Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

منگل، 25 فروری، 2020

*معلوماتی دُنیا* 172


*بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟*
آئیے! 
آج کُچھ معلومات لیں، 

تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان، 
سال کے 365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں، 
ان میں کوئی ۳۰، کوئی ۳۱ اور کوئی ۲۸یا ۲۹ دن کا ہوتا ہے، 
ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، 
یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔

*جنوری*
عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔
جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی،
امن میں نہیں،
دیوتا کے دو سَر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔
اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیا کہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے، 
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیا گیا ہے، 
جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘،
 یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘
ماہ جنوری ۳۱؍ دِنوں پر مشتمل ہے، 

*فروری*
ایک زمانے میں فروری سال کا آخری اور دسمبر دوسرا مہینا سمجھا جاتا تھا، 
حضرت عیسیٰ ؑ کے دور میں فروری سال کا دوسرا مہینا قرار پایا، 
یہ مہینا اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ سب سے کم یعنی ۲۸؍ دن رکھتا ہے جبکہ لِیپ (Leap) کے سال میں فروری کے ۲۹؍ دن ہوتے ہیں، 
چنانچہ لیپ کا سال 366 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے، 
ہر چوتھا سال لیپ کا سال ہوتا ہے، 
اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کرۂ ارض کے گرد اپنے مدار کا سفر ۴/۱ ۳۶۵ دنوں میں طے کرتا ہے، 
لیکن ۳ ؍ سال کے دوران اس کا ہر سال ۳۶۵ ؍دنوں کا ہی شمار ہوتا ہے
جبکہ چوتھے سال میں ۴/۱ حصے جمع کریں تو یہ ایک دن کے برابر بن جاتا ہے، 
یوں ایک دن زیادہ جمع کرکے یہ 364 ؍دن کا یعنی لیپ کا سال کہلاتا ہے، 
لفظ فروری بھی لاطینی زبان فیبرام (Febru m) سے اخذ کیا گیا جس کا مطلب ہے ’’پاکیزگی کا ذریعہ‘‘۔

*مارچ*
اس مہینے کا نام رومی دیوتا مارس (Mars) کے نام پر رکھا گیا، 
مارس کو اُردُو میں مریخ کہتے ہیں، 
کہتے ہیں کہ یہ دیوتا بڑا خطرناک تھا، 
رومی دیومالا کے مطابق اس کے رتھ میں انتہائی منہ زور گھوڑے جتے ہوئے تھے، 
رتھ میں دیوتا نیزہ تھامے کھڑا ہوتا، 
نیزے کی انی کا رُخ آسمان کی طرف تھا، دوسرے ہاتھ میں ڈھال ہوتی، 
دیوتا کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا ہوتا،
اہلِ روم اسے سب سے طاقتور دیوتا سمجھتے تھے، 
ان کے عقیدے کے مطابق بارش، بجلی، بادل اور گرج چمک سب مارس دیوتا کے ہاتھ میں تھا، 
یہ مہینا بھی 31 دنوں پر مشتمل ہے،
لفظ مارچ لاطینی زبان کے لفظ مارٹئیس (Martius) سے اخذ کیا گیا ہے، 
اسی لفظ سے سیارہ مریخ کا نام (Mars) بھی بنایا گیا،
مارچ کے مہینے میں عموماً موسمِ بہار کا آغاز ہوتا ہے، 

*اپریل*
یہ مہینا ۳۰؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔
اپریل لاطینی لفظ، اپریلس (Aprilis) سے بنا ہے، 
اس کا مطلب ہے کھولنے والا، آغاز کرنے والا،
اس مہینے میں چونکہ نئے پودوں اور درختوں کی نشوونما کا آغاز ہوتا ہے،
چنانچہ اسے کسی دیوی یا دیوتا نہیں بلکہ بہار کے فرشتے سے منسوب کیا گیا، 

*مئی*
یہ سال کا پانچواں مہینا ہے 31 دن رکھتا ہے، 
اس مہینے میں بھی بہار کے کچھ اثرات باقی ہوتے ہیں، 
لفظ مئی انگریزی زبان میں فرانسیسی لفظ مائی (MAI) سے اخذ کیا گیا ہے، 
یہ لاطینی زبان کے لفظ مائیس (Maius) سے اخذ شدہ ہے، 
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مہینے کا نام ایک رومی دیوی میا (Maia) کے نام پر رکھا گیا ہے، 
رومیوں کے نزدیک اس وسیع و عریض زمین کو دیوتا نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔
اس دیوتا کی سات بیٹیاں تھیں جن میں میا دیوی کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔

*جون*
سال کا چھٹا مہینا اور اس میں ۳۰ دن ہوتے ہیں، 
لفظ جون بھی انگریزی زبان میں فرانسیسی زبان کے ایک لفظ، جونئیس (Junius) سے اخذ کیا گیا ہے، 
اس مہینے کا نام بھی ایک دیوی جونو (Juno) کے نام پر رکھا گیا، 
البتہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ نام روم کے مشہور شخص جونی لیس کے نام پر رکھا گیا۔
جونو دیوتائوں کے سردار جیوپیٹر کی بیٹی تھی جبکہ جونی لیس ایک بے رحم اور سفاک انسان تھا۔

*جولائی*
اس مہینے میں 31 دن ہوتے ہیں، 
جون کی طرح یہ بھی ایک گرم مہینا ہے، 
بلکہ بعض اوقات حبس اور شدید گرمی اسے جون سے بھی گرم بنا دیتی ہے، 
اس مہینے کا نام دیوی دیوتا نہیں بلکہ روم کے ایک مشہور حکمران جولیس سیزر کے نام پر رکھا گیا، 
ایک زمانے میں یہ پانچواں مہینا تھا، 
جولیس سیزر قدیم روم کا مشہور شہنشاہ تھا۔
مشہور شاعر و ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے ’’جولیئس سیزر‘‘ پر ایک ڈراما بھی لکھا، 

*اگست*
سال کا آٹھواں مہینا، 
اس میں31 ؍دن ہوتے ہیں۔
پہلے یہ چھٹا مہینا تھا کیونکہ تب سال کا آغاز مارچ سے کیا جاتا تھا، 
اور کُل دس مہینے ہوتے یعنی مارچ تا دسمبر، 
وہ اس طرح کہ قمری سال اور شمسی سال کے مہینوں میں فرق ہوتا تھا، 
قمری سال کے تو بارہ مہینے ہوتے تھے جبکہ شمسی سال کے ۱۰ ؍ ماہ بنتے تھے، 
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دو مہینوں کا اضافہ کیا گیا، 
جنوری اور فروری، 
یوں شمسی سال میں بھی ۱۲؍ مہینے ہو گئے۔
شمسی سال میں اضافے کے بعد اگست کا نام ایک قدیم رومی شہنشاہ آگسٹس (Augustus) کے نام پر رکھا گیا، 
(اس مہینے میں پہلے ۲۹ ؍دن تھے، بعد میں جولیئس سیزر نے۲؍ دن کا اضافہ کر کے ۳۱؍ دنوں کا مہینا کر دیا)،
 پہلے رومی شہنشاہ آگسٹس کا نام کچھ اور تھا ۔
جب اس نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت زیادہ کام کیے تو رومی لوگ اس کے اتنے گرویدہ ہو گئے، 
کہ اسے آگسٹس کے نام سے پکارا جانے لگا، 
اس نام کا مطلب ہے، دانا، دانشمند۔ چنانچہ اس مہینے کو آگسٹس کے نام پر اگست کہا گیا۔

*ستمبر*
۳۰؍ دن رکھتا ہے، 
لاطینی زبان کے لفظ سیپٹ (Se pt) سے بنا جس کا مطلب ہے ’’ساتواں‘‘ اس لیے ستمبر کا مطلب ہے ’’ساتواں مہینا‘‘۔
مگر پھر کیلنڈر کی نئی ترتیب سامنے آئی تو یہ نویں درجے پر چلا گیا، 

*اکتوبر*
لاطینی میں آٹھ کو اوکٹو (Octo) کہا جاتا ہے، 
اسی سے سال کے آٹھویں مہینے کا نام اکتوبر رکھا گیا، 
اکتوبر کا مطلب ہے ’’آٹھواں مہینا‘‘ اس میں ۳۱ دن ہوتے ہیں،
اب یہ دسواں مہینا ہے۔


*نومبر*
اس میں ۳۰؍ دن ہوتے ہیں، 
لاطینی زبان میں ۹؍ کو نووم (Novum) کہتے ہیں، 
اسی نام سے مہینے کا نام نکلا، 
نومبر کا مطلب ہے ’’نواں مہینا‘‘۔
ستمبر کو ساتواں، اکتوبر کو آٹھواں اور نومبر کو نواں مہینا اس وقت کہا گیا جب جنوری اور فروری کے مہینے سال میں شامل نہیں تھے، 
بعد میں ان مہینوں کے نام تو وہی رہے البتہ ستمبر نواں، اکتوبر دسواں اور نومبر گیارھواں مہینا بن گئے۔

*دسمبر*
یہ مہینا ۳۱؍ دن رکھتا ہے، 
لاطینی زبان کی گنتی میں دس کا مطلب ہے دسم (De cem)،
اس لفظ کی مناسبت سے دسویں مہینے کو دسمبر کہا گیا، 
اب یہ سال کا بارھواں مہینا ہے•

پنجابی زبان میں 12 مہینے ہوتے مثلا- چیت، وساکھ، جیٹھ ،ہاڑ، ساون، بھادوں، اسو، کاتک، مگھڑ، پوہ،ماگھ اور پھاگن- چونکہ پنجاب ایک زرعی خطہ ہے لہذا ان سب مہینوں کا تعلق عام طور پر زراعت سے جوڑا جاتا ہے- اور جو کسان ہیں یا جن کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہیں وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے-

آج بھی ہمارے بزرگوں کو جنوری، فروری وغیرہ کے مہینے تو یاد نہیں ہوتے لیکن انکو پنجابی مہینے سارے یاد ہوتے ہیں اور ہرپنجابی مہینے کا موسم کی اپنی خصوصیت ہے جس کے بارے میں میرے دادا جان کچھ کہاوتیں ہمیں سنایا کرتے تھے جو شائد بہت سے پنجابیوں کے والدین اور بزرگوں کو آج بھی یاد ہوں گی ان میں سے کچھ مجھے بھی یاد ہیں کیونکہ میں خود ایک پنجابی زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں- اور یہ کہاوتیں آج موقع کی مناسب سے میں آپکی نظر کرتا ہوں- امید ہے پنجابی زبان سمیت دوسری زبانوں والوں کے لیئے بھی یہ یکساں دلچسپ ہونگی

چیت: مینہ پیا چیتر اَن نہ ماوے کھیتر (اس مہینے کی بارش گندم کے لیئے فائدہ مند ہوتی ہے)

بیساکھ: وساکھ تے چیت سونے دی کنی نہیں پُگدی ( اس مہینے کی بارش گندم کے لیئے نقصان دہ ہوتی ہے لیکن دھوپ اتنی نقصان دہ نہیں ہوتی)

جیٹھ: وساکھ تے جیٹھ گاہ گاہے انہیں--مینہ نہ وسائے (اس مہینے کی بارش بھی گندم کے لیئے نقصان دہ ہوتی لیکن اس مہینے دھوپ میں شدت پیدا ہوچکی ہوتی لہذا دھوپ نقصان دہ ہوتی)

ہاڑ: ہاڑھی سو ہاڑھ واہے (یہ مہینہ کھیتوں میں ہل چلانے والا مہینہ ہوتا ہے اور کسان کو ایک دفعہ ہل چلانا ضرور چاہیئے)

ساون: ساون دی جھڑی نہ کوٹھا نہ کڑی (یہ مہینہ کھل کر بارش برسنے والا ہوتا ہے لہذا بزرگوں کے مطابق اس مہینے کسان کو 2 دفعہ ہل چلانا چاہیئے)

بھادوں: بھادوں دا چھلا- اک سنگ سکا تے اک سنگ گلا ( یہ وہ مہینہ ہوتا جس میں کہیں بارش ہورہی ہوتی اور ساتھ والا حصہ بالکل سوکھا ہوتا- اس کے بارے میں ایک اور کہاوت بڑی مشہور کہ 11 بھایئوں کی اکیلی بہن- کیونکہ یہ مہینہ لڑکیوں کی طرح نخرے بہت کرتا اور لوگوں کے صحیح کڑاکے نکال کر جاتا ہے خصوصا یہ مہینہ نمی والے علاقوں میں بہت سخت مہینہ ہوتا ہے-)

اسو: وسے اسو اناج دی موج (اس مہینے کی بارش کسانی کے لیئے خوشی لاتی ہے-)

کاتک: کتیں جٹ نوں پئی بیاہی، موئی ماں بھڑولے پائی (یہ مہینہ فصل کی بوائی کا مہینہ ہوتا ہے)

مگھڑ: مگھر پئے پالا تے ہالی پئے سوکھالا (یہ ہلکی ٹھنڈ کا مہینہ ہوتا ہے اس مہینے میں کسان کو ہل چلانے میں کسان کو آسانی ہوتی)

پوہ: وسیں پوہ تے اونٹھیں ڈھو (اس مہینے کی بارش کا فصل کو فائدہ ہوتا ہے- اس میں سخت خشک سردی شروع ہوجاتی ہے )

ماگھ: وسے مانہہ تے بوٹے بوٹے گاہ (اس مہینے کی بارش بھی فصؒ کو فائدہ دیتی اور اس میں سخت سردی پڑتی ہے لیکن یہ عام طور پر خشک سردی نہیں ہوتی)

پھاگن: پھگن آکھے چیتر نوں سن میرے بھائی -میں آیاں جھون جھان توں بنے لایئں ( یہ مہینہ فروری میں شروع ہوتا اس مہینے میں کسان کے پاس دانے ختم ہوچکے ہوتے اور اس کو اگلے مہینے یعنی چیت کا آسرا ہوتا کہ فصل کی کٹائی ہونے والی ہے-)


لہذا ثابت ہوا 12 مہینے اور 12 موسم- پنجابی زبان بہت پیاری ہے یہ ہمارا کلچر ہے اور ہم ان چیزوں پر آج بھی یقین کرتے ہیں-عمران خان نے 12 موسم کہے تو اسی سینس میں کہے

کوئی تبصرے نہیں: