Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

جمعرات، 23 اپریل، 2020

من محرم کے رب محرم ۔۔۔نمرہ ملک

من محرم کہ رب محرم
نمرہ ملک

اس کی پوروں کا درد چنتی انگلیاں جیسے اسے پورے جسم میں حرکت کرتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔تھکن پیروں سے گردن تک روں روں میں بس گئ تھی۔روشانے دھیرے دھیرے اپنی نرم انگلیوں سے اس کے پاؤں پہ مساج کر رہی تھی اور یہ ساحر کا ماننا تھا کہ درد چننے کا ہنر تو بس روشی کو ہی آتا ہے
" میں سچ کہتا ہوں رشنا،،،،تم دنیا کی واحد عورت ہو جسے مرے ہر درد کا پتہ چل جاتا ہے کہاں،کب اور کیسے !!!! یہ مجھے خود پتہ نہیں ہوتا"
وہ اس کے پیروں میں ٹیک لگائے بیٹھی اس کی انگلیاں مسل رہی تھی
بے ساختہ مسکان اس کے لبوں پہ پھیلی۔۔۔ساحر موسی جیسے سوتی جاگتی سکون کی حالت میں بولتا جا رہا تھا
" اور میں حیران ہوتا ہوں کہ تم کیسے جان لیتی ہو میں کب کتنے قدم چل کے تھکا ہوں!نبض شناس ہو تم میری"
اس نے اسی کیفیت میں پلکیں موند لیں۔۔۔۔اس کے ہاتھ مسلسل گردش میں تھے...
" اگر محبوب کا درد محب نہ جان سکے تو محبت کیسی؟؟؟؟؟"
دل ہی دل میں اس نے اس کے کئ سوالوں کے جوابات دییے تھے۔۔۔
اور یہ روشانے ساحر موسی کی ان دنوں عادت بن گئ تھی کہ جب جب ساحر اسے کچھ کہتا وہ پہلے کی طرح جھگڑا نہیں کرتی تھی۔۔۔دل میں جواب دے لیتی تھی۔۔۔ساحر کا غصہ ختم ہوتا تو روشی بھی دل میں جھگڑ کے چپ ہو جاتی۔۔۔
میاں بیوی کو ایسے جھگڑے ہی کرنے چاہئیں جس میں اک فرد دل میں جواب دیتا رہے
ہااااہ۔۔۔
وہ دل میں ہنسی
ساحر مسلسل اپنی کیفیت میں تھا
" تمہیں پتہ ہے میں نے دنیا میں دو لوگوں کی قدر نہیں کی،سچی بات ہے
میں دو لوگوں کی قدر کر ہی نہیں سکا،نہ اپنی اور نہ تمہاری"
اس کی آنکھیں اک جھٹکے سے کھل گئیں ۔۔۔" مجھے اسی بات کا دکھ ہوتا ہے روشی کہ میں قدر نہیں کر پاتا اور۔۔۔۔"
" ساحر۔۔۔۔۔۔!" وہ سیدھی ہو بیٹھی،سیدھا لیٹا ۔۔۔ساحر اپنی کہنی سے چونک کے اسے دیکھنے لگا جو اس کی پائنتی پہ دوسری طرف ٹیک لگا کے بیٹھی تھی" آپ مری قدر بے شک نہ کریں
مگر اپنی ضرور کیا کریں۔۔۔۔اپنی قدر کریں گے تو مری قدر خود ہی آجائے گی۔۔۔۔کیونکہ۔۔۔۔" وہ دلربائ سے مسکرائ
" مری قدر آپ سے ہے"
ساحر اس انداز پہ مسکرایا۔۔۔۔۔محبت اور رشتے کا مان۔۔۔شوہر  پہ اپنے حق کی ادا
رب محرم سے انداز دلربائ اسے جچتے تھے
کہیں دووور کوئ اپنی لے میں گاتا گزرا تھا
"میں سوہنی میرا ماہی سوہنا
سوہنڑاں دیس ہزارے دا"
ساحر نے روشی کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔وہ مجسم اک دوسرے کی آنکھوں میں تھے
موبائل فون پرے رکھا تھا۔۔۔۔گھنٹی مسلسل بج رہی تھی مگر پاک رشتوں  میں کوئ کیدو کیسا؟؟
ایسا لگتا تھا جیسے مسجد میں مندر کی گھنٹی سنائ دی ہو۔۔۔
اور امام نے تکبیر پڑھ لی ہو۔۔۔
اس کا ہاتھ ساحر کی ہتھیلی کی ہشت سہلاتے درد چن رہا تھا۔۔۔اسی پل اسے الہام ہوا کہ ساحر اسے ہی سوچ رہا ہے
"روشی ! تم پہلے کدھر تھیں؟؟؟؟"
سوال نامکمل تھا مگر پوری جزیئات سمیٹ اسے سمجھ آگیا تھا
دل کے شاہ نے محراب کی سمت دیکھ لی تھی۔۔۔
اسے پیر حسام الدین بے ساختہ یاد آئے
"دنیاوی جاہ بھی بت پرستی کی طرح ہے ،جدھر رخ موڑو گے بدعتوں میں پڑتے جاؤ گے"
اسے لگا وہ ابھی ابھی اسے بتا کے گئے ہیں
" اور ہر بدعت گمراہی ہے"
روشانے کے لب دھیرے سے مسکرائے

اور سلام ہے من کی چھوڑ کے رب محرم کو زندگی ماننے والوں پہ
ساحر موسی کو حلال کی سمجھ آئ تھی تو ایمان کا مفہوم بھی سمجھ آنے لگا تھا
روشانے کا دل سمجھ سکتا تھا کہ شام کو گھر لوٹنے والوں کو طعنہ دئیے بنا کواڑ کھول دینے چاہئیں
صبر یعقوب رنگ لایا تھا۔۔۔۔
جیل جانے والوں کے لیے تخت کی نوید آگئ تھی۔.    یوسف کو شاہ مصر بننے میں بس پل کی دیر تھی۔۔۔۔
طاہر جھنگوی نے ٹھیک کہا ہے
وقت آؤندے رہندن،ٹلدے رہندن،کجھ حوصلہ یار رکھیندا اے

بھانہویں جتنی وی کالی رات ہووے
ہر حال سویرا تھیندا اے

گھبرا نئیں مول توں دشمنڑاں توں
دل گردا یار رکھیندا اےےے
جینوں طاہر دشمنڑاں سٹیا
اونہوں مصر دا تخت ڈھیندا اےےے

مصر دا تخت۔۔۔مصر دا تخت
اس کی انگلی وقت کی نبض پہ رقص کر رہی تھیں
شاہ من کے من پہ حکومت کرتی اس لڑکی کی مسکان کا مول کون دے سکتا تھا؟؟؟؟؟؟؟؟

کوئی تبصرے نہیں: