Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

منگل، 21 اپریل، 2020

رانگ نمبر /اسلام اور جمہوریت/ملک نذر حسین عاصم

رانگ نمبر۔
اسلام اور جمہوریت۔
ملک نذر حسین عاصم
0333 5253836



جمہوریت کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ
A Rule of the people,for the people by the people.
یعنی مخلوق کا اپنا بنایا ہوا نظام حکمرانی جو وہ خود اپنے لئے بناتے ہیں اور روزمرہ کی ضروریات یعنی ارتقائے مسلسل اور خواہشات انسانی کی تکمیل کے ان قوانین میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں یہ خامیوں اور کوتاہیوں سے بھرا نظام ہے جس میں انسانی ضرورت کا مکمل حل موجود نہیں ہوتا۔لیکن اسلام خالق کل کا بنایا ہوا نظام ہے جس میں برتری اور حاکمیت ذات رب العالمین کو اور قوانین پر عملدرآمد  اتباع رسول کریم بطور آخری اتھارٹی پیش کیا ہے اللہ رب العزت اور نبئ آخرالزماں کی اطاعت غیر مشروط ہے اور اس سے انکار یا انحراف عذاب الہی کو دعوت دینا ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے کہ " اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی رسول مکرم کی اور حاکم وقت کی جو تم میں سے ہو اگر تمہیں حاکم وقت سے اختلاف ہو تو اللہ اور اسکے رسول  سے رجوع کرو"
یہ آیت قرآنی ثابت کرتی ہے کہ مختارکل اللہ کی پاک ذات ہے اور مثال مکمل سیرت مصطفی ہے۔ علامہ محمد اقبال نے جمہوریت کے بارے میں کہا تھا " جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں افراد کی رائے کو گنا  کرتے ہیں تولا نہیں کرتے"
یعنی اگر برے لوگوں کی اکثریت ہوتو وہ عنان حکومت سنبھال لیتے ہیں اور نیکی اقلیت میں بدل کر اختیار حکمرانی سے محروم ہوجاتی ہے لیکن اسلام میں خلفائے راشدہ اکابر صحابہ کی موجودگی میں اسامہ بن زید جو غلام ابن غلام تھے انہیں نبئ پاک نے خود افواج اسلام کا سالار اعلی بنا دیتے ہیں بلال حبشی کو حضرت عمر جیسے عظیم المرتبت خلیفہ سیدنا بلال کہہ کر پکارتے ہیں مشہور جرنیل طارق بن زیاد ،موسی بن نصیر کا غلام تھا۔
ہندوستان کی ابتدائی مسلم تاریخ میں قطب الدین ایبک،غیاث الدین بلبن ، ناصرالدین قباچہ، تاج الدین یلڈوز، شمس الدین التتمش سب سلطان محمود غوری کے غلام تھے جو 1192 کے بعد یکے بعد دیگرے ہندوستان کے تاجدار بنے۔
دنیا کی کوئ جمہوریت ایسی مثال پیش نہیں کر سکتی۔
اس دور جمہوریت میں کیا کوئ مفلس کنیز کابینہ کے اجلاس میں بیٹھے ہوئے حکمران کو بلاکر اپنی فریاد پیش کرسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ اعزاز اسلام کو حاصل ہے کہ ایک کنیز مسجد نبوی میں صحابہ کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتی ہے اور کہتی ہے میں نےبآپ سے علیحدگی میں بات کرنی ہے آقا کریم فرماتے ہیں تم مدینے کی جس گلی میں کہو میں تمہاری بات سن سکتا ہوں۔ پھر جب حضرت عمر خلیفہ ہیں فاطمہ بنت قیس آپ کو راستے میں روک کر دیر تک نصیحتیں کرتی ہے کہ عمر انصاف کرنا جبکہ ساتھ صحابہ بھی ہوتے ہیں اور وہ آپ سے کہتے ہیں امیرالمومنین یہ خاتون دیر سے آپکو کھڑا کئے ہوئے ہے فرمایا! یہ وہ خاتون ہے جس کے منہ سے نکلی ہوئ فریاد فورا" اللہ پاک نے عرش پر سنکر سورت مجادلہ نازل فرمائ، میں اسے کیسے نظر انداز کرسکتا ہوں۔
جمہوریت میں تعداد دیکھی جاتی ہے جبکہ اسلام میں کردار دیکھا جاتا ہے وہ کردار جو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہو جمہوریت میں خود احتسابی کا عمل نہیں ہے لیکن اسلام کا عقیدہ آخرت خود احتسابی کا ایسا نظام مہیا کرتا ہے جو اسے محاسب حقیقی کی ہر لمحہ ہر جگہ اور ہر حال میں موجودگی کا احساس اجاگر کرتا رہتا ہے جمہوریت پر دولتمند کا قبضہ رہا ہے لیکن اسلام میں حضرت ابوبکر کی وفات کے وقت اپنے عہدخلافت میں لئے گئے وظیفے کاحساب کرکے بیت المال میں جمع کرادیا جاتا ہے ۔
حضرت عمر دوران خطبہ ایک شخص کے سوال پر جوابدہ ہیں کہ " آپ نے اتنے بڑے قد کے ساتھ یہ کرتا کیسے بنا لیا جبکہ مال غنیمت میں صرف ایک چادر صحن مسجد میں اپکے حصے میں آئ تھی " حضرت عمر نے کہا کہ میرا بیٹا عبداللہ اسکا جواب دے گا۔ چنانچہ انکے بیٹے نے کہا کہ جب ایک چادر میں انکا لباس تیار نہ ہوا تو میری طبع غیور یہ بات گوارا نہ کرسکی اور میں نے اپنی چادر بھی انکو دے دی۔اس شخص نے یہ جواب سن کر کہا اے عمر اب خطبہ جاری رکھو جو اپ کہیں گے وہ ہم مانیں گے۔
یہ فرق ہے جو اسلام اور جمہوریت میں ہے ہم نے پاکستان جمہوریت کیلئے نہیں اسلام کیلئے بنایا تھا اور 73 سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں کیونکہ ہم نے نظریہ پاکستان کو فراموش کر دیا ہے آئیے اپنے اپنے کردار کا جائزہ لیں اور اسلام کے سانچے میں ڈھل کر اسے عملی اسلامی ریا ست بنائیں۔

کوئی تبصرے نہیں: