے، شیخوپورہ پولیس ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتوں پر قابو پانے میں مکمل ناکام ہو گئی، تھانہ ہاؤسنگ کالونی کے علاقہ لاہور روڈ پر دو ڈاکو رکشہ ڈرائیور محمد ہارون سے ہزاروں روپے نقدی اور موبائل فون چھین کر فرار ہوگئے، صفدر آباد روڈ پر دو ڈاکو صحافی سردار عدیل ڈوگر سے گن پوائنٹ پر ہزاروں روپے نقدی اور موبائل فون چھین کر فرار ہوگئے،تھانہ صدر فارق آباد کے علاقہ میں ڈاکوشہری اعجاز حسین سے نقدی،موبائل فون چھین کر لے گئے،تھانہ بی ڈوثرن کے علاقہ کمپنی باغ سے نامعلوم چور مزمل حسین کی موٹر سائیکل چوری کر کے لے گئے۔

۔۔   .   .   .   .   .   .   .   .
 شیخوپورہ(ایم۔ایچ۔بابر )نواں کوٹ کی رہایشی مشتبہ کرونا مریضہ شہناز بی بی انتقال کرگئیں 55سالہ مریضہ شہناز بی بی کی کورونا رپورٹ ابھی تک موصولی کی اطلاع ہسپتال ذرائع نے نہ دی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   .   .   .   .
 شیخوپورہ(ایم۔ایچ۔بابر)سیکرٹری پبلک ہیلتھ اینڈانجینئرنگ ندیم محبوب نے ایس ڈی او فیروز والہ محمد عامر کو ترقی دیکر ایکسین ننکانہ صاحب تعینات کر دیا ہے جنہوں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال کر کام شروع کردیا ہے جہاں سنیئر ایڈیٹر سید معظم علی سبزواری،ایس ڈی اوز مجاہد امین غوری،ابرار افضل انجینئرز محمد جنید،مدثر نذیر جٹ،ملک محمد سلیم،مظہر اقبال، شفیق الرحمان وٹو،ہیڈ کلرک محمد رفاقت رندھاواو دیگر نے دفتر پہنچنے پر ان کا پر تپاک استقبال،ایکسین محمد عامر نے دفتر کی تمام برانچز کا دورہ کرنے کے علاوہ ریکارڈ بھی چیک کیا اس موقع پر انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب کی پالیسی کے مطابق تمام ترقیاتی کام پایہ تکمیل تک پہنچائے جائیں گے کرپشن اور کمیشن کا مکمل خاتمہ کرکے میرٹ کو یقینی بنانے کے علاوہ غیر معیاری میٹریل استعمال کرنے والی فرموں کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔   .   .   .   .

 شیخوپورہ(ایم۔ایچ۔بابر)معروف تاجر رہنما سیٹھ شاہ میر نے کہا ہے کہ تاجر برادری ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جسے درپیش مسائل سے نجات دلانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے، معاشی حالات بہتر ہوں گے تو عوام خوشحال ہوگی، کاروبار کو فروغ دیکر ہی عوامی مشکلات میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے حکمرانوں نے تاجر برادری کے مسائل کے خاتمہ کو فوقیت نہ دی تو معاشی حالات مزید ابتر ہوں گے اور تجارتی سرگرمیاں جمود کا شکار ہونے سے عوامی مسائل میں روز بروز اضافہ ہوگا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، سیٹھ شاہ میر نے کہا کہ تاجر برادری نے ہر دور میں ملکی معیشت کی مضبوطی کیلئے کردار ادا کیا ہے ہم آج بھی ملک و قوم کی خاطر ہر قربانی دینے کو تیار ہیں مگر حکمرانوں کو بھی تاجر برادری کے مسائل کے خاتمہ کی خاطر موثر اقدامات اٹھا کر تاجر دوسری کا ثبوت دینا ہوگا ہم کسی پر بے جا تنقید کرنے کے قائل نہیں تاجر برادری نے بار بار حکومتی توجہ اپنے حل طلب مسائل کی طرف دلائی ہے جن پر حکومت توجہ نہیں دے رہی اور انتظامیہ تاجروں کو لاحق مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کررہی ہے جو مایوس کن صورتحال ہے، انہوں نے کہا کہ ڈکیتی و راہزنی اور چوری کی وارداتوں کے باعث تاجر طبقہ شدید خوف اور تشویش کا شکار ہے آئے روز تاجر ڈکیتی چوری و راہزنی کی وارداتوں کا نشانہ بن رہے ہیں جنہیں تحفظ فراہم کرنے اور ملزمان کی گرفتاریاں یقینی بنانا حکومت اور پولیس سمیت دیگر سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں حکومت اور متعلقہ ادارے اس عدم تحفظ کی فضاء کے خاتمہ کیلئے اقدامات اٹھائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔


 شیخوپورہ (ایم۔ایچ۔بابر)اتوار کے روز دنیا بھر کے ممالک میں سورج گرہن کا نظارہ دیکھا گیا اسی طرح شیخوپورہ میں بھی لوگوں نے گھروں اور چوباروں پر چڑھ کر سورج گرہن کا نظارہ کیا،سورج گرہن کے وقت گرمی کی شدت شیخوپورہ میں کم ہوگئی دوربینوں،عینکوں اور ایکسریز کی مدد سے سورج گرہن کو دیکھنے والوں کا کہناتھا کہ اللہ کی قدرت ہے یہ سب اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے،سروئے کے مطابق بعض افراد نے اس کو موجودہ حکومت کی گنتی الٹی ہونے کی تشبیح دیتے ہوئے کہا کہ سورج گرہن نخس ہوتا ہے،پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید ظفر ھادی نے بھی سورج گرہن کو ایکسرئے کی مدد سے دیکھا اورکہا اللہ کی شان ہے وہ بندوں کو نیکی کی طرف بلانے کے لیے مختلف طریقوں اور نشانیاں دکھا کر اپنی طرف رجوع کرواتا ہے،گھروں میں خواتین نے صلوۃ توبہ،ادا کی،پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما منیر قمر واہگہ کی اقامت گاہ نماز کسوف ادا کی گئی جس میں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں فلک شیر،ندیم عباس،اکرم ناز،خالق ورک اوردیگر نے شرکت کی اور محترمہ سمیت بھٹو خاندان کے شہدا کے لیے دعا کی گئی،شیخوپورہ میں سورج گرہن پاکستانی وقت کے مطابق صبح9بجکر 48منٹ پر شروع ہوا اور 1بجکر9منٹ پر ختم ہوگیا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔

 شیخوپورہ(ایم ۔ایچ۔بابر ) لاہورہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے میاں محمد فاروق صادق ایڈووکیٹ کو شیخوپورہ میں ہیومن رائٹس کمیٹی شیخوپورہ کا چیئرمین نامزد کر کے نوٹیفیکشن جاری کر دیا، میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے میاں محمد فاروق صادق ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرے سینئرز نے جس طرح مجھ پر اعتماد کیا ہے میں تہہ دل سے ان کا مشکور ہوں انشاء اللہ میں بلا تفریق اپنے منصب پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا،انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک عبادت صرف نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کا نام نہیں بلکہ ہر معاملہ میں اطاعت الہٰی کا نام ہے، اطاعت میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ نے ہمیں سیکھایا ہے کہ سب سے اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اور کسی کو تکلیف نہ دے، غریبوں مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرنا بھی نیکی ہے خدمت خلقِ خدا، محبت الہٰی کا تقاضا، ایمان کی روح اور دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے انہوں نے مزید کہا کہ باہمی تعاون ہمدردی، خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت ہے جسے فروغ دینا ناگزیر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 شیخوپورہ(ایم ۔ایچ ۔بابر )سا بق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی 67ویں سالگرہ کا کیک کاٹنے کی تقریب ضلعی سینئر نائب صدر چوہدری خالق عزیز مت ورک کے ڈیرہ پر منعقد ہوئی جس میں ضلعی صدر ملک جاوید اکبر ڈوگر، ضلعی نائب صدر چوہدری منیر قمر واہگہ،افتخار احمد بھٹی، سید کاشف گیلانی،حافظ ارسلان خالق ورک ایڈووکیٹ،چوہدری فہد ورک، سیٹھ غلام رسول، محمد دین کاکا، محمد عظیم خاں، مرزا فہیم بیگ، باؤ اسلم، پروفیسر محمد سعید، اقبال بدر، شبیر ڈوگر، سجاد لاڈہ، شیخ سلیم، ذوالفقار احمد، پیر ریاض احمد و دیگر پارٹی رہنماؤں اور کارکنان نے شرکت کی، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری خالق عزیز مت ورک نے کہا کہ بینظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کے علاوہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، عدلیہ کی آزادی، آمریت کے خاتمہ اور غریب عوام کے حقوق کے تحفظ کی علمبردار تھیں، ان کا سیاسی ویژن آج بھی اہل سیاست کیلئے مشعل راہ ہے، مقررین نے حکومت کی طرف سے پارٹی قیادت کے خلاف انتقامی کاروائیوں پر بھی شدید احتجاج کرتے ہوئے کیا کہ ہم ایسے اوچھے ہتھکنڈو ں سے مرعوب نہیں ہوں گے اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں جنہوں نے مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لا کر باہمی روابط مضبوط کئے اور اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مسلم دنیا کا الگ بلاک بنانے کے مشن کو آگے بڑھایا، انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی آج بھی وفاق کی علامت ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری بطور پارٹی چیئرمین جن سیاسی اصولوں کی روشنی میں جدوجہد کررہے ہیں وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سوچ کے عکاس ہیں۔

اتوار، 21 جون، 2020

ناخلف اولاد۔۔۔ ملک نذر حسین عاصم

ناخلف اولاد۔۔۔
ملک نذر حسین عاصم
0333 5253836
=========/=======
سیانے اولاد کے بارے میں کہتے ہیں " کھانے کو دو گھی کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی آنکھ سے"
اولاد انسان ہی نہیں جانوروں کو بھی پیاری ہوتی ہے ماں کی ممتا ہو یا شفقت پدری، ہر وقت لاڈلے کی خواہشات پر قربانی کیلئے تیاررہتے ہیں ہم اولاد سے محبت کے قیدی ہوکر وہ کچھ بھی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو ہمیں کرنا مشکل لگتا تھا اولاد کی آسائش کیلئے والدین پوپھٹنے سے تاریکی کے شبخون مارنے تک چلتی سانسوں کے ساتھ ساتھ محنت کا سفر جاری رکھتے ہیں میں نے وہ عظیم مائیں بھی دیکھی ہیں جنکی بینائ سلائ مشین چلا چلا کرچندھیا جاتی ہے وہ لیل و نہار  جوڑے سیتی رہتی ہے بچے کی آنکھ اگر رات کے کسی پہر کھل جائے تو ماں تب بھی مشین چلا رہی ہوتی ہے ہر روز بچوں سے یہ ہی کہتی ہے آپ سو جاؤ بس یہ ایک جوڑا مکمل کرکے سو جاؤنگی اسکے ہاتھ پاؤں تھک جاتے ہیں لیکن وہ پھر بھی اپنے کام میں مگن رہتی ہے اسے اپنے گھر کے اخراجات کا احساس ہوتا ہے باپ دن بھر کی مشقت کے بعد دکھتےہوئے جسم کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا ہے سوچوں کے مرغولے اڑاتے اڑاتے نہ جانے کب نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے اتنی محنت اتنی تکلیف صرف بچوں کیخاطر ۔ ان کی تعلیم نہ رہ جائے، انکا گھر بنانا ہے انکی شادی کرنی ہے صبح شام یہ فکر جان ہلکان کئے رکھتی ہے لیکن یہ ہی اولاد جنہیں بچپن میں ہم۔چاند، پپو،گڈو یا پیارسے کسی بھی نام سے پکارتے ہیں جب جوانی کی دہلیز تک پہنچتے ہیں انکے تیور بدل جاتے ہیں وہ ماں باپ کو خبطی سا سمجھنے لگتے ہیں ڈھنگ کی نوکری مل جائے تو والدین کے پاس بیٹھنے کیلئے وقت نہیں ہوتا انکی باتیں عجیب عجیب سی لگنے لگتی ہیں ہم ان کے آرام وصحت کا یوں خیال نہیں رکھ پاتے جسطرح انہوں نے ہماری پرورش کی تھی میں نے ایسے والدین بھی دیکھے ہیں جنہیں اولاد نے گھر سے بے دخل کردیا، وہ کسی بیٹی، محلے کے کسی نیک دل شخص کے گھر پر زندگی کے دن گذارنے پر مجبور ہیں میں سوچتا ہوں ایسی بدقسمت اولاد کو رات کو نیند کیسے آتی ہوگی؟ والدین تو نری برکت ہیں شجرسایہ دار ہیں پھر ان سے یہ ناروا سلوک کیسے کیا جاتا ہے؟
جو بچے والدین سے نازیبا اور نامناسب رویہ رکھتے ہیں وہ کسی رعائت کے مستحق نہیں ہیں ایسے لوگوں کی اصلاح کیلئے ترک تعلق ضروری ہے کیونکہ جو والدین کے وفادار نہیں ہیں وہ اچھے دوست کب ہوسکتے ہیں؟وہ کسی سے بھی وفا نہیں کرسکتے۔معاشرے میں ایسے لوگوں کو پہچانئے انکی حوصلہ شکنی کیجئے، انہیں سمجھائیے یہ سب اسلام سے دوری کے ثمرات ہیں

رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان/جمعت علماء اسلام بلوچستان /جماعت اسلامی بلوچستان/ (نیشنل پارٹی) اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی راہنماٶں کی بلوچستان بجٹ پراظہار خیال

رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان/جمعت علماء اسلام بلوچستان /جماعت اسلامی بلوچستان/ (نیشنل پارٹی) اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی راہنماٶں کی بلوچستان بجٹ پراظہار خیال) *کوئٹہ: جمعیت علما اسلام پاکستان کے مرکزی رہنما سابق سنیٹر مولانا حافظ حمداللہ نے کہا ہے کہ بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کا دعویٰ کرنے والوں نے وفاقی بجٹ میں بلوچستان کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو مسترد کر کے سوتیلے پن کا مظاہرہ کیا، وسائل سے مالا مال بدقسمت بلوچستان وفاق کے سوتیلے پن اور نااہل صوبائی حکومت کی نااہلیت کی وجہ سے مسلسل محرومیوں کا شکار ہے۔

*صوبائی حکومت عوام کی نمائندہ حکومت نہیں وزیر اعلیٰ اور وزرء ا کی حیثیت نمائشی پتلوں کی ہیں جو دوسروں کے سہارے جی رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اپنی رہائش گاہ پر جمعیت علما اسلام کے کارکنوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔جمعیت علما اسلام پاکستان کے مرکزی رہنما سابق سنیٹر حضرت مولانا حافظ حمداللہ نے کہا کہ وفاقی بجٹ کے بعد صوبائی بجٹ بھی الفاظ کی ہیرا پیری ہے جس میں عوامی مفاد کے لیے کچھ بھی نہیں، مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے بعد سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا ملازمین کے ساتھ زیادتی ہیں۔

*انہوں نے کہا کہ کرپشن کے خاتمے کا دعوی ٰکرنے والے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے کرپٹ ثابت ہوئے موجودہ حکومت کرپشن کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں ملک میں کرپٹ اور ناجائز منافع خور حکومتی صفوں سے نکل رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ دوسروں کو چور چور کہنے والے خود سب سے بڑے چور ثابت ہوئے ہیں عوام ان چوروں کا محاسبہ کرے گی۔

*ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کا دعویٰ کرنے والوں نے وفاقی بجٹ میں بلوچستان کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو مسترد کر کے سوتیلے پن کا مظاہرہ کیا، وسائل سے مالا مال بدقسمت بلوچستان وفاق کے سوتیلے پن اور نااہل صوبائی حکومت کی نااہلیت کی وجہ سے مسلسل محرومیوں کا شکار ہے،صوبائی حکومت عوام کی نمائندہ حکومت نہیں وزیر اعلیٰ اور وزرء ا کی حیثیت نمائشی پتلوں کی ہیں جو دوسروں کے سہارے جی رہے ہیں۔
 *//کوئٹہ: امیرجماعت اسلامی بلوچستان مولاناعبدالحق ہاشمی نے کہاکہ بجٹ الفاظ کا ہیر پھر بن گیا ہے ہرماہ منی بجٹ،مہنگائی آنے کی وجہ سے سالانہ بجٹ کی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔بجٹ،کمیشن،رشوت اوربدعنوانی ایک ساتھ چل رہی ہے جو لمحہ فکریہ ہے حکومتی کارکردگی دعوؤں،اعلانات تک محدودہیں عملی طور پر ترقی وخوشحالی،روزگار اورتعلیم وصحت کی سہولیات سے عوام کوسوں دورہیں۔

*صحت کی بجٹ کروڑوں کے باوجودغریب عوام کو ہسپتال میں معمولی علاج وادویات میسر نہیں۔کروڑوں روپے تعلیم کیلئے رکھنے کے باوجود نہ گھوسٹ سکول ختم ہوئے نہ گھوسٹ ٹیچرزکا خاتمہ کیا گیا سرکاری تعلیم تعلیمی اداروں میں نہیں برائے نام رہ گیا ہے۔ جن قوموں نے ترقی کیا ہے انہوں نے تعلیم پر دیانت سے خرچ کیے مگر ہمارے ہاں ایسانہیں ہے انہوں نے کہاکہ بجٹ میں تعلیم وصحت پر زیادہ زور دینا چاہیے تھا۔

*مگر عملاًایسانہیں ہوا ترقیاتی کاموں میں کرپشن رکھوایاجائے جب تک ترقیاتی کاموں میں بدعنوانی نہیں رکھوائی جائیگی اور بجٹ میں رکھے گیے رقوم دیانت سے خرچ نہیں ہوں گے تبدیلی نہیں آئیگی۔ترقیاتی کاموں میں دیانت نہ ہونے کی وجہ سے قوم پسماندگی کی طرف گامزن ہے۔ٹھیکیداروں کوٹھیکہ دیکر الیکشن میں ان سے تعاون لیاجاتاہے جولمحہ فکریہ ہے۔ترقیاتی کاموں کیلئے مختص رقم کا زیادہ حصہ کرپشن کی نظرہوجاتاہے۔

*بدعنوانی،منی بجٹ،ماہانہ مہنگائی نے عوام کو حالت خراب اور مشکلات میں اضافہ کر دیاہے۔ ملک میں ہر طرف لوٹ مار جاری احتساب نہ ہونے کے برابرہے حکومتی وعدوں،حکومتی احتساب،حکومتی دعوؤں پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔بدعنوانی سے پاک،صاد ق وامین قیادت ہی ملک کو بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔جو رقم جس مد کیلئے مختص ہو اگر اس میں بدعنوانی نہ ہوجائے تو کچھ حد تک عوامی مسائل میں کمی آسکتی ہے۔

*بھاری قرضے لیکر ہڑپ کرنے والے قوم کے خیر خواہ نہیں۔بلوچستان کے ٹڈی دل حملوں وتباہی پر حکومت کی خاموشی قابل مذمت ہے معیشت کو بدعنوان ی وکرونا،زراعت کو ٹڈی دل نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔جماعت اسلامی بدعنوانی کے خلاف جدوجہدجار ی رکھے گی تاکہ بلوچستان کے عوام بھی ترقی وخوشحالی سے مستفید ہوجائیں۔//کوئٹہ: نیشنل پارٹی کے صوبائی نائب صدر و سابق صوبائی وزیر میر رحمت صالح بلوچ نے کہا ہے کہ مصنوعی حکومت نے صوبے میں عوام اور ملازم دشمن مصنوعی بجٹ پیش کیا ہے جس میں عوام کی بجائی غیر منتخب اور ہارے ہوئے افراد کو نوازا گیا ہے موجودہ حکومت نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ یہ ایک کرپٹ ترین حکومت ہے جسے عوام سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ بات انہوں نے بجٹ 2020-21پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہی۔

*انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تاریخ کا بدترین بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں ملازمین اور عوام کو نظر انداز کیاگیا ہے حکومت نے بجٹ میں صرف غیر منتخب افراد کو نوازنے کے لئے اسکیمات شامل کیں اور ریکارڈ خسارے کا بجٹ پیش کردیا جس کا سارا بوجھ عوام پر پڑیگا، انہوں نے کہا کہ مصنوعی حکومت نے توقعات کے عین مطابق مصنوعی بجٹ پیش کیا جس میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ تک نہیں گیاجسے مسترد کرتے ہیں۔

*ملازمین صوبائی حکومت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں جنہیں ریلیف نہ دیکر حکومت نے زیادتی کی ہے، انہوں نے کہا کہ بجٹ میں سابقہ اداوار کے منصوبوں کو اپنے کریڈیٹ میں ڈالنے کی خوبصورتی سے کوشش کی گئی ہے لیکن آج بلوچستان کے عوام باشعور ہوچکے ہیں انہیں معلوم ہے کونسا منصوبہ کس حکومت نے شروع کیا اور موجودہ حکومت صرف اور صرف سابقہ منصوبوں پر کریڈ یٹ لینا چاہتی ہے۔

*انہوں نے کہا کہ صوبائی بجٹ میں کوئی بھی میگا منصوبہ شامل نہیں ہے جس سے نااہل ترین حکومت کی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ایسے بجٹ کو نہ بلوچستان کے عوام اور نہ ہی سیاسی جماعتیں تسلیم کرتی ہیں ہم اس بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔//خضدار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سابق رکن قومی اسمبلی میرعبدالرؤف مینگل نے کہاہے کہ حکومت نے ملازمین کے ساتھ ناانصافی کی انتہا کردیا

موجودہ بجٹ کے بعد تو ملازمین سمیت تمام لوگ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبورہونگے۔انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ تمام ملازمیں موجودہ بجٹ کو مستردکرتے ہوئے احتجاج کے لئے میدان میں نکلے ہیں بی این پی اس موقع پرملازمین کے ساتھ ہرممکن تعاون کریگی۔انہوں نے کہاکہ ماضی میں جن جماعتوں کے حکومتیں رہی ہیں۔

انہوں نے کسی بھی بجٹ میں ملازمین طبقہ کونظرانداز نہیں کیا ہے ان میں چاہے پیپلزپارٹی ہویامسلم لیگ ہربجٹ میں ملازمین کے تنخواہیں بڑھاتے رہے ہیں یہ پہلاحکومت ہے جس نے ملازم طبقہ کویکسرنظرانداز کیا ہے لہذاحکومت کوچاہیئے مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کی تنخواہیں بڑھائیں۔ انہوں نے تمام ملازم طبقے کویقین دلایاکہ بی این پی ہرقدم پر آپکے ساتھ جدوجہدجاری رکھے گی۔

گناہ سے نفرت کیجیے گناہ گار سے نہیں ((تحریر کائنات ملک ))


گناہ سے نفرت کیجیے گناہ گار سے نہیں
((تحریر کائنات ملک)) .

جام پور تھانہ سٹی میں ایک اور ملزم پولیس تشدد کے دوران جانبحق ایک ماہ میں دوسرا شخص پولیس حراست میں جانبحق۔
جام پورتھانے میں پولیس کے ہاتھوں دوسری ہلاکت کے واقعے نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ۔ کہ وطن عزیز میں قانون نافد کرنے والے ادارے قانون سے بالا تر کیوں ہیں۔ اے روز پولیس گردی پولیس۔ پولیس تشدد سے حولات میں بند ملزمان کی ہلاک ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ کیا ان ہلاک شدہ ملزموں کا مواضنع ان خطرناک مجرموں سے کیا جاسکتا ہے۔۔کیا وہ ملک دشمن دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک تھے جن کے ہاتھ کئی کئی
بے گناہ معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوے ہیں۔۔جن کو ہماری خفیہ اداروں کی نشاندہی پر ہمارے حساس اداروں نے اپنی جان کی بازی لگا کر گرفتار کیا ہو ۔مگر بعد میں ہماری
عدلیہ اسے باعزت بری کردیتی ہے۔ اور کیا ان ملزمان کا ان کرپٹ سیاستدانوں سے زیادہ جرم تھا ۔جنہوں نے پورے ملک پر ڈاکہ ڈال کرعوام کی دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے گئے ۔
۔ اور اپنے فلیٹوں کے لٹرین اور لوٹے تک سونے کے بنوا ڈالے ۔ کیا ان منی لانڈنگ کرکے کھربوں روپے سوئس بینک میں رکھوانے والے۔۔چینی۔مافیا۔اٹا مافیا ۔پٹرول مافیا سے بھی بڑے چور تھے ۔ملک کے لیٹروں کو تو پچاس روپے کے اسٹام کے ساتھ بڑے پرٹو کول سے ملک سے فرار کراتے ہیں۔ اور منی لانڈرنگ مافیا کو ضمانتیں دے کران کو اپنے گھروں کے اے سی روم میں ارام فراہم کرتے ہیں۔ اور بچ جاتے ہیں بچارے غریب عوام۔۔ مگر ان اشرافیہ کو کیا پتہ یہ غریب لوگ ان کے ظلم ستم کے ستاے ہوے۔
کس طرح اپنی گزر بسر کررہے ہیں۔اور بچارے غربت اور مہنگائی کی چکی میں پیسے ہوے مجبور لوگ کبھی حالات کے اگے جو کہ ان اشرفیہ کا پیدا کردا ہے۔ میں بے بس ہوکر اگر مرغی بھی چوری کرتا ہے۔تو یہ ظالم لوگ اس کا اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیتے ہیں ۔کیا گزرتی ہوگی ان گھروں ان والدین پر جن کے لخت جگر کی لاشے ان کے انکھوں کے سامنے پڑے ہوں ۔کیا گزرتی ہوگی ان معصوم بچوں پر جن کا باپ صبح ان کو یہ دلاسہ دے کر گیا ہو ۔کہ میں اپنی گڑیا بیٹی کے لیے گڑیا اور اپنے بیٹے کے لیے سکول کی کتابیں لے کر اوں گا ۔ جب صبح کا بھولا شام کو گھر نہیں لوٹتا ۔تب پولیس کی طرف سے ان بچوں کو ان کے باپ کی بجاے ان کو کفن میں لپٹی لاش دی جاتی ہے۔ریاست کا قانون توانسان کو جینے کا حق دیتا ہے۔مگر ریاست میں ہی قانون کے رکھوالے انسانوں سے ان کا جینے کا حق چھین رہے ہیں ۔نفرت جرم سے ہونی چاہیے ۔جرم کرنے والے سے نہیں۔نفرت گناہ سے ہونی چاہیے گناہ گار سے نہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہم نفرت کی اگ میں اتنے اندھے ہوجاتے ہیں ۔کہ گناہ کی بجاے گناہ گار سے نفرت کرکے کے اسے سب سے بڑا مجرم بنا دیتے ہیں ۔کیا ان قانون کے رکھوالوں کے اپنے گھر میں میں باپ۔بھائی بیٹے نہیں ہیں ۔کیا ان لوگوں کی جگہ ان کا کوئی بھائی باپ بیٹا ہوتا تو ان کے دل پر کیا گزرتی کبھی ان لوگوں نے سوچا ہے۔کیا ان کے سینے میں دل نہیں کیا ان کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔ کیا ان کے اندر ضمیر نام کی کوئی چیز انہیں کبھی بھی ملامت نہیں کرتی ۔پاکستان کے ائین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ ملزم پر سنگین تشدد کرکے اس سے ملزم سے مجرم ثابت کرو۔تھانوں اور ٹارچر سیل میں جو بھی جس بھی ڈگری کا تشدد کیا جاتا ہے۔وہ سب غیر قانونی ہوتا ہے۔ اور اس تشدد پر قانون بھی اس لیے خاموش ہوتا ہے۔کیونکہ قانون خود یہ غیر قانونی عمل کررہا ہوتا ہے پولیس کی حراست میں ملزم یا مجرم پر کسی قسم کا تشدد کرنا منع ہے۔ کیونکہ سزا دینے کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہوتا ہے۔ جسمانی ریمانڈ کا مطلب صرف اور صرف ملزم سے پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ یہ ایک فزیکل موجودگی ہوتی ہے ۔ لہذا متعلقہ معلومات حاصل کرنے کے لیے ملزم پر کسی قسم کا ذہنی یا جسمانی  تشدد آئین کی رو سے منع ہے۔۔ مگر خدا کی لاٹھی بے آ واز ہے۔ ہاں اگر ملزم مجرم ثابت ہوجاتا ہے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ تو اس کو اس گناہ کی اتنی سزا دو جتنا اس کا قصور تھا ۔یہ نہیں کہ انتقام اور نفرت کی اگ میں اتنے اندھے ہوجاو کہ ایک انسان سے اس کے جینے کا حق تک چھین لو۔ اسے ہلاک کردو۔پولیس اپنے ایسے جرم پر ہمیشہ سے پردہ ڈالتی ا رہی ہے۔ اور ان ہلاکتوں کو محض ایک حادثہ قرار دے کر یا ہلاک ہونے والے کا اپنا قصور تھا کا سارا ملبہ ڈال کر خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔اور من گھرٹ سٹوریاں بنا کر میڈیا کو پیش کی جاتی ہیں ۔۔ مگر بھنس بھنس کی بہن ہوتی ہے۔اور ایسے واقعات میں ملزمان کے ورثا کو مطمین کرنے عوام کی انکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر چند روز کے لیے واقعے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کردیا جاتا ہے ۔اور پھر ان کے اپنے پولیس والے تفشیشی افسران کو انکوائری افسران تعنیات کردیا جاتا ہے۔اس دوران پولیس کے مقامی اعلی افسران مقامی سیاسی شخصیت کے تعاون سے ہلاک شدہ افراد کے ورثا پر دباو ڈالا جاتا ہے۔کہ جانے والا تو چلا گیا ہے۔۔اللہ کی یہی مرضی تھی۔اب اپ کہاں پولیس تھانے کے چکروں میں پڑ کر دھکے کھاتے زلیل خوار ہوتے رہو گے۔بہتر ہے کچھ لے کر معاملہ رفع دفعہ کرلو ایسی میں اپ لوگوں کی بھلائی ہے۔۔ویسے بھی پولیس والوں سے دشمنی اچھی بات نہیں ہے ۔ اور اس طرح یہ پولیس والے اپنے جرم پر پردہ ڈالتے ہیں اور اپنے کالے کرتوتوں کو چھپا لیتے ہیں۔۔
حکومت کو چاہیے ۔
ان پولیس والے نئے اور پرانے بھرتی شدہ لوگوں کے لیے اس طرح کے کورس کے تعلیم تربیت کا بندوبست کرے کہ کوئی قیدی پولیس کی حوالگی کے دوران ہلاک نہ ہو۔ایسے پولیس والوں کے خلاف فوری ایف ائی ار درج کرکے ان کےدفعہ جرم 302کے تحت سزا دی جاے۔ اور اس کو نوکری سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برخاست کیا جاے۔ اور کسی بھی ادارے میں نوکری کرنےکے لیے تا حیات نہ اہل قرار دے دیا جاے ۔۔۔۔

(تحریر رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان)( ریاست کادائرہ عمل) گرین کہتا ہے کہ کیونکہ فرد اور ریاست ایک دوسرے کیلئے لازم ملزوم ہیں اسوجہ سے ریاست کے دائرہ عمل کو معتین نہیں کیا جاسکتا ریاست ایک قدرتی ادارہ ہے جو افراد کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے بے حد ضروری ہے ریاست کا اولین ہے

(تحریر رحمت اللہ بلوچ روح عصر بلوچستان)( ریاست کادائرہ عمل) گرین کہتا ہے کہ کیونکہ فرد اور ریاست ایک دوسرے کیلئے لازم ملزوم ہیں اسوجہ سے ریاست کے دائرہ عمل کو معتین نہیں کیا جاسکتا ریاست ایک قدرتی ادارہ ہے جو افراد کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے بے حد ضروری ہے ریاست کا اولین ہے کہ وہ افراد کے حقوق کا تحفظ کرےاور ایسے مواقع فراہم کرے جوفرد کی خوشحالی اور اچھی زندگی کی ضامن ہوں گرین کہتا ہے کہ ریاست نہ تو مطلق العنان اور نہ ہی قادر مطلق ہے ریاست پر چند اندرونی(داخلی)اور بیرونی(خاجی) پابندیاں عائد کی گئی ہیں کو ئی بھی ریاست مطلق العنان نہیں کیونکہ اندرونی طور پر اس پر سب سے بڑی پابندی یہ ہے کہیہ ان تمام رکاوٹوں کو دور کرتی ہے جو افراد کے شخصیت کے ارتقا میں حائل ہوں اسکے علاوہ غیرمعمولی حالات میں افراد ریاست کے خالاف قانونی مزاحمت استعمال کر سکتے ہیں  اسوقت کہ غیر معمولی حالات میں ریاست افراد کی مدد نہ کرے جسطرح ریاست متلق العنان نہیں کہی جا سکتی اسی طرح ریاست قادر مطلق بھی نہیں کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین کی اطاعت کیوجہ سے بیرونی طور پر محدود ہے گرین کہتا ہے کہ ریاست معاشرروں کا معاشرہ ہے ریاست کے اندر تمام معاشروں کے حقوق کا طریقہ جداگانہ ہوتا ہے ان معاشروں کو ریاست نے تخلیق نہیں کیا بلکہ انکا اپنا انتظام ہے اندرونی طور پر ریاست ان تمام معاشروں کے نظام حقوق سے مطابقت رکھتی ہے اور عالم اقوام کی برادری میں ریاست کی حیثیت ایک چھوٹی سی انجن کی مانند ہے حالانکہ ریاست اخلاقی اور منفی کام انجام دیتی ہے لیکن چند امور ایسی ہیں جن میں ریاست کو مداخلت کرنی چاہئے اور انکے انسداد کیلئے ریاست طاقت کا استعمال بھی بجا طور کر سکتی ہے شراب نوشی اور جائیداد کے مسائل میں ریاست کو مداخلت کرنی چاہئیے ریاست کا اولین فرض ہے کہ تعلیم کو عام کرے اور اسکو لازمی قرار دے کیونکہ تعلیم فرد کی شخصیت کے ارتقاء کیلئے بے حد زروری ہے لہذا تعلیم کو عام کرنے کیلئے ریاست طاقت کا استعمال کر سکتی ہے

حب ( حماد بلوچ ) ناسا کیمیکل کمپنی کے محنت کشوں کا کمپنی انتظامیہ کے خلاف لسبیلہ پریس کلب حب اور حب پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ


حب ( حماد بلوچ ) ناسا کیمیکل کمپنی کے محنت کشوں کا کمپنی انتظامیہ کے خلاف لسبیلہ پریس کلب حب اور حب پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ*
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر کمپنی انتظامیہ کے خلاف نعرے درج تھے
*مظاہرین کی قیادت حب کے متحرک سیاسی و سماجی رہنما شریف بگٹی , ایڈوکیٹ شاہ بخش بگٹی , جے یو آٸی لسبیلہ کے رہنما منصور مینگل , جہوری وطن پارٹی کے رہنما اکبر سیال کررہے تھے

*حب :( حماد بلوچ )سماجی تنظیم شہری رضاکار حب کا ایک اہم اجلاس شہری رضاکار حب کے صدر اسرار حکیم زہری کی صدارت میں انکی رہائش گاہ اکرم کالونی حب میں منعقد ہوا*

*حب :( حماد بلوچ )سماجی تنظیم شہری رضاکار حب کا ایک اہم اجلاس شہری رضاکار حب کے صدر اسرار حکیم زہری کی صدارت میں انکی رہائش گاہ اکرم کالونی حب میں منعقد ہوا*
*اجلاس میں شھری رضاکار حب کے بانی سابق کونسلر علی اصغر چھٹہ، جنرل سیکرٹری غلام رسول بلوچ، عبدالرحیم مگسی، نعمان بھنگر، جھانزیب جمال بلوچ، گلزار احمد بگٹی، محمد اسحاق مگسی، مزمل بلوچ اور دیگر نے شرکت کی*
*سماجی تنظیم شہری رضاکار حب کے اہم اجلاس میں منشیات سمیت معاشرتی تمام برائیوں کے خلاف اور اہم عوامی مسائل پر بھرپور آواز بلند اور جدوجھد جاری رکھنے کا ازم و عہد کیا گیا*
*اجلاس میں اوتھل شھر سمیت لسبیلہ بھر میں ہر محاذ سے منشیات کے خلاف اٹھنے والی آواز کی بھرپور ہمایت اور بھرپور شرکت کریں گے*
*اجلاس میں شہری رضاکار حب کے صدر اسرار حکیم زہری نے کہا کہ شھری رضاکار حب ایک سماجی فورم ہے منشیات سمیت معاشرتی تمام برائیوں کے خلاف بھرپور آواز بلند اور جدوجھد جاری رکھیں گے*
*انھوں نے کہا کہ منشیات ایک زہر نوجوان نسل کی قتل ہے منشیات جیسے زہر کے خلاف منشیات مٹاؤ نسل بچاؤ میں متحرک کردار ادا کرنے کے ساتھ دیگر انسداد منشیات کی متحرک تنظیموں کی بھرپور ہمایت جاری رکھیں گے اور 26 جون عالمی انسداد منشیات کے دن کی نسبت منشیات مٹاؤ نسل بچاؤ تحریک کے شعور آگاہی مہم بھی بڑھ چڑھ کر کردار ادا کریں گے*
*پولیس سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو منشیات جیسے زہر کے خلاف مزید مؤثر کاروائیاں کرنی چاہیئے جبکہ حکومت منشیات کے عادی نوجوانوں کے علاج معالج کیلئے اعلان کردہ ری ہیبلیٹیشن سینٹر کا جلد از جلد قیام عمل میں لائے دیگر صورتحال اس اہم مسئلے پر سخت جمھوری ردعمل کا لائحہ عمل طہ کیا جائے گا۔۔*

بھکّر (ظفر اعوان )ڈی پی او بھکر کیپٹن (ر) محمد علی ضیاء کے احکامات پر عیسائی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی سخت کردی گئی۔ ضلع کے تمام چرچ ہائے پر بروز اتوار پولیس کی بھاری نفری تعینات کی جارہی ہے۔


بھکّر (ظفر اعوان )ڈی پی او بھکر کیپٹن (ر) محمد علی ضیاء کے احکامات پر عیسائی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی سخت کردی گئی۔ ضلع کے تمام چرچ ہائے پر بروز اتوار پولیس کی بھاری نفری تعینات کی جارہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق ملک کے دیگر شہروں کی طرح بھکر میں بھی اقیلیتی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ اس ضمن میں ضلع بھر میں واقع تمام چرچ ہائے کی سیکیورٹی کیلئے باقاعدہ پلان ترتیب دیا گیا ہے۔ اتوار کے روز تمام چرچ ہائے پر پولیس کی دیگر نفری کیساتھ لیڈیز پولیس اہلکار بھی متعین کی جارہی ہے۔ متعلقہ ایس ایچ اوز اور ایس ڈی پی اوز ذاتی طور پر اپنے علاقے میں واقع تمام چر چ ہائے کا وزٹ کر رہے ہیں۔ داخلی راستوں پر واک تھرو گیٹس نصب کیے گئے ہیں جبکہ مرکزی راستے کے علاوہ اطراف میں بھی سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ شرکاء کو بعد از چیکنگ داخل ہونے دیا جاتا ہے۔ پادری و دیگر چرچ انتظامیہ پولیس کے اقدامات پر پوری طرح مطمئن ہیں اور مکمل تعاون فراہم کر رہے ہیں۔
 بھکر پولیس عوام الناس کی جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کی سلامتی کیلئے پوری طرح مستعد و چوکس ہے۔

حماد/ کو لسبیلہ بلوچستان میں/ روح عصر نیوز/ کا ڈسٹرکٹ رپورٹر مقرر کردیا گیا ہے۔ نیوز/ انٹرویوز/اشتہارات و دیگر مراسلات کے لئے ان سے رابطہ کریں//03313808750//سرکاری و نیم سرکاری ادارے نوٹ فرما لیں ۔ ادارہ


ہیپی فادر ڈے ۔۔سعدیہ ھما شیخ

ہیپی فادرز ڈے
دھوپ میں وہ
چھاوں جیسا ہے
دل سے نکلی ہوئی
دعاوں جیسا ہے
تپتے صحراوں میں
اولاد کے لئے
ٹھنڈی  ہواوں جیسا ہے
دکھ کے ہر لمحے میں
برستی گھٹاوں جیسا ہے
خوف کی ہر گھڑی میں
پرسکوں فضاوں جیسا یے
گر ہو جاے خفا
تو پھر ہر دن
سزاوں جیسا ہے
ہے بیٹے کے لیے ڈھال
تو ہر بیٹی کے لیے
رداوں جیسا ہے
رتبہ ہے اتنا بلند
کہ رب کی
رضاوں جیسا ہے
مرے لیے تو ہما
مرا باپ بھی
ماوں جیسا یے
سعدیہ ہما شیخ

ہفتہ، 20 جون، 2020

محترمہ سعدیہ ھما شیخ صاحبہ کو بزم غالب کی جانب سے سند امتیاز ملنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ظفر اعوان


آر  اے نیوز کی گروپ ایڈیٹر ۔ورلڈ یونین آف جرنلسٹ کی ایگزیکٹو ممبر
خبر نگار ،کالم نگار ،ادیب ،ناول نگار ،شاعرہ اور ایڈووکیٹ
محترمہ سعدیہ ہما شیخ صاحبہ کو بزم غالب کی جانب سے سند امتیاز ملنے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔۔

ادارہ آر ۔اے ۔نیوز 

سورج گرہن اور پاکستانی ٹائم ...سورج گرہن کے #نقصانات//ڈاکٹر منظور الہی

 #سورج_گرہن اور پاکستانی ٹائم ...سورج گرہن کے #نقصانات،
#وجوہات اور #احتیاط.....
پاکستان میں 21  جون 2020 صبح 9:26 بجے پہ سورج گرہن شروع ہو گا جو 11بجے پر سب سے زیادہ ہوگا اور 12:45  پر ختم ہو جائے گا.
سورج گرہن دیکھنے کا شوق نہ کریں کیونکہ..
سورج گرہن دیکھنے کا یہ شوق بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے. اس لیے ہمیں کچھ بنیادی باتیں سمجھنا ہوں گی اور دوسروں کو بھی اس سے آگاہ کرنا ہوگا.

سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند اپنے مدار میں حرکت کرتا ہوا سورج اور زمین کے بالکل اس طرح درمیان میں آجاتا ہے کہ سورج کو ڈھک دیتا ہے.

اس سے سورج کی روشنی سیدھی زمین تک پہنچنے کی بجائے چاند سے ٹکرا کر زمین تک پہنچتی ہے اور ایسی بہت سی خطرناک ریڈیائی شعائیں زمین تک آجاتی ہیں جو عام دنوں میں زمین تک نہیں پہنچ پاتی.

اگر کوئی انسان تھوڑی دیر کے لیے گرہن کی طرف دیکھے تو یہ شعائیں آنکھ کے پردے کو بری طرح جلا دیتی ہیں. اس بیماری کو میڈیکل سائنس میں Solar Eclipse Retinopathy کہا جاتا ہے

آنکھ کے پردے میں چونکہ درد محسوس کرنے کا نظام (pain receptors) نہیں ہوتا اس لیے اس کے جلنے کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور انسان مکمل نظر ختم ہونے تک اس نقصان سے لاعلم رہتا ہے.

اس بیماری سے یا تو نظر مکمل طور پہ ختم ہو جاتی ہے یا ساری زندگی دھندلا دکھائی دیتا ہے.
بعض لوگوں میں اس سے کلر بلائنڈنس (color blindness)  بھی ہو جاتی ہے جس سے ان میں عمر بھر کے لیے مختلف رنگوں میں فرق کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے.

یاد رکھیں!!!!  یہ ایک لاعلاج بیماری ہے اور کسی دوائی یا آپریشن سے اس کا علاج ممکن نہیں ہے !!

اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سورج گرہن کے دوران زیادہ وقت گھر کے اندر گزارا جائے اور سورج کی جانب بالکل نہ دیکھا جائے.
بچوں کو باہر نہ جانے دیا جائے..

سورج گرہن کو دیکھنے کے لیے ایسے خاص چشمے بنائے جاتے ہیں جن پہ anti reflective coating  کی تہہ چڑھی ہوتی ہے. یہ عام طور پر ویلڈر حضرات اپنے کام میں استعمال کرتے ہیں. آپ ان کی مدد سے اس قدرتی منظر کا نظارہ کر سکتے ہیں.

یاد رہے عام رنگدار چشمے یا گھروں میں پڑے X-Ray فلم اس مقصد کے لیے بالکل غیر موزوں ہیں کیونکہ انہیں اس مقصد کے لیے تیار نہیں کیا گیا ہوتا.

سورج گرہن دیکھنے کے لیے X-Ray فلم کا استعمال سب سے عام خطرناک لاعلمی ہے جس کے بارے میں عوام کو بتانے کی ضرورت ہے. کیونکہ یہ بالکل بھی ان شعاعوں سے آنکھوں کی خفاظت نہیں کرتے.

گرہن دیکھنے کی ذرا سی خواہش آپ کو عمر بھر کی معذوری میں مبتلا کر سکتی ہے جس سے آگاہی ہمارا اولین فرض ہے. 

ہمارے معاشرے میں جہالت کے سبب توہم پرستی بھی بہت عام ہے. لوگ سورج گرہن کو بہت سی آزمائشوں اور نحوست کا سبب بھی سمجھتے ہیں. مگر یاد رکھیں نظر کا چلے جانا کسی نحوست کا نہیں بلکہ گرہن کے طبعی (physical) اثرات کا نتیجہ ہے.

بہت سے نجومی اور کاہن موجودہ سیاسی حالات کی تلخی کو بھی سورج گرہن کے اثرات بتا کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں. حالانکہ یہ بالکل فضول بات ہے. کسی بھی آفاقی مظہر (phenomena) کا ہماری قسمت سے کوئی لینا دینا نہیں.  نا تو ہمارا مذہب اس چیز کی اجازت دیتا ہے اور نا ہی آج تک اس کی کوئی ٹھوس سائنسی شہادت میسر ہو سکی ہے.

جب ہمارے نبی (ص) کے بیٹے حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تو لوگ اسے سورج گرہن کی نحوست قرار دینے لگے جس کے جواب میں نبی (ص)  نے فرمایا:
 "بے شک چاند اور سورج اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انکو کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ جب تم یہ دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، اسکی بڑائی بیان کرو، نماز پڑھو اور صدقہ دو "   (بخاری)

اسلام نے سورج گرہن کے موقع پر ہمیں نفل نماز کا طریقہ سکھایا ہے جسے "نمازِ کسوف" کہا جاتا ہے. اس کا وقت گرہن شروع ہونے سے اس کے اختتام تک ہے. اس نماز میں انفرادی یا اجتماعی طور پہ دو دو کر کے نفل ادا کیے جاتے ہیں جس میں رکوع اور سجود کو لمبا کرنا نبی (ص) کی سنت ہے.

ایسے وقت میں گھروں کے اندر رہ کر اپنی آنکھوں اور ایمان کی خفاظت کیجئے. یہی اس وقت کا بہترین استعمال کریں...ڈاکٹر منظورالہی

رحمت اللہ بلوچ بلوچستان)( غلامی کے بارے میں شاہ ولیاللہ کے خیالات

(تحریر رحمت اللہ بلوچ بلوچستان)( غلامی کے بارے میں شاہ ولیاللہ کے خیالات)شاہ صاحب کے سیا سی افکار کے سلسلے غلامی کا ذکر ضروری ہے آپنےحجتہ اللہ البالغہ میں پر ایک فصل باندھی ہے جس کو قانون فطرت کے عین مطابق قرار دیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ سب انسانوں کو ایک ہی طبیعت پر پیدا نہیں کیا گیا ان میں بعض بالطبع سیادت پسند اور آقا بننے کے خواہش مند ہوتے ہیں یہ وہ اشخاص ہیں جنکو اللہ تعالی نے اپنی حکمت کی بنا پر مالدار پیدا کیا ہے اور انھیں دولت و ثروت بخشی ہے ساتھ ہی انکو فہم و فراست اور سیاست کا وافر حصہ ملا ہے برخلاف اسکے بعض اشخاص بالطبع پھوہڑ غبی(بدسلوک بے ہنر) اور بے ہنر ہوتے ہیں چوپایوں کی طرح جدھر چاہو ہانکو اور جو حکم چاہو انسے منوا لو انکی پیدائش کا مقصد ہی گویا غلامی کی زندگی بسر کرنا ہے ظاہر ہے کہ بہتر طریقہ پرزندگی بسر کرنے کیلئے دونوں قسم کے اشخاص ایک دوسرے کے محتاج ہیں ہر ایک کی راحت دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے اسلئے ضروری ہے کہ انکے درمیان آقااور غلام کا رشتہ ہو لیکن یہ بغیر اسکے ممکن نہیں کہ انکا باہمی تعلق دوامی اور پائیدار نوعیت کا ہوں جب اقوام و قبائل کی آپس میں لڑائیاں ہوتی ہیں تو مغلوب فریق کے بعض لوگ اسیر جنگ کی حیثیت سے غالب فریق کے قبضے میں آجاتے ہیں انکو بھی غلام بنانے میں مالک اور مملوک دونوں کا فائیدہ ہے شاہ صاحب غلامی میں معاشرہ کی فلاح و بہبود کو پنہاں دیکھتے ہیں ممکن ہے کہ عصر جدید کے لوگ اس تصور کو پڑھ کر ناک بھوں(ناراض خفا بیزار) چڑھائیں لیکن انھیں معلوم ہونا چاہئیے کہ شاہ صاحب غلام و آقا کے حقوق میں بہت حد تک مساوات کے کے قائل ہیں حتیٰ کہ وہ غلاموں کو یہ حق دینا چاہتے ہیں کہ مناسب معاوضہ ادا کرکے یا بغیر معاوضہ بھی اگر وہ چاہیں تو آزاد ہوجائیں البتہ یہ عمل قابل غور ہے کہ ان تمام اسیران جنگ میں جنکی اکثریت غلام بنالی جاتی ہے صرف مغلوب ہو جانے سے انکی غبادت پھوہڑ پن(کم فہمی بے ہنر) اور بے ہنری کا یقین کرلینا کہاں تک درست ہے اور یہ سمجھ لینا کیاں تک حقیقت پر مبنی ہے کہ غالب قومیں لازمی طور پر سیادت اور دولت و ثروت سے مالامال ہوتی ہیں عقل و فہم کی اجارہ داری انکو حاصل ہوتی ہے شاید شاہ صاحب کی نظر منگولوں کی طرف مبذول نہیں ہوئی اور انکا ذہن دہلی کے حملہ آورں بالخصوص روہیلوں سے متاثر معلوم ہوتا ہے

جاگیردار اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلاتے ہیں مگر لوگوں کو تعیلم سے محروم رکھتے ہیں ۔۔ تحریر کائنات ملک


جاگیردار اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلاتے ہیں مگر لوگوں کو
تعیلم سے محروم رکھتے ہیں ۔۔
تحریر کائنات ملک ۔۔۔.
ضلع راجن پور کی کل ابادی 20 لاکھ ہے ۔ضلع راجن پور پنجاب کا دور افتادہ اور پسماندہ ضلع ہے اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کے بلند پہاڈ۔تو مشرق میں دریاے سندھ بہتہ ہے ۔یہ بہت زرخیز علاقہ ہے۔یہاں گندم۔کپاس۔گنا۔چاول۔چنا۔سرسوں ۔سورج مکھی۔ تمباکو۔سبزیاں پھل کاشت کیے جاتے ہیں۔اس کی ستر فیصد ابادی دیہات میں رہتی ہے جس کا زریعہ معاش کھیتی باڑی ہے ۔یہاں غریب اور بے روزگار لوگ بہت زیادہ ہیں ۔ یہاں کا محنت کش اور غریب طبقہ محنت مزدوری کی غرض سے کراچی۔بلوچستان۔دوبئی۔اور سودیہ میں جاکر کام کرتا ہے۔چند پڑھے لکھے لوگ سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔قیام پاکستان سے لیکر اج تک ضلع راجن پور پر سرداروں وڑیروں اور جاگیرداروں کا قبضہ ہے ۔یہاں کےسیاست دان سرداروں نے اس ضلع کو پسماندہ رکھا ہوا ہے ۔اور یہاں کے معصوم بھولی بھالی عوام کو ہر پانچ سال بعد سبز باغ دیکھا کر ان سے ووٹ لے کر ایوان اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں ۔اور بچاری عوام ان سرداروں کے ساتھ ہاتھ ملا کر اور سیلفیاں بنا کر اسے سوشل میڈیا کی زینت بنا اپنے دوستوں پر رعب ڈالتے ہیں ۔اوراپنی قسمت پر نازاں ہوتے ہیں۔ یہاں کے شاطر سیاست دان سردار اپنی عوام کو بے وقوف بنا کر اپنی سیاسی دوکانداری کو چمکاے ہوے ہیں۔ اور ان سرداروں کی خوشامد میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی جنگ میں مقامی صحافیوں اور میڈیا کا بھرپور تعاون حاصل ہے ۔یہاں کے سیاست دان ہر دور حکومت میں اپنی سیاسی شطرنج کا کھیل کھیلتے ہوے اپنی سیاسی وفاداریاں اپنے زاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر تبدیل کرتے رہتے ہیں۔اس طرح وہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے پرچم تلے ہم اور ہمارے مفادات ایک ہیں کے سلوگن پر عمل پیرا ہیں ۔ ضلع راجن پور کے سیاست دان سابقہ دور حکومتوں میں اعلی اور اہم عہدوں پر برجمان رہے اور اب بھی موجودہ دور حکومت میں اعلی عہدوں سے فیضیاب ہونے کے باوجود لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق اور ان کو سہولیات دینے اور علاقے کی ترقی خوشحالی کے جھوٹے خواب دلاسوں اور زبانی جمع خرچ کے علاہ عملی کارکردگی میں ناکام ثابت ہوے ہیں۔ان سیاست دانوں کی پہلی ترجیحات میں صرف۔ اور صرف اپنی مرضی کا ایس ایچ او۔کی تعناتی۔ جس سے مخالفین اور کمزور لوگوں پر جھوٹی ایف ائی ار درج کرا کر ان کو دبانا۔اور اپنی پسند کا تحصیلدار۔ کی تقری شامل ہے۔ جس سے وہ سرکاری املاک پر ناجائز قبضے اور کمزور لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا شامل ہیں ۔ضلع راجن پور جہاں صحت اور تعلیمی سہولیات کی پہلے بھی بہت کمی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو تعلیم کے حصول کے لیے ۔ملتان۔لاہور۔اسلام اباد۔ کراچی۔تک جانا پڑتا ہے۔جس سے وہ سفری اخراجات بھی بہت مشکل سے اکھٹاکر پاتے کرتے ہیں۔مگر ان کے مقابلے میں یہاں کے سرداروں جاگیرداروں کے بچے۔پاکستان اور پاکستان سے باہر کی کی مہنگی مہنگی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔اس لیے یہاں کے سرداروں جاگیرداروں کو اس علاقے میں تعلیمی سہولیات اور اعلی تعلیم کے حصول کے لیے کالجز۔اور یونیورسٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اس لیے عام غریب لوگوں کو مقامی یونیورسٹی کے قیام سے محروم رکھا ہوا ۔ضلع راجن پور کے تمام سیاستدانوں نے نوجوانوں کو تعلیم کی بہتر سہولیات نہ فراہم کرکے بہت مایوسی کیا ہے۔ تووہاں کے نوجوانوں نے
بھی اخر کا سیاستدان سرداروں کے رویعہ سے تنگ اکر ضلع راجن پورمیں یونیورسٹی کے قیام کے لیے عملی جدجہد باقاعدہ اعلان کرتے ہوے۔تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے باقاعدہ ضلع بھر کے نوجوانوں کو اس تحریک میں شامل کرنا شروع کردیا ہے۔اس تحریک کا بنیادی مقصد اعلی تعلیم کے حصول کے لیے ضلع راجن پورمیں یونیورسٹی کے قیام ضروری ہے ضلع راجن پورکے متحرک نوجوانوں نے گزشتہ روز تنظیم سازی شروع کردی ۔۔تحریک کے چیئرمین عون زبیرگشکوری،جنرل سیکریٹری زربخت خان گشکوری،وائس چیئرمین نادرپتافی،ڈپٹی جنرل سیکرٹری انصرنذیر،سیکریٹری فناس شہبازفدا،میڈیا اینڈشوشل میڈیا کوآرڈینیٹر جمال ناصر،سیکریٹری انفارمیشن عون رمضان،سیکریٹری ریکارڈمحمدنجم بھٹی،ڈپٹی انفارمیشن سیکریٹری محمدجاوید،ڈپٹی کوآرڈینیٹر شوشل میڈیاعلی حسن گشکوری،ڈپٹی پبلک ریلیشن فہدخان کورائی،سیکریثری پبلک ریلیشن میاں نجم شامل ہیں۔عون زبیرگشکوری اورزربخت گشکوری کا کہنا تھا کہ ہم نوجوان سیاستدانوں سے مایوس ہوکر یہ تنظیم بنائی ہے۔اور ضلع راجن پور میں یونیورسٹی کے قیام تک ہماری یہ تحریک جاری رہے گی۔ ضلع راجن پور آبادی کے لحاظ سے جنوبی پنجاب کا بڑا
ضلع ہے اور یہاں کے لوگوں کو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے یونیورسٹی کی اشد ضرورت ہے اسی لیے ترقی پسند سوچ رکھنے والے نوجوانوں نے یونیورسٹی تحریک کاخیر مقدم کرتے ہوے شامل ہونے کا اعلان کیا ہے
اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں میں یونیورسٹی کی اہمیت و افادیت پر زور دے رہے
ہیں۔اس یونیورسٹی تحریک کی سینٹرل کمیٹی کا کہنا تھا وقت آنے پر ہم احتجاج بھی کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو بھوک ہڑتال کیمپ بھی لگا سکتے ہیں ۔جبکہ دوسری طرف ضلع راجن پور کے سیاستدان سردار ہمیشہ

سے یونیورسٹی کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ضلع جام پور بناو تحریک ہو۔ یاضلع راجن پور میں سوئی گیس دو تحریک ہو۔تو یہ سردار سیساتدان اپنے گماشتوں کے زریعے سے ایسی تحریکیں پھلنے پھولنے سے پہلے ہی ہائی جیک کرانے میں ماہر ہیں اب دیکھتے ہیں یہ نوجوان ضلع راجن پور میں یونیورسٹی بناو تحریک کو کتنا کامیاب کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔یا ماضی کی تحریکوں کی طرح یہ بھی پھلنے پھولنے سے پہلے ہی دم توڑ دے گی اس کا فیصلہ یہ نوجوان خود کریں گے ہماری دعائیں۔اور مکمل تعاون ان کے ساتھ ہے۔۔۔ ۔

بلوچستان (رحمت اللہ بلوچ۔ریذیڈنٹ ایڈیٹر ) بلوچستان اسمبلی کے بجٹ میں ڈیڑھ گھنٹے سے زائد کی تاخیر حکومت اور اپوزیشن اراکین بڑی تعداد میں اسمبلی حال میں موجود

بلوچستان اسمبلی کے بجٹ میں ڈیڑھ گھنٹے سے زائد کی تاخیر

حکومت اور اپوزیشن اراکین بڑی تعداد میں اسمبلی حال میں موجود/رحمت اللہ بلوچ بیوروچیف روح عصر بلوچستان/

وزیر اعلیٰ ‘ وزیر خزانہ اور اسپیکر اسمبلی کی آمد کا انتظار
 ۔مالی سال 2020-21کے لئے پی ایس ڈی پی کا ہجم 118.250ارب روپے

۔49.490ارب روپے جاری جبکہ 56.590ارب روپے  نیۓ منصوبوں کے لئے مختص

۔پی ایس ڈی پی میں کل 2568منصوبے شامل

۔934جاری  جبکہ 1634نئی اسکیمات شامل

۔پی ایس ڈی پی میں 12.177ارب کے بیرونی امداد کے منصوبے بھی شامل

۔بجٹ میں کورونا وائرس اور آفات سے نمٹنے کے لئے 8ارب روپے مختص

۔ریونیو دینے والے اضلاع کے لئے 5ار ب روپے کا ترقیاتی پروگرام بجٹ میں شامل

 ۔صوبے کے ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں ڈیزاسٹر منیجمنٹ ویلجز کے لئے 1.5ارب روپے مختص

۔صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لئے 2بلین مختص
 آئندہ مالی سال کے بجٹ کا کل حجم 465.528ارب روپے ہے

۔آئندہ مالی سال کا غیر ترقیاتی بجٹ 309.032ارب ہے

۔بجٹ میں 360ارب روپے کا ٹیکس ریلیف دیا گیا ہے

۔صوبے کو آئندہ مالی سال میں ریونیو کی مد میں 367.548ارب روپے آمدنی متوقع

۔وفاقی محصولات سے 302.95ارب، صوبے کے محصولات سے 49.945ارب حاصل ہونگے
۔سماجی واقتصادی بہتری کے لئے  پوسٹ کورونا وائرس ریلیف پروگرام کے لئے 3ارب روپے مختص

۔بلوچستان سول ملازمین ہیلتھ انشورنس اسکیم کے لئے 1ارب روپے مختص

۔، وزیراعلیٰ مائیکرو فنانس بلاسود قرضہ جات پروگرام کے لئے 2ارب مختص

۔، وزیراعلیٰ سستا گھر بلاسود قرضہ اسکیم کے لئے 1ارب روپے مختص

۔ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے بجٹ میں 50کروڑ مختص

۔خوراک کے لئے 1ارب کا ریولونگ فنڈ قائم

۔بینشن سرمایہ کاری کے لئے 2ارب روپے مختص
 ۔آئندہ مالی سال میں تعلیم کے بجٹ کا 17فیصد حصہ مختص

۔صحت کے لئے بجٹ کا 10فیصد سے زائد حصہ مختص

۔مواصلات و تعمیرات کے لئے 9فیصد بجٹ مختص

۔آبپاشی کے لئے 4فیصد سے زائد مختص
کوئٹہ، بلدیات کے لئے 4فیصد سے زائد بجٹ مختص

۔زراعت کے لئے ساڑھے تین فیصد سے زائد مختص

۔پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے لئے 3فیصد سے زائد مختص

۔توانائ کے شعبہ کے لئے 2فیصد  کھیل کے لئے ڈیڑھ فیصد، مائنز اینڈ منرلز کے لئے 0.97فیصد بجٹ مختص
 حکومت بلوچستان

کورونا وائرس کی وبا
بروقت عملی اقدامات ، بحالی و تعمیر نو

بجٹ تقریر برائے مالی سال 2020-2021






میر ظہور احمد بلیدی
صوبائی وزیر خزانہ حکومت بلوچستان
20 جون 2020

بجٹ تقریر 2020-2021
جناب اسپیکر!
میں اپنی بجٹ تقریر کا آغاز رب کائنات کے بابرکت نام سے کرتا ہوں جو تمام جہانوں کا مالک ہے اور جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں، ہماری مخلوط حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ 2020-2021 اس مقدس ایوان کے سامنے پیش کرنا میرے لیے بڑے اعزاز اور مسرت کا باعث ہے ۔
جناب اسپیکر!
ہم Covid-19کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک تھکا دینے والا سفر طے کر رہے ہیں، جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس وباءنے عالمی وباءکی شکل اختیار کی اور پوری دنیا میں تیزی سے پھیل گئی، اس وباءنے پاکستان کو بھی متاثر کیا اور اب ہم کورونا وائرس کے اثرات اپنے سماجی اور معاشی شعبے پر بھی ہوتا دیکھ رہے ہیں، Covid-19کے تباہ کن اثرات کے پیش نظر قیمتی انسانی جانوں کو بچانے اور سکڑتی ہوئی معیشت کو بحال کرنے کے لیے حکومت بلوچستان کی کاوشوں اور وسائل کو درست سمت میں منظم کرنے کی ضرورت تھی جس کے لیے ہماری حکومت نے بہتر حکمت عملی کے تحت بروقت اقدامات اٹھائے۔
جناب اسپیکر!
حکومت بلوچستان نے محض لاک ڈا ¶ن پر انحصار نہیں کیا ہم نے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے عوام کو ریلیف پہنچانے اور طبی سہولیات کی فراہمی کو ہر سطح پر ممکن بنایا ، میں حکومت بلوچستان کی جانب سے Covid-19 کی صورتحال کے تناظر میں اٹھائے گئے بعض اقدامات کے نمایاں پہلو ¶ں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
جناب اسپیکر!
٭ کورونا وائرس کے پیشگی اقدامات اور اس کے پھیلاو ¿ کو روکنے کے لیے صوبہ بھر میں 8 مارچ کو ہیلتھ ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا، بین الاقوامی بارڈرز پر عارضی قرنطینہ سینٹرز کا قیام ، محکمہ صحت، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ممکنہ خطرات کے پیش نظر ایمرجنسی ٹیموں کی بارڈرز اور ایئرپورٹس پر تعیناتی سمیت ان کی جدید خطوط پر ٹریننگ اور استعداد کار بڑھانے کو یقینی بنایا۔
٭ حکومت بلوچستان نے کورونا وائرس ایمرجنسی فنڈ کا اجراءکرتے ہوئے اس کے لیے 1 ارب روپے مختص کئے، جس میں صوبائی سرکاری ملازمین نے اپنی تنخواہوں میں سے 318 ملین روپے کا حصہ بھی ڈالا۔
٭ کورونا وائرس ٹیسٹنگ کی تعداد کی صلاحیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، روزانہ کی بنیاد پر 1500افراد کا کورونا ٹیسٹ کیا جارہا ہے اس کی تعداد میں مزید اضافے کے لیے اقدامات کئے جا رہے ہیں
٭ کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کو قرنطینہ اور آئیسولیشن سینٹرز میں رکھنے کے لیے صوبے کے تمام اضلاع میں 68قرنطینہ ، 2148 بستروں پر مشتمل آئیسولیشن سینٹرز قائم کئے گئے۔
٭ طبی سہولیات ،ادویات اور سروسز کی بروقت فراہمی کے لیے میڈیکل پروکیورمنٹ کمیٹی تشکیل دی گئی ، کمیٹی نے طبی آلات ، کورونا وائرس کے حفاظتی لباس، لیبارٹری آلات و مشینری کی فراہمی کو فوری طور پر یقینی بنایا ۔
٭ حکومت نے محکمہ اطلاعات کے ذریعے پرنٹ، الیکٹرانک ،سوشل میڈیا اور ریڈیو پر بھرپور انداز میں تشہیری و آگاہی مہم کا بروقت آغاز کیا جس سے عوام میں کرونا وائرس سے بچاو ¿ سے متعلق احتیاطی تدابیر و دیگر معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔
٭ کرونا وائرس کے پیش نظر صوبے میں لاک ڈا ¶ن کے نتیجے میں مزدور پیشہ اور دہاڑی دار طبقہ بہت زیادہ متاثر ہوا ، کاروبار کی بندش سے معیشت کا پہیہ جیسے رک سا گیا تھا، اس صورتحال کے جائزہ کے بعد حکومت بلوچستان نے رفاعی ادارے اخوت کے مشترکہ تعاون سے 588.5ملین روپے سے باقاعدہ "وزیر اعلی قرضہ سکیم "کا اجرا کیا ، سکیم کے تحت 25000 مستحق افراد کو بلا سود قرضے کی فراہمی جاری ہے۔
٭ کورونا وائرس کی غیر معمولی صورتحال کے سبب صوبے بھر عوام کو ٹیکسز کی مد میں ریلیف دینے کے لیے اپریل تا جون 2020 اہم سروسز سیکٹر، Electricity Duty اور گاڑیوں پر لاگو ٹیکسز سے استثنیٰ دی گئی ہے۔
٭ صوبے بھر میں خدمات کے مخصوص شعبوں پر Balochistan Sales Tax on Services ، الیکٹرسٹی ڈیوٹی اور گاڑیوں پر لاگو ٹیکسز پر استثنیٰ کو 30جون 2021 تک توسیع دی گئی ہے۔
٭ کورونا وائرس سے متاثرہ خاندانوں میں راشن کی تقسیم میں بھی حکومت کو وفاقی حکومت، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، اپوزیشن اور مخیر حضرات سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے حکومت بلوچستان نے تمام ضلعی انتظامیہ کو غریب ، نادار اور مستحق خاندانوں میں راشن کی تقسیم کے لیے فوری طور پر صوبے کی تمام ضلعی انتظامیہ کو 985ملین روپے جاری کر دئیے ۔
٭ مالی سال 2020-2021کے لیے صوبائی حکومت نے مالی بحران کے باوجود کورونا وائرس کی وبا سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنے وسائل سے .5 4 ارب روپے مختص کیے ہیں جو کہ صوبے کی تاریخ میں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سب سے بڑی رقم ہے۔
جناب اسپیکر!
میں اس مقدس ایوان کے سامنے اپنی تمام اتحادی جماعتوں سمیت اپوزیشن کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے کرونا وائرس کی وبائی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کا ساتھ دیا ، مزید برآں میں طب کے مقدس پیشے سے وابستہ افرادی قوت، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف، نرسز، ضلعی انتظامیہ،حکومتی افسران و اہلکاروں سمیت تمام شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر ڈیوٹی سر انجام دینے والے اداروں کا جنہوں نے اس وبائی صورتحال میں حکومت اور عوام کا ساتھ دیا اور ان میں سے کرونا وائرس کی وبا سے متاثر بھی ہوئے یا اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ ہمارے اصل ہیروز ہیں اور ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔
موجودہ بجٹ کا محور عوامی ترجیحات کو مفاد میں رکھتے ہوئے بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر ، محکمہ صحت میں اصلاحات، پیداواری شعبوں سے مزید بہرہ مند ہونے ، سماجی تحفظ کے لیے اقدامات، تعلیم ،پینے کے صاف پانی کی فراہمی، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے، امن و امان کی مکمل بحالی ہے .
حصہ اول (اخراجات)
جائزہ بجٹ: (Budget Review 2019-2020)
جناب اِسپیکر!
آ ئندہ مالی سال2021 -2020کا بجٹ پیش کرنے سے پہلے یہ مناسب ہوگا کہ موجودہ مالی سال 2019-20 کا نظرثانی شدہ بجٹ معززایوان کے سامنے پیش کیا جائے جس کے بعد میں معزز ایوان کو موجودہ صوبائی حکومت کے نئے مالی سال 2020-21کے اِقدامات کے بارے میں آگاہ کرونگا۔جاری مالی سال کے کل بجٹ کا اِبتدائی تخمینہ419.922 بلین روپے تھا۔ نظر ثانی شدہ بجٹ برائے سال 2019-20کا تخمینہ 380.327بلین روپے ہوگیا ہے۔
٭ مالی سال 2019-20کے اخراجات جاریہ کا تخمینہ 293.579بلین روپے تھاجو نظر ثانی شدہ تخمینے میں کم ہو کر 276.150بلین روپے رہ گیا ہے۔
٭ مالی سال 2019-20 کے ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 108.133 بلین روپے تھا جو نظر ثانی شدہ تخمینے میں کم ہو کر 81.824 بلین روپے ہو گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے بلوچستان کے Share وفاقی ٹرانسفر 306.015 ارب سےکم کر کے 275.979 ارب روپے کر دیا ہے جو گذشتہ مالی سال کی نسبت 9.8 فیصد کم ہے جس نے بلوچستان کی مجموعی ترقیاتی اہداف پر گہرے منفی اثرات مرتب کر دیئے ہیں۔
جائزہ بجٹ: (Budget Review 2020-2021)
٭ آئندہ مالی سال 2020-2021 کے ترقیاتی بجٹ (PSDP) کا کل حجم 118.256بلین روپے بشمول 12.177 بلین روپے FPA شامل ہیں ۔
٭ جاری ترقیاتی اسکیمات کی کل تعداد 934جس کے لیے 60.875بلین روپے مختص
٭ نئی ترقیاتی اسکیمات کی کل تعداد1634 جس کے لیے 57.381بلین روپے مختص
٭ آئندہ مالی سال 2020-2021 کے غیر ترقیاتی بجٹ کا کل حجم 309 بلین روپے ہے۔
٭ علاوہ ازیں حکومت بلوچستان اگلے مالی سال 2020-2021 کے لیے 6840 خالی آسامیوں کا اعلان کرتی ہے۔
صحت : (Health)
جناب اِسپیکر!
٭ طب کے شعبے سے وابستہ افرادی قوت ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف، نرسز جو کہ کورونا وائرس کی وباءسے نمٹنے کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں کے لیے ہیلتھ پروفیشنل الا ¶نس کا اجراءیقینی بنایا گیا ہے۔
٭ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں تھیلیسیمیا سینٹرز کا قیام جبکہ گوادر میں نئے سول ہسپتال کی نئی عمارت پر کام کا آغاز۔
٭ شیخ زید ہسپتال کوئٹہ میں موذی مرض کینسر کے علاج کے لیے نئے بلاک پر کام کا آغاز جبکہ بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں امراض قلب کے لیے آئی سی یو سینٹر کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔
٭ صوبے کے 8 اضلاع میں ضلعی ہسپتالوں میں بیچلرز ہوسٹلز کے قیام کے لیے اقدامات۔
٭ کوئٹہ شہر میں واقع نواں کلی کے علاقے میں 30 بستروں پر مشتمل نئے ہسپتال کا قیام۔
٭ ضلع قلعہ عبداللہ کے شہر چمن میں نئے ضلعی اسپتال کے کام کی تکمیل کو یقینی بنایا گیا۔
٭ صوبے میں قائم نئے میڈیکل کالجز جن میں جھالاوان، مکران اور لورلائی میں تعمیراتی کام میں وسعت اور تعینات فیکلٹی ممبرز کی مارکیٹ کے مطابق تنخواہوں اور مراعات میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔
٭ 18 اضلاع میں نئے18 گردوں کے ڈئیلائسسز سینٹرز کا قیام ۔
٭ ہماری حکومت کا سب سے اہم قدم پی پی ایچ آئی بلوچستان (PPHI Balochistan)میڈیکل ایمرجنسی رسپانس سینٹرز (MERC) کے پہلے فیز میں کوئٹہ ۔کراچی ۔چمن شاہراہ پر 8 میڈیکل ایمرجنسی رسپانس سینٹرز کا قیام ہے،
٭ پی پی ایچ آئی کی جانب سے ٹیلی میڈیسن کے پہلے مرحلے میں دور افتادہ علاقوں کو سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے ۔
٭ نئے مالی سال 2020-2021 میں توسیعی حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام (EPI) کو مزید مربوط بنانے کے لیے حکومت بلوچستان کی جانب سے پہلی مرتبہ اس پروگرام سے متعلق انتظامی ڈھانچہ بنایا جارہا ہے جس کے لیے علیحدہ فنڈز اور ڈی ڈی او کوڈ کا اجرائ۔
٭ مالی سال 2019-2020میںفاطمہ جناح جنرل و چیسٹ ہسپتال کوئٹہ کو انسٹیٹیوٹ برائے امراض سینہ کی سطح پر اپ گریڈ کر دیا ہے اور اس کے قیام کے لیے فیکلٹی پوسٹوں اور اس ادارے کے موجودہ بجٹ کو 423 ملین روپے سے بڑھا کر 525 ملین روپے کیا جا رہا ہے ۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں توسیعی حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام (EPI) کے لیے مفت ویکسی نیشن کے لیے 35 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 کے لیے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ بلوچستان (PGMI) کو مکمل طور پر فعال کیا جائے گا اور 167 فیکلٹی پوسٹیں رکھی جا رہی ہیں ۔ اس اقدام سے شیخ زید ہسپتال بھی مکمل طور پر فعال ہو جائے گا، جس سے کوئٹہ اور بلوچستان بھر میں ایک اور ٹرثری کیئر ہسپتال مکمل طور پر کام شروع کرےگا۔
٭ ضلعی ہسپتالوں جن میں تربت، چمن ، خضدار، لورالائی، مستونگ، نصیر آباد، پشین اور ژوب میں 20 بستروں پر مشتمل انتہائی نگہداشت یونٹ کے لیے نئے آئی سی یوز کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
٭ پاکستان کے تمام صوبوں میں ڈینٹل کالجز کا قیام بہت عرصہ پہلے عمل میں لایا گیا تھا لیکن بلوچستان میں اب تک BMC میں ایک ڈینٹل شعبہ کے طور پر کام کر رہا ہے ،اب ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئٹہ میں ایک باقاعدہ ڈینٹل کالج کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور اس کے لیے آئندہ مالی سال میں 79 فیکلٹی کی آسامیاں رکھی جا رہی ہیں جو کہ ایک تاریخ ساز عمل ہوگا۔
٭ صوبے کے دور دراز علاقوںمیں معیاری صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ، ملک کے دوسرے صوبوں میں بہت سے ضلعی ہسپتالوں کو ٹیچنگ کا درجہ دیا گیا تھا لیکن بلوچستان میں اب تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ،ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم 8مزید DHQ ہسپتالوں کو ٹیچنگ کا درجہ دیں گے۔ اس سلسلے میں ان ہسپتالوں کے لیے میڈیکل ٹیچنگ کی آسامیاں اور خطیر رقم مختص کی جا رہی ہے۔
٭ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہیلتھ ایمرجنسی ائیر ایمبولینس شروع کرنے کے لیے اور ائیر ایمبولینس کی خریداری کے لیے مالی سال 2020-2021 میں 2.5 ارب روپے مختص۔
٭ نئے مالی سال 2020-2021 میںمحکمہ صحت کے لیے 1266 نئی آسامیاں رکھی گئی ہیں ، اس کے علاوہ 468 نئی آسامیاں میڈیکل ایجوکیشن کے لیے الگ سے تخلیق کی گئی ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں صحت کے شعبے کو مزید بہتر بنانے کے لیے حکومت نے غیر ترقیاتی فنڈز موجودہ 23.981 بلین سے بڑھا کر 31.405 بلین روپے رکھے جا رہے ہیں جو کہ گذشتہ مالی سال کی نسبت 32فیصد زیادہ ہے جبکہ ترقیاتی مد میں 7.050بلین روپے مختص کئے ہیں۔
زراعت(Agriculture)
جناب اسپیکر!
زراعت کا شعبہ بلوچستان کے پیداواری شعبہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، کورونا وائرس اور ٹڈی دل کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر زرعی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔
٭ ٹڈی دل کے حملوں سے زرعی پیداوار میں خاطر خواہ کمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے ، جس کے لیے حکومت بلوچستان نے دسمبر 2019 کو ٹڈی دل ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا تھا ، عالمی ادارہ خوراک نے وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹڈی دل کے حملوں کا دورانیہ دو سال سے بھی طویل ہونے کا خدشہ ہے ، حکومت اس امر سے بخوبی آگاہ ہے اور اس کے تدارک کے لیے اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات اٹھا رہی ہے مگر اس ضمن میں وفاقی حکومت اور بین الاقوامی اداروں کا تعاون بھی ناگزیر ہے ۔
٭ ٹڈی دل کے خطرات کے پیش نظر محکمہ زراعت نے 181 مختلف ٹیموں کو اس کے تدارک کے لیے ذمہ داریاں تفویض کی ہیں اور اس کے تدارک کے لیے اسپرے و دیگر بنیادی اقدامات اٹھانے کے لیے آئندہ مالی سال 2020-2021 میں 500ملین روپے رکھے ہیں ، جبکہ رواں مالی سال 2019-20 اس مد میں 404 ملین روپے کا اجراءکر دیا گیا ہے۔
٭ صوبے کی زرعی پیداوار کو بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کے لیے آئندہ مالی سال 2020-2021 میں زرعی ایکسپو کا انعقاد کیا جائےگا جس کے لیے ملکی و بین الاقوامی ماہرین کو زرعی پیداوار بڑھانے اور موجودہ پیدا ہونے والی زرعی اجناس کے لیے نئی منڈیوں کا حصول شامل ہوگا ۔
٭ حکومت بلوچستان نے مالی سال 2019-20 صوبے بھر کے زمینداروں اور کاشتکاروں میں زرعی پیداوار کی بہتری کے لیے 31445 کلوگرام زرعی بیج، 5229 زرعی آلات، 7387روئی کے بیگز تقسیم کئے۔
٭ صوبے میں جدید کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے 11اضلاع میں 85ٹنل فارمنگ میں 55کو شمسی توانائی کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے تاکہ زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہو سکے اور اسی طرح 53750 پختہ نالیاں تعمیر کی گئیں جنہیں میرانی ، سبکزئی اور کچھی کینال کمانڈ ایریا کے ساتھ منسلک کیا گیا
٭ مالی سال 2020-2021 میں حکومت میرانی ڈیم کمانڈ ایریا فیز۔II ،سبکزئی ڈیم فیز۔III ،کچھی کینال کے کمانڈ ایریا کی ترقی کے اقدامات زیر غور ہیں جس سے لاکھوں ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے میں مدد ملے گی۔
٭ مالی سال 2020-21 میں صوبے میں کسانوں کو کھاد کی فراہمی کے لیے 24 ملین روپے سبسڈی کی مد میں مختص
٭ زراعت کے شعبے میں زراعت افسران اور فیلڈ اسسٹنٹ کا ایک کلیدی کردار ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج تک تیکنیکی مہارت کے حامل افرادی قوت کے لیے بجٹ میں کوئی سہولت نہیں دی گئی لیکن اب ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس اہم پیداواری شعبہ کے افسران اور تیکنیکی عملے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے بجٹ فنڈز رکھے جائیں اور اس سلسلے میں تمام ضلعی و ڈویژنل افسران کے لیے آئندہ مالی سال 2020-2021 میں گاڑیاں اور ایک ہزار سے زائد فیلڈ اسسٹنٹ کے لیے موٹر سائیکلوں کی فراہمی کے لیے فنڈز رکھے جائیں گے۔مجموعی طور پر اس ضمن میں محکمہ زراعت کی بہتری کے لیے غیر ترقیاتی بجٹ میں 640.775 ملین روپے فنڈز رکھے جا رہے ہیں۔
٭ آئندہ مالی سال کے لیے ضلع قلعہ سیف اللہ اور قلات میں کولڈ سٹوریج کے قیام کے لیے 100 ملین روپے مختص
٭ زراعت کے شعبہ کے لیے مالی سال 2020-2021 میں 263نئی آسامیوں کااجراءکیا گیا ہے
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 4.121 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 11.071بلین روپے مختص کئے ہیں۔
کالجز ہائیر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن (Higher & Technical Education)
جناب اسپیکر!
موجودہ دور میں ہائیر ایجوکیشن کی اہمیت سے انکار نہیں ، اگرچہ پچھلی حکومتوں نے HEC کے فیصلے کے تحت چند ڈگری کالجز میں BS پروگرام کا آغاز کیا تھا لیکن ان کالجز میں متعلقہ شعبوں میں ناتو کوئی تعیناتی عمل میں لائی اور ناہی کوئی فنڈز رکھے گئے ،اب ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام ڈگری کالجز جن میں BS پروگرام جاری ہے ان میں فیکلٹی کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی اور فنڈز بھی فراہم کئے جائیں گے ۔
٭ 39 انٹر کالجز کو ڈگری کالجز کا درجہ دیا جا رہا ہے اور ان کے لیے 301 ملین روپے غیر ترقیاتی بجٹ سے مختص کئے جا رہے ہیں تاکہ معیاری BS پروگرام کا آغاز کیا جا سکے ۔
٭ گرلز کالجز کا ہائیر ایجوکیشن میں ایک اہم کردار ہے اس سلسلے میں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں 19 ڈگری گرلز کالجز کے پرنسپلز کو گاڑیاں فراہم کی جا رہی ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں فیز۔I کے تحت صوبے کے 79 ڈگری کالجز میں بہترین تعلیم کے فروغ کے لیے انقلابی اقدامات کئے جا رہے ہیں جس کے تحت ہر کالج میں کمپیوٹرز ، سمارٹ بورڈ، لائبریری کتب ، سائنسی آلات کی فراہمی، انٹر نیٹ کی سہولت، کھیلوں کے سامان وغیرہ کی خریداری کے ایک پیکج ترتیب دیا گیا جس کے لیے 569 ملین روپے فراہم کئے جائیں گے، سائنس اور انگلش مضامین کے اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مالی سال 2020-2021 مقررہ تنخواہ پر ہنگامی بنیادوں پر ضرورت کے مطابق متعلقہ مضامین پڑھانے کے لیے 118.500ملین روپے رکھے گئے ہیں۔
٭ گرلز کالجوں میں بسوں کی فراہمی کے لیے مختص کردہ 300 ملین سے 33 بسوں کی خریداری عمل میں لائی جا چکی ہے۔
٭ جامعات کے لیے یونیورسٹی فنانس کمیشن کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے جبکہ آئندہ مالی سال 2020-2021 میں 8 پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے لیے Grant in Aid کی مد میں 3.94بلین روپے رکھے جا رہے ہیں۔
٭ تمام انٹر کالجز کو ڈگری کالجز کا درجہ دیا جا رہا ہے ،جس کے لیے پہلے سے مختص کردہ 450 ملین روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔
٭ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ گرلز کالج کوئٹہ کینٹ میں تمام سہولیات سے آراستہ ڈیجیٹل لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے لیے 50 ملین روپے مختص کئے گئے تھے، دوسرے مرحلے میں مزید 5کالجز میں ڈیجیٹل لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائےگا۔
٭ رواں مالی سال میں تمام کیڈٹ اور ریذیڈنشل کالجز میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک ارب 29کروڑ روپے میں 57کروڑ روپے خرچ کئے گئے جبکہ کیڈٹ کالجز قلعہ عبداللہ، خاران اور آواران میں باقاعدہ کلاسز کا اجراءعمل میں لایا جائےگا۔
٭ نئے مالی سال میں رکھنی ضلع بارکھان میں لورالائی یونیورسٹی کا سب کیمپس قائم کرنے کی تجویز ہے۔
٭ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے فروغ کے لیے حکومت مزید 2پولی ٹیکنیک ادارے قائم کرنا چاہتی ہے جس میں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ دالبندین اور چمن شامل ہیں جس کے لیے آئندہ مالی سال کے دوران 150 ملین روپے مختص ۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے غیر ترقیاتی مد میں 11.783بلین روپے مختص کئے ہیں۔
ثانوی تعلیم(Secondary Education)
جناب اسپیکر!
٭ مالی سال 2020-2021 میں فیز۔I کے تحت صوبے کے 100 ہائی سکولز میں بہترین تعلیم کے فروغ کے لیے انقلابی اقدامات کئے جا رہے ہیں جس کے تحت ہر سکول میں کمپیوٹرز ، سمارٹ بورڈ، لائبریری کتب ، سائنسی آلات کی فراہمی، انٹر نیٹ کی سہولت، کھیلوں کے سامان وغیرہ کی خریداری کے ایک پیکج ترتیب دیا گیا جس کے لیے 22 ملین روپے فراہم کئے جائیں گے، سائنس اور انگلش مضامین کے اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مالی سال 2020-2021 مقررہ تنخواہ پر ہنگامی بنیادوں پر ضرورت کے مطابق متعلقہ مضامین پڑھانے کے لیے 89 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔
٭ 53 پرائمری سکولوں کو مڈل سکول کا درجہ اور 53 مڈل سکولوں کو ہائی سکول کا درجہ دیا جا رہا ہے۔
 ٭ GPE پروجیکٹ" کے تحت قائم 47 گرلز پرائمری سکولز کو مڈل کا درجہ دیا جائےگا، اسی طرح GPE" پروجیکٹ " کے تحت قائم شدہ 18گرلز مڈل سکولز کو ہائی کا درجہ دیا جائےگا۔
٭ "بلوچستان ایجوکیشن سپورٹ پروگرام "کے تحت قائم 85 پرائمری سکولز کو مڈل کا درجہ دیا جائےگا۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں صوبے بھر میں موجود سکولوں کی مزید بہتری کے لیے 402.8 ملین روپے اور فرنیچر کی خریداری کے لیے 415 بلین روپے بھی مختص کئے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں صوبے کے تمام دوردراز علاقوں کے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت کی فراہمی کے لیے بسوں کی خریداری کے لیے 169 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ "بلوچستان ایجوکیشن فا ¶نڈیشن "کے زیر اثر خدمات سرانجام دینے والے کمیونٹی سکولز کے لیے (Grant in Aid)کی مد میں 295 ملین روپے سے بڑھا کر 409 ملین روپے کر دی گئی ہے۔
٭ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر بلوچستان بھر کے 450 ہائی سکولز میں آئی ٹی ٹیچرز کی آسامیاں تخلیق کی جا رہی ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں صوبے کے 158 شیلٹر لیس سکولوں کو Chief Minister Education Initiativeکی مد میں 1.5 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبہ کی استعداد کار بڑھانے کے لیے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کے لیے 200 ملین روپے رکھے گئے ہیں
٭ نئے مالی سال 2020-21 کے دوران صوبے کے 16اضلاع کے سکولز میں ڈیجیٹل لائبریریوں کے قیام کے لیے 50 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ پائلٹ پراجیکٹ کے تحت لورالائی اور تربت کے اضلاع میں نئے مالی سال 2020-21 کے دوران لڑکیوں کے لیے بورڈنگ (Boarding)سکولز کی تعمیر کے لیے 100ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 کے لیے شعبہ ثانوی تعلیم میں 1486نئی آسامیوں کی تخلیق کی گئی ہے جنہیں بلوچستان پبلک سروس کمیشن اور ٹیسٹنگ سروسز کے ذریعے یقینی بنایا جائےگا۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں شعبہ تعلیم کے مجموعی ترقیاتی مد میں 9.107 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 51.873بلین روپے مختص کئے ہیں۔
خوراک(Food)
جناب اسپیکر!
کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت فوڈ سیکورٹی کے لیے خاطر خواہ ذخیرہ رکھتی ہے تاکہ بحرانی کیفیت سے فوری طور پر بہتر انداز میں نمٹا جا سکے۔ صوبائی کابینہ نے اس مد میں مالی سال 2020-2021 میں ایک لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کی منظوری دی ہے جس کے لیے 6 ارب روپے State Trading کے تحت رکھے گئے ہیں۔
٭ آئندہ مالی سال 2020-2021 کے دوران گندم کی خریداری کے لیے اور غیر مالیاتی اداروں کو بلاسود قرضہ کی فراہمی کے لیے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 کے لیے فوڈ سبسڈی کی مد میں 300ملین روپے مختص کئے گئے ہیں ۔
٭ آئندہ مالی سال کے دوران 4نئے گوداموں کی تعمیر کے لیے 70ملین روپے رکھے گئے ہیں۔
٭ کوئٹہ کے علاقے سریاب میں PR سینٹر میں گندم کے ذخیرے کی بہتر نگرانی اور ترسیل کے نظام کو مستحکم بنانے کے لیے ڈیجیٹل سرویلنس سسٹم کے قیام کے لیے 75 ملین روپے مختص ۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 0.382 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 743.578 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
دیہی ترقی(Local Government)
جناب اسپیکر!
کورونا وائرس وباءکے پیش نظر دیہی ترقی میں ہنگامی بنیادوں پر 27.37 ملین روپے ایمرجنسی ریسپانس کے لیے جاری کئے گئے۔ محکمہ لوکل گورنمنٹ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ صوبے کے تمام دورافتادہ علاقوں میں ایمرجنسی میونسپل سروسز کی فراہمی جس میں کورونا وائرس سے بچا ¶ کے لیے قائم تمام قرنطینہ و آئیولیشن سینٹرز، عوامی مقامات، سرکاری دفاتر، ٹرانسپورٹ و دیگر جگہوں کو جراثیم کش اسپرے کرنے، واک تھرو گیٹس کی تنصیب و صفائی ستھرائی کے لیے کوشاں ہے۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبہ کے لیے 105 نئی آسامیاں تخلیق کی گئی ہیں ۔
٭ مالی سال 2019-20 میں لوکل گورنمنٹ کی 74 اسکیمات کے لیے 2 ارب روپے رکھے تھے جن پر ترقیاتی کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
٭ ہماری صوبائی مخلوط حکومت لوکل گورنمنٹ سسٹم کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے جس کے لیے مالی سال 2020-2021 میں Grant in Aid کی مد میں 11.42 ملین روپے مختص۔
٭ آئندہ مالی سال 2020-2021 میں صوبے کے تمام یونین کونسلز کو ضلعی سطح پر پیدائش اور فوتگی رجسٹریشن کے اندارج کے لیے نادرا (NADRA) کے ڈیٹا بیس کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے اور اس مد میں 515 کمپیوٹرز کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے مکمل طور پر فعال کر دیا جائیگا۔
٭ آئندہ مالی سال 2020-21 میں سپن کاریز میں ماڈل تفریحی پارک کے قیام کے لیے 50 ملین روپے مختص
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 4.184 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 12.995 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
مواصلات و تعمیرات(Communication & Works)
جناب اسپیکر!
٭ تعمیراتی شعبہ میں جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے محکمہ مواصلات و تعمیرات میں "ڈیزائن سیل " کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، واضح رہے کہ موجودہ سرکاری شعبہ کا انفراسٹرکچر کی ڈیزائننگ کا کام پرائیویٹ ڈیزائنرز سے کروایا جا تا ہے، اس اہم منصوبے کے لیے مالی سال 2020-2021میں 60 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ محکمہ مواصلات و تعمیرات کو جدید مشینری جس میں گریڈرز کی خریداری کے لیے مالی سال 2020-2021 میں 350 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔
٭ ہماری مخلوط حکومت بیروزگار ڈپلومہ ہولڈرز اور انجینئرز کے لیے انٹرن شپ پروگرام کا اجراءکیا ہے اور اس اہم منصوبے کے لیے مالی سال 2020-2021میں 45 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ صوبے بھر میں شہری ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ٹریفک انجینئرنگ بیورو کا قیام بھی مالی سال 2020-2021 میں لایا جائے گا۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں بلوچستان سول سیکریٹریٹ کوئٹہ میں نئی سمارٹ بلڈنگ، نئے بلاک اور بے بی ڈے کیئر سینٹر کی تعمیر کے لیے 395 ملین روپے مختص ۔
٭ نئے جوڈیشل کمپلیکسز (کوئٹہ، پسنی، ژوب اور کوہلو) کی تعمیر کے لیے آئندہ مالی سال کے دوران 239ملین روپے رکھے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 33.873 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 11.397 بلین روپے مختص کئے ہیں۔

امن و امان(Law and Order)
جناب اِسپیکر!
٭ صوبے بھر میں امن و امان کی بحالی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار ہمیشہ سے قابل تقلید رہا ہے جس پر ہمیں فخر ہے۔ پولیس اور بلوچستان کانسٹبلری کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں جبکہ انہیں جدید ساز وسامان کی فراہمی کے لیے مالی سال 2020-2021 میں 822 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-21 کے دوران لیویز فورس کی تنظیم نو اور بہتری کے لیے 1117 ملین روپے رکھے جا رہے ہیں
٭ کوئٹہ شہر کی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئٹہ سیف سٹی پراجیکٹ (جو کہ عرصہ دراز سے تعطل کا شکار تھا) کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔
٭ گوادر سیف سٹی پراجیکٹ کی باقاعدہ منظوری ہو چکی ہے۔
٭ آنے والے مالی سال 2020-21 کے دوران CTD ،QRG اور Socio Economic Unit کے لیے کثیر المقاصد سینٹرز کی تعمیر کے لیے 100 ملین روپے مختص
٭ نئے مالی سال 2020-21 میں ہر ڈویژنل سطح پر Disaster Management Villages کے قیام کے لیے 200 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے میں مجموعی طور پر غیر ترقیاتی مد میں 44 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
آبپاشی (Irrigation)
جناب اِسپیکر!
٭ رواں مالی سال میں دریا بولان کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بولان ڈیم اور گوادر میں شنزانی کے مقام پر ڈیم کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
٭ مالی سال 2020-21 کے لیے مختلف نئے ڈیمز کی تعمیر کے لیے 265 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ کچھی کینال کمانڈ ایریا کی ترقی و توسیع جس میں ہزاروں ایکڑ بنجر زمین قابل کاشت آ سکے گی کے لیے 600 ملین روپے مختص۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے غیر ترقیاتی مد میں 3.723 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
آبنوشی(Public Health Engineering)
جناب اسپیکر!
کوئٹہ شہر کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے منگی ڈیم منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے، برج عزیز خان اور بابر کچ ڈیمز کی فیزیبلٹی سٹڈی جاری ہے جن کے بننے سے کوئٹہ شہر اور گردونواح کے علاقوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہو سکے گا۔
٭ کینال واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ سے جعفر آباد ، نصیر آباد، صحبت پور اور سبی کے اضلاع اور ژوب شہر کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے سبکزئی ڈیم سے پانی مہیا کرنے کے اقدامات اور فزیبلٹی بنانے پر کام ہو رہا ہے ۔
٭ گوادر، پسنی اور گردونواح کے علاقوں کو شادی کور، آکڑہ کور ڈیمز سے پائپ لائن کی مدد سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی جاری ہے جو کہ اس سے قبل لوگ ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر تھے۔
٭ مالی سال 2020-21 کے دوران صوبے کے مختلف اضلاع میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے 12 نئی اسکیمات کی مد میں 354.20 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں آبنوشی و آبپاشی کے لیے مجموعی ترقیاتی مد میں 15.006 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 4.553 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
معلومات عامہ (Information)
جناب اسپیکر!
محکمہ اطلاعات کا حکومت اور پریس کے مابین خوشگوار تعلقات کو فروغ دینے میں ہمیشہ سے کلیدی کردار رہا ہے۔ کورونا وائرس کی خطرناک صورتحال کے دوران پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے حکومتی اقدامات ، پالیسیوں کو اجاگر کرنے کے لیے محکمہ کی کاوشیں قابل تحسین ہیں، خاص طور سے بروقت معلومات تک رسائی اور عوام میں شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے محکمہ کے افسران و اہلکاران فرنٹ لائن پر دن رات کام کر رہے ہیں ۔
٭ رواں مالی سال میں جرنلسٹ ویلفیئر فنڈ اور ہاکرز ویلفیئر فنڈکی پالیسیز میں تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ترامیم زیر غور ہیں جس کے تحت جرنلسٹ ویلفیئر فنڈ اور ہاکرز ویلفیئر فنڈ میں سرمایہ کاری سے حاصل منافع کو صحافیوں اور ہاکرز کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائےگا۔
٭ رواں مالی سال 2019-20 کے دوران حکومت بلوچستان نے صحافیوں کی رہائشی کالونی کے لیے اراضی کے دستاویزات کی فراہمی کو یقینی بنایا ۔
٭ رواں مالی سال کے دوران نظامت تعلقات عامہ میں کثیر المقاصد ہال کی تعمیرکا کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔
٭ محکمہ تعلقات عامہ میں گورننس پالیسی پراجیکٹ (World Bank) کے مالی تعاون سے الیکٹرانک اینڈ سوشل میڈیا مانیٹرنگ سیل کے قیام کے لیے Concept Paper کی باقاعدہ منظوری ہو چکی ہے جس پر جلد کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔
٭ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اب تک ریڈیو ذرائع اطلاعا ت کا اہم ذریعہ ہے صوبائی حکومت نے اس ذرائع کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نئے FM ریڈیو اسٹیشن کے قیام کی تجویز زیر غور ہے۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبہ میں افرادی قوت بڑھانے کے لیے نئی آسامیاں تخلیق کی جائیں گی۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے غیر ترقیاتی مد میں 0.657 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
معدنیات و معدنی وسائل (Mines and Minerals)
جناب اسپیکر!
٭ موجودہ مالی سال میںکورونا وائرس اور لاک ڈا ¶ن کے باوجود مختلف معدنیات کی مد میں 2 ارب 50 کروڑ روپے وصول کئے گئے اور صوبائی خزانے میں جمع کئے گئے۔
٭ بلوچستان کے رائلٹی نظام کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے کمپیوٹرائزڈ کانٹے لگائے گئے ہیں اور مائننگ چیک پوسٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔
٭ محکمہ معدنیات اپنی رائلٹی اور فنانس کے معاملے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے Digitization of Royalty Regimeکے نام سے پراجیکٹ شروع کر رہا ہے۔
٭ Balochistan Mineral Exploration Company کے قیام کی تجویز زیر غور ہے جس کے لیے ابتدائی طور پر 1.4 بلین روپے رکھے جا رہے ہیں۔
٭ آئندہ مالی سال کے دوران صوبے کے مختلف اضلاع میں کرشنگ پلانٹس کے قیام اور توسیع کے لیے 300 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 0.534 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 3.624 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
ماہی گیری (Fisheries)
جناب اسپیکر!
٭ ماہی گیروں کو وزیر اعلیٰ بلوچستان گرین بوٹس اسکیم کے تحت کشتیوں کی فراہمی کے لیے 500 ملین روپے مختص کئے گئے تھے جس کو مالی سال 2020-2021 میں مکمل کر لیا جائےگا۔
٭ ساحلی پٹی کی ترقی جس میں سیاحت اور صوبے کے آمدن میں اضافے کے لیے بلوچستان کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو جدید خطوط پر استوار کرنے جبکہ اتھارٹی نے مختصر عرصہ میں ساحلی سیاحتی مقامات کی نشاندہی، Eco-Tourismکے فروغ اور ترقی کے لیے فیزیبلٹی کو یقینی بناتے ہوئے اقدامات اٹھائے جس کے لیے مالی سال 2020-2021 میں فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائےگا۔
٭ صوبے کی تاریخ میںپہلی مرتبہ ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کے لیے فشرمین کوآپریٹیو سوسائٹی کا قیام عمل میںلایا گیا ہے جس کے لیے 59 ملین روپے (Grant in Aid) کا اجراءکیا گیا ہے ۔
٭ آئندہ مالی سال کے دوران ساحلی پٹی کے سیاحتی مقامات پر آرام گاہیں، ریسٹورینٹس، موٹلز ، بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چینز ، واش رومز اور ایمرجنسی رسپانس سینٹرز کے قیام کے لیے 150 ملین روپے رکھے جا رہے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 0.827 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 1.232 بلین روپے مختص کئے ہیں۔

توانائی(Energy)
جناب اسپیکر!
٭ صوبے میں توانائی بحران کے حل اور اس میں جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے توانائی کے نئے ذرائع کے حصول کے لیے محکمہ دستیاب وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے صوبے کے دیہی اور شہری علاقوں کو توانائی کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں تیکنیکی تجربہ گاہ برائے محکمہ توانائی نے سالانہ پی ایس ڈی پی اسکیم کے ذریعے گھریلو جانچ پڑتال برائے قابل تجدید توانائی کے آلات اور روشن بلوچستان فیز۔IIشمسی نظام کی تنصیب کے منصوبے زیر غور ہیں۔
٭ سال 2020-2021 کے دوران LIEDA میں 132 KV گرڈ اسٹیشن کے قیام کے لیے 100 ملین روپے مختص
٭ ضلع لسبیلہ اور گوادر میں بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے تیل صاف کرنے کے لیے ریفائنریزکا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، یہ سرمایہ کاری صوبے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرے گی اور مقامی آبادی کے لیے روزگار کے سینکڑوں مواقع فراہم کرے گی۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 2.518 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 6.851 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
ماحول و ماحولیاتی تبدیلی(Environment & Climate Change)
جناب اسپیکر!
٭ محکمہ ماحولیات کے زیر اثر Environmental Protection Agency سے متعلق مرتب کردہ قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی حکومت کی "گرین فورس "کی فوری تشکیل کا فیصلہ تاکہ ماحول اور ماحولیات آلودگی کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکے، جبکہ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر گرین فورس ایف آئی آر (FIR) بھی درج کر سکے گی۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں حکومت انوائرمنٹل لیبارٹریز اور گوادر میں اتھارٹی کے دفتر قائم کرے گی تاکہ ساحلی ماحول اور سمندری حیات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
٭ آئندہ مالی سال کے لیے فضائی آلودگی کے معیار کو جانچنے کے لیے 10موبائل لیب کی خریداری کے لیے 100 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 0.200 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 0.450 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
امور حیوانات (Live Stock)
جناب اسپیکر!
بلوچستان کی زیادہ تر آبادی کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ لائیواسٹاک سے منسلک ہے، موجودہ حکومت نے پہلی مرتبہ بلوچستان لائیو اسٹاک پالیسی کا اجراءکیا ہے جو کہ آئندہ دس سال کے لیے بنائی گئی ہے۔
٭ رواں مالی سال 150 نئے ویٹرنری ڈاکٹرز کی آسامیوں کو بذریعہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن مشتہر کیا گیا تھا اور اس پر پیش رفت جاری ہے۔
٭ حکومت 100 ملین روپے کی لاگت سے موجودہ مذبحہ خانہ کوئٹہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور کھالوں کی مارکیٹ کے قیام کا عمل لا رہی ہے۔
٭ موجودہ حکومت نے لائیو اسٹاک کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ادویات کی مد میں 30 ملین روپے کو بڑھا کر 360 ملین روپے مختص کر دئیے ہیں۔
٭ 599.44 ملین روپے سے ژوب میں ویٹرنری کے ادارے کے قیام کے لیے سفارش کی جاتی ہے۔
٭ صوبے کے چھ اضلاع میں ویٹرنری و بنیادی سہولیات کے ساتھ منڈیوں کے قیام کے لیے سفارش کی جاتی ہے جس کا تخمینہ لاگت 472.68 ملین روپے ہے۔
٭ Liquid Nitrogen Plant کی بحالی کے لیے 6ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ ریسرچ سنٹر بیلہ کی تکمیل کے لیے 13ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 0.949 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 4.592 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
محنت و افرادی قوت (Labour and Manpower)
جناب اسپیکر!
٭ لیبر سے متعلق تین پرانے قوانین جو 1936, 1394 اور 1961 سے نافذ العمل تھے ان کو (ILO) انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق ڈرافٹ بل 2019 کی صورت میں صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد صوبائی اسمبلی میں پیش کر دئیے گئے ہیں۔
٭ چائلڈ لیبر سروے جس کا تخمینہ 124.232 ملین حکومت بلوچستان اور 95.12 ملین (UNICEF)کل مالیت 219.35 ملین PWDP کے اجلاس میں منظور ہو چکا ہے تاکہ بلوچستان میں چائلڈ لیبر کی صحیح تعداد کا اندازہ ہو اور حکومتی سطح پر اس کا سدباب کیا جائے۔
٭ بلوچستان میں پہلی مرتبہ بلوچستان میں ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ اتھارٹی کمپلیکس بننے جارہا ہے اور اس کے لیے اسپنی روڈ پر تین ایکڑ اراضی بھی مختص کی گئی ہے ۔
٭ ورکرز ویلفیئر بورڈ وفاقی حکومت کے فنڈز سے 496 فلیٹس/لیبر کوارٹرز، 446 بیرکس صنعتی اور کان کنی سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کے لیے تیار کئے گئے ہیں ان کی الاٹمنٹ قرعہ اندازی کے ذریعے کرایہ داری کی بنیاد پر ورکرز ویلفیئر بورڈ کی پالیسی کے مطابق کی جائے گی۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 0.061 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 2.258 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
صنعت و حرفت(Industries and Commerce)
جناب اِسپیکر!
٭ اس اہم پیداواری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے شعبے کو ہر سطح پر ریلیف دینے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں جبکہ ٹیکسوں میں چھوٹ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
٭ اس وقت یہ شعبہ پرانے قوانین کے تحت کام کر رہا ہے لیکن ہماری حکومت اس کے قوانین میں بہتری لانے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے اور بہت جلد پہلی مرتب شدہ بلوچستان کامرس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا۔
٭ محکمہ صنعت و حرفت کے توسط سے 18 سینٹرز کا قیام۔
٭ آئندہ مالی سال کے دوران ضلع چاغی کے علاقے تفتان میں LPG ٹرمینل کے قیام کے لیے 300 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ ضلع لسبیلہ میں کستور آئل پراسسنگ یونٹ کے قیام کے لیے 30 ملین روپے مختص ۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 0.524 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 1.946 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
سماجی بہبود و تحفظ(Social Security & Welfare)
جناب اسپیکر!
بلوچستان عوامی انڈومنٹ فنڈ جس کا اجراءہماری حکومت نے اپنے قیام کے شروعات میں سرانجام دیا تھا اس پروگرام کے اجراءکے بعد غریب، نادار، مستحق اور خصوصی افراد کو علاج و معالجہ کی بہترین سہولیات کی فراہمی کے لیے ملک کے مستند ہسپتالوں میں عصر حاضر سے ہم آہنگ طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے جو کہ مہنگے علاج کی استطاعت نہیں رکھتے ۔
٭ اب تک اس پروگرام کے تحت تقربیاً 1000 مریضوں کو سات موذی اور جان لیوا امراض کے علاج و معالجہ کے لیے پینل پر موجود ہسپتالوں میں بالکل مفت علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں،جن کے اخراجات حکومت بلوچستان اٹھا رہی ہے جس کے لیے اب تک تقریباًایک ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں ۔
٭ بلوچستان عوامی انڈومنٹ فنڈ میں 77 ملین روپے سے زائد کی رقم صوبے کے معذور یا اسپیشل افراد کی بحالی کے لیے مختص کئے گئے ہیں جس میں سے اب تک 500 ٹرائی موٹر سائیکل اور 66 الیکٹرک وہیل چیئر فراہم کرنے کے لیے اقدامات کئے گئے ہیں ۔
٭ صوبے کے 9 اضلاع لورالائی، ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، بولان، سبی، سوراب، خضدار اور پنجگور میں بلوچستان ہنر مند پروگرام شروع کیا گیا ہے تاکہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو قابو کرنے میں مدد مل سکے۔
٭ منشیات کے عادی افراد کے علاج، بحالی اور تربیت کے مرکز میں 2018 سے اب تک تقریباً 1545 افراد کا علاج کر کے نہ صرف انہیں منشیات کی لعنت سے آزاد کیا بلکہ ان میں سے 840 افراد کو بنیادی کمپیوٹر آپریٹنگ ، الیکٹریشن،ٹیلرنگ اور جوتے بنانے جیسے 4 مختلف ہنر بھی سکھائے گئے تا کہ وہ معاشرے میں واپس جا رکر مفید شہری بن سکیں۔
٭ صوبے میں بچوں کے لیے 6چائلڈ پروٹیکشن یونٹ قائم کئے جا چکے ہیں جبکہ مزید 6کی منظوری دی گئی ہے۔
٭ صوبے کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں انسانی حقوق کے تحفظ کے ڈائریکٹوریٹ کے قیام کے لیے 250 ملین روپے کی اسکیم تجویز کی گئی ہے۔
٭ آئندہ مالی سال کے دوران اقلیتی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے 100 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں، جبکہ کوئٹہ قرآن اکیڈمی کی تعمیر کے لیے 30 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔
٭ گریجویٹ طالبات کے لیے وویمن انٹرن شپ پروگرام کا اجراءکے لیے 50 ملین روپے مختص ۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 1.444 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 11.711 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
کھیل وامور نوجوانان(Sports and Youth Affairs)
جناب اسپیکر!
٭ محکمہ کھیل و امور نوجوانان کی کے لیے نئے مالی سال 2020-21 کے لیے مختلف کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ کے لیے 550 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ صوبے بھرمیں75 فٹسال گرا ¶نڈ جو کہ ہماری حکومت نے مختلف عرصہ میں تعمیر کئے ہیں جس کے لیے نئی 75 انچارج فٹسال گرا ¶نڈ کی آسامیاں تخلیق کی ہیں۔
٭ صوبے کے ہر میونسپل کارپوریشن اور میونسپل کمیٹی میں فٹسال گرا ¶نڈ تعمیر کئے جا رہے ہیں جو 2020-2021 میں مکمل ہو جائیں گے۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 5.340 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 1.041 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
ثقافت و سیاحت و آثار قدیمہ (Culture, Tourism and Archives)
جناب اسپیکر!
حکومت بلوچستان نے سیاحت و ثقافت کے فروغ کے لیے انتہائی اہم اقدامات اٹھائے ہیں جن میں چیدہ چیدہ اور اہم یہ ہیں۔
٭ بلوچستان کے آرٹسٹوں کی فلاح و بہبود کے لیے آرٹسٹ ویلفیئر فنڈ کا قیام۔
٭ بلوچستان میں لاک ڈا ¶ن سے متاثرہ آرٹسٹوں کے لیے ریلیف پیکج کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔
٭ بلوچستان کے تاریخی ورثہ اور ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے کوئٹہ میں نیا میوزیم تعمیر کیا گیا ہے جو عنقریب عوام کے لیے کھول دیا جائےگا۔
٭ ہزاروں سال پرانے نوادرات کی صوبہ سندھ کے نیشنل میوزیم سے منتقلی عمل میں لائی گئی ہے ۔
٭ بلوچستان کی قدیم تاریخ اور ورثے کو مد نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی آف بلوچستان کے اشتراک سے پہلی مرتبہ شعبہ آثار قدیمہ قائم کیا گیا ہے جس میں گریجویٹ کلاسز کے پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔
٭ نئے مالی سال میں بلوچستان آثار قدیمہ کے ریکارڈ کو محفوظ بنانے کے لیے ڈویژنل اور زونل سطح پر تمام سہولیات سے آراستہ ریکارڈ رومز کی تعمیر کے لیے 70 ملین روپے مختص ۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 0.941 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 0.465 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی (Sceince & Information Technology)
جناب اسپیکر !
٭ حکومت بلوچستان کا دفتری امور میں مزید بہتر لانے کے لیے مختلف محکمہ جات میں E-Filing System کو رائج کرنے کی منظوری اور کام کا آغازباقاعدہ طور پر شروع ہو چکا ہے جس کی باقی محکموں تک توسیع عمل میں لائی جائےگی
٭ حکومت بلوچستان کے قوانین کیDigitilization کرنا جبکہ تاحال 1300 سے زائد قوانین کی باقاعدہ Degitilization مکمل ہو چکی ہے۔
٭ صوبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں آئی ٹی کی ایجوکیشن کی ترویج کے لیے مزید 5 اضلاع میں آئی ٹی سینٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا۔
٭ نئے مالی سال 2020-21 کے دوران Digi Bizz: ، Freelancing اور Entrepreneurship کے لیے 50ملین روپے ،جبکہ Emerging Digital Balochistan (Mobile Apps Portal) کے لیے 20 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ مالی سال 2020-2021 میں اس شعبے کے لیے ترقیاتی مد میں 0.869 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 0.398 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
حصہ دوئم
ریو نیو کے وسائل بڑھانے کے لئے اقدامات
جناب اِسپیکر!
٭ سابقہ حکومتوں نے صوبے اور اس کے نظام محصولات کے نظام کو مستحکم بنانے پر بہت کم توجہ دی اس کے نتیجے میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں آمدن کے حصول میں بلوچستان بہت پیچھے رہ گیا ۔
٭ حکومت بلوچستان دسویں قومی مالیاتی کمیشن (NFC)میں بلوچستان کے زیادہ سے زیادہ شیئر کے حصول کے لیے کثیر الفارمولہ بنیادوں پر صوبے کے حق میں مضبوط کیس تیار کر رہی ہے ۔
Balochistan Tax Revenue Mobilization Strategy
بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبائی ٹیکس ریونیو موبلائزیشن پالیسی کا نفاذ کیا جا رہا ہے ، پالیسی کے نفاذ سے ٹیکس اصلاحات ممکن ہونگی جبکہ متعلقہ محکموںکو زیادہ سے زیادہ ٹیکس کے حصول میں رہنمائی ملے گی اور صوبے کی اپنی آمدن میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ خسارے کو بھی کم کرنے میں خاطرخواہ مدد ملے گی۔
جناب اِسپیکر!
٭ حکومت سروسز ٹیکسز ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے دیگر ٹیکسوں کی وصولی کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اورOne Linkسے ایک معاہدہ کریگی یہ اقدامات نہ صرف ٹیکس نادہندگان کے لئے مدد گار ثابت ہوگا بلکہ کار کردگی شفافیت اور احتساب کے عمل کو بھی یقینی بنائے گا۔
٭ حکومت بلوچستان نے تمام سیکٹرز میں سرمایہ کاری کے فروغ اور سرمایہ کاروں کو سہولیات کی فراہمی کے لیے Ease of Doing Business Cell کا قیام عمل میں لایا ہے جس کی سٹیرنگ کمیٹی کی صدارت خود وزیراعلیٰ بلوچستان کرتے ہیں۔
٭ آئندہ مالی سال 2020-2021 میں بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ میں Business Registration Portal کا قیام عمل میں لایا جائےگا، جہاں سرمایہ کار پبلک آفسس جانے کے بجائے اپنی رجسٹریشن آن لائن مکمل کر سکیں گے۔
٭ سرمایہ کاروں کی رہنمائی کے لیے ایک Balochistan Investment Guide تشکیل دی گئی ہے ۔
٭ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے پرائیوٹ سیکٹر کو حکومت کے ساتھ اشتراک اور بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سرمایہ کاروں کے لیے الگ Land Lease Policy ، اس کے علاوہ 2 اہم فنڈز جوکہ Project Development Fund اور Viability Gap Fund قائم کردیئے گئے ہیں جس کے لیے مالی سال 2019-2020 میں 2 ارب روپے Invest کئے گئے ہیں۔
فنانس بل 2020
جناب اِسپیکر!
٭ آنے والے مالیاتی سالوں میں مالیاتی خسارے کو کم سے کم رکھنے کے لئے حکومت مجموعی مالیاتی خسارے کو ممکنہ حد تک کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات اٹھارہی ہے ۔
٭ آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 119 کے تحت صوبائی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ پبلک فنانشل امور پر قانون سازی کرے اور آج ہم اس مقدس ایوان میں پبلک فنانس مینجمنٹ بل 2020 اسمبلی میں آج پیش کرنے جا رہی ہے جس سے صوبے مالی معاملات میں بہتر مالی نظم و نسق کو مربوط بنانے میں مددگار ثابت ہوگا ، بلوچستان پہلا صوبہ ہوگا جو کہ اس سلسلے میں 47 سال بعد قانون سازی کر رہا ہے ۔
٭ مزید برآں بلوچستان اسمبلی کے رواں بجٹ سیشن میں حکومت فنانس بل 2020 پیش کرنے جا رہی ہے جس میں مختلف پرانے ٹیکسوں اور مائننگ فیس میں نظر ثانی کرنے کی تجویز ہے۔ جس سے صوبے کی اپنی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہوگا۔
حصہ سوئم
امدادی وفلاحی اقدامات
جناب اِسپیکر!
٭ کورونا وائرس کی غیر معمولی صورتحال نے ہمارے پورے سماجی و معاشی نظام کو متاثر کر رکھا ہے، حکومت نے کورونا وائرس کے پیش نظر عوام کو ٹیکس ریلیف دینے کےلئے اپریل تا جون 2020 تک درج ذیل اقدامات اٹھائے ہیں۔
٭ حکومت بلوچستان پبلک فنانس مینجمنٹ کو مستحکم بنانے اور صوبے میں مالی نظم و نسق کو یقینی بنانے کے لیے محکمہ خزانہ میں انٹرنل آڈٹ یونٹ کے قیام کی منظوری دے دی ہے اور پبلک فنانشل مینجمنٹ کو بہترین بین الاقوامی طریقوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے صوبائی ریونیو مینجمنٹ یونٹ اور ڈیبٹ اینڈ انوسٹمنٹ یونٹ قائم کیا ہے۔
٭ حکومت بلوچستان نے کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج کرنے والے صحت کے ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف کے لیے فوری طور پر 2 بنیادی بیسک تنخواہوں کے مساوی ہیلتھ رسک الا ¶نس کا اعلان کیا۔
٭ صوبائی حکومت کے تحت کام کرنے والے مختلف کیٹیگریز کے ڈاکٹرز ، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے لیے ہیلتھ پروفیشنل الا ¶نس کی منظوری دی۔
٭ حکومت نے میڈیکل کالجز لورالائی، خضدار اور کیچ کے ٹیچنگ اسٹاف کے لیے ٹیچنگ الا ¶نس کی اجازت دی۔
٭ صوبائی سیکریٹریٹ کے مختلف کیڈر کے افسران کے لیے ایگزیکٹو الا ¶نس کی منظوری دی۔
٭ حکومت نے سردی اور گرمی کی تعطیلات کے دوران ثانوی اور ہائیر ایجوکیشن کے ٹیچنگ اسٹاف کے لیے کنوینس الا ¶نس کی منظوری دی۔
٭ معذوروں کے کوٹے پر تعینات ہونے والے ملازمین کے لیے اسپیشل کنوینس الا ¶نس کی بھی منظوری دی۔
 حصہ چہارم
 مالی سال 2020-2021 بجٹ کے تخمینے
جناب اِسپیکر!
اب میں بجٹ 2020-2021کے اہم اعدادو شمار پیش کرنے جارہا ہوں جس میں مالی سال 2020-2021کے اخراجات کے بجٹ کا کل حجم 465.528 بلین روپے ہے جبکہ آمدن کا کل تخمینہ 377.914 بلین روپے ہے ، اس طرح سال 2020-21 کے لیے بجٹ خسارہ کا تخمینہ 87.614بلین روپے ہوگاجس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
آمدن
بلین روپے میں
تفصیلات
بجٹ 2020-21 کا تخمینہ
وفاقی ٹرانسفر ز
302.904
 صوبے کی اپنی محصولات
46.407
فارن فنڈڈ پراجیکٹس اسسٹنس (FPA)
3.538
کیپٹل محصولات
14.698
 Cash Carry over
10.366
ٹوٹل آمدن
377.914
ٹوٹل اخراجات

اخراجات جاریہ
309.032
فارن فنڈڈ پراجیکٹس اسسٹنس (FPA)
12.201
وفاقی ترقیاتی پراجیکٹس (Outside PSDP)
38.216
صوبائی PSDP
106.079
ٹوٹل اخراجات
465.528
مجموعی خسارہ
(87.614)

جناب اسپیکر!
اپنی تقریر کے اختتام پر میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے بجٹ کی تیاری میں معاونت کی اور ساتھ ہی میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے مجھ پر اور میری پوری ٹیم پر اعتماد کیا اور ہماری رہنمائی کی آخر میں ، میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعاگوں ہوں کہ وہ ہمیں بلوچستان کو حقیقی معنوں میں خوشحال ، ترقی یافتہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

پاکستان زندہ باد ۔۔۔بلوچستان پائند ہ آباد