Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

جمعہ، 21 فروری، 2020

معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو سرعام پھانسی دی جائے (تحریر سعدیہ ھما شیخ ۔ایڈووکیٹ۔گروپ ایڈیٹر روح عصر )


افسوس اتنا کہ بیان سے باہر پھر بیان دیتے سرعام پھانسی دینا انسانیت کے خلاف۔۔کچھ خدا کا خوف کرو حکمرانوں ۔۔دل پھٹتا ایسے واقعات  سن کر۔۔۔انکو سرعام پھانسی کیا انکی تو لاش کو بھی معاف نہین کرنا چاہیے کاٹ ڈالنا چاہیے۔۔۔دل دکھ سے بھرا۔۔۔ہمارے بچے کہاں محفوظ انکا حسابب کون دے گا۔۔۔

رتہ امرال راولپنڈی کی بچی کی والدہ انتقال کر چکی تھی جبکہ سوتیلی والدہ شوہر سے ناراض ہو کر میکے چلے گئی تھی,والد صبح بچوں کو خود ناشتہ بنا کر دیتا اور دوپہر کی روٹیاں سالن بنا کر رکھ دیتا اور دفتر چلا جاتا.

بچی گھر میں اکیلی ہوتی,پہلے محلہ کا ایک لڑکا والد کے دفتر جانے کے بعد گھر میں گھس آیا کہ بازار سے کچھ منگوانا ہو تو بتا دیا کرو,اس محلے دار نے بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ والد کو بتایا تو تمہارے باپ کو قتل کردوں گا.
ایک ہفتے بعد یہ لڑکا اپنے ساتھ ایک اور محلے دار لڑکے کو لے آیا.
محلے کے ہی ایک ادھیڑ عمر شخص کو شک ہوا تو ایک دن لڑکوں کے گھر سے جانے کے بعد وہ بھی گھر میں آ گیا اور وہ بھی بچی سے زیادتہ کر چلا گیا.
محلہ کا ایک اور ادھیڑ عمر بھی کچھ عرصہ بعد اس گھناونے کھیل میں شامل ہو گیا.
بچی حاملہ ہو گئی اور والد سے تکلیف کا اظہار کرنے لگی,والد معدے کی تکلیف سمجھ کر لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تو وہ معاملہ سمجھ گئی.
لیڈی ڈاکٹر نے الٹرا ساونڈ کرنے کے بعد والد کو بتایا کہ تمہاری بچی چھ ماہ کی حاملہ ہے.
والد نے بیٹی سے پوچھا تو خوف زدہ ہو گئی کہ آپ کو پستول اور خنجر سے مار دیں گے,باپ بیٹی کو پولیس اسٹیشن لے آیا کہ پولیس کو بتا دو پولیس انہیں پکڑ لے گی اور بچی نے پولیس کو سب کچھ بتا دیا.
یہ ظلم بربریت کی کہانی راولپنڈی کے محلہ رتہ امرال کی ہے.
چاروں ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں,دو ملزم خود بیٹے اور بیٹیوں کے باپ ہیں.دونوں لڑکے بھی اسی محلے کے ہیں ایک سکول اور ایک کالج کا طالبعلم ہے.

اس ظلم و بربریت کا ذمہ دار کسے ٹہرائیں؟ اس معاشرے کی عکاسی کرتے یہ چار افراد جنہوں نے ایک دوسرے کو منع کرنے کی بجائے ایک معصوم بچی کو ظلم کا نشانہ بنایا۔

انکو سزائے موت نہ دی جائے کہ سزائے موت تو معمولی سزا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: