: صدمہ بلا کا تھا مگر کچھ لوگ دل فگار
زندوں کو رو رہے تھے میت کی آڑ میں
: کچھ لوگ کم شناس دولت پرست تھے
کرتے تھے کاروبار محبت کی آڑ میں
: ہم دلربا سے دوستوں کی سب کہانیاں
مجنوں سنا رہا تھا وحشت کی آڑ میں
قاتل کو اپنے فعل پہ شرمندگی ہوئی
دیکھا گیا تھا روتے تربت کی آڑ میں
کیسا یہ چلن ہے کہ شکرے مزاج لوگ
چڑیوں کو نوچتے ہیں قربت کی آڑ میں
پیاروں نے ہنستے ہنستے کچھ طنز یوں کیے
نشتر چبھو رہے ہیں ظرافت کی آڑ میں
کچھ درد تھے جو ہم نے تحریر کردییے
کچھ شعر کہہ دیئے ہیں طبیعت کی آڑ میں
آزادی نسواں کا کہہ کر ہوس پرست
لڑ رہے ہیں جنگ عورت کی آڑ میں
بہنوں کا حصہ،بیوی کا حق مہر کھا لیا
بیٹی دفنا دی گئی غیرت کی آڑ میں
نمرہ ملک