Drop Down MenusCSS Drop Down MenuPure CSS Dropdown Menu

ضرورت نمائندگان:۔

ضرورت نمائندگان:۔ ملک بھر سے پڑھے لکھے میل، فی میل حضرات فوری رابطہ کریں موبائل نمبر 03469200126

اتوار، 5 اپریل، 2020

رونا کا رونا اور ہماری عوام تحریر: مہتاب احمد تابی چینجی 03468570344 03035624465 گزشتہ کئی روز سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا ایمرجنسی کا تقریباً نفاذ ہو چکا ہے. ایک چھوٹے سے کورونا وائرس نے دنیا بھر کے طاقتور ممالک کی فرعونیت کو لِتاڑ کر رکھ دیا ہے. کئی ممالک معیشت کی دوڑ میں پسپا ہوچکے ہیں. کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالے ممالک میں امریکہ، اٹلی، سپین، جاپان اور چین شامل ہیں. ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں 8 لاکھ سے زائد افراد اس موذی وائرس کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. پاکستان بھی بُری طرح اس موذی وائرس کا شکار ہو چکا ہے. ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد اس وقت 3000 کے لگ بھگ ہے. تقریباً 40 افراد ابدی نیند سو چُکے ہیں. مُلک میں کورونا ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے نظام زندگی تقریباً مفلوج ہو چکا ہے. ملک بھر میں دفعہ 144 کا نفاذ ہو چکا ہے جس کے باعث تمام تر کاروبار، سکولز، کالجز، یونیورسٹیاں، شادی، بیاہ، اجتماعات، محافل، بازار، ٹرانسپورٹ حتیٰ کہ مساجد تک بند ہو چُکی ہیں. کسی بھی طرح کے اِکٹھ پر پابندی لگ چکی ہے. حکومت اور دیگر اداروں کی جانب سے عوام کو مسلسل اس خطرناک وائرس کے خطرات سے آگاہ کیا جا رہا ہے. لیکن ہمارے عوام قانون کی پیروی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور جس کا جہاں بس چلتا ہے بھرپور قانون شکنی کرتا ہے جس کی وجہ سے آئے روز مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے. قانون نافذ کرنے والے ادارے جن میں پاک فوج اور پولیس سرِ فہرست ہیں قانون کے نفاذ کیلئے اپنے فرائض بھرپور سر انجام دیتے ہوئے بیشتر قانون شکن عناصر پر گھیرا تنگ کر رہے ہیں. ان ہنگامی حالات میں قانون شکنی کرنے والے دو طرح کے طبقات ہیں. ایک وہ لوگ جو عادی مجرم ہیں اور اپنے فائدے اور نقصان کو قطعاً نظرانداز کر کے ہمیشہ قانون کی خلاف ورزی پر فخر محسوس کرتے ہیں جو کہ ہماری پسندیدہ عادت ہے. جن کی طرف سے تاحال یہی سمجھا جا رہا ہے کہ شاید اس قانون کے نفاذ میں حکومت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مفاد شامل ہے. ایسے بِگڑے عناصر کو سبق سکھانے اور ان سے قانون کی پیروی کرانے کیلئے ہمارے اداروں کو مزید سختی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ انتہائی افسوس کے ساتھ ہماری ذہنی حالت اس حد تک بگڑ چُکی ہے کہ ہم اتنے سب کچھ کو بھی محض مذاق سمجھ رہے ہیں. اس ہنگامی صورتحال میں بھی ہماری حالت یہ ہے ایک موٹرسائیکل سوار سڑک پر گِر جائے تو ایک سو سے زائد بندہ اُسے دیکھنے کیلئے اکٹھا ہو جاتا ہے. اگر ہماری یہی حالت رہی تو دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی حالت ہمارے سامنے ہے جو کہ خاطر خواہ وسائل کے باوجود بھی کورونا وائرس پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہے ہیں جبکہ ہمارے وسائل، معیشت اور سہولیات کسی طور بھی اُن ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکتیں. جبکہ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بُجھانے کیلئے ان نازک حالات میں بھی باہر نکلنا پڑتا ہے. ایسے لوگوں کو اس بات سے قطعاً فرق نہیں پڑتا کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں یا نہیں کیونکہ ان کیلئے ان کے بچوں کا پیٹ ان کی بیماری سے زیادہ اہم ہے. وہ اپنے بچوں کو کبھی بھی یہ کہہ کر چُپ نہیں کرا سکتے کہ باہر کورونا ہے جس کی وجہ سے آپ کھانا پینا چھوڑ دیں. مخیر حضرات کی جانب سے ایسے لوگوں کی مالی امداد کیلئے اقدامات تو کیئے ہی جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسے افراد میں کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو خیرات کی بجائے محنت کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ آج کل کے دور میں خیرات دینا بھی کیمرے میں محفوظ کر کے کسی کی عزتِ نفس مجروح کرنے کے بغیر ممکن نہیں. شاید قانون شکنی کرنے والے لوگوں میں کثیر تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے. لہذا انتظامیہ کو بگڑے عناصر کو سیدھا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے اور نرم رویہ اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے. جبکہ مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ کسی کی سفید پوشی کا بھرم توڑنے کی بجائے اس نیک کام کا صلہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے مان


کوئی تبصرے نہیں: