اپنے ہی ساے سے
ڈرنے لگے ہیں
خوف کی چھاوں میں
پلنے لگے ہیں
وہ لمبے دن اب
دوپہر میں ہی
ڈھلنے لگے ہیں
اور شہر کہ شہر
اجڑنے لگے ہیں
جو نہ سنے تھے کبھی
وہ راز اب
سب اگلنے لگے ہیں
پنچھی جو منڈیروں پر
چہچہاتے تھے
دور سے ہی پلٹنے لگے ہیں
پھولوں کی جگۂ
باغوں میں اب
وائرس اگنے لگے ہیں
دیر سے ہی سہی
مگر صد شکر
آدم کے قدم
رب کی راہ
پر چلنے لگے ہیں
ک پھر سے سر
سجدوں میں جھکنے لگے ہیں
شاعرہ سعدیہ ہما شیخ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں