Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

منگل، 18 فروری، 2020

سانپوں سے کیسا پیار// او جوگی//تحریر نمرہ ملک

سانپوں سے کیسا پیار۔۔ او جوگی!!
نمرہ ملک
آئے دن سننے میں آتا ہے کہ لڑکی گھر سے بھاگ گئی ہے یا لڑکے نے گھروالوں سے لڑائی جھگڑا کر کے خود کشی کر لی۔چھوٹے بچوں سے جنسی ہراسمنٹ کے روزانہ کیس سامنے آتے ہیں۔معصوم کلیاں جنہوں نے آنکھ بھر کے دنیا کو نہیں دیکھا ہوتا،معاشرتی بے راہ روی کے شکار درندوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں اور سارے معاشرے کے منہ پہ تمانچے کی صورت سوال چھوڑ جاتی ہیں کہ ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہم نے اک مسلمان قوم اور اسلام کے نام پہ بننے والی ریاست میں جنم لیا ہے۔اگر کسی مہذب اور حساس معاشرے میں ایسا ظلم ہوتا تو کئی بل پاس ہو چکے ہوتے اور کئی این جی اوز کے پیٹ توند کی شکل اختیار کر چکے ہوتے۔(خیر اب جنسی زیادتی پہ پھانسی کی سزا کا بل پاس ہوا ہے،جب کسی کو پھانسی کی سزا ہوئی تو مان لیا جائے گا کہ بل پاس ہوا ہے!!)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اک اسلامی معاشرے میں دن بہ دن بڑھتے ان جرائم کی اصل وجہ کیا ہے؟اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ارد گرد سے پہلے اپنے اعمال کا جائزہ لیں۔انٹرنیٹ کی خرافات نے جہاں بہت سارے مسائل کو حل دے دیا ہے،وہیں بہت سے نئے نئے جرائم کو بھی جنم دیا ہے۔پہلے یہ ہوتا تھا کہ اک گھر میں ٹی وی ہوتا تھاتو سارے محلے والے اکٹھا ہو کر وارث،الفا براوو چارلی اور دھواں دیکھتے تھے اور پورا ہفتہ اس کی اگلی قسط کا انتظار کرتے تھے۔شہر میں اگر کہیں بہت ہی نفسا نفسی ہوتی تو بھی کسی نہ کسی ادبی جگہ پہ لوگ مل بیٹھتے اور سیاست سے لے کر زرائع ابلاغ تک ہر قسم کی صاف گفتگو کی جاتی۔اب کیا شہر اور کیا گاؤں،ہر جگہ پہ اک ہی طرح کا حساب ہے۔ہر گھر میں کیبل اور ڈش ہے۔چھوٹے بچے سے لے کر بزرگوں تک ہر بندے کے پاس اینڈرائڈ موبائل ہے۔وہ لوگ جو کبھی کبھار سینما جاکر فلم کی عیاشی کرتے تھے،بہت کم ہوتے تھے اور لوگ انہیں بگڑا ہوا سمجھتے تھے۔انٹرنیٹ کی مہربانی سے اب ہر شخص فنگر ٹپس پہ ہر طرح کی فلم دیکھ سکتا ہے۔سیاست سے لے کر گھریلو چٹکلوں تک ہر چیز سوشل میڈیا پہ مذاق بنائی جاتی ہے۔اک دوسرے کے ساتھ چھیڑخانی اور کردار کی دھجیاں اڑانا ہی طاقت اور بولڈنس کا سمبل بن گیا ہے۔سب سے بڑی فساد کی جڑ فیس بک اور واٹسایپ ہیں۔سوشل میڈیا  پہ دنیا جب گلوبل ولیج بنی تو پھر ہر گھر میں جھانکنا آسان ہوگیا اور اتنا آسان ہو گیا کہ تیرہ سال کے بچے بھی اک دوسرے سے محبت کا اظہار کرنے لگے اور گھر میں اپنے رشتے کی بات منوانے لگے۔جب گھر والے آنکھ دکھاتے یا پرانے دور کے وضع داروں نے نئی نسل پہ ڈنڈا اٹھانا چاہا تو یہ ہی انٹرنیٹ پود سیلف ڈیفنس میں گھر سے بھاگنے لگی،این جی اوز کی گود میں گھسنے لگی اور کچھ نہ بن پڑا تو خود کشی کی دھمکیاں دینے لگی۔یہاں ہمارے گاؤں کا اک بہت مزے دار قصہ یاد آگیا۔اک لڑکے نے باپ کو دھمکی دی کہ اگر فلاں جگہ میری شادی نہ ہوئے تو خود کشی کر لوں گا،باپ نے اطمینان سے لسی کا کٹورا خالی کیا اور پوچھا پتر اس کے لیے میری کیا مدد چاہیے؟رسی،گندم کی گولیاں یا پھر کنویں میں دھکا دینے کی مدد؟؟اگر خود کرنی ہے تو ضرور کر لو مجھے ایسی اولاد کی ضرورت نہیں جسے میری عزت کی پرواہ نہیں۔آج وہ ہی بیٹا باپ کی پسند سے کی گئی شادی میں خوشگوار زندگی گزار رہا ہے  اور بچوں کو یہ قصہ لطیفے کی طرح سناتا ہے۔
آپ سوشل میڈیا کھولیے تو پتہ چلے گا کہ ہر دوسرا خود کشی کا کیس من پسند رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔کچھ عرصہ پہلے غالبا سرگودھا کی اک لڑکی نے اپنے باپ کو صرف اس وجہ سے قتل کر دیا کہ اس نے اس اس کے بوائے فرینڈ سے غلط تعلقات پہ روکا تھا۔لڑکی نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر اپنے سگے باپ کو قتل کیا اور بعد میں اعتراف کیا کہ ”وہ میری پرسنل لائف میں انٹر فئیر کر رہے تھے تو میں نے قصہ ہی پاک کر دیا“۔جہاں اولاد کی ہٹ دھرمی عروج پہ ہے وہیں پرانے دور کے دبنگ والدین بھی کم نہیں۔اسی شہر کی اک ماں نے فرسٹ ائیر کی طالبہ اپنی سگی بیٹی کا گلہ گھونٹ دیا کیونکہ وہ کسی لرکے سے پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی اور روایت پسند ماں کو یہ پسند نہیں تھا۔ہم پہلے تو اپنے بچوں کو اس قدر آزاد کرتے ہیں کہ وہ بڑوں کی بات سننے کو توہین سمجھنے لگتے ہیں اور جب پانی سر سے اونچا ہونے لگے تو پھر روایتی ماں باپ بن کے ان کے گلے دبانے لگتے ہیں!کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی جوان ہوتی اولاد پہ مکمل چیک رکھیں لیکن دوست بن کر۔۔اب وہ دور نہیں رہا کہ بچوں سے زبردستی بات منوائی جا سکے۔جب بچوں کو والدین کا اعتبار اور اعتماد ملے گا،ان سے ان کے دوستوں اور فیلوز پہ ڈسکشن کی جارہی ہوگی تو بچوں کو آسانی رہے گی کہ والدین کیا چاہتے ہیں اور والدین کے لیے بچوں کی ترجیحات سمجھنا بھی مشکل نہیں ہو گا۔جب بچے غلط راہوں پہ نکلنے لگ جائیں تو سختی ان پہ الٹا اثر کرتی ہے۔اس کے لیے بہت بہتر طریقہ تو شروع سے کنٹرول ہے اور اگر کنٹرول نہیں تو پھر آپ بچوں کی مرضی میں خوش ہو کر انہیں اونچ نیچ سے آگاہ کرتے ہوئے نکاح کا رستہ دکھائیے۔اگر لڑکا مخلص ہوا تو شادی ہو جائے گی اور نہ مخلص ہوا تو عبرت مل جائے گی۔
اس وقت سب سے بڑی واہیاتی واٹس ایپ پہ ہے۔اک دس سال کی لڑکی سے لے کر پچاس سالہ بیوہ تک ہر عورت مردانہ لچھے دار گفتگو میں پھنسی وڈیو سیکس کرتی نظر آتی ہے۔کچھ خواتین کی سوشل میڈیا پروفائلز دیکھیں تو قرآنی آیات اور معاشرے کو سدھارنے کے ایسے ایسے لیکچر ملتے ہیں کہ زاکر نائیک بھی شاگردی اختیار کر لیں اور جب ان کا واٹس ایپ یا میسنجر دیکھا جائے تو بے حیائی کے تمام ریکارڈ ٹوٹتے نظر آتے ہیں۔یہ ہی نیوڈ تصاویر اور وڈیوز جب منظر عام پہ آتی ہیں یا لانے کی دھمکی دی جاتی ہے تو پھر ایسی خواتین کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ خود سے کھیلنے والے مداریوں کی بین پہ ناچنا شروع کر دیں اور ہر قسم کے گناہ کو پہلے بظاہر مجبورا پھر شوق اور آخر میں عادت کے طور پہ کریں۔انتہائی معذرت کیساتھ اس گندے کام میں سب سے زیادہ خواتین اساتذہ ہیں۔اب سوچنے کا مقام ہے کہ جن استانیوں کا اپنا کریکٹر اتنا گھناؤنا ہوگا وہ نئی نسل کو کیا تعلیم دے رہی ہیں؟؟خاص طور پہ پرائیویٹ اداروں میں یہ بے حیائی عروج پہ ہے۔ساتھی اساتذہ اور گیسٹ بن کے آنے والے مردوں سے نمبر لے کر ان سے رابطہ کرنا،انہیں پہلے پہل اپنی خوبصورتی یا جسمانی ساخت سے لبھانا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ وڈیو سیکس پہ آجانا عام بات ہے۔یہ خواتین سمجھتی ہیں کہ مذکورہ شریف آدمی انہیں گھر کی ملکہ بنا کے لے جائے گا اور شریف آدمی اپنے دوستوں اور سوشل میڈیا پہ ہی بنی گرل فرینڈز کو اپنی بے حیائیوں اور معشوقاؤں کی نام نہاد محبتوں کی فل تصاویر کے ساتھ کہانیاں سنا کر فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ اتنی تنخواہ کی حامل فلاں استانی مجھ پہ مرتی اور میرے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔
اب زرا جائزہ لیا جائے کہ اخلاقی جرائم کو مزید بڑھاوا کون دے رہا ہے؟سب سے زیادہ سوشل میڈیا،اس کے بعد سر عام پبلک پلیس یا کسی کولڈ بار میں اک کپ چائے اور اک جوس کی بوتل جو کسی کے گھر بھی بھیجی جا سکتی ہے،موبائل فون پہ نئے نئے پیکجز کی بھرمار اور سکرین شاٹ مافیا کا گھناؤنا کردار۔۔گھر کے گھر اس بکواس کی وجہ سے تباہ ہوتے ہیں۔شادی شدہ خواتین جب سوشل میڈیا پہ کسی سے بات کرتی ہیں تو اس کے جیون ساتھی کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ ان کی پاکباز زوجہ کن خرافات میں پڑی ہیں۔خاص طور پہ وہ لوگ جو پردیس میں گھر والوں ے لیے دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ان کے گھروں میں یہ قصے عام ہیں۔جب پردیسی سالوں بعد گھر آنے کی بات کرتے ہیں تو بیوی کی طرف سے خلع کا مطالبہ اس کے ہوش اڑا دیتا ہے جو اس کے پیچھے کئی لوگوں سے راہ رسم بڑھا چکی ہوتی ہے۔ایسے میں اس بندے کے پاس طلاق یا خود کشی کے علاوہ تیسرا رستہ کم ہی بچتا ہے۔ایسی خواتین جب کسی شادی شدہ مرد سے راہ و رسم بڑھاتی ہیں تو پھر بات اس مرد کے گھر میں بھی جھگڑے تک جاتی ہے۔جذباتی بیویاں جب کسی بے حیا عورت کو اپنے گھر آگ لگانے سے منع کرتی ہیں تو وہ من و عن سکرین شاٹ یا ریکارڈنگ اس کے شوہر کو بھیج کے خود مظلوم بن جاتی ہیں اور اس کہانی کا مرکزی کردار بنا سوچے سمجھے اپنے گھر کو آگ لگا دیتا ہے۔بیوی پہ ہاتھ اٹھانا،اسے طلاق کی دھمکی دینا اور گھر سے نکال باہر کرنا عام سی بات بن جاتی ہے،شریف عورتیں ماریں بھی سہتی ہیں اور شوہر کی بے حیائی کے قصے سن کے اور دیکھ کے بھی صرف اس وجہ سے خاموش ہو جاتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہمیشہ قصور عورت کا بنا دیا جاتاہے۔طلاق کا بد نما داغ صرف عورت کا دامن میلا کرتا ہے مرد کے لیے فرق نہیں پڑتا۔البتہ شریف خاندانوں میں آج بھی عزت کی اہمیت مسلم ہے اور شرافت کو ترجیع دی جاتی ہے۔
نئی نسل میں جو سب سے گھناؤنا زہر ہے وہ سوشل سائٹس پہ گندا مواد دیکھنا ہے۔بظاہر شریف نظر آتے طلباء کے موبائل میں اپنی استانی یا استاد کو دیکھ کے ٹین ایج عشق میں مبتلا ہو کر انہیں من پسند کردار میں دیکھنے کی خواہش پورن وڈیوز تک لے جاتی ہے۔یہ ہی بے حیائی معصوم بچیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات بڑھانے کا موجب بنتی ہے۔اپنے جوان ہوتے بچوں کے موبائل پہ نظر رکھیں،ان کا پاسورڈ ہمیشہ گھر میں سب کو معلوم ہونا چاہیے بالخصوص والدین کو۔اگر بچے ہٹ دھرم ہو جائیں تو پہلے پیار پھر مار کا فارمولا اپنائیں۔یقین جانیں مولا بخش میں اللہ نے بڑی طاقت رکھی ہے۔بچوں پہ بروقت سختی بہت سے مسائل کا حل ہے۔میٹرک تک کسی بچے کے پاس موبائل پہ قانونا پابندی ہونا چاہیئے۔کم از کم اینڈرائد موبائل نہیں ہونا چاہیے۔جنسی ہراسمنٹ اور بے حیائی سے بچنے کا واحد حل احتیاطی تدابیر ہیں۔یاد رکھیے!زنا کے بڑھتے واقعات سے بچنے کے لیے نکاح کو فروغ دینا ہی اصل حل ہے۔اپنے بچوں پہ نظر رکھیے،انہیں گلی محلے کی دکان پہ بھی اکیلا مت بھیجیں۔اپنے بچوں کے موبائل ضرور چیک کرتے رہیں،ان کی دوستیوں پہ نظر رکھیے،جب بچے کا سیل آپ کے پاس آئے تو ریسنٹ سائٹس ضرور دیکھیے،یاد رکھیئے بے راہ روی سانپ کی طرح ہے اور سانپوں کا سر کچلا جاتا ہے،انہیں پیار نہیں کیا جاتا۔

کوئی تبصرے نہیں: